جمعرات ، 23 فروری ، 2012
شیطان اور سمندر کے درمیان
فضل حسین اعوان
وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی شوق شہادت کا اظہار بلکہ اعلان تو کرتے ہیں جبکہ اندر کا خوف ان کے بیانات سے عیاں ہو جاتا ہے۔ متعدد بار کہہ چکے ہیں وزیراعظم نہ رہا تو غوث اعظم کی اولاد ہونے کا عہدہ تو وزارت عظمیٰ سے بہت بڑا ہے۔ وہ مجھ سے کوئی نہیں چھین سکتا۔ اگر گیلانی صاحب دل و جان سے ایسا سمجھتے ہیں تو بڑے عہدے پر براجمان ہونے کے باوجود چھوٹے مقام کو پسند کیوں فرما لیا۔ پھر اس کے ساتھ ایسا چمٹے کہ یہ مقام لامقام ہونے کا دھڑکا لگا تو اسے اپنے لئے شہادت قرار دے رہے ہیں۔ ایک طرف میمو گیٹ کیس میں اس عزم کا اظہار کیا کہ معاملہ صدر زرداری کی طرف بڑھا تو میں اپنے سر لے لوں گا۔ میمو گیٹ کیس کا فیصلہ کچھ دور ہے۔ این آر او کیس کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ ظاہر کرتے ہیں کہ سوئس حکام کو خط نہ لکھنے کا عہد زرداری پر جانثاری ہے۔ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان ہر دوسرے روز ایک ہی لے پر دھمال ڈالتی ہیں کہ شہید بھٹوز کی قبروں کا ٹرائل نہیں ہونے دیں گے۔ جس کی جان پہ بنی ہے اس کے دل میں جھانک کر دیکھیں۔ بظاہر تو وہ بھی جھومتے ہوئے کہتے یہی سنائی دیتے کہ خط نہ لکھنے کا پارٹی کا فیصلہ ہے۔ صدر کو استثنیٰ حاصل ہے۔ خط نہیں لکھیں گے۔ جب اس کے بھیانک نتائج خونخوار جن کی طرح ناچتے ہوئے سامنے آتے ہیں تو امیدوں‘ آرزوں اور تمناوں کے دیے بجھتے دکھائی دینے لگتے ہیں۔ ایسے میں وزیراعظم صاحب بہت کچھ ایسا کہہ جاتے ہیں جو لایعنی و بے معنی ہوتا ہے۔ 80 کا ہندسہ زبان پر چڑھا ہے شاید اس لئے کہ 80 کی دہائی میں جنرل محمد ضیاءالحق کے ہاتھ پر بیعت کی۔ اسی کی دہائی میں ہی ضیاءالحق نے ان کا ہاتھ جونیجو مرحوم کے ہاتھوں میں دے دیا۔ اسی دہائی میں ہی جونیجو کا ساتھ چھوڑ دیا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو 86 میں لندن سے واپس آئیں تو گیلانی صاحب ان کے ساتھ جا ملے یہ ان دنوں کی بات ہے جب میاں نواز شریف نے بے نظیر بھٹو کی خدمت میں 30 لاکھ روپے پارٹی فنڈ کے طور پر پیش کئے جو محترمہ نے بصد شکریہ رکھ لئے تھے۔ گیلانی صاحب کا دعویٰ ہے کہ میثاق جمہوریت پر 80 فیصد عمل کر دیا۔ آغاز حقوق بلوچستان پر 80 فیصد عمل کرایا۔ شاہ زین بگٹی کا کہنا ہے کہ آغاز پر صرف اڑھائی سے تین فیصد تک عمل ہوا۔ وزیراعظم گیلانی اپنے چار سالہ دور کو کامرانیوں کی داستان قرار دیتے ہیں۔ یہاں شاید 80 فیصد سے بھی زائد عوامی مسائل حل کرنے کے دعویدار ہیں۔ لگتا ہے کہ وہ زخم خوردہ عوام سے نہیں مردوں سے مخاطب ہوں....
وزیراعظم کی طرف سے اپنے صدر پر جاں نچھاور کرنے کی جو بے پاں خواہش ظاہر کی جا رہی ہے۔ وہ دراصل اس محاورے کے عین مطابق ہے
Between devil and deep sea.
ایک طرف عدلیہ دوسری طرف وہ پارٹی سربراہ ہے۔ اٹھارہویں ترمیم نے جس کی دراز میں ارکان پارلیمنٹ کے ضمیر رکھوا دئیے ہیں۔ گیلانی کیا کوئی کبھی رکن پارلیمنٹ پارٹی سربراہ کی مرضی کے خلاف دم بھی نہیں مار سکتا۔ شہادت‘ غازی‘ جانثاری کی محض باتیں ہیں‘ گیلانی صاحب کا اصل دکھ 15 فروری کو سینئر صحافیوں کے ساتھ ملاقات کے دوران سامنے آیا جس میں انہوں نے 5 واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ان واقعات میں انہیں بلاوجہ ملوث کر دیا گیا۔ ”حج سکینڈل میں شکیل درانی کے حوالے سے مجھ پر الزام تراشی کی گئی اور کہا گیا کہ سارے راستے وزیراعظم ہاوس کی طرف جاتے ہیں۔۔۔ ایک لڑکا لندن کے کالج میں میرے بیٹے عبدالقادر گیلانی کا کلاس فیلو تھا‘ اس نے ایک جیپ امپورٹ کی جس کی اس نے ڈیوٹی نہیں دی۔ یہ جیپ میرے بیٹے کے کھاتے میں ڈالی گئی۔ میں بھوٹان میں کانفرنس میں شریک تھا کہ مجھے چٹ ملی کہ چیف جسٹس نے وفاقی سیکرٹریوں کی پروموشن کو کالعدم قرار دیا ہے۔ ہم نے دوبارہ جائزہ لیا تو نوے فیصد وہی سیکرٹری دوبارہ پروموٹ ہو گئے۔ ان سیکرٹریوں میں کوئی میرا فیورٹ نہیں تھا۔ (90 فیصد میرٹ پر‘ دس فیصد کہاں سے آئے؟) کوئی اہم شخصیت میرے پاس آئی اور کہا کہ خواجہ عدنان کو جاب دی جائے، میں نے سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ سے کہا کہ وہ ان کی کوالیفکیشن دیکھ کر انہیں جاب دیں۔ اس پر بھی میرا مذاق اڑایا گیا۔ دراصل خرم رسول پی ٹی وی کا کنسلٹنٹ تھا، اسے پی پی پی کی ایک سینئر شخصیت کے کہنے پر پی ٹی وی کا کنسلٹنٹ لگایا گیا تھا۔“ وزیراعظم کے ان اعترافات کے باوجود بھی دعویٰ ہے کہ ہم گنہگار نہیں۔
این آر او کیس میں گیلانی صاحب نے خود کو
Between Devil and deep Sea .
پایا تو اس سے نجات کے لئے ایک ہی کی صورت نظر آئی کہ وکیل کرنے کے بجائے وہ جج کر لیں۔ اس کے لئے انہوں نے پیپلز پارٹی کی نوازشات کے تلے دبے معروف وکیل کی خدمات 100 روپے دیکر حاصل کیں۔ ان کے وکیل کا دعویٰ رہا ہے کہ ان کی چیف جسٹس کے ساتھ بے تکلفانہ دوستی ہے۔ اپنے اس قول پر چار سال عمل کیا کہ وہ کسی کیس میں چیف جسٹس کے روبرو پیش نہیں ہوں گے۔ بالآخر فرد جرم کے حوالے سے نظرثانی کیس میں پیش ہوئے۔ موکل کو امید تھی کہ وہ انہیں مکھن میں سے بال کی طرح نکال لیں گے۔ ججوں نے شاید مکھن میں مکھی سمجھ کر جو کیا‘ سو کیا۔ کم از کم ایک بار تو یہ تاثر ختم ہو گیا کہ وکیل کو اپنی اہلیت پر کیس لڑنا ہو گا۔ جج کرنا مشکل ہے۔ اب 27 فروری کو دیکھئے کیا ہوتا ہے۔
مٹھہ ٹوانہ میں غلام عباس صاحب کا فون آیا کہ ان کو ایک تگڑے وکیل کی ضرورت ہے۔ جو سپریم کورٹ میں کیس کرے کہ بے نظیر بھٹو کے پہلے دور میں ان کے وزیر داخلہ نے خالصتان موومنٹ کے لیڈروں کی لسٹیں بھارت کے حوالے کی تھیں۔ یہ ”حب الوطنی“ کے کس ضمن میں آتا ہے؟ ان کو بتایا کہ موصوف تو انکار کرتے ہیں۔ غلام عباس کا کہنا تھا کہ ملزم نے بھی کبھی اپنا جرم مانا ہے؟ سپریم کورٹ ہی اس حوالے سے بریت یا جرم کے تعین کا بہترین فورم ہے۔ ان کو بتایا کہ سپریم کورٹ کے معروف وکلاءکی فیس تو کروڑوں میں ہے۔ بے چارہ سابق فوجی اور آج کا کسان کہتا ہے میں دو اڑھائی لاکھ ادا کر سکتا ہوں۔ اگر اس کے پاس بھی کروڑوں ہوتے تو شاید ”وزیراعظم کا وکیل“ ان کا کیس پکڑ لیتا کیونکہ وہ پروفیشنل وکیل ہے۔ پیپلز پارٹی میں رہتے ہوئے نواز شریف کے کیس بھی تو لڑے ہیں۔ کوئی بے اصولی کرنی ہو تو سیاست میں کچھ بھی حرف آخر نہیں ہوتا اور وکالت میں میں تو پیشہ ور وکیل ہوں کہہ دیا جاتا ہے۔ آخر سند یافتہ دہشت گرد ریمنڈ ڈیوس اور کشمیر سنگھ کا کیس بھی تو ہمارے وکیلوں نے پیشہ ور وکیل ہونے کے ناتے ہی لڑا تھا۔
No comments:
Post a Comment