فروری,16 ، 2012
جلاد ۔۔۔ قصاب
فضل حسین اعوان ـ
برطانوی ہفت روزہ اکانومسٹ نے ”بھارت کا آخری جلاد“ کے عنوان سے لکھنو کے احمد اللہ کے پیشے اور اس کی شخصیت کے دلچسپ پہلووں سے پردہ اٹھایا ہے۔ احمد اللہ کا آبائی پیشہ سزائے موت کے قیدیوں کو پھانسی کے ذریعے موت سے ہمکنار کرنا ہے۔ اس حوالے سے اسے جلاد ہی کہا جائے گا۔ وہ اپنے پیشے کے حوالے سے اپنے گھر پر کسی سے بات کرنے کے لئے تیار ہے نہ اس کی چرچا چاہتا ہے کہ لوگ اس کے پیشے سے آگاہ ہو سکیں۔ اسے اپنے پیشے پر کوئی شرمندگی تو نہیں لیکن لوگ چونکہ اس پیشے کو پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھتے اس لئے وہ بھی نہیں چاہتا کہ لوگ آئیں اور اسے ایک احمق کے طور پر دیکھیں۔
1965ءمیں احمد اللہ نے اپنے باپ سے لکھنو کے چیف جلاد کا چارج لیا تھا۔ اس وقت اسے تنخواہ کے علاوہ ایک سزا یافتہ انسان کو موت کی لکیر پار کرانے پر 25 روپے (5 ڈالر) ملتے تھے۔ اسے اپنے فریضے کی ادائیگی کے لئے دہلی‘ آسام اور مدھیہ پردیش بھی جانا پڑتا تھا۔ اب تک وہ 40 انسانوں کا ان کی روح اور جسم کے درمیان رشتہ ختم کرا چکا ہے۔ اب اس کا بزنس مندے کا شکار ہے۔ آخری مرتبہ اس نے 20 سال قبل آسام کے ایک نوجوان کو پھانسی پر لٹکایا تھا جس نے ایک بچے کو اغوا کے بعد قتل کر دیا تھا۔ ان دنوں اس کے معاوضے میں حیرت انگیز اضافہ ہو چکا تھا‘ 10 ہزار روپے فی پھانسی۔ بھارت میں موت کی سزا پر بہت کم عملدرآمد ہوتا ہے۔ آخری پھانسی 17 سال قبل دی گئی تھی۔ بھارت میں سزائے موت کے خلاف اشرافیہ ایک باقاعدہ مہم چلائے ہوئے ہے لیکن اب چونکہ اجمل قصاب کو ممبئی حملوں میں مجرم قرار دے کر سزائے موت سنا دی گئی ہے اس لئے ہندو اشرافیہ نے سزائے موت کے خلاف مہم کو بھی معرض التوا میں ڈال رکھا ہے۔ اگر قصاب بھارتی ایجنسیوں کا مہرہ نہیں تو احمد اللہ کی خدمات آخری بار اجمل قصاب کو لٹکانے کے لئے حاصل کی جا سکتی ہیں۔ اس کے بعد شاید سزائے موت کے خاتمے کے لئے قانون سازی کر دی جائے۔ احمد اللہ ایک مسلمان کے طور پر سزائے موت کے خاتمے کے حق میں نہیں اس کے نزدیک سزائے موت کا خاتمہ کیا گیا تو جو لوگ پھانسی کے خوف سے انتہائی قدم نہیں اٹھاتے۔ سزائے موت کے خاتمے سے ان کی حوصلہ افزائی ہو گی۔ آج اس کا اپنی تنخواہ میں بمشکل گزارہ ہوتا ہے۔ اس کا پھانسی الاونس تقریباً بند ہو چکا ہے۔ اسے جس کام کے لئے رکھا گیا تھا وہ 20 سال سے نہیں ہو رہا۔ ایک وقت وہ تھا کہ انگریزوں نے اتنے لوگوں کو سزائے موت کا حکم سنایا کہ احمد اللہ کے باپ کے پاس سر کھجانے کا بھی وقت نہیں ہوتا تھا اگر اس وقت معاوضہ وہی ہوتا جو احمد اللہ نے آخری پھانسی پر (10 ہزار) وصول کیا تھا تو یہ جلاد خاندان کروڑ پتی ہو چکا ہوتا۔ وہ پھانسی میں اسے اپنی مہارت قرار دیتا ہے کہ اس نے جس کو بھی پھندا لگایا اس کی فوری اور کم از کم تکلیف کے ساتھ جان جان آفرین کے سپرد ہو گئی۔ تارا مسیح کا بھی یہی دعویٰ تھا۔ احمد اللہ کو اپنے پیشے اور کارکردگی پر فخر ضرور ہے لیکن لوگ چونکہ اس پیشے کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں وہ ان کی چبھتی نظروں کا سامنا نہیں کر سکتا اس لئے وہ اس بزنس کو اپنی اولاد تک منتقل نہیں کرنا چاہتا۔ وہ کہتا ہے کہ وہ اپنے خاندان کا آخری جلاد ہے۔
ہمارے ہاں جلاد اور قصاب کو بے رحم‘ ظالم اور سنگ دل کے معانی میں لیا جاتا ہے۔ ضروری نہیں کہ پیشہ ور جلاد اور قصاب کی فطرت بھی جلادی اور قصابی ہو۔ جیسے احمد اللہ کی کوشش ہوتی ہے کہ مرنے والے کو ممکنہ حد تک کم تکلیف ہو۔ قصاب بھی چھری کی دھار کو انتہائی کاٹ دار بنا کر ہی جانور کے گلے پر پھیرتے ہیں۔ ان کا مقصد ذبیحہ تو ہے ہی ساتھ خیال رکھا جاتا ہے کہ جانور کی تڑپے بغیر روح نکل جائے۔
ہمارے ہاں عرف عام میں جن کو جلاد و قصاب کہا اور سمجھا جاتا ہے ان کے چہرے بے نقاب ہو چکے ہے۔ سرعام انسانوں کو خون میں نہلا دینا‘ آگ میں جلاد بنا‘ ٹارگٹ کلنگ میں اڑا دینا یہ جلادی قصابی اور فسادی کارروائیاں آئے دن دیکھنے میں آتی ہیں۔ ان کے دل احمد اللہ اور تارا مسیح جیسے ترحم سے خالی ہیں۔
آج کے حکمران بھی جلادوں اور قصابوں کا ہی روپ بہروپ ہیں۔ حمزہ شہباز کہتے ہیں کہ سالانہ 10 ہزار ارب کی کرپشن ہوتی ہے۔ اسے مبالغہ سمجھ لیا جائے تو ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ تو مصدقہ ہے کہ گذشتہ 4 سال میں 8500 ارب روپے کی لوٹ مار ہو چکی ہے۔ یہی قومی خزانے میں موجود ہوتے تو آج مہنگائی بیروزگاری اور خود کشیوں کی وہ صورت حال نہ ہوتی جو آج درپیش ہے۔ اپنی توندیں بڑھانے اور بنک اکاونٹس بھرنے والے ہی کروڑوں ہم وطنوں کے دکھوں‘ تکلیفوں‘ مسائل‘ مصائب کے ذمہ دار اور ان کی امنگوں و آرزوں کے قاتل ہیں۔ احمد اللہ اور تارا مسیح کی بھی کوشش ہوتی تھی سولی پر چڑھنے والے کی جان آسانی سے نکل جائے لیکن یہ جلاد اور قصاب بے بس‘ بے کس اور لاچار لوگوں کو جان کنی کے عالم میں دیکھ کر شاید محظوظ ہوتے ہیں۔ احمد اللہ نے کہا ہے کہ وہ اپنے خاندان کا آخری جلاد ہے خدا کرے کہ قومی سلامتی اور خودداری کا سودا کرنے والے اور ملک و قوم کو ہر بحران میں مبتلا کرنے والے جلاد اور قصاب صفت لوگ پاکستان کے حکمران نہ بن سکیں۔ پاکستان اقبالؒ و قائدؒ کا اسلامی جمہوری فلاحی عوامی پاکستان ہو!
No comments:
Post a Comment