About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Tuesday, January 31, 2012

v وکٹری

منگل ، 31 جنوری ، 2012

v وکٹری
فضل حسین اعوان 
دوسری جنگ عظیم میں برطانوی وزیراعظم سرونسٹن چرچل نے دو انگلیوں سے V وکٹری کا نشان بنا کر دوسروں تک اپنی کامیابی کی نوید اور خوش کن جذبات پہنچانے کیلئے ایک علامت ایجاد کی۔ چرچل کی یہ اختراع دنیا بھر میں عام ہوئی اور پاکستان میں بھی پھیل چکی ہے۔ برسبیلِ تذکرہ مغرب میں مٹھی بند کر کے انگوٹھے کو اوپر اٹھا کر دکھانے کو OK کی نشانی سمجھا جاتا ہے۔ مغرب والے جسے اوکے سمجھتے ہیں، ہمارے ہاں ویسے ہی انگوٹھا کھڑا کیا جائے تو اسے ٹھینگا قرار دیا جاتا ہے البتہ پاکستان میں بھی کہیں کہیں OK کا استعمال پایا جاتا ہے۔ 
آگے چلنے سے پہلے ایک اقتباس پر نظر ڈالئے (مصنف سے معذرت کے ساتھ نام یاد نہیں)۔ ”وکٹری کا نشان پہلے پہل سرونسٹن چرچل نے بنایا تھا۔ اپنے ہاتھ کی درمیانی انگلی اور اُس انگلی کی مدد سے "V" کا نشان بنا کر دکھایا کہ جس انگلی کو دور جاہلیت کے عرب ”سبّابہ“ کہتے تھے، کسی کو گالی دیتے وقت یا سبّ و شتم کرتے وقت یہی انگلی اٹھائی جاتی تھی۔ جب وہ محسنِ انسانیت ہویدا ہوا جسے خالق کائنات نے صاحبِ ”خلقِ عظیم“ قرار دیا تو یہی انگلی اس بات کی شہادت دینے کا اظہار کرنے لگی کہ اللہ کے سوا کوئی اِلٰہ نہیں اور محمد اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔ اب ہم تمام مسلمان اس انگلی کو انگشتِ شہادت کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ چرچل نے Vivtory"V" کا نشان کیا بنایا سب نے چرچل کی اس سنت کو اپنا لیا۔ موقع بے موقع انگلیاں اٹھا کر یہ علامت بنائی جانے لگی حتیٰ کہ قومی مجرم جب پکڑ کر جیل لے جائے جاتے ہیں تو پولیس کی گاڑی میں بیٹھتے وقت یہی فاتحانہ نشان بناتے ہیں جیسے اعلان کر رہے ہوں کہ دیکھو! ہم نے کیسی فتح مندی کے ساتھ قومی خزانہ لوٹ لیا ہی!“ 2007ءمیں ایک فوجی دستے کو لال مسجد اور جامعہ حفصہ آپریشن کا ناخوشگوار فریضہ ادا کرنا پڑا جس میں سفاک صفت ڈکٹیٹر مشرف کے حکم پر معصوم بچیوں تک کو بارود سے پگھلا دیا گیا۔ آپریشن مکمل ہوا تو گاڑی میں واپس جاتے ہوئے بعض سکیورٹی اہلکار V کا نشان بنا رہے تھے۔ یہ انداز انتہائی شرمناک تھا۔ آپ نے دشمن کی سرزمین پر توحید کا پرچم نہیں لہرایا تھا معصوم جانوں پر بارود و آہن برسایا تھا۔ قومی کرکٹ ٹیم نے دوبئی اور ابوظہبی میں ورلڈ رینکنگ میں نمبرون برطانیہ کو بڑے مارجن سے شکست دے کر شاندار کامیابی حاصل کی۔ اس پر ٹیم اور قوم کی طرف سے جشن منانے کا حق تھا اور یہ جشن منایا بھی گیا۔ گذشتہ سال چندی گڑھ میں بھارت کے ہاتھوں، وہاں وزیراعظم گیلانی کی موجودگی میں سیمی فائنل ہارے تو اس پر ندامت کے بجائے ٹیم کے کھلاڑی اور کئی پاکستانی مسرور نظر آئے۔ ملک بھر میں ٹیم کے اعزاز میں تقریبات منعقد کی گئیں، کھلاڑی جگہ جگہ سے انعامات وصول کرتے رہے۔ یہ کھلاڑیوں‘ جشن منانے اور انعامات کی بارش کرنے والوں کیلئے شرم کا مقام ہونا چاہئے تھا۔ بھارت سے شکست پر انعامات اور تمغات نچھاور کرنے والوں کی حب الوطنی شک سے بالاتر نہیں رہی۔ کھلاڑی بھی شکست پر اعزازات کو بھیک اور ذلت کے تمغات ہی سمجھیں۔ گذشتہ دنوں وزیراعظم گیلانی کے سابق ایڈوائزر خرم رسول لمبی چوڑی عدالتی جدوجہد کے بعد سپریم کورٹ میں پیش ہوئے۔ ان پر ایک پارٹی سے 62 کروڑ کی رشوت کا الزام ہے۔ بنک سے 2 کروڑ قرض لے کر واپس نہ کرنے پر ایک عدالت نے جائیداد ضبط کرنے کا حکم دے رکھا ہے۔ اس کے علاوہ بھی وزیراعظم ہاﺅس کی چھت تلے بیٹھ کر کرپشن کی داستانیں سامنے آرہی ہیں۔ موصوف آجکل پولیس کے ریمانڈ پر ہیں۔ نیب کو ریمانڈ بعد میں ملے گا۔ یہ بھی حقانی کی طرح وزیراعظم ہاﺅس جیسے محفوظ قلعے میں مقیم رہے لیکن عدالت کے حکم پر بالآخر سپریم کورٹ میں پیش کر دیا گیا۔ عدالت سے واپس گئے تو وہ بھی وکٹری کا نشان بنا کر میڈیا کو دکھاتے ہوئے قوم کو چڑا رہے تھے۔ ن لیگ کے فراڈ میں ملوث سابق ایم این اے عقیل اور مونس الٰہی کے اپنی پیشیوں کے دوران وی کے نشان بھی میڈیا پر دکھائے جاتے رہے ہیں۔ ونسٹن چرچل اگر زندہ ہوتا تو اپنی ایجاد کردہ کامیابی اور سرخروئی کی علامت کے پاکستان میں اس طرح استعمال پر شاید خودکشی کر لیتا! کسی غیرت مند پر بے بنیاد الزام لگ جائے تو وہ منہ چھپائے پھرتا ہے، کئی تو خودکشی تک کر لیتے ہیں، ہمارے ہاں ملزم تو درکنار مجرم بھی اپنے کئے پر فخر کا اظہار کرتے ہیں۔ وزیراعظم گیلانی کو میرٹ سے ہٹ کر ملازمتیں تقسیم کرنے پر سزا ہوئی ڈی میرٹ کو میرٹ بنا دینے سے جہاں اہل افراد کی حق تلفی ہوتی ہے۔ وہیں نالائق لوگوں کے ہاتھ میں اختیارات آنے سے ادارے برباد ہو جاتے ہیں۔ یہ یقیناً قبیح جرم HEINOUS-CRIME ہے۔ وہ آج بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ اسی طرح ملازمتیں دینے کا جرم کرتے رہیں گے۔ 19 جنوری کو توہین عدالت کے الزام میں عدالت میں جس لاﺅلشکر کے ساتھ پیش ہوئے وہ بھی ایک تفاخرانہ اور متکبرانہ انداز تھا۔ الزام پر شرمندگی کی بجائے تفاخر سے ظرف ظاہر ہو جاتا ہے۔ ملزم کو تو عدالت کی طرف سے باعزت بری ہونے پر بھی جشن منانے کی بجائے خدا کا شکر ادا کرنا چاہئے ہمارے ہاں تو باوا آدم ہی نرالا ہے۔ کامیابی پر بھی جشن، قید کرپشن رسوائی اور بے آبروئی پر بھی جشن....!!!


No comments:

Post a Comment