فروری,25 ، 2012
اقبال و قائد کے سپاہی
فضل حسین اعوان ـ 1 دن 16 گھنٹے پہلے شائع کی گئی
فانی انسان کی یادوں کو اس کا کردار اور عمل لافانی بنا دیتا ہے۔ اقبال اور قائد کی یادیں، ان کی باتیں اور فکر و فلسفہ آج ہمارے لئے اثاثہ اور سرمایہ ہے۔ قائد اعظم نے برصغیر کے مسلمانوں کو یہاں انگریز کی غلامی سے آزادی دلائی اور ہندو کی غلامی میں جانے سے بچایا وہیں نوجوان صحافی حمید نظامی سے نوائے وقت کی بنیاد رکھوائی۔ 23 مارچ 1940ءکو پندرہ روزہ نوائے وقت کا پہلا شمارہ شائع ہوا۔ 1942ءکو یہ ہفت روزہ اور قائداعظم کے فرمان پر 22 جولائی 1944ءکو روزنامہ بن گیا۔ گویا قائد محترم کی ہدایت پر حمید نظامی کے ہاتھوں یوم پاکستان کے روز لگایا گیا پودا قیام پاکستان سے قبل بہت سی منزلیں طے کر چکا تھا۔ یہ تحریک آزادی کا ترجمان بنا۔ مسلمانوں کی زبان دو قومی نظریہ کا اعلان اور وطن کے مجاہدوں کا عہد و پیمان بنا۔ حمید نظامی تحریک آزادی کے گرم جوش طالب علم رہنما قائد کے وفادار ساتھی، غلامی کی زنجیریں توڑنے کے لئے ہمہ وقت تیار، آزادی کے لئے ہمہ تن برسرپیکار، خون جگر دینے پر مائل، استعمار کی بیخ کنی کرنے کے قائل تھے۔ پاکستان بنا تو نوائے وقت کو عام آدمی کی صدا نوا دوا، دعا اور ندا بنا دیا۔ مجید نظامی عمر میں حمید نظامی سے 13سال چھوٹے ہیں انہوں نے باپ بن کر پالا تو مجید نظامی صاحب نے بھی بیٹا ہونے کا حق ادا کر دیا۔ کوئی بھی تقریب فنکشن یا جلسہ ہو پہلے حمید نظامی کا نام آتا ہے۔ مجید نظامی صاحب بھی تحریک آزادی کے مجاہد اور غازی ہیں۔ تحریک پاکستان کے پہلے شہید عبدالمالک کے سر پر اینٹ لگی تو مجید نظامی ان کے ساتھ کھڑے تھے۔ تحریک پاکستان کے پہلے شہید اسلامیہ کالج کے عبدالمالک نے مجید نظامی کے بازوﺅں میں ہی جان دی۔ ان کو سنبھاتے ہوئے نظامی صاحب کے کپڑے بھی شہید کے خون سے رنگے گئے۔ لیاقت علی خان نے ان کو مجاہدانہ خدمات پر سند کے ساتھ تلوار عنایت کی۔
قیام پاکستان کے بعد حمید نظامی نے حق گوئی و بیباکی، بیداری، وطن سے وفا کی علمبرداری کا پرچم اٹھائے اور لہرائے رکھا۔ جس سے انگریز کے کتے نہلانے کے انعام میں جا گیریں اور اقتدار حاصل پانے والے دیوانوں، مستانوں، دولتانوں اور ٹوانوں کی جھوٹی انا مجروح ہوئی جو نوائے وقت انگریز کی حکمرانی میں بھی مسلسل بلا تعطل شائع ہوتا رہا وہ 1950ء کی دہائی میں کچھ عرصہ کے لئے بند کر دیا گیا۔ مجید نظامی تعلیم کے ساتھ ساتھ اخباری معاملات میں اپنے بھائی جان کی معاونت بھی کیا کرتے تھے۔ حکمرانوں کی درشتی، دھونس اور جبر دونوں بھائیوں کے عزم اور پائے استقلال میں ہلکی سی لرزش اور جنبش بھی نہ لا سکا۔ قائداعظم کے پاکستان میں 1958ء میں مارشل لاءلگا تو حمید نظامی روح تک لرز گئے۔ کیا لاکھوں جانوں اور آبروﺅں کی قربانی یہ دن دیکھنے کے لئے دی گئی تھی؟ مارشل لاءکے باعث حمید نظامی کی صحت گرنے لگی، باقی کسر اخبار کے ساتھیوں نے بے وفائی کرکے پوری کر دی جس کے باعث حمید نظامی صاحب 25 فروری 1962ءکو جاں سے گزر گئے۔
اسی روز مجید نظامی کو لندن سے بلوایا گیا۔ نظامی صاحب کے کہنے پر آغا شورش نے انہیں فون کیا۔اس کے بعد اخباری معاملات مجید نظامی کے پاس آئے تو انہوں نے وہیں سے ان کو آگے بڑھایا جہاں سے حمید نظامی صاحب چھوڑ کر جان جانِ آفرین کے سپرد کر گئے تھے۔ اس کے بعد مجید نظامی صاحب نے چار مارشل لاﺅں کو جس طرح حق ہوتا ہے اسی طرح بھگتا۔ نوائے وقت شجر سایہ دار تو حمید نظامی کی حیات میں ہی بن گیا تھا۔ اس شجر سایہ دار کو ثمر بار مجید نظامی نے بنایا۔ نوائے وقت اشاعت کے پہلے روز سے کرائے کی عمارت سے نکلتا رہا۔ آج لاہور، کراچی، ملتان، پنڈی میں اس کے اپنے دفاتر ہیں۔ ساتھ ہفت روزہ ندائے ملت، فیملی میگزین، ماہانہ پھول، ڈیلی دی نیشن بھی نوائے وقت کی آگنائزیشنز ہیں۔ چار سال سے وقت نیوز چینل بھی اپنی بلڈنگ میں نشریات جاری رکھے ہوئے ہے۔
مجید نظامی کا کامیاب ایڈیٹر کے ساتھ ساتھ بہترین منظم ہونا بھی ان کی شخصیت کا نمایاں پہلو ہے۔ بہت سے لوگوں کی محبت نوائے وقت ہے لیکن نوائے وقت والوں کی پہلی محبت اسلام پاکستان اور نظریہ پاکستان ہے۔ مجید نظامی صاحب نوائے وقت پبلیکیشنز کی طرف بڑی توجہ دیتے ہیں لیکن اس سے بھی زیادہ توجہ نظریہ پاکستان ٹرسٹ پر مرکوز ہے۔ دفتر آنے سے قبل نظریہ پاکستان جاتے ہیں۔ تن، من دھن سے اس کی خدمت پر تین بائی پاس ہونے کے باوجود کمربستہ ہیں۔ نوائے وقت ملک کا ایک بڑا اشاعتی اور نشریاتی گروپ ہے لیکن اس کے مالک درویشانہ زندگی گزارتے ہیں۔ مجید نظامی صاحب نے دو کنال جگہ کھیتوں میںخریدی اور اپنا گھر بنا لیا اسی قدیم وضع کے گھر میں قیام پذیر ہیں۔ وضعدار ایسے کہ ہر ملنے والا سمجھتا ہے کہ اس سے زیادہ کسی پر مہربان نہیں۔ کوئی اپنا ہو یا پرایا اسے تکلیف میں دیکھ کر تڑپ اٹھتے اور ہر ممکن مدد کرتے ہیں۔ سچی بات ہے کہ حمید نظامی نے قائد اعظم کے سپاہی اور مجید نظامی نے حمید نظامی کے بھائی اور قائد کے فدائی ہونے کا حق ادا کر دیا۔ آج مجید نظامی صاحب‘ چھوٹی بی بی رمیزہ مجید نظامی کی تربیت بھی انہیں خطوط اور نہج پر کر رہے ہیں جس طرح حمید نظامی نے ان کی کی تھی۔ رب ذوالجلال پاکستان‘ مجید نظامی‘ رمیزہ مجید نظامی‘ ادارے‘ کارکنوں اور ادارے کے چاہنے والوں کا حامی و ناصر ہو۔
No comments:
Post a Comment