About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Friday, February 17, 2012

امیدوں کے چراغ


فضل حسین اعوان

 امیدوں کے چراغ
اٹلی کا سلویو برلسکونی بالکل ایسا ہی چتر، چالاک اور شاطر وزیر اعظم تھا‘ جیسے بڑے نام کے سیاستدانوں سے پاکستانیوں کا واہ پڑا ہوا ہے۔ برلسکونی اور ہمارے اقتدار کے مدار المہاموں کے کارہائے نمایاں میں انیس بیس کا فرق ہے۔ کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ انیس کون اور بیس کون؟ جو بھگت رہے ہیں وہ اپنے اپنے سیاسی بڑوں کو بیس قرار دیتے ہیں۔ ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق برلسکونی کرپشن، فراڈ، دھوکہ دہی، غبن وغیرہ کے بل پر دولت مند ہوا۔ پھر پیسے کے بل پر سیاست میں داخل ہوا اور سترہ سال تک وقفے وقفے سے اٹلی کا وزیر اعظم رہا۔ اس دوران سلویو برلسکونی پر مقدمات چلے لیکن وہ بچتا رہا۔ سلویو برلسکونی پر مختلف مقدمے چل رہے تھے چنانچہ اس نے اپنی پارٹی کے ارکان کے تعاون سے ایسے کئی قوانین بنائے جو اسے عدلیہ اور قانون سے محفوظ رکھیں۔ برلسکونی ہی اٹلی میں سب سے بڑی میڈیا کمپنی، میڈیا سیٹ کا مالک ہے۔ چنانچہ اس کے اخبارات ٹی وی نیٹ ورکس نے ہمیشہ اسے دیوتا کی حیثیت سے پیش کیا ‘ جیسے ہمارے حکمرانوں کوPTV پیش کراتا ہے۔حالانکہ برلسکونی انتہائی عیاش آدمی تھا۔ طوائفوں کی خدمات حاصل کرنا اس کا وتیرہ تھا اور سیاسی سازشیں اپنانا عادت مغلظہ۔جنوری 2010ءمیں جب وزیر اعظم برلسکونی کو محسوس ہوا کہ میلان کی عدالت اسے کرپشن اور فراڈ کے دو کیسوں میں طلب کرنے والی ہے تو اس نے سینٹ سے اپنا ”عارضی استثنیٰ“ منظور کرا لیا۔ اس استثنیٰ کی رو سے برلسکونی کو یہ حق مل گیا کہ وہ ”اہم“ عوامی ذمے داریاں انجام دینے کے باعث اٹھارہ ماہ تک عدالت میں حاضر نہیں ہو سکتا۔اسی استثنیٰ کے خلاف میلان کے سرکاری وکیل سپریم کورٹ پہنچ گئے۔ جنوری 2011ءمیں اٹلی کے کئی سو ججوں نے استثنیٰ کے خلاف مظاہرہ کیا۔ جنوری 2011ءہی میں سپریم کورٹ نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے عارضی استثنیٰ کا قانون کالعدم قرار دے ڈالا۔ سپریم کورٹ نے فیصلے میں لکھا کہ یہ قانون آئین کی شق 3 کے منافی ہے اس شق کی رو سے اٹلی کے تمام شہری یکساں معاشرتی درجہ رکھتے ہیں۔اسلام میں 14سو سال قبل یہ فیصلہ ہوچکا ہے ۔استثنیٰ سے محروم ہونے کے بعد برلسکونی پہلی مرتبہ 28مارچ 2011ءکو عدالت میں حاضر ہونے پر مجبور ہوگیا۔ اس کے بعد مختلف مقدمات کے سلسلے میں وہ عدالتوں کے چکر لگاتا رہا۔ برلسکونی اور اس کے وکلاءمختلف ہتھکنڈے استعمال کرکے کیس لٹکائے رکھتے تھے۔جیسے ہمارے ہاں چار سال سے ہو رہا ہے۔ یوں کئی مقدمے اس لیے خارج ہوئے کہ ان کے گواہ ہی ادھر ادھر ہو گئے۔ ہمارے این آئی سی ایل کیس ایسی ہی مثا ل ہے۔پھر وہ جان بوجھ کر مقدمے کی تاریخوں میں بین الاقوامی دورے رکھ دیتا یا میٹنگیں کرتا پھرتا۔ قانون کو چکمہ دینے پر برلسکونی اظہار فخر کرتا تھا۔ایسا ہی ہمارے سیاست دان کرتے ہیں۔سفارش، رشوت اور دھونس کی وجہ سے ایک مقدمے کے سوا برلسکونی کو کبھی سزا نہ ہو سکی۔ چنانچہ 2006ءمیں اس نے بڑے فخریہ لہجے میں کہا عدالتیں میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں بلکہ مجھے فخر ہے کہ میری مزاحمت اور قربانیوں کے ذریعے اطالوی عوام کو ایک موثر عدالتی نظام میسر آ جائے گا۔مغرو ر متکبر اور چالاک برلسکونی کے گرد قانون کا گھیرا تنگ ہوتا گیا۔لیکن وہ ہمارے گیلانی صاحب کی طرح اقتدار سے چمٹا رہنا چاہتا تھا لیکن اس حرکتوں کے باعث اس کے ساتھی اس کو چھوڑتے گئے اس کی اکثریت اقلیت میں بدلی تو16 نومبر 2011 کو استعفیٰ دیدیا۔پیپلز پارٹی کے اتحادیوںکے اعصاب مضبوط ہیں،نظر کمزور ہے کان قوت سماعت سے محروم ہیں؟۔اور تو اور سپریم کورٹ کی جانب سے ملزم قرار دینے کے باوجود ان کے دامن سے لپٹے ہیں ۔ شاید ان کے دامن سے نہیں اقتدار کے دامن سے چمٹے ہیں ۔ جو بھی مقتدر ہو اس کے ساتھی ہیں۔ہمارے حکمرانوں کے سارے کام برلسکونی جیسے ہیں انجام بھی خیر سے ویسا ہی ہو گا۔
سوہارتو طویل عرصہ اقتدار میں رہا۔ اس کی حکمرانی کے پہلے دس سال میں انڈونیشیا نے ریکارڈ ترقی کی پھر اس کی حکمرانی ذاتی مفادات کی کھیتی بنتی گئی۔ اس نے بھی اپنی اولادوں، رشتہ داروں، اور دوستوں پر نوازشات کی بھرمار کر دی۔ اقتدار سے گیا تو اس کے ڈکلیئر اثاثہ جات کی مالیت35 ارب ڈالر تھی۔ جان سے گیا تو حکومت نے قوم کے خون کے قطرے قطرے کا حساب لے لیا۔ آج سوہارتو کی لوٹ مار سے اکٹھا کیا گیا پیسہ انڈونیشیا کی مزید ترقی و خوشحالی کے لئے استعمال ہو رہا ہے۔
نیکلس کی کہانی تو ہم نے پڑھ رکھی ہے۔ نہیں نہیں ترک وزیراعظم طیب اردگان کی اہلیہ ایمن کے نیکلس کی نہیں۔ ایمن نے جو نیکلس سیلاب متاثرین کےلئے دیا تھا وہ مستقلاً یا عاریتاً کس کے پہناوے کا حصہ ہے اس بارے میں تاریخ اور انویسٹی گیشن رپورٹنگ والے خاموش ہیں۔ ہم اس کہانی کی بات کر رہے ہیں۔ جس کے ایک کردار نے اپنی امیر کبیر سہیلی سے نیکلس ایک شادی میں شرکت کیلئے لیا تھا۔ بدقسمتی سے شادی کے دوران وہ ہار گر گیا۔جس سے ہار گنوانے والی اور اس کا شوہر حواس باختہ ہو گئے۔ بہرحال ادھار تو لوٹانا تھا۔ ایسا ہی ہیروں کا ہار بنوانے کیلئے جوڑے نے یہاں اپنی ضروریات مختصر کیں وہیں دن رات ایک کر دیا۔ مشقت محنت اور کسی حد تک فاقہ کشی سے ان کی حالت بالکل ایسی ہو گئی جیسی آج ہمارے حاکموں کی سختیوں، وسائل پر دسترس لوٹ مار اور فارن اکاﺅنٹس بھرنے کی حسرت اور اقدامات کے باعث مسائل و مصائب زدہ ا ور بحرانوں میں گھرے عوام کی ہو چکی ہے۔ کپڑوں کا رنگ اڑا، چہرے کا روپ گیا، آواز میں لرزش، چال میں لغزش.... کوڑی کوڑی جوڑ کر جوڑے نے خوبصورت چمکتا دمکتا لشکارے مارتا ہیروں اور جواہرات کا نیکلس خریدا۔ ادھار لوٹانے گئے مالکن خاتون کو سارا ماجرا سناتے ہوئے ہار اس کے سامنے رکھا تو وہ بڑی حیران ہوئی اور یہ کہہ کر اس جوڑے کو ششدر اور ساکت کر دیا کہ کھو جانے والا ہار تو نقلی تھا۔ جوڑا سکتے سے باہر آیا تو خوشی سے ان کا چہرہ چمک اٹھا۔ سالوں کی تھکن مشقت اور نقاہت دور ہو گئی.... قوم فکر نہ کرے آج ان کی محنت کی لوٹی گئی ایک ایک پائی سوئٹزرلینڈ کے بنکوں میں جمع ہو رہی ہے۔ برلسکونی والا انجام بھی ہم دیکھیں گے۔ سوہارتو والا احتساب بھی نظر آئے گا۔ سوئٹزر لینڈ کے نئے قانون کے مطابق سوئس بنک لوٹ مار کا پیسہ واپس اس ملک کو دینے کے پابند ہیں۔ بعد از مرگ تو یقیناً کیس کیا جائے گا لٹیرے کی زندگی میں بھی ہوسکتا ہے۔حساب تو آخر دینا ہی ہو گا۔ اندازہ کیجئے کھربوں روپے واپس قومی خزانے میں آئے تو قوم کو ایسی خوشیاں ملیں گی جیسی پائی پائی جوڑ کر اصل ہار خریدنے والے جوڑے کو اس کی اپنی ملکیت ہونے پر ملی تھیں۔ زرق برق لباس، پرنور چہرے سخن میں لطافت چال میں وقار، ہر طرف ترقی و خوشحالی!!awan368@yahoo.com


No comments:

Post a Comment