منگل ، 07 فروری ، 2012
کرپشن کا ہمالہ
فضل حسین اعوان
غربت سے تنگ آکر خودکشی کرنے والوں کے لواحقین اور ٹھنڈے ہوتے چولہے کے باعث جاں سے گزر کر دنیا کے دکھوں سے نجات کا ارادہ رکھنے والے سوچیں۔ ان کو اس مقام پر پہنچانے کا ذمہ دار کون ہے۔ جوان بیٹیوں کے ہاتھ پیلے کرنے سے قاصر‘ اولاد کو تعلیم دلانے میں بے بس تنخواہ دار اور دیہاڑی دار اور کاروباری لوگ سوچیں کہ خون پسینہ بہانے کے باوجود ان کی آمدن مہینہ بھر کے راشن اور اخراجات کے لئے کم کیوں پڑ جاتی ہے؟ صرف کم ہی نہیں‘ انتہائی کم‘ پہلے تنخواہ دار طبقہ کھینچ تان کر 20 پچیس دن نکال لیتا تھا۔ اب ہفتہ ڈیڑھ ہفتہ میں سب کچھ ختم‘ گھر میں اگر کچھ ہوتا ہے تو بے بسی‘ بے کسی‘ بے چارگی و لاچارگی ہوتی ہے۔ آخر اس کا ذمہ دار کون ہے؟ ذمہ دار کا تعین کرنے کے لئے عقل سقراط کی ضرورت ہے نہ حکمت بقراط اور دانش افلاطون کی۔ ملک اور عوام کو پسماندگی کی اتھاہ گہرائیوں میں پھینکنے والے وہی لوگ ہیں جن کو عوام مشرف کی آمریت سے چھٹکارہ حاصل کرنے کے لئے ووٹ کی طاقت سے لاکر اپنے دکھوں کا درماں سمجھتے تھے۔ لیکن جن کو مسیحا سمجھا وہی قاتل نکلے انسانوں کے قاتل‘ انسانیت کے قاتل‘ رہبر رہزن کا روپ دھار گئے جن سے کوئی ادارہ محفوظ رہا نہ کوئی شعبہ نہ کاروبار نہ ملکی معیشت اور نہ ہی قومی سلامتی و خودمختاری‘ آج ایمنسٹی انٹرنیشنل کی چشم کشاءرپورٹ نے اہل اقتدار کا مزید بھرم کھول کر رکھ دیا ہے۔تازہ ترین رپورٹ میں کہا گیا کہ چار سالہ دور جمہوریت میں پاکستان کو ناقابل یقین حد تک مالی نقصان ہوا ہے۔ کرپشن‘ ٹیکس چوری اور خراب طرز حکمرانی کے باعث ملک کو 8500 ارب روپے کا نقصان پہنچا۔ اس رقم کو ڈالروں میں دیکھا جائے تو 94 ارب امریکی ڈالر بنتے ہیں۔ پاکستان کا کل قرضہ جو حکومت نے عالمی مالیاتی اداروں اور اپنے بینکوں سے لے رکھا ہے وہ بھی 90 ارب ڈالر سے زیادہ نہیں۔ بیرونی قرضوں کی مالیت 56 ارب ڈالر ہے۔ گویا اندرونی اور بیرونی قرضوں سے 5 چھ ارب ڈالر زیادہ چند لوگوں کے پیٹ میں حرام کی صورت میں اتر گئے۔ کیری لوگر بل کی مد میں پاکستان سے سالانہ ڈیڑھ ارب ڈالر کی امداد کا وعدہ کیا گیا ہے۔ تین سال میں پاکستان کو ساڑھے چار ارب ڈالر مل جانے چاہئیں تھے لیکن ابھی تک صرف دو ارب روپے ملے ہیں۔ اس دوران قومی سلامتی و خود مختاری جس طرح سے امریکہ کے پاس گروی رکھی جا چکی ہے یہ طرز حکمرانی کی ایک شرمناک مثال ہے۔
کرپشن کے ہمالہ کی نشاندہی صرف ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ہی نہیں کی۔ اسی حکومت کے وزیر خزانہ شوکت ترین نے اپنی وزارت کے دوران اعتراف کیا تھا کہ صرف ایف بی آر میں سالانہ 500 ارب کی بے ایمانی ہوتی ہے۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے 2010میں 315 ارب کی بدیانتی کا اعتراف کیا۔ پبلک اکا ¶نٹس کمیٹی نے چودھری نثار علی کی سربراہی میں تین ساڑھے تین سال میں ملکی خزانے سے لوٹے گئے 115 ارب روپے واپس خزانے میں جمع کرائے۔ سپریم کورٹ بھی رینٹل پاور پلانٹس کی تنصیب میں کئے گئے گھپلوں کے اربوں روپے واپس کروا چکی ہے۔ رپورٹ میں بھی کہا گیا ہے کہ نیب اور ایف آئی اے نے کرپشن روکنے کے بجائے کرپٹ لوگوں کا ساتھ دیا۔ حکمران جتنا بھی طاقتور ہو قومی خزانے کو اپنی مرضی سے نہیں لوٹ سکتا۔ کرپشن کا ہمالہ کھڑا کرنے میں اسے بیورو کریسی کی ضرورت ہوتی ہے۔ جب سرکاری ملازم بھی لوٹ مار میں حکومت کا ساتھ دیں تو حشر وہی ہوتا ہے جو آج قوم و ملک اور قومی خزانے کا ہے۔ جس کی صورت آج خزاں رسیدہ درخت کی ہو چکی ہے۔ قائداعظم نے اگست 1948ءکو پشاور میں سرکاری ملازمین سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا۔
”حکومتیں بنتی ہیں‘ حکومتیں گرتی ہیں لیکن آپ لوگ وہیں رہتے ہیں۔ اس طرح آپ کے کاندھوں پر ایک عظیم ذمہ داری آجاتی ہے‘ آپ کو اس لئے بھی تکلیف پہنچ سکتی ہے کہ آپ غلط کام کی بجائے صحیح کیوں کر رہے ہیں۔ آپ کو قربانی دینی ہوگی اور میں آپ سے اپیل کرتا ہوں کہ آگے بڑھیں اور قربانی دیں‘ خواہ آپ بلیک لسٹ ہو جائیں یا پریشانی اور تکلیف میں مبتلا کر دئیے جائیں‘ آپ کی انہی قربانیوں سے حالات بدلیں گے۔“
بیورو کریٹس نے قائداعظم کے فرمان کو مشعل راہ بنایا ہوتا تو آج ملک ترقی یافتہ اور قوم خوشحال ہوتی۔ سرکاری ملازمین کا عوام دل کی گہرائیوں سے احترام کرتے۔ ظفر قریشی بھی تو سرکاری ملازم تھا جس نے پوری دیانت داری سے این آئی سی ایل کیس کی تحقیقات کیں۔ وہ بھی سرکاری ملازم تھے جو سرکار کے آلہ کار بن گئے اور سپریم کورٹ تک کو بے بس کرکے رکھ دیا۔ چیف سیکرٹری اور ڈی جی ایف آئی اے بھی سرکاری ملازم ہیں جو حکمرانوں کے ایما پر عدلیہ کے احکامات کو درخودر اعتنا نہیں سمجھتے۔ لوگ بھی احترام کارکردگی اور دیانتداری و ایمانداری دیکھ کر کرتے ہیں۔
اب جبکہ واضح ہو چکا ہے کہ عام آدمی کو مسائل اور مصائب کی دلدل میں کس نے دھکیلا۔ کاروبار کس نے تباہ کئے۔ تو لوگ ایسے ظالموں کے خلاف اٹھ کھڑے کیوں نہیں ہوتے؟ ان کے گریبانوں تک ہاتھ ڈالنے سے کس نے روکا ہے؟ شاید ان کو قائد اور قیادت کی ضرورت ہو۔ وہ نواز شریف کی صورت میں ہو سکتا ہے۔ جس نے لانگ مارچ کیا تو جج بحال ہو گئے۔ جلسے جلوس نکالے تو ستمبر میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ہو گیا۔ اب وہ شاید مزید قدم اس لئے نہیں بڑھا رہے کہ ان کو اپنے اقتدار کی منزل قریب نظر آرہی ہے اور جو حکومت میں آتا ہے کم و بیش وہی کچھ کرتا ہے جو آج کی جمہوری حکومت کر رہی ہے۔ اس لئے عوام خود اپنے مستقبل کے بارے میں سوچیں کرپشن کا ہمالہ گرانے کے لئے پہلے قوم بنیں پھر تمام وسائل اور معاملات ان کی اپنی مٹھی میں ہو سکتے ہیں۔
No comments:
Post a Comment