29-1-2012
دیدہ عبرت
فضل حسین اعوان
ابراہم لنکن کو امریکی تیسری مرتبہ بھی صدر منتخب کرنا چاہتے تھے‘ اس وقت کوئی آئینی پابندی بھی نہیں تھی لیکن پہلے امریکی صدر نے تیسری بار صدر بننے سے یہ کہہ کر معذرت کرلی کہ اسکے جو نظریات تھے‘ وہ ان کو بروئے کار لا چکے۔ اب نئے لوگ آئیں اور اپنے نظریات آزمائیں۔ یہ صدیوں پہلے کی بات ہے۔ موجودہ دور میں مہاتیر محمد اور نیلسن منڈیلا نے اپنے اپنے ملک کو ترقی کے آسمان پر پہنچا کر عوامی محبت‘ مطالبات اور دباﺅ کے باوجود اقتدار میں مزید رہنے سے معذرت کرلی۔ آج وہ جہاں سے گزرتے ہیں‘ لوگ عقیدت و احترام سے راہوں میں پلکیں بچھاتے نظر آتے ہیں۔ دوسری طرف خود کو عقل کل سمجھنے‘ اختیار و اقتدار کو اپنی ذات میں مرکوز اور محدود کرنے والوں کا انجام بھی سامنے ہے۔ شہنشاہ ایران رضا شاہ پہلوی کا مکمل تکیہ امریکہ پر تھا۔ اہل ایران شہنشاہ کے جبر سے تنگ آئے تو قہر بن کر اس پر ٹوٹ پڑے۔ انجام کار شہنشاہ کو نہ صرف اپنی سلطنت چھوڑ کر بھاگنا پڑا‘ بلکہ اس پر دنیا بھی اتنی تنگ ہو گئی کہ کہیں جائے پناہ نہ مل سکی۔ اگر ایران میں انصاف کا دور دورہ ہوتا‘ عوام مذہبی حوالے سے مطمئن اور مالی لحاظ سے خوشحال ہوتے تو شاید آج بھی ایران میں بادشاہت ہوتی۔ فلپائن کے مارکوس کو بھی امریکہ کی غلامی پر ناز تھا‘ وہ اس زعم میں اپنے ملک کو لوٹتا اور عوام کا خون چوستا رہا‘ اسکی پالیسیاں امریکی خوشامد کے بجائے عوامی مفاد میں ہوتیں تو وہ یقیناً دربدر بھٹک کر مرنے سے بچ جاتا۔ نجیب اللہ نے اپنی قوت ایمانی اور غیرت افغانی روس کے قدموں میں ڈھیر کر دی۔ اپنے ہی ہم وطنوں کا خون بہایا‘ اسکے دور میں افغانستان میں عوامی رائے کو کچلا اور مخالفین کا بے دردی سے خون بہایا گیا۔ اس کا مربی بھاگا تو ستمگر نجیب اللہ ستم زدہ لوگوں کے ہاتھوں کتے کی موت مارا گیا۔ کرین سے لٹکی اسکی لاش کئی دن تک دیدہ عبرت بنی رہی۔ نجیب غیرملکی قبضہ کیخلاف افغانوں کے ساتھ کھڑا ہوتا تو اس کا اقتدار طویل نہ بھی ہوتا‘ وہ عزت کی موت کا حقدار ضرور ہوتا۔ زین العابدین بن علی نے سرزمین تیونس خدا کے نام لیواﺅں پر تنگ کردی‘ خدا کے بجائے امریکہ کو مقتدر اعلیٰ سمجھتا رہا۔ ملک میں بھوک ناچتی تھی‘ جبکہ اسکی اہلیہ دولت اور سونے کے انبار لگاتی رہی‘ پھر اس جوڑے کو ایک ریڑھی والے کی موت نے موت سے اتنا ڈرایا کہ سرزمین کعبة اللہ میں پناہ لینا پڑی۔ یہ جوڑا مال و زر جمع کرنے کے بجائے اپنے لوگوں کے مسائل کی طرف توجہ دیتا تو بعید نہیں وہ عوام کی آنکھوں کا تارا ہوتے۔ حسنی مبارک کو عظیم اسلامی مملکت مصر کا اقتدار ملا‘ وہ ڈالر جمع کرتا رہا‘ نہ صرف امریکہ کی حاشیہ برداری کی بلکہ ملی غیرت مسلمانوں کے سب سے بڑے دشمن اسرائیل کے قدموں میں رکھ دی۔ آج اس کی حالت دنیا کے سامنے ہے۔ بستر پر لیٹا جانوروں کی طرح جنگلے میں بند ہو کر عدالت میں پیشیاں بھگت رہا ہے۔ کرنل قذافی نے لیبیا کی ترقی اور اپنے ہم وطنوں کو جگانے میں اہم کردار ادا کیا لیکن وسائل مکمل طور پر اپنے عوام تک نہ پہنچائے۔ عرب ممالک کے عوام کو جو سہولیات میسر ہیں‘وہ لیبیا کے شہریوں کےلئے ایک خواب تھا۔ صرف 56 لاکھ کی آبادی کو وسائل کے مطابق دنیا کی ہر جدید سہولت گھر بار تک فراہم کیا جا سکتا تھا لیکن صحرا نشیں کی شہرت کا حامل قذافی اپنے لوگوں کی نفسیات سمجھنے سے قاصر رہا جس کو خود اسکی رعیت نے نشانِ عبرت بنا دیا جن کو وہ چوہے اور کیڑے مکوڑے قرار دیتا تھا‘ وہ اسے گلے میں رسا ڈال کر گھسیٹتے رہے اور بالآخر گولیوں سے بھون ڈالا۔ اپنے مشرف کا انداز حکمرانی بھی جابرانہ اور کافی حد تک ملحدانہ تھا۔ اس نے قومی و مذہبی اقدار کیخلاف اقدامات نہ کئے ہوتے تو آج دربدر لور لور نہ پھرتا۔ تقدیر اور مقدر اٹل حقیقت ہے لیکن مقدر کے بنانے اور بگاڑنے پر انسان خود بھی قادر ہے۔ برائی کی کوکھ سے نیکی جنم نہیں لے سکتی‘ آگ کے شعلے ٹھنڈک نہیں دیتے‘ کانٹوں سے گزر کر پھول کے لمس کا احساس ناممکن ہے‘ جو بیجا ہے‘ وہی کاٹنا پڑیگا۔ عوام کا خون چوس کر ان سے ہی پذیرائی کی توقع حماقت ہے۔ قومی سلامتی و خودمختاری غیروں کے آگے گروی رکھ کر حب الوطنی کے دعوے اور نعرے جہالت اور اہل وطن کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے۔ آج ہمارے سیاست دان حکومت میں ہیں یا اپوزیشن میں‘ جو کچھ کر رہے ہیں‘ وہ لمحہ بہ لمحہ تاریخ کا حصہ تو بن ہی رہا ہے مگر افسوس یہ تاریخ جو ہمارے حکمران رقم کر رہے ہیں‘ وہ برے الفاظ میں ہی لکھی جا رہی ہے‘ عوام بھی اس کو مانیٹر کر رہے ہیں۔ حکمران ٹھنڈے دل سے سوچیں کہ وہ عوام کے سروں پر حکمرانی کر رہے ہیں یا دلوں پر؟ عوام کو سبز باغ دکھانے‘ ان کیلئے دودھ اور شہد کی نہریں بہانے کے دعویدار سوچیں انہوں نے عوام اور وطن کیلئے کیا کیا؟ وہ تاریخ میں کس حیثیت اور نام سے یاد کئے جائینگے؟ وہ اپنی ”قومی خدمت“ کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے مقام کا آسانی سے تعین کر سکتے ہیں‘ کس فہرست میں نام لکھوانا چاہتے ہیں‘ ابراہم لنکن‘ مہاتیر محمد‘ منڈیلا کی لسٹ میں یا رضا پہلوی‘ نجیب اللہ‘ ابن علی‘ قذافی‘ حسنی مبارک اور مشرف جیسوں کی فہرست میں؟ جلدی سوچیں‘ وقت بہت کم اور کرنے کو بہت کچھ ہے۔ ایک سال کی مدت کم نہیں‘ خلوص نیت سے کام کریں تو بہت کچھ نیا ہو سکتاہے۔ چار سالہ سیاہ کاریوں کا ازالہ ملک و ملت کا نام دوبالا اور وطن عزیز میں ترقی و خوشحالی کا اجالا بھی۔
No comments:
Post a Comment