About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Friday, January 20, 2012

! جمہوریت کی خدمت

19 جنوری ، 2012


جمہوریت کی خدمت
فضل حسین اعوان ـ 1 دن 17 گھنٹے پہلے شائع کی گئی
کچھ عرصہ سے وزیراعظم گیلانی کی اپنے کارنامے گنواتے ہوئے بات ”میں“ سے شروع ہو کر ”میں“ پر ہی ختم ہوتی ہے۔ جس قسم کی باتیں وہ کرتے ہیں‘ ان سے بلا کا غرور اور تکبر ٹپکتا۔ ذرا ملاحظہ ہو: ”میں نے ججوں کو رہا کیا‘ میرے ایگزیکٹو آرڈر پر جج بحال ہوئے‘ پانچ سال پورے کرینگے‘ جسے میری شکل پسند نہیں‘ عدم اعتماد لے آئے‘ وزیراعظم کی کرسی پر دھڑلے سے بیٹھیں گے۔“ یہ وزیراعظم کے رویے کی چند مثالیں ہیں۔ آجکل وہ ریاست اور آئین سے زیادہ اپنی پارٹی کے سربراہ سے وفاداری کا اظہار کر رہے ہیں۔ ان کا یہ بیان اس حقیقت کا مظہر ہے‘ صرف اس بات کو تسلیم کرونگا جو صدر کی طرف سے سامنے آئے۔ میمو کیس کے بعد بڑے بڑوں کا سانس پھولا ہوا ہے اور ٹانگیں کانپ رہی ہیں‘ وزیراعظم گیلانی کا اس کیس سے کوئی لینا دینا ہے یا نہیں لیکن وہ اس پر برملا شدید اشتعال اور غصے کا اظہار کرتے ہیں۔ غرور‘ نخوت اور تکبر و تفاجر‘ تدبر و عاقبت اندیشی کا دشمن ہے۔ اشتعال اور غصہ‘عقل و دانش کو کھاتا جاتا ہے۔ ملتانی پیر تکبر کے پہاڑ اور اشتعال کے گھوڑے سے اترنے پر تیار دکھائی نہیں دیتے۔ انکے شدید غصے کی کیفیت میں کئے گئے اقدامات اور دیئے گئے بیانات بلاشبہ ماورائے عقل ہونے کے باعث خود انکی ذات کیلئے اور جن کی جانثاری میں وہ ایسا کر رہے ہیں‘ ان کیلئے بھی نقصان دہ ہونگے۔ اس فرمان میں کونسی دانشوری صداقت اور حقیقت ہو سکتی ہے‘ ”فوج عدلیہ سے اختلاف رائے ہو سکتا ہے“۔ فوج آپکے ماتحت اور عدلیہ خودمختار ادارہ ہے‘ ماتحت ادارے سے کیا اختلاف رائے؟ عدلیہ نے انصاف فراہم کرنا ہے‘ اسکے فیصلے خواہ جتنے بھی سخت ہوں‘ عمل کے متقاضی ہیں۔ جسے پھانسی کی سزا سنا دی جائے‘ وہ بااختیار ہو تو فیصلہ ماننے سے انکار کرکے اپنی جان بچالے؟ آپ بااختیار ہیں‘ اس لئے عدلیہ سے اختلاف رائے اور اسکے فیصلوں کو ماننے سے انکار! خدا کے فضل سے اتحادی بھی ایسے ملے جن کا رویہ ” چڑھ جا سولی بیٹا‘ رام بھلی کریگا“ فرماتے ہیں۔ ”جیل تک ساتھ دینگے“ جیل پہنچانے کا اہتمام کرکے خود واپس چلے آئینگے؟ اتحادی اگر حکومت‘ جمہوریت بالخصوص اپنے عوام سے مخلص ہیں تو حکمرانوں کو ایسے اقدامات اور کام کرنے سے منع کیوں نہیں کرتے جو ان کو عوامی نفرت کا نشان بنا دے۔ جیل کی تنگ و تاریک کوٹھڑیوں میں پہنچا دے۔
”کسی سے نہیں ڈرتے‘ جو کرنا ہے کرلو۔ میں ہوں نا! بات صدر تک پہنچی تو اپنے سر لے لوں گا“۔ جیسے بیانات دینے اور رویہ اپنانے والے وزیراعظم آج سپریم کورٹ میں پیش ہونگے۔ عقل اور ہوشمندی کا تقاضہ یہی ہے کہ عدلیہ سے محاذ آرائی کی کیفیت کو ختم کرنے کیلئے سوئس حکام کو خط نہ لکھنے کی ضد چھوڑیں‘ انکے گرو اور ساتھی چیلے تو چاہتے ہیں‘ وزیراعظم آج عدالت عظمیٰ کو بھی بتا دیںکہ سوئس حکام کو خط لکھنے پر عدلیہ کا نہیں‘ پارٹی کا فیصلہ مانتا ہوں پھر انجام کیا ہو گا؟ اسکی ایک جھلک بابر اعوان کے فیصلے میں دیکھی جا سکتی ہے۔
وزیراعظم یہ بھی فرماتے ہیں کہ ”بڑی قربانی سے سب کی جان بچ جاتی ہے تو یہ بڑی کامیابی ہو گی۔“ گویا اپنے آپ کو وہ طوطا سمجھتے ہیں جس میں سب کی جان اٹکی ہے۔ یہ ”سب“ کون ہیں‘ پوری جمہوری مشینری یا جاہ پسندوں کا مجموعہ؟ آپکی اور ان سب کی جان کو آخر خطرہ کیا ہے؟ آپ آج عدالتی احکامات پر عملدرآمد کرا دیں‘ میموکیس کو منطقی انجام تک پہنچنے دیں‘ آپ بھی محفوظ‘ وہ سب بھی محفوظ ۔ جمہوریت کو خطرے کا تسلسل کے ساتھ ذکر کیا جاتا ہے۔ جمہوریت‘ زرداری اور گیلانی کا نام نہیں‘ جو سوئس حکام کو خط لکھنے اور میموگیٹ پر فیصلہ آنے سے خطرے میں گھر جائے۔ ایک وزیراعظم گیا تو تیرہ تیار بیٹھے ہیں۔ جمہوریت کو سب سے بڑا خطرہ ان لوگوں سے ہے جو عدالت کے تصادم پر تلے ہوئے اور فوج پر الزام اور دشنام باندھ رہے ہیں۔ 
بابر اعوان کا وکالتی لائسنس‘ عبوری طور پر عدالتی حکم کی نذر ہوا تو اس سے اعوان صاحب کا وہ غرور یقیناً ٹوٹا ہو گا جو اس مصرعے سے عیاں تھا۔ ”نوٹس ملیا تے ککھ نہ ہلیا“ اب ککھ بگولوں کے دوش پر ہیں۔ لائسنس کی عارضی معطلی پر پھر سخن طراز ہیں....
جنہاںتکیہ رب دا اوناں رزق ہمیش
پلے رزق نہ بنھ دے پنچھی تے درویش 
معلوم ہوتا ہے کہ بابر صاحب نے اپنا رزق وزارت سے منسوب کیا ہوا ہے‘ ”اعوان“ صاحب کو معلوم ہونا چاہیے کہ موت اور زندگی کی طرح مفلسی اور تونگری بھی خدا کے ہاتھ میں ہے۔ عدالتیں سزائے موت کا حکم کیا انسان کی جان لینے کیلئے دیتی ہیں؟ وہ تو جرم کی سزا دیتی ہیں‘بہرحال نظر آتا ہے کہ گیلانی صاحب نے بابر اعوان کا لائسنس معطل ہونے کے فیصلے سے کچھ سبق ضرور سیکھا ہے۔ ایک تو وہ اس فیصلے کے بعد خاموش ہیں‘ دوسرے انہوں نے اعتراز احسن کو اپنا وکیل مقرر کیا ہے جن کا گو صدارتی استثنیٰ پر مشرف اور زرداری کیلئے الگ الگ موقف رہا ہے تاہم وہ بارہا کہہ چکے ہیں کہ حکومت سپریم کورٹ کے حکم پرسوئس حکام کو خط لکھنے کی پابند ہے۔ شاید گیلانی صاحب وہ سب سمجھ گئے ہوں کہ انکے ساتھ کیا ہونیوالا ہے اور ان کو شہادت کے مقام پر پہنچانے کا جوش دلانے والے دراصل ان کو ہلاکت میں ڈالنا چاہتے ہیں۔ یہ تو نہیں ہو سکتا کہ محض فیس بٹورنے کیلئے اعتزاز اپنا نظریہ بدل لیں البتہ فیس سیونگ کےلئے گیلانی اصول کی راہ پر آسکتے ہیں۔ اس کا قدرے اظہار انکے بابر اعوان کو وزیر قانون بنانے سے انکار سے بھی ہوتا ہے جس کا توہین عدالت پر وکالتی لائسنس منسوخ ہوا اسے وزیر قانون بنانے کا مطلب عدلیہ کو چڑانے کی کوشش کے سوا اور کچھ نہیں لیا جا سکتا تھا۔ فوج اور عدلیہ کے حوالے سے حکومتی اقدامات اور رویے کے باعث سیاسی فضا کشیدہ ضرور ہے‘ لیکن اس سے جمہوریت کوئی خطرہ نہیں۔ البتہ وزیراعظم گیلانی جس کو جمہوریت کو خطرے میں سمجھتے ہیں‘ اسے بچانے کا بھی بہترین طریقہ یہی ہے کہ عدالتی فیصلوں کے سامنے سرتسلیم خم کریں اور میمو گیٹ پر سماعت میں روڑے اٹکانے کے بجائے تعاون کریں۔ ان کی طرف سے پسپائی نہیں‘ بلکہ اپنے Face Saving کے ساتھ ساتھ ملک و قوم اور جمہوریت کی بہترین خدمت بھی ہو گی۔

No comments:

Post a Comment