About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Thursday, February 9, 2012

ازالہ

جمعرات ، 09 فروری ، 2012

ازالہ
فضل حسین اعوان 
سپریم کورٹ کے حکم پر 28 ارکان کی سینٹ، قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کی رکنیت معلق ہوئی تو 6 سات ماہ سے سوئی ہوئی حکومت ہڑبڑا کر اٹھ گئی۔ جو کام اتنی مدت میں نہ ہو سکا حکومت کی طرف سے قومی اسمبلی کی مجلس قائمہ برائے قانون و انصاف و پارلیمانی امور کی چیئرپرسن نسیم اختر چودھری نے وہ کام ایک دو روز میں کر گزرنے کی یقین دہانی کراتے ہوئے ایک ہفتے کی مہلت مانگی لیکن عدلیہ نے ہر معاملے میں مہلت مہلت پکارنے والی حکومت کو مزید مہلت نہ دی۔ 20ویں ترمیم پہلے ہی حکومت کے زیر غور تھی۔ 28 ارکان پر افتاد پڑی جن کی چند ہفتے بعد سینٹ کے الیکشن میں اشد ضرورت ہے تو حکومت نے یہ ترمیم فوری طور پر منظور کرانے کے لئے ہنگامی بنیادوں پر کام شروع کر دیا۔ معطلی کی زد میں آنے والے ارکان کا نامکمل الیکشن کمشن کی طرف سے انتخابات کرانے میں کوئی قصور نہیں۔ قصور کسی کا تو ہے۔ 28ارکان کی رکنیت آئین و قانون کی خلاف ورزی پر ہی معطل کی گئی ہے۔ یہ آئین شکنی کس نے کی اس کا بھی محاسبہ ہونا چاہئے۔ چونکہ کیس ابھی جاری ہے شاید سپریم کورٹ اس کا بھی کسی مرحلے پر نوٹس لے لے۔ بہرحال اب آئینی ترمیم کی تیاری اور اس کو متفقہ منظور کرانے کی کوششیں عروج پر ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے بغیر 20ویں آئینی ترمیم کا دو تہائی اکثریت سے منظور ہونا مشکل اگر ایک آدھ دوسری پارٹی بھی مسلم لیگ ن کا ساتھ دے تو ناممکن ہے۔ پیپلز پارٹی کی اس حد تک مثبت سوچ ہے کہ وہ اسے اتفاق رائے سے منظور کرانا چاہتی ہے۔ مسلم لیگ ن بھی ایسا ہی چاہتی ہے لیکن اپنے کچھ تحفظات دور کرا کے اور مطالبات منوا کے۔ حکومت ن لیگ کے کئی مطالبات ماننے پر تیار ہے ڈیڈ لاک نگران حکومت کے سیٹ اپ پر ہوا ہے۔ یہ ڈیڈ لاک کوئی مستقل نہیں عارضی ہے۔ مسلم لیگ ن اس موقف پر سختی سے قائم ہے کہ آئندہ انتخابات کے لئے نگران حکومت میں غیر جانبدار بے داغ شخصیات کو شامل کیا جائے۔ اپوزیشن کے اتفاق سے نگران وزیراعظم بنایا جائے اور نگران حکومت کو 20ویں آئینی ترمیم میں تحفظ دیا جائے۔ چیف الیکشن کمشنر کے اتفاقِ رائے سے تقرر پر بھی پیش رفت نہ ہو سکی۔ 
حکومت کی 4 سالہ کارکردگی دنیا کے سامنے ہے جس پر سب سے زیادہ تنقید مسلم لیگ ن کی طرف سے کی جاتی ہے۔ مسلم لیگ ن ہی اسے کرپٹ ترین حکومت قرار دیتے ہوئے اسے ہر مسئلے اور بحران کی جڑ قرار دیتی ہے۔ اب حکومت کو اس کی ضرورت پڑی ہے تو صرف چند مطالبات سامنے رکھ کر اس کی حمایت پر آمادہ نظر آتی ہے۔ مسلم لیگ ن ایک بڑی فعال پارٹی اور عوامی طاقت ہے جس کے بل بوتے پر نواز شریف نے لانگ مارچ کیا تو حکومت ججوں کی بحالی پر مجبور ہو گئی۔ گذشتہ سال ستمبر میں حکومت نے خود ساختہ بجلی بحران پیدا کیا تو ن لیگ عوام کے ساتھ سڑکوں پر آ گئی۔ اس کے بعد ایک بار تو بجلی کی لوڈشیڈنگ کا مکمل خاتمہ ہو گیا۔
آج عام آدمی کا مسئلہ 20ویں آئینی ترمیم، چیف الیکشن کمشنر کا تقرر اور غیر جانبدار نگران حکومت سے کہیں بڑھ کر ہے۔ اسے روزی روٹی کی فکر اور اپنی جان کے لالے پڑے ہیں۔ وہ پہلے ان سے نجات چاہتا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں اب تک 8.5 کھرب روپے یعنی 94 ارب ڈالر کی بے ایمانی، بدعنوانی، لوٹ مار اور چور بازاری ہو چکی ہے۔ یہ رقم قومی خزانے میں اور ساتھ ہی زمام اقتدار دیانت دار لوگوں کے ہاتھ میں ہوتی تو ملک اندرونی اور بیرونی قرضوں سے نکل چکا ہوتا۔ پٹرول 95 جبکہ ڈیزل ایک سو روپے لٹر سے بھی اوپر ہے اس کی قیمت 44 روپے لٹر ہوتی جس پر یہ نیٹو کو فراہم کیا جاتا ہے۔ آئی پی پیز کو عدم ادائیگیوں کی وجہ سے بجلی کی لوڈشیڈنگ ہوتی نہ لاکھوں کارخانے فیکٹریاں اور دیگر کاروبار بند ہونے سے نصف کروڑ لوگ بے روزگار ہوتے۔ ایک طرف مسلم لیگ ن پیپلز پارٹی کی حکومت کو کرپٹ ترین قرار دے کر اس سے چھٹکارے کے لئے کوشاں اور اسے گرانے کی تحریک شروع کئے ہوئے ہے۔ دوسری طرف 20ویں آئینی ترمیم کی منظوری کی حمایت کے لئے محض ایسی شرائط پیش کر رہی ہے جس کا عوامی مسائل سے کوئی تعلق نہیں۔ اگر آپ نے حمایت کرنی ہے تو عوامی مفاد کی شرائط سامنے رکھیں۔ قوم کے نگلے ہوئے 94 ارب ڈالر اگلوانے کی بات کریں۔ بجلی و گیس کی فراہمی کا مطالبہ کریں۔ مہنگائی، بے روزگاری اور لاقانونیت کے خاتمے کا عہد لیں قومی سلامتی اور خود مختاری پر سمجھوتہ نہ کرنے پر قائل کریں۔بھارت کو پسندیدہ قوم قرار دینے کا فیصلہ واپس لینے پر مائل کریں۔ سب سے بڑھ کر پیپلز پارٹی کو ”ڈٹھے کھوہ“ میں پھینکے گئے کالاباغ ڈیم منصوبے کو باہر نکالنے پر مجبور کریں۔ ن لیگ نے اپنی تاریخ کا سب سے بڑا غیر دانشمندانہ فیصلہ خیبر پختون خواہ کی منظوری کی حمایت کرکے کیا تھا۔ اتنی بڑی بے اصولی کرنی تھی تو کالاباغ ڈیم کی تعمیر سے مشروط کر دیا جاتا بہرحال اب 20ویں ترمیم کی حمایت کالاباغ ڈیم کی تعمیر سے مشروط کرکے اس غلطی یا بے اصولی کا کسی حد تک ازالہ کیا جا سکتا ہے۔


No comments:

Post a Comment