منگل ، 21 فروری ، 2012
کی محمد سے وفا تو نے
فضل حسین اعوان ـ 15 گھنٹے 50 منٹ پہلے شائع کی گئی
بعداز خدا بزرگ توئی قصہ مختصر، کے عنوان سے ولادت ختم الرسل کے موقع پر 12ربیع الاوّل کو کالم کی اشاعت پر پروفیسر سلیم صاحب نے فون کرکے اس رباعی کے خالق کا نام دریافت کیا اور مشورہ دیا کہ آئندہ یہ رباعی کبھی شائع کرنا مقصود ہو تو اس کا اردو ترجمہ بھی ضرور دے دینا۔ یا۔ اپنے طور پر رباعی کے شاعر کے بارے میں جاننے کی کوشش کی تو دوست احباب میں سے کسی نے اسے علامہ اقبال کا کلام قرار دیا‘ کسی نے یہ رباعی سعدی و فردوسی سے منسوب کی۔ اسی جستجو کے دوران محمد سعید شاد صاحب کا خط موصول ہوا‘ ان کی تحقیق کے مطابق واضح ہو گیا کہ اس عشق مصطفی سے مزین اور عقیدت سے لبریز رباعی کے شاعر کے بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ تاریخ میں بھی بعض اسے حافظ شیرازی اور کچھ جامی‘ سعدی اور شاہ عبدالعزیز دہلوی سے منسوب کرتے ہیں۔ گمان غالب ظاہر کیا گیا ہے کہ یہ حافظ شمس الدین محمد شیرازی کے اشعار ہو سکتے ہیں۔ محمد سعید شاد صاحب نے اپنی تالیف ”طَلَعَ البَدَرُ عَلَینا“ میںاس رباعی کا اردو اور پنجابی زبانوں میں منظوم ترجمہ بھی دیا ہے۔
یاصاحب الجمال و یا سید البشر
اے سوہنے مکھڑے والے کل انساناں دے سردار
من وجھک المنیر لقد نور القمر
تیرے مکھڑے دے نور نال ای چند روشن اے
لایمکن الثناء کما کان حقہ
ساتھوں تیری وڈیائی دا حق ادا نہیں ہو سکدا
بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر
مکدی کہ رب تعالیٰ دے بعد صرف تسیں ای سب تو وڈیرے او
(اردو منظوم)
اے مالک حسن و ادا انسانیت کے متقدیٰ
ماہتاب کا اپنا ہے کیا سب تیرے چہرے کی ضیائ
ممکن کہاں حق ہو ادا کیسے کروں تیری ثنائ
اس قول میں لوں میں پناہ تجھ سے بڑا بس اک خدا
(مختار جاوید منہاس)
رباعی مذکور کے چاروں مصروں میںسے تین عربی، آخری اور چوتھا مصرع فارسی میں ہے۔ اس کی کوئی بھی وجہ ہو سکتی ہے تاہم خیال فوری طور پر شیخ سعدی کی عربی رباعی کی طرف چلا جاتا ہے۔ سعدی نے تین مصرے کہے:
بَلَغَ الُّعَلیٰ بَکَمالِہ
کَشَفَ الدُّجیٰ بَجَمالِہ
حَسَنَتُّ جَمِیعُ وَ خَصَالِہ
چوتھے مصرعے پر سعدی اٹک گئے ان کے ذہن میں آخری مصرع نہیں بن پا رہا تھا کہ ایک شب رسول اللہ کی خواب میں زیارت ہوئی۔ حضور نے چوتھا مصرع یوں ارشاد فرمایا:
صَلُّو عَلَیہِ وَآلِہ
بات عشق رسول کی ہو رہی ہے تو امام بوصیری کے اور ان کے قصیدہ بردہ شریف کا تذکرہ بھی برمحل نظر آتا ہے۔ جس کا اس شعر سے آغاز ہوتا ہے:
مولا¸ صل¸ وسلم دائماً ا¿بدا¿ علی حبیبک خیر الخلق کلھم
قصیدہ¿ بردہ شریف کے لکھنے کا واقعہ یوں ہے کہ اس قصیدے کو لکھنے سے پہلے، امام بوصیری کوڑھ کے مرض میں مبتلا تھے۔ اسی عالم میں آپ نے حالات سے پریشان ہو کر داد رسی کیلئے یہ قصیدہ تحریر فرمایا، اسی شب امام بوصیری کو خواب میں حضور پاک کی زیارت ہوئی اور آپ نے امام بوصیری کو اپنی کملی عنایت فرمائی۔ دوسرے دن جب امام بوصیری بیدار ہوئے تو وہ کملی آپ کے جسم پر موجود تھی اور آپ مکمل طور پر صحت یاب ہو چکے تھے۔کچھ مسلمانوں کا یہ بھی ماننا ہے کہ اگر قصیدہ بردہ شریف سچی محبت اور عقیدت کے ساتھ پڑھا جائے تو یہ بیماریوں سے بچاتا ہے اور دلوں کو پاک کرتا ہے، اب تک اس کلام کی 90 سے زائد تشریحات تحریر کی جا چکی ہیں اور اس کے تراجم فارسی، اردو، ترکی، بربر، پنجابی، انگریزی، فرینچ، جرمنی، سندھی و دیگر بہت سی زبانوں میں کیے جا چکے ہیں۔آخر میں یہ بھی سن لیجئے۔ رفیق ڈوگر صاحب سے نوائے وقت کے قارئین واقف ہیں، وہ طویل عرصہ نوائے وقت سے منسلک رہے۔ 92 میں ان کو گھٹنے کا کینسر ہوا، ماہر ڈاکٹروں نے ٹانگ کاٹنے کو ناگزیر قرار دیا۔ ڈوگر صاحب نے کہا اگر بیماری خدا کی طرف سے ہی ہے تو شفا بھی منجانب اللہ ہو گی۔ اس کے ساتھ ہی حضور کی سیرت پر تصنیف کا ارادہ باندھ کر اس کا آغاز کر دیا۔ پھر وہ دیکھتے ہی دیکھتے صحت یاب ہوئے اور چار جلدوں میں سیرت النبی کتاب تصنیف کی۔ان واقعات پر نظر ڈالنے سے بے ساختہ علامہ کا یہ شعر زبا ں پر آ جاتا ہے:
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
No comments:
Post a Comment