About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Sunday, February 26, 2012

آمنہ.... عافیہ.... عدلیہ

 اتوار ، 26 فروری ، 2012

آمنہ.... عافیہ.... عدلیہ
فضل حسین اعوان
قانون یقیناً اندھا اور اسکے سینے میں پتھر کا دل ہوتا ہے۔ ایسا ہونا بھی چاہئے، اندھے قانون کی کوکھ سے ہی انصاف کی کرنیں پھوٹ کر بے انصافی کی تاریکیوں میں اجالے بکھیر دیتی ہیں لیکن ”قانون تو اندھا ہوتا ہے“ کی آڑ میں اندھیر مچانے سے معاشرے میں بے چینی پیدا ہونے کے ساتھ ساتھ منصف کا کردار پیشے سے کمٹمنٹ اور اہلیت بھی زیربحث آتی ہے۔ جمہوری آمروں سے زخم خوردہ قوم کی روح کو کبھی کبھی انصاف کا ترازو تھامنے والے بھی گھائل کرجاتے ہیں۔
17 فروری کو لاہور ہائیکورٹ کی عمارت میں اس وقت ہر آنکھ اشک بار ہوگئی جب 11 سالہ آمنہ کو اسکے باپ کی ”حبس بے جا“ سے نکال کر اسکی فرانسیسی ماں برینڈن برگر کے حوالے کردیا گیا۔ اس عدالتی حکم پر آمنہ نے چیختے، چلاتے اور دھاڑیں مارتے ہوئے آسمان سر پر اٹھا لیا جس سے وہاں کی فضا میں غم، دکھ اور کرب کا ارتعاش تو موجود تھا ہی، شائد بچی کی فریاد عرش سے بھی جا ٹکرائی ہو۔ بچی کی فریاد اور پکارپر خود جج صاحب بھی اپنے آنسو ضبط نہ کرسکے۔ ٹی وی پر یہ منظر دیکھنے والے لوگوں کی بھی آنکھیں تر تھیں۔ بچی نے جج صاحب سے کہا ”انکل میرے والد نے مجھے قرآن حفظ کرایا، مجھے کافر ماں کے حوالے نہ کریں، اگر یہ مسلمان ہوجائے تو میں اسکے ساتھ بخوشی چلی جاتی ہوں“ بچی فیصلے کے بعد اپنے دادا اور چچا سے لپٹی لیکن آمنہ کو برینڈن برگر کے حوالے کرنیوالے ہاتھ زیادہ سخت اور مضبوط تھے جن کو بے رحمانہ فیصلے پر عمل کرانا تھا حالانکہ دل انکے بھی رو رہے تھے۔ بچی کے باپ عبدالرزاق کو ایسے ہی فیصلے کا یقین تھا جس پر اسکے دل کی دھڑکن اس قدر بے قابو ہوئی کہ اسے ہسپتال لے جانا پڑا۔ اس نے فیصلہ ہسپتال کے بستر پر ہی سنا تو بے سدھ ہوگیا۔ ہوش آیا تو حالت بے ہوشی کی کیفیت سے زیادہ قابل رحم تھی۔ ایک رپورٹر نے رابطہ کیا تو اسکا یہ فقرہ معنی خیز تھا ”میں بیٹی کو لیکر 8سال تک چھپتا رہا لیکن ایجنسیوں نے ڈھونڈ نکالا“ اس فقرے کے پیچھے چونکا دینے والے حقائق ہیں جن سے ایک بار پھر ہمارے حکمرانوں کی اوقات، انکی نظر میں عوام کی حیثیت، ملکی خودمختاری اور قومی خودداری عیاں ہوگئی ۔ فرانسیسی عدالت نے آمنہ کو اسکی ماں کے حوالے کرنے کا فیصلہ دیا تھا۔ اس پر عمل سے قبل عبدالرزاق بیٹی کو پاکستان لے آیا۔ اب میڈیا میں اس خط کا تذکرہ ہو رہا ہے جو فرانس کے سفارت خانے کی جانب سے آئی جی پنجاب کو لکھا گیا جس میں کہا گیا ہے کہ صدر آصف علی زرداری کے دورہ فرانس کے دوران صدر سرکوزی نے انکے سامنے یہ معاملہ اٹھایا۔ صدر صاحب نے یہ معاملہ وزیر داخلہ رحمان ملک کے حوالے کیا تھا۔ آمنہ کے باپ کے اس فقرے ”ایجنسیوں نے ڈھونڈ نکالا“ اور کیوں ڈھونڈ نکالا؟ کی بخوبی سمجھ آجاتی ہے۔ 
آمنہ کو اسکی ماں کے حوالے کردیا گیا اسکے بعد اسکے والد کے پاس سپریم کورٹ جانے کا حق تھا جس سے اسے محروم کر دیا گیا۔ ادھر فیصلہ آیا‘ ادھر آمنہ کو اسکی ماں فرانسیسی قونصل خانے لے گئی اور اسی روز اسے فرانس پہنچانے کا اہتمام کر دیا گیا۔ آمنہ گیارہ پارے حفظ کر چکی تھی‘ وہ مشرقی روایات کا عملی نمونہ تھی۔ نماز کی پابند اور نقاب و حجاب پر کاربند۔ فرانس میں نقاب سکارف اور حجاب پر پابندی ہے جس پر عمل اسکی ماں نے ایئرپورٹ پر اترنے سے قبل کرالیا۔ آمنہ جہاز سے باہر آئی تو آنکھیں سوجی ہوئیں‘ چہرہ اترا ہوا اور سر غیرمسلم ماں کی شرم و حیا کی طرح ننگا تھا۔ علمائے کرام اور فقہیانِ عظام کی رائے ہے کہ نہ صرف مسلمان بچی کو اسکی غیرمسلم ماں کے حوالے نہیں کیا جا سکتا‘ بلکہ ماں مسلمان ہو اور وہ بھی بچی کو اسلامی ریاست سے غیراسلامی معاشرے میںلے جانا چاہتی ہو تو اسکی بھی اجازت نہیں۔ بچے یا بچی کی تربیت دارالسلام یعنی اسلامی معاشرے میں ہونی چاہیے۔ انسانی حقوق کی بات کرنیوالوں کو اسلامی قوانین کو بھی مدنظر رکھناچاہیے۔ دین اسلام میں انسانی حقوق کا کسی بھی مذہب سے بڑھ کر خیال رکھا اور تحفظ کیا جاتا ہے۔ بڑے جج صاحب اداکارہ سے شراب برآمد ہونے تک جیسے معمولی معاملات پر سوموٹو لے لیتے ہیں‘ کیا آمنہ کی پکار نے انکے دل پر دستک نہیں دی؟ کیا سپریم کورٹ میں آمنہ کے باپ کی اپیل سے قبل آمنہ کو بغیر پاسپورٹ کے ریمنڈ ڈیوس کی طرح اس لئے فوراً پاکستان سے نکال لیا گیا کہ اس کیس کے پیچھے صدر سرکوزی تھا جس کے ملک میں ہمارے صدر صاحب کا پانچ ایکڑ پر مشتمل باغات سے لدا پھندا‘ خوبصورت جھیلوں اور آبشاروں سے مزین و مرصع Manor of white Queen محل ہے۔ سرکوزی نے کچھ کیا‘اسے بطور صدر اپنی شہری کی دادرسی کیلئے ایسا ہی کرنا چاہیے تھے۔ 
مارچ 2009ءمیں شمالی کوریا نے دو امریکی خواتین کو جاسوسی کے الزام میں گرفتار کیا۔ انہوں نے خود کو صحافی ظاہر کیا تھا۔ جاسوسی کے جرم میں ان کو بارہ سال سزا سنا دی گئی۔ جون 2009ءکو سابق امریکی صدربل کلنٹن شمالی کوریا گئے۔ شمالی کوریا کے ایٹمی پروگرام پر دونوں ملکوں میں ”اِٹ کتے دا ویر“ ہے۔ کلنٹن نے شمالی کوریا کے صدر کم جانگ ال سے ملاقات کی اور جھکے سر کے ساتھ اینا اور لورا کی رہائی کی درخواست کی جسے کم نے قبول کرتے ہوئے انکی رہائی کا حکم دیدیا۔ دنیا یہ بھی جانتی ہے کہ برطانیہ پاکستان سے اپنے سزائے موت کے قیدی کو چھڑواکے لے گیا تھا۔ 
عافیہ صدیقی کی رہائی کےلئے کیا ہمارے صدر اور وزیراعظم نے ایسی سنجیدہ کوششیں کی ہیں‘ جیسی سرکوزی آمنہ کو پاکستان سے لے جانے اور اوبامہ نے کلنٹن کو بھجوا کر اینا اور لورا کو چھڑوانے کیلئے کیں۔ جس طریقے سے پاکستان امریکہ کی جنگ لڑ رہا ہے اسکے پیش نظر وہ امریکہ سے مقبوضہ کشمیر کی آزادی سمیت ہر مطالبہ منوا سکتا ہے۔ عافیہ صدیقی کی رہائی تو معمولی بات ہے لیکن شاید آج کے حکمرانوں کا اپنے پیشرو مشرف کی طرح احساس ہی مر چکا ہے۔ غیرت و حمیت اور ضمیر ہی ڈالروں بہا سے خوابیدہ ہو گیا۔
٭٭٭٭

No comments:

Post a Comment