اتوار ، 19 فروری ، 2012
فوج‘ آئی ایس آئی کےخلاف امریکی و بھارتی گماشتوں کی سازشیں
فضل حسین اعوان
یو ایس ایس آر ٹوٹا تو یو ایس اے کو دنیا کی واحد سپر پاور ہونے کا اعزاز مل گیا۔ USSR کو ٹکڑوں میں بکھیرنے میں نوے فیصد کردار پاکستان کا تھا گویا امریکہ اگر دنیا کی واحد سپر پاور بنا تو اس میں پاکستان کا کردار اہم ترین تھا۔ عالمی تھانیدار بننے کے بعد امریکہ کو انکساری تحمل اور بردباری سے کام لینا چاہئے تھا لیکن اس نے پوری دنیا کو اپنی لائن پر چلانے کی کوشش کی۔ اس میں اسے کامیابیاں بھی ملیں۔ تو اس کا حوصلہ بڑھتا چلا گیا۔ اپنی چودھراہٹ کے زعم میں اسے ویتنام سے ملنے والا سبق بھول گیا اور پھر سے جنگ و جدل اور ملکوں کو فتح کرنے نکل پڑا۔ کس کو جینے کا حق دینا ہے‘ کس سے یہ حق چھین لینا ہے وہ اسے اپنا حق سمجھتا ہے۔ پاکستان میں اکثر امریکہ کے حوالے سے غلامانہ ذہنیت کے حکمران آئے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے جرات رندانہ کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایٹمی پروگرام کے حصول کی کاوش کی تو امریکہ کی نظر میں مطعون ٹھہرے۔ دھمکیوں کو بھی خاطر میں نہ لائے تو پی این اے بنوا کر ان کا تختہ الٹوا دیا۔ پھر تختہ دار پر بھی چڑھا دیا۔ بھٹو کی ہی طرح جنرل ضیاءالحق نے بھی ایٹمی پروگرام کو جاری رکھا۔ وہ بھی راندہ درگاہ ٹھہرے لیکن ان کی افغان وار میں امریکہ کو ضرورت تھی اس لئے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے درگزر سے کام لیا۔ روس افغانستان سے نکلا تو پاکستان کا ایٹمی پروگرام عروج حاصل کر چکا تھا۔ جس کا سہرا جنرل ضیاءالحق کے سر تھا اس لئے ان کا سر لے لیا گیا۔ امریکہ کے تن بدن میں پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر آگ لگی تھی اس پر میاں نواز شریف کے 28 مئی 1998ءکے دھماکوں نے تیل چھڑک کر اس آگ کو مزید بھڑکا دیا۔ امریکہ کو امید تھی کہ کبھی تو اس کی مرضی کی حکومت آئے گی جو ایٹمی اثاثے اس کے قدموں میں ڈھیر کر دے گی۔ اس کی امیدوں پر پانی یوں پھر گیا کہ ایٹمی اثاثوں پر مکمل کنٹرول فوج کے پاس ہے۔ یہی امریکہ اور اس کے حامی یا اتحادی ممالک کا دکھ ہے۔ وہ پاکستان کے ایٹمی اثاثوں تک اپنی دسترس کی راہ میں پاک فوج کو رکاوٹ سمجھتا ہے۔ یقیناً ایسا ہی ہے۔ ایٹمی پروگرام ”سیاسی قیادت“ کے ہاتھ میں ہوتا تو اب تک اس کو ترک کرنے کی قیمت لگ چکی ہوتی اور رقم سوئٹزر لینڈ کے بنکوں میں جمع ہو چکی ہوتی۔ امریکہ اس رکاوٹ کو ہٹانے کے لئے سرتوڑ کوشش کرتا ہے۔ فوج کے مضبوط ہوتے ہوئے اس کی کوئی سازش پنپ سکتی ہے نہ کوئی کوشش کامیاب ہو سکتی ہے لہٰذا وہ پاک فوج کو اس حد تک کمزور کر دینا چاہتا ہے کہ اس کی ایٹمی پروگرام پر گرفت ڈھیلی ہو جائے۔
پاکستان میں ایک طبقہ‘ میڈیا کا معتدبہ حصہ اور سیاستدانوں کا بڑا طبقہ فوج کو بدنام اور کمزور کرنے کے لئے باقاعدہ امریکہ کے پے رول پر ہے۔ پاک فوج کے حوالے سے امریکہ اور بھارت کی سوچ یکساں ہے۔ اس حوالے سے دانستہ یا نادانستہ ہمارے حکمران ان کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں۔ پاکستان بھارت جنگوں میں سیاستدان نہیں افواج کے اہلکار شہید ہوئے۔ مسئلہ کشمیر ہنوز حل طلب ہے۔ جس فوج نے کشمیر کی خاطر قربانیاں دیں وہ مسئلہ کشمیر کے حل تک بھارت کے ساتھ ہاتھ ملانے کا سوچ بھی نہیں سکتی چہ جائیکہ اس کے ساتھ تجارت اور اسے پسندیدہ ملک قرار دینے کی حمایت کرے۔ یہ جو کہتے ہیں کہ فوج کو اعتماد میں لیا گیا ہے ۔ سراسر جھوٹ ہے۔ بلکہ یہ فوج پر بہتان ہے۔ اگر واقعی فوج کو اعتماد میں لیا ہے تو اس پر فوج سے بیان بھی دلوا دیا جائے!
امریکہ نے ایٹمی اثاثوں تک رسائی کے لئے 2005ءکے زلزلے کے دوران امدادی کارروائیوں اور متاثرین کی بحالی کی آڑ میں سپیشل کمانڈوز اور سی آئی اے کے جاسوس پاکستان بھجوائے جس کا تذکرہ امریکہ میں شائع ہونے والی تازہ ترین کتاب ”دی کمانڈ ڈیپ ان سائیڈ دا پریذیڈنٹ سیکرٹ آرمی“ میں کیا گیا ہے۔ حسین حقانی نے ہزاروں مشکوک امریکیوں کو ویزے دان کر دئیے ان کا مقصد ایٹمی اثاثوں تک رسائی تھی لیکن پاکستان کا ایٹمی پروگرام کسی بھی ملک کے پروگرام سے زیادہ محفوظ ہے۔ امریکہ برطانیہ فرانس اور روس کے ایٹمی پروگرام کے گرد چار چار حفاظتی سرکل ہیں پاکستان کے پروگرام کے گرد پانچ ہیں۔ (1) سائنسدان (2) انجینئرز (3) انٹیلی جنس (4) فوج (5) انتظامیہ‘ اگر سرتوڑ کوشش کے باوجود امریکہ کے ماہر دہشت گرد اس تک نہیں پہنچ سکے تو اور کوئی بھی کبھی نہیں پہنچ سکتا۔ غیر محفوظ ہاتھوں کا واویلا فوج کو کمزور کرنے کا سوچا سمجھا منصوبہ ہے۔ بلوچستان میں جو کچھ ہوتا ہے وہ بھی فوج کو بدنام کرنے کے لئے کیا جا رہا ہے۔ بلوچستان کے 27 اضلاع میں سے پانچ میں شورش ہے کوئٹہ‘ قلات‘ خضدار‘ بگٹی اور کوہلو ان اضلاع میں موجود اور بیرون ممالک مقیم علیحدگی پسندوں کو امداد بھارت اور امریکہ کی طرف سے ملتی ہے۔ را‘ سی آئی اے اور موساد ٹریننگ افغانستان میں دیتی ہےں۔ امریکی کانگریس کمیٹی میں بلوچستان کی آزادی کی بات ہوئی تو حربیار مری کی سرگرمیاں تیز ہو گئیں اس نے لندن میں خان آف قلات سلمان دا ¶د خان اور جنیوا میں براہمداغ بگٹی سے ملاقاتیں کیں۔ جن میں بلوچستان کی آزادی کے منشور کی بات ہوئی۔ کیا یہ ملاقاتیں امریکہ کی آشیرباد کے بغیر ممکن ہیں؟ امریکہ جند اللہ کھڑی کرکے پاکستان ایران تعلقات خراب کرنے کی سازش بھی کر رہا ہے۔ بلوچستان میں ایف سی موجود ہے جس کو اپنی بیرکوں سے نکلنے کی اجازت نہیں۔ صوبائی حکومت جہاں چاہے اسے ڈپلائے کر سکتی ہے۔ اگر کوئی کارروائی ہوتی ہے تو بلوچستان حکومت کے حکم پر ہوتی ہے۔ شور مچایا جاتا ہے کہ فوج نے یہ کر دیا۔ وہ کر دیا۔ اس پر سیاستدان چپ سادھ لیتے کہ فوج بدنام ہو رہی ہے‘ ہوتی رہے۔(جاری ہے)
No comments:
Post a Comment