About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Saturday, January 28, 2012

دم توڑتی قرارداد

 ہ ، 26 جنوری ، 2012


دم توڑتی قرارداد
فضل حسین اعوان 
پنجاب اسمبلی نے احسن کام کیا لیکن ایک مخصوص طبقے کی طرف سے پیالی میں طوفان برپا کرنے پر صوبائی حکومت نے ایک نیک نامی کو شرمندگی سمجھ کر اس سے لاتعلقی کا اظہار کردیا۔ پاکستان اسلامی جمہوریہ ہے‘ گو اسے نفاذ شریعت سے دور رکھا گیا تاہم جو اقدام ہمیں خرافات سے نکلنے میں مدد دے اور محسنات کی طرف لے جائے‘ اسکی تحسین و حوصلہ افزائی ہونی چاہیے۔ مسلم لیگ (ق) کی سیمل کامران کی تعلیمی اداروں میں میوزیکل کنسرٹس پر پابندی کی قرارداد کا متفقہ طور پر منظور ہو جانا ارکان کا دانشمندانہ اور تعلیم دوستی پر مبنی اقدام تھا۔ میوزیکل کنسرٹس کو موسیقی کا نام دے لیں یا ناچ گانے کا‘ اس کا تعلیم کے ساتھ کیا تعلق ہے؟ کچھ لوگ موسیقی کو روح کی غذا اور کچھ اسے اذہان کو ماﺅف کر دینے والی وبا قرار دیتے ہیں‘ دونوں آراءاپنی جگہ لیکن اسکے باوجود کہ پاکستان میں موسیقی کے چاہنے والے موجود ہیں‘ ناچ گانا اسلامی و پاکستانی تہذیب کلچر اور ثقافت کا ہرگز حصہ نہیں‘ اور وہ بھی درس و تدریس کے مراکز میں‘ لاحول ولا۔ سیمل کامران نے تعلیمی اداروں میں ناچ گانے کی محفلیں سجانے کیخلاف قرارداد پیش کی تو مسلم لیگ (ن) کے رانا ثناءاللہ نے اس میں قابل اعتراض کنسرٹس پر پابندی کے الفاظ شامل کرکے اسے تقریباً غیرموثر بنا دیا تھا۔ پھر اس پر اسمبلی میں موجود مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کا بھی اتفاق ہو گیا۔ قرارداد پاس ہوتے ہی چند ایک چینلز بالخصوص بھارتی ثقافت کے امین چینلز نے ہذیان سے ایک ہیجان اور طوفان اٹھا دیا۔ ہوش سے بےگانہ جذبات کے باعث اینکرز اور نیوز کاسٹرز کے منہ سے کف اڑ رہی تھی‘ ہندو کلچر کے شیداﺅں کو آن لائن لا کر تعلیمی اداروں میں قابل اعتراض کنسرٹس کی پابندی کو زندگی و موت کے مسئلے کی طرح لیا جاتا رہا۔ قرارداد کے موقع پر جو ارکان اسمبلی موجود نہ تھے‘ ان میں سے کئی کو ایک اپنی اہمیت دوچند کرنے کا موقع مل گیا۔ ان کا واویلا تھا چونکہ قرارداد انکی غیرموجودگی میں پیش ہوئی‘ اس لئے اسکی کوئی اہمیت نہیں۔ اصل قرارداد وہ ہو گی جو ہم لائیں گے۔ اس قرارداد پر عوامی جذبات کیا ہیں‘ یہ جاننے کی کوشش کئے بغیر پنجاب حکومت کے ترجمان نے چند ٹی وی چینلز کے منہ بسورنے پر اس قرارداد سے لاتعلقی کا اعلان کر دیا جو اسکے ارکان‘ وزراءاور سپیکر کی موجودگی میں منظور ہوئی تھی۔ مسلم لیگ (ن) ہوں یا کوئی دوسری پارٹی‘ جو بھی اس قرارداد سے لاتعلقی کا اظہار کرے‘ کیا قرارداد کے حق میں ووٹ دینے والے ارکان کی غیرت کا تقاضا نہیں کہ وہ اس پر مستعفی ہو جائیں؟ اگر ایسی جرات نہیں ہے تو کم از کم اپنی پارٹی کے سامنے اپنی توہین پر احتجاج تو ریکارڈ کرائیں۔ تعلیمی اداروں میں تعلیم کے ساتھ ثقافتی اور غیرنصابی سرگرمیاں ضرورہونی چاہئیں لیکن اس کا کوئی ضابطہ اور قاعدہ قانون بھی تو ہو۔ سیمل کامران کی قرارداد کا پس منظر گزشتہ ماہ الحمرا میں ناچ گانے کے ایک شو کے دوران چھ سات طالبات کی بھگدڑ کے باعث موت تھی۔ جائز تفریحی سرگرمیاں تعلیمی اداروں کے اندر ہوں تو کسی کو اعتراض نہیں۔ اگر والدین اپنی اولاد بالخصوص بچیوں کے مغربی یا مختصر لباس پہننے کو برا نہیںسمجھتے تو اس پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا۔ لیکن ان بچیوں کو مخلوط اجتماع میں لا کر یا سٹیج پر نچا کر تماشا بنانے سے عام پاکستانی کا دل ضرور دکھتا ہے۔ یہ ایسی مخلوط تعلیم اور آزاد خیالی کا ہی شاخسانہ ہے کہ اسلام آباد کے ایک تعلیمی ادارے کے تین تین طلباءو طالبات پشاور کے ایک ہوٹل میں جا ٹھہرے‘ کیا وہ وہاں پر ”بھجن“ گانے گئے تھے؟ تعلیمی اداروں میں قابل اعتراض مغربی انداز کے کنسرٹس پر پابندی کی قرارداد پر جہاں ہندو کلچر کے پجاری اودھم مچا رہے ہیں‘ اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ”بسنتے“ بھی میدان میں آگئے۔ ان کا موقف تھا کہ اگر ڈور سے کوئی زخمی ہوتا ہے تو صحتمندانہ تفریح پر پابندی کا کیا جواز ہے؟ ہر کھیل کا کوئی ضابطہ ہوتا ہے‘ بسنت کے ضوابط کو کھلاڑیوں نے روند ڈالا‘ ڈور کی جگہ تندی اور تانبے کی تاروں نے لے لی تو ہلاکتوں کا سلسلہ چل نکلا۔ بسنت ایک ہندوانہ تہوار ہے‘ اس کا پس منظر بھی معلوم کر لیجئے! لیکن ہمارے پتنگ باز ”سجنوں“ نے اس کھیل کو جان لیوا بھی بنا دیا جس سے کئی گھروں کے چراغ گل ہو گئے۔ اگر حکومت نے اس موت کے کھیل پر پابندی لگائی ہے تو قصور مہلک ڈور استعمال کرنے والوں کا ہے۔جن کنسرٹس پر پابندی کی قرارداد منظور ہوئی‘ ایسے کنسرٹس یا میوزیکل پروگرام ہوتے ہی کتنے تعلیمی اداروں میں ہیں‘ نجی یا سرکاری تعلیمی اداروں کے 95 فیصد سے زائد طلبا و طالبات کو یہ معلوم ہی نہیں کہ میوزیکل کنسرٹس کس چڑیا کا نام ہے جوکن تعلیمی اداروں میں پھدکتی ہے۔ یہ بڑے شہروں کے تعلیمی اداروں کے چونچلے ہیں‘ ان اداروں میں بھی یہ کوئی روز یا ہفتہ و ماہوار وقوعہ نہیں ہوتا۔ سال میں ایک آدھ بار ہوتا ہے۔ اگر یہ نہ بھی بپا ہو سکے تو کوئی قیامت وارد نہیں ہو جائیگی۔ تعلیمی اداروں کے اندر ملی نغموں کے مقابلے اور ڈرامے ہوتے رہتے ہیں‘ باہر سے میوزیکل گروپس کو بلانا ضروری نہیں۔ ویسے بھی سالانہ نتائج میں آدھے سے زیادہ طلبا و طالبات فیل ہو جاتے ہیں‘ یہ نتائج انکی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہیں جو اس قرارداد کیخلاف علم لہرا رہے ہیں۔ عمران خان کی سنیئے‘ وہ اپنے مخصوص متفکرانہ انداز میں فرماتے ہیں‘ ان کو کنسرٹس پر پابندی کی سمجھ نہیں آئی۔ عمران صاحب جن اداروں کے تعلیم یافتہ ہیں‘ آج پاکستان میں ایسے تعلیمی اداروں میں پائے جانیوالے بچوں کی تعداد ایک فی ہزار سے بھی کم ہو گی اس لئے قابل اعتراض کنسرٹس پر پابندی انکی سمجھ میں نہیںآسکتی۔ پنجاب حکومت اپنے پاﺅں پر کھڑا ہونے کی کوشش کرے‘ مذکورہ قرارداد پر کسی کے خوف کے باعث لاتعلقی ظاہر کرنے کے بجائے اس دم توڑتی اور جائز قرارداد کی حمایت کرے اور اسے اپنائے‘ جو دوسرے صوبوں کیلئے بھی ایک مثال بنے تاکہ پورے ملک میں بچے اپنی پوری توجہ اپنی تعلیم پر مرکوز رکھ سکیں۔


No comments:

Post a Comment