About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Friday, January 13, 2012

حکمرانوں کا اپنے اوپر خود کش حملہ

 12 جنوری ، 2012

حکمرانوں کا اپنے اوپر خود کش حملہ
فضل حسین اعوان 
پیپلز پارٹی کی حکومت نے سپریم کورٹ اور اپنے ہی ماتحت ادارے فوج کو زچ کرکے رکھ دیا ہے۔ دونوں ادارے صبر تحمل اور ضبط و برداشت کا مظاہرہ کرتے چلے آ رہے ہیں۔ آج تک کسی کو عدالتی فیصلوں کے نہ ماننے کی جرات نہیں ہوئی۔ ایسا جرات اظہار بھی اس حکومت کا خاصا قرار پایا جس کی کسی ملکی معاملے پر گرفت ہے نہ کوئی پالیسی ملکی و عوامی مفاد میں۔ این آر او فیصلے پر عمل سے جس طرح انکار کیا جا رہا ہے وہ ملک کو پتھر کے دور میں دھکیلنے کے مترادف ہے۔ صدر صاحب فرماتے ہیں کہ این آر او پر عدالت کا نہیں پارٹی کا فیصلہ مانوں گا۔ پارٹی نے فیصلہ صادر فرمایا کہ سوئس حکام کو عدالتی احکامات کے برعکس خط نہیں لکھا جائے گا۔ اس اعلیٰ سطح سے عدلیہ کی بے توقیری کبھی سنی نہ دیکھی۔ میمو کیس پر الگ واویلا۔ جوڈیشنل کمیشن کی فائنڈنگز اور سفارشات جو بھی ہوں حکومتی اقدامات، وزیر اعظم گیلانی، حسین حقانی اور رحمن ملک کے منصور اعجاز کی پاکستان آمد کے حوالے سے تلخ اور ترش بیانات نے میمو کی حقیقت کو عیاں کر دیا ہے۔ ہر گزرتے لمحے کے ساتھ کچھ اہل اقتدار کو گلے میں این آر او اور کچھ کو میمو کا پھندا کستا محسوس ہو رہا ہے۔ کرپشن سے تو شاید ہی کسی کا دامن پاک ہو۔ جو بچیں گے ان کی شاید ڈگریاں دو نمبر ثابت ہوں گی۔ اس لیے کسی بھی قسم کے پھندے سے گردن بچانے کیلئے حکمران سسٹم کی بساط لپیٹنے پر تل گئے ہیں۔ ایک طرف عدلیہ سے محاذ آرائی تو دوسری طرف فوج سے پنجہ آزمائی۔ فوج جن ممالک کیلئے بھاری پتھر ثابت ہو رہی ہے وہ اسے کمزور اور ڈی مورالائز کرنا چاہتے ہیں۔ بھارت پاکستان کا ازلی دشمن ہے، پاکستان کے مفادات کی قیمت پر امریکی مفادات کی راہ میں پاک فوج بڑی حد تک مزاحم ہے۔ اسرائیل سمیت اکثر مغربی ممالک پاکستان کے ایٹمی طاقت ہونے اور ایٹمی اثاثے براہ راست پاک فوج کے کنٹرول میں ہونے کے باعث پاک وطن اورپاک فوج کے بارے میں وہی جذبات رکھتے ہیں جو بھارت و امریکہ کے ہیں۔ پاک فوج کو بدنام کرنا ان ممالک کا ایجنڈا ہے۔ شرم کی بات ہے کہ ہمارے حکمران اور اپوزیشن پاکستان دشمنوں کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے حکومت کچھ زیادہ ہی۔وزیر اعظم گیلانی اور صدر آصف علی زرداری کا ایک معاملے پر آج جو موقف ہوتا ہے کل اس کے برعکس اختیار کیے دکھائی دیتے ہیں۔ سپریم کورٹ نے ان کی دیانت کی بات کی عوام کو ان کی صداقت پر بھی شبہ ہے۔ فوج کے حوالے سے بھی ان کا کوئی بیان قابل اعتبار نہیں یہ کبھی فوج کی تعریف اور کبھی تضحیک کرتے ہیں لیکن پاکستان مخالف قوتیں اس بات کو اچھالیں گی جو پاک فوج کی بدنامی کا باعث ہو سکتی ہو۔ وزیر اعظم گیلانی نے اسامہ بن لادن کی پاکستان موجودگی کے حوالے سے پاک فوج کو نشانہ بنایا پھر اگلے روز منت اور معافی پر اُتر آئے۔ اب جبکہ جنرل کیانی چین کے دورے پر تھے۔ وزیر اعظم نے چینی اخبار نویسوں کو خصوصی طورپر بلا کرجنرل کیانی اور شجاع پاشا کے بارے میں کہہ دیا کہ وہ غیر آئینی اور غیر قانونی اقدام کے مرتکب ہوئے ہیں۔ بیک وقت فوج اور عدلیہ سے ماتھا لگانے کا ایک ہی مقصد ہو سکتا ہے کہ میمو، این آر او اور کرپشن کے پھندوں سے گردن چھڑانے کی کوشش کی جائے۔ اس کیلئے عدالت اور فوج کو اس حد تک مجبور کر دیا جائے کہ وہ ان کو گھر کی راہ دکھا دیں۔ عدلیہ اور فوج کے ساتھ حکمرانوں کی محاذ آرائی ان کا اپنے اوپر خود کش حملہ ہے، جس کی لپیٹ میں کوئی اور آئے نہ آئے یہ خود نہیں بچ پائیں گے۔
وزیر اعظم اور صدر بات بات پر پارلیمنٹ کی سپرمیسی اور بالادستی کی بات کرتے ہیں حالانکہ عدلیہ مقننہ (پارلیمنٹ) اور انتظامیہ کا یکساں سٹیٹس ہے، سپریم صرف اور صرف ریاست ہے۔ سپریم کورٹ آزاد اور خود مختار ہے۔حکومت خود انتظامیہ بھی ہے، تمام ریاستی ادارے آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے اس کے ماتحت ہیں۔بدقسمتی سے بیورو کریسی نے مجموعی طور پر وہ کردار ادا نہیں کیا جو اس کے فرائض کا تقاضا ہے، چند ایک کے سوا تمام بیورو کریٹ حکمرانوں کے حاشیہ بردار ثابت ہو رہے ہیں۔ یہ حکومت کے ملازم نہیں ریاست کے ملازم ہیں جن کے بارے میں ایسے حالات میں جیسے اب ہیں قائد اعظم نے فرمایا تھا: 
”حکومتیں بنتی ہیں، حکومتی گرتی ہیں لیکن آپ لوگ وہیں رہتے ہیں۔ اس طرح آپ کے کاندھوں پر ایک عظیم ذمہ داری آ جاتی ہے، آپ کو اس لیے بھی تکلیف پہنچ سکتی ہے کہ آپ غلط کام کی بجائے صحیح کیوں کر رہے ہیں۔ آپ کو قربانی دینی ہو گی اور میں آپ سے اپیل کرتا ہوں کہ آگے بڑھیں اور قربانی دیں، خواہ آپ بلیک لسٹ ہو جائیں یا پریشانی اور تکلیف میں مبتلا کر دیئے جائیں، آپ کی انہی قربانیوں سے حالات بدلیں گے....پہلی بات جو میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں، یہ ہے کہ آپ کو کسی قسم کے سیاسی دباﺅ میں نہیں آنا چاہیے۔ آپ کو کسی سیاسی جماعت یا کسی سیاست دان کا اثر قبول نہیں کرنا چاہیے۔ اگر آپ واقعی پاکستان کا وقار بلند کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو کسی طرح کے دباﺅ کا شکار نہیں ہونا چاہیے بلکہ عوام اور مملکت کے سچے خادم کی حیثیت سے اپنا فرض بے خوفی اور بے غرضی سے ادا کرنا چاہیے۔ مملکت کیلئے آپ کی خدمت وہی حیثیت رکھتی ہے جو جسم میں ریڑھ کی ہڈی کو حاصل ہے“۔بیورو کریسی یا سرکاری ملازمین کے تعاون کے بغیر حکومت ایک دن بھی نہیں چل سکتی، یہاں تو حکومت نے کرپشن اور اقربا پروری سے ہر ادارے کو ڈبو دیا اور سب کچھ ریاستی مشینری کے ذریعے ہی ہوتا رہا ہے۔ بیورو کریٹس قائد اعظم کے فرامین کو مشعل راہ بنائیں۔ حکومت کوئی بھی ہو، اس کی ملک اور عوام دشمنی پر مبنی پالیسیوں کی راہ میں سنگ گراں بن کر کھڑے ہو جائیں۔ آج کے حالات ان سے کسی بھی دور سے زیادہ ایسا کردار ادا کرنے کے متقاضی ہیں۔


No comments:

Post a Comment