فروری 2، 2012ا
”تاجران جمہوریت“
فضل حسین اعوان
ہمارے ہاں بوٹوں کے زور پر آمریت برپا کرنےوالے ہی نہیں‘ ووٹوں کے ذریعے سر پر دستار جمہوریت سجا کر تخت نشین ہونیوالے بھی خود کو شہنشاہ سمجھنے لگتے ہیں۔ آمریت و جمہوریت دونوں اطوار جہانبانی کے مدارالمہام خود کو عقل کل سمجھتے ہوئے اقتدار و اختیارات کو اپنی ذات کے اندر مرتکز کر لیتے ہیں۔ اول الذکر پالشیوں کو آخرالذکر مالشیوں کو انکی اوقات سے کہیں زیادہ نواز دیتے ہیں۔ اوقات سے بڑھ کر نوازے جانیوالے پالشیوں اور مالشیوں کی اکثریت وزیر مشیر اور سفیر بننے کے بعد اس اعلیٰ مقام پر پہنچانے والوں کے ماتھے کا جھومر بننے کے بجائے مشکل وقت میں کلنک کا ٹیکہ ثابت ہوئی۔ خدمت گار کو اسکی اوقات کے مطابق نوازا جائے تو دانشمندی‘ اسکی اوقات سے بڑھ کر اس پر نوازشات اور عنایات اسکے ساتھ بھی ستم اور اگر یہ نالائق‘ کم فہم اور کم ظرف بھی ہو تو ملک و قوم کا بیڑہ غرق کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑتے جس کے نظائر آج قوم دیکھ اور نتائج بھگت رہی ہے۔ میاں نواز شریف کے التفات کی کہانیاں دلچسپی کی حامل ہیں۔ وزیراعلیٰ تھے تو ایک دوست کو اسکے باوجود وزیر لگا دیا کہ وہ دستخط بھی نہیں کرسکتا تھا۔ وزیراعظم بنے تو اکیڈمی ادبیات کا قلمدان اس چاپلوس پر نچھاور کر دیا جو صرف دستخط ہی کر سکتا تھا۔ کئی وزیروں‘ مشیروں اور سفیروں کی اہلیت کاسہ لیسی‘ حاشیہ برداری اور مسخرانہ طبیعت و بھانڈانہ ذہنیت ہی تھی البتہ میاں نواز شریف کو اپنے دور میں کوئی وزیر یا بیورو کریٹ کرپٹ نظر آیا تو اسے برطرف کرنے اور ہتھکڑیاں تک لگوانے سے گریز نہیں کیا۔ محمد خان جونیجو بھی اپنی کابینہ کا کڑا احتساب کرتے تھے۔
آج کی حکمرانی سے دیانت‘ امانت اور صداقت کے فوارے نہیں‘ کرپشن‘ جھوٹ اور فریب کے شرارے پھوٹتے ہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف‘ شیخ رشید، اعظم سواتی صدر اور وزیراعظم کو تاریخ کا کرپٹ ترین صدر اور وزیراعظم قرار دے چکے ہیں‘ اس پر کبھی دونوں تاجداران جمہوریت نے صفائی پیش کی نہ عدالت میں ہتک عزت کا کیس دائر کیا۔ اس سے کوئی کیا سمجھے؟ ان کو تاجدارانِ جمہوریت یا ”تاجرانِ “ جمہوریت۔ لگتا ہے کرپشن اور فریب کو ہی میرٹ بنا لیا گیا ہے جس زبان سے بڑے بڑے معاملات چلتے اور بہو بیٹیوں کے رشتے ناطے طے ہوتے ہوتے ہیں‘ اسی زبان کی یہاں پاسداری نہیں کی جاتی۔ وزیراعظم نے انتہائی سنجیدہ معاملات پر مختصر عرصے میں کم از کم تین مرتبہ یوٹرن لیکر قوم کو ششدر کردیا۔ صدر صاحب نے الیکشن کے حوالے سے ایک ماہ میں تین بار بیان بدلا۔ اعتزاز احسن کا سوئس حکام کو خط لکھنے کا موقف وزیراعظم کا وکیل بننے پر یکسر بدل گیا۔ اب کہتے ہیں سپریم کورٹ واضح حکم دے تو خط لکھنے کو تیار ہیں۔ کیا اب تک سپریم کورٹ ہوا میں حکم دیتی رہی ہے؟ تیل کی قیمتوں میں اضافے کا اعلان مہینے کے آخری دن رات گئے ہوتا ہے‘ وزیر گیس و پٹرولیم عاصم حسین نے اس مرتبہ قیمتوں میں اضافے کا چار روز قبل اعلان کر دیا جس سے پٹرول پمپ مالکان نے صارفین پر ایک عذاب نازل کردیا۔ وزیراعظم نے ”صدر کے وزیر“ کے بیان کو غلط قرار دیا تو موصوف اپنے آقاﺅں کی طرح صاف مکر گئے۔ آج دیکھئے تیل کی قیمتوں میں ویسا ہی اضافہ ہوا جس کی محترم نے پیش گوئی یا انکشاف کرکے ذخیرہ اندوزوں کو فائدہ پہنچایا۔ کہتے ہیں آصف زرداری جیل کے دنوں میں ہسپتال میں تھے‘ تو ڈاکٹر عاصم حسین نے خدمات کی بجاآوری میں کوئی کسر نہ چھوڑی جس پر عنایات لازم تھیں۔ اس کیلئے ان کو متعلقہ شعبے یا ادارے میں کھپا دیا جاتا۔ شاید وہ گاڑی میں پٹرول ڈلواتے اور گھر میں گیس استعمال کرتے ہیں۔ اسی کو میرٹ سمجھ لیا گیا ہو۔ ایسے میرٹ پر آنیوالے اپنے محکموں کا جو حشر کرتے ہیں‘ وہ آج اداروں کی بربادی‘ تباہی اور زبوں حالی کی صورت میں سامنے ہے۔ ہر شعبے‘ محکمے اور ادارے میں بھوت پھیری نظر آتی ہے۔ معاملات بھوتوں کے سپرد ہوں گے تو یہی کچھ ہو گا۔ ڈاکٹر عاصم کو چودھری نثار علی خان نے جعلی ڈاکٹر قرار دیا تھا‘ انٹرنیٹ پر انکے تعارف کے ساتھ ہی ”فراڈیا“ لسٹ دی گئی ہے اس میں بھی ان کا نام ہے۔ انہوں نے چودھری نثار علی خان کی بات کا جواب دیا‘ نہ لسٹ شائع کرنیوالوں کےخلاف کوئی قانونی کارروائی کی۔ دو اڑھائی ماہ قبل وزیر موصوف نے بڑی جرات مندی سے کہا تھا کہ ایران سے گیس ضرور حاصل کرینگے‘ صدر صاحب نے امریکہ کو آنکھیں دکھاتے ہوئے کہا تھا جس سے چاہیں گے‘ گیس لیں گے۔ پھر نہ جانے کیوں ایسا لگا کہ جیسے آنکھ لگ گئی۔ اب وزیر پٹرولیم کہتے ہیں‘ ایران سے نہیں‘ بھارت سے تیل خریدیں گے۔ بھارت خود ایران سے امریکی دباﺅ کو مسترد کرتے ہوئے تیل خریدتا ہے۔ آج بجلی اور گیس کی شدید کمی کا سامنا ہے‘ میڈیکل ڈاکٹر اور جس کا میرٹ ہی مالش ہو ملک کو گیس کے بحران سے کیا نکالے گا؟ اب تک اصلاح کی طرف ایک قدم بھی نہیںبڑھایا گیا۔ دنیا میں گیس کی تلاش کیلئے دس کنوﺅں میں سے ایک سے گیس دریافت ہوتی ہے۔ خدائے بزرگ و برتر کی کرم نوازی پاکستان میں شرح تین میں سے ایک ہے۔ کوئی نکالنے کی کوشش کرے تو تب! عالمی مارکیٹ میں تیل کی کمی نہیں‘ بھارت سے ہی خریداری کیوں؟ وہ مڈل مین بن کر منافع کمائے گا۔ خریداروں کو کیا فائدہ؟ کمیشن اور صرف کمیشن۔ سانپ کے سوا ہر چرند‘ پرند اور درندے تک اپنی نسل اور قوم قبیلے کو بخش دیتے لیکن یہاں انسانوں کی بستی میں دیکھ لیجئے کیا ہو رہا ہے؟ اعلیٰ مقام پر بیٹھا انسان کم مرتبے کے انسان کو کیسے ڈس رہا ہے!
No comments:
Post a Comment