About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Tuesday, January 24, 2012

ہمارا حال افسوسناک ماضی کا آئینہ دار

 منگل ، 24 جنوری ، 2012


ہمارا حال افسوسناک ماضی کا آئینہ دار!
ـ 
فضل حسین اعوان
جسٹس ریٹائرڈ فرخ آفتاب صاحب اپنے مخصوص دھیمے انداز میں تشریف لائے اور حنیف رامے مرحوم کی کتاب ”باز آﺅ اور زندہ رہو“ کا صفحہ نمبر 153 کھول کر دکھاتے ہوئے گویا ہوئے‘ ”رامے مرحوم نے نوابزادہ لیاقت علی خان کے بارے میں عاشق بٹالوی کے حوالے سے جو لکھا‘ وہ سوہانِ روح بنا ہوا ہے۔“ میں نے بصد احترام جج صاحب سے ایک دن کیلئے کتاب مستعار لی‘ اس صفحہ کے آگے پیچھے پڑھا تو قائد ملت کے حوالے سے جو لکھا تھا‘ اس پر یقین نہ کرتے ہوئے بھی یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ہم عوام اپنی سادگی‘ ہمارے سیاست دان اپنی چالاکی‘ ایمان و عوام فروشی کے جس درجے پراس وقت تھے‘ آج بھی وہیں ہیں۔ درمیان میں اتنا ضرور ہوا کہ علامہ اقبال کے تصور اور قائداعظم کی ولولہ انگیز قیادت نے ایک بھیڑ اور ہجوم کو قوم بنایا جو مسلمانوں کیلئے ایک آزاد ریاست کے حصول اور قائد کے انتقال کے بعد پھر قوم سے بے ہنگم ہجوم بن گئی‘ جسے اپنے فرائض کا ادراک تو درکنار‘ اپنے حقوق کا بھی احساس نہیں رہا۔ حقوق کے حصول کا سوال تو ادراک اور احساس کی کوکھ سے جنم لیتا ہے۔ پاکستان میں دو طبقے عوام اور حکمران ہمیشہ دو مختلف انتہاﺅں پر رہے ہیں۔ عوام نے حکمرانوں اور سیاست دان طبقہ کا کبھی محاسبہ نہیں کیا۔ سیاست دانوں نے بھی ان کو کبھی درخورِ اعتناء نہیں سمجھا‘ ہر کام ذاتی مفاد کیلئے ہی کیا‘ اگر عوام سیاست دانوں کا صحیح محاسبہ کرتے اور سیاست دان بھی ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر قومی و عوامی مفادات کیلئے کام کرتے تو آج عوام خوشحال اور پاکستان ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہوتا۔ آگے چلنے سے قبل جسٹس صاحب کو قائد ملت کے بارے میں جس اقتباس نے مغموم اور دل گرفتہ کیا‘ اس پر ایک نظر ڈالئے: ”مجھے یہاں ایک نہایت تکلیف دہ اور افسوسناک بات کا ذکر کرنا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ جب تک اس کا ذکر نہ کرلیا جائے‘ ماضی کی اس داستان کو آگے بڑھانا میرے لئے ناممکن ہے۔ جب سے پنجاب میں سرسکندر حیات خان کی وزارت قائم ہوئی تھی‘ نوابزادہ لیاقت علی خان کا ذاتی رویہ ہمارے متعلق (پنجاب مسلم لیگ‘ جس کے صدر علامہ اقبال تھے) بہت کچھ بدل گیا تھا۔ انکی امداد و اعانت اور تائید و حمایت کلیتًہ سرسکندر کیلئے وقف ہو چکی تھی۔ لیاقت آل انڈیا مسلم لیگ کے جنرل سیکرٹری تھے‘ وہ مسلم لیگ کے مرکزی پارلیمنٹری بورڈ کے ممبر تھے لیکن انہوں نے بورڈ سے استعفیٰ دیدیا تھا اور مسلم لیگ کی بجائے نیشنل ایگری کلچرل پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن 1937ءلڑنے کا فیصلہ کرلیا تھا۔ یو پی کی یہ پارٹی گویا پنجاب کی یونینسٹ پارٹی کا مثنیٰ اور ہمزاد تھی۔ لیاقت کے استعفیٰ نے عجب صورتحال پیدا کر دی تھی۔ ابھی چند مہینے ہوئے وہ لیگ کے جنرل سیکرٹری منتخب کئے گئے تھے۔ اب انکے استعفیٰ کے بعد لیگ کا کوئی سیکرٹری نہیں تھا۔ (صفحہ357) مسٹر جناح جن مشکلات میں اس وقت گھرے ہوئے تھے‘ ان کا صحیح اندازہ آج نہیں کیا جا سکتا۔ وہ تن تنہا آل انڈیا مسلم لیگ کا بوجھ اپنے کاندھوں پر اٹھائے ہوئے تھے۔ نوابزادہ لیاقت علی خان کے مستعفی ہو جانے کے بعد ساری خط و کتابت مسٹر جناح کو خود کرنی پڑتی تھی۔ انکے پاس کوئی ٹائپسٹ بھی نہیں تھا۔ خطوط اپنے ہاتھ سے لکھتے تھے‘ اس وقت انکی عمر ساٹھ سال ہو چکی تھی۔ (صفحہ 389, 388, 387)۔ جہاں تک ان (لیاقت علی خان) سے ہو سکتا تھا‘ وہ ہر موقع پر سرسکندر کی مدد اور ہماری مخالفت کرتے تھے۔ اس دوران کئی بار ایسے مواقع پیش آئے کہ ہم راستی پر تھے اور سرسکندر کا رویہ غلط تھا لیکن نوابزادہ مرحوم نے ہمیشہ سرسکندر کا ساتھ دیا۔ 
نوابزادہ لیاقت علی خان کے خاندان کے تمام لوگ اور جملہ اعزہ و اقارب کرنال میں رہتے تھے جنہیں آئے دن حکومت پنجاب کی امداد و اعانت کی ضرورت محسوس ہوتی تھی۔ سرسکندر بڑے زیرک اور ہوشیار آدمی تھے۔ انہوں نے نوابزادہ مرحوم کے اس کمزور پہلو کو اچھی طرح بھانپ لیا تھا۔ خود لیاقت علی خان کے بڑے بھائی نوابزادہ سجاد علی خان پنجاب اسمبلی کے ممبر اور یونینسٹ پارٹی کے رکن تھے۔ سرسکندر اور نوابزادہ لیاقت علی خان کے درمیان ہر قسم کا نامہ و پیام انہی کے توسل سے ہوتا تھا۔ ہمیں ایک ایک بات کا علم تھا‘ لیکن مصلحت کی مجبوریوں نے ہماری زبان و قلم پر پہرے بٹھا رکھے تھے۔ ہم سردست مسٹر جناح کے تفکرات میں اضافہ نہ کرنا چاہتے تھے۔“ (صفحہ 618,617) ۔ رامے مرحوم نے عاشق بٹالوی کی کتاب ”علامہ اقبال کے آخری دوسال“ سے مزید اقتباسات بھی اپنی کتاب میں نقل کئے ہیں جن سے ہم اپنے حال اور ماضی کا تقابل کریں تو کوئی خاص فرق نظر نہیں آتا۔ 
”1937ءکے الیکشن میں پنجاب سے مسلم لیگ پارلیمنٹری بورڈ کے سات امیدواروں میں سے صرف دو کامیاب ہوئے یعنی ملک برکت علی اور راجہ غضنفر علی خان لیکن اس سلسلے میں سب سے تعجب انگیز واقعہ یہ ہے کہ راجہ غضنفر علی خان نے اپنی کامیابی کے بعد بورڈ کے دفتر میں قدم رکھنا بھی گوارا نہ کیا۔ اسکے بجائے وہ سیدھے یونینسٹ پارٹی کے جلسے میں پہنچے اور جاتے ہی اعلان کر دیا کہ وہ مسلم لیگ کو ترک کرکے یونینسٹ پارٹی میں شامل ہو گئے۔ (صفحہ368)۔ اگر بات یہیں تک رہتی تو معاملہ زیادہ شرمناک صورت اختیار نہ کرتا لیکن ستم یہ ہوا کہ یونینسٹ پارٹی کے اسی جلسے میں راجہ غضنفر علی خان کا خیرمقدم کرتے ہوئے سرسکندر حیات نے جو تقریر کی‘ اس میں انہوں نے فرمایا:
”راجہ صاحب میری مرضی اور میرے ایماءسے مسلم لیگ کے ٹکٹ پر کھڑے ہوئے تھے لیکن شروع ہی سے انہوں نے میرے ساتھ وعدہ کر رکھا تھا کہ الیکشن میں کامیاب ہونے کے بعد وہ فوراً یونینسٹ پارٹی میں شریک ہو جائینگے۔ (صفحہ369) 
1937ءکے الیکشن کیلئے سردار مظفرعلی قزلباش نے مسلم لیگ کے پارلیمنٹری بورڈ کو درخواست دی تھی‘ تحصیل لاہور سے دو امیدواروں کی درخواستیں موصول ہوئی تھیں‘ ایک میاں عبدالمجید‘ دوسرے قزلباش۔ بورڈ نے یہ امر واضح کردیا تھا کہ اگر کسی شخص کو بورڈ نے اپنا امیدوار نامزد نہ کیا‘ تو وہ شخص کسی اور پارٹی کے ٹکٹ پر یا اپنے طور پر الیکشن میں کھڑے ہونے کا مجاز نہیں ہو گا اور جب بورڈ نے میاں عبدالمجید کو اپنا امیدوار نامزد کیا تو مظفر علی خان قزلباش یونینسٹ پارٹی کے ٹکٹ پر ان کیخلاف کھڑے ہو گئے۔“
”یوپی میں بھڑائچ کے حلقے سے مسلم لیگ کے امیدوار اصغر علی کامیاب ہوئے تھے لیکن اسمبلی کے ایوان میں داخل ہونے سے قبل ہی فوت ہو گئے۔ مسٹر جناح نے بیّن انداز میں فرمایا تھا کہ یہ نشست مسلم لیگ کی ہے اور ہم اسے اپنے ہاتھ سے کبھی نہیں جانے دینگے۔ مگر حیرت ہے کہ یوپی مسلم لیگ نے کانگریس کے امیدوار (رفیع احمدقدوائی) کے مقابلے میں اپنا امیدوار کھڑا کرنے سے انکار کر دیا اور یہ سوفیصد یقینی نشست بلامقابلہ کانگریس کے حوالے کر دی۔ مجھے یاد ہے کہ اس وقت عام طور پر یہ افواہ مشہور تھی کہ چودھری خلیق الزماں کی درپردہ کوشش سے رفیع احمد قدوائی کامیاب ہوئے ہیں۔ خلیق الزماں یو پی اسمبلی کی مسلم لیگ پارٹی کے لیڈر تھے۔ مسٹر جناح نے انہی دنوں بیان دیا تھا کہ ”مسٹر خلیق الزماں نے میرے ساتھ وعدہ کیا تھا کہ وہ اپنے ہاں کے حالات سے مجھے مطلع کرینگے۔ میں ان کو اس سلسلے میں کئی بار یاد دہانی کرا چکا ہوں‘ لیکن گزشتہ تین ہفتوں کے مسلسل انتظار کے باوجود انہوں نے مجھے کوئی اطلاع نہیں بھیجی۔ میں انکی پراسرار خاموشی کا مطلب سمجھنے سے معذور ہوں‘ مجھے امید ہے کہ وہ فریق ثانی.... کانگریس.... کے ساتھ ایسی کوئی مفاہمت نہیں کرینگے جسے انجام کار انکے صوبے ہی کے مسلمان نہیں بلکہ پورے ہندوستان کے مسلمان رد کرنے پر مجبور ہو جائیں۔“ (صفحہ404)۔ چودھری خلیق الزماں ہی کے ایماءسے مسلم لیگ نے اپنا امیدوار کھڑا نہیں کیا تھا۔ یہ واقعہ ہے کہ رفیع احمد قدوائی کے اسمبلی میں داخل ہو جانے کے بعد سیاسیات نے ایک ایسا رخ پلٹا (نیشنلسٹ مسلمانوں کا مسئلہ) جو ہر اعتبار سے ہندوستان کے مسلمانوں کیلئے پریشان کن اور مسلم لیگ کیلئے نقصان رساں ثابت ہوا۔ (صفحہ 409,408)
یہ ہے ہمارا ماضی جو ہمارے افسوسناک بلکہ شرمناک حال کا شاخسانہ ہے۔ خدا ہمیں اسی تسلسل کے حامل مستقبل سے محفوظ فرمائے۔ آج ہم اپنے گرد و پیش پر نظر دوڑائیں تو کچھ بھی بدلا ہوا محسوس نہیں ہوتا‘ بالکل اسی طرح حالات کے مطابق خفیہ یا سرِعام کرپٹ سیاست دانوں کی خرید و فروخت جاری ہے۔ کرپٹ لوگ ترقی و عہدوں کی معراج پر ہیں‘ عوام نے اس وقت ان کا محاسبہ کیا‘ نہ اب کر رہے ہیں۔ سیاست دانوں نے بھی انکی فلاح و رفاہ کے بارے میںاس وقت سوچا نہ اب فکر ہے۔ قائداعظم نے مسلمانوں کو جھنجھوڑا‘ ان کو خواب غفلت سے جگایا‘ مگر افسوس کہ انکی رحلت کے ساتھ ہی وہ پھر سو گئے۔ آج پھر قائداعظم جیسے رہنماءکی ضرورت ہے‘ موجودہ دور کے سیاست دانوں سے تو یہ ہرگز توقع نہیں لیکن امید ہے کہ کوئی نہ کوئی تو قائداعظم ثانی آئیگا جو بکھرے ہجوم اور بے ہنگم بھیڑ کو ایک بارپھر منظم قوم بنا دےگا۔


No comments:

Post a Comment