منگل ، 28 فروری ، 2012
شہباز پاکستان سے!
فضل حسین اعوان ـ
شہباز شریف نے 17 فروری کو نظریہ پاکستان کانفرنس میں کئی موضوعات پر جوش خطابت کے جوہر دکھائے۔ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے فرمایا۔ ”کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔ یہ بات ہمارے بزرگوں اور قائداعظم نے کہی تھی۔ کشمیر اسی صورت میں پاکستان کا حصہ بن سکتا ہے۔ جب ہم کردار عظمت دیانت‘ امانت اور مسلسل محنت سے کام کریں۔ کشمیر کو پاکستان کا حصہ بنانے کے لئے نعروں کے بجائے عملی اقدامات کرنا ہوں گے۔ کشمیر اس وقت پاکستان بنے گا جب میثاق مدینہ پر عمل ہو گا۔“
باتوں سے کشمیر کی آزادی ممکن ہوتی تو کشمیر پر ہمارے حکمران‘ سیاستدان اور دیگر طبقات کے لوگ جتنا زبانی جمع خرچ کر چکے ہیں اس سے اب تک کشمیر آزاد ہو چکا ہوتا۔ کشمیر پر جس مکار دشمن کا قبضہ ہے اس پر باتوں کا کوئی اثر نہیں ہو سکتا۔ وہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کو کوئی اہمیت نہیں دیتا۔ باتوں سے کیا اثر لے گا۔ شہباز شریف نے بھی تسلیم کیا ہے کہ قائداعظم کشمیر کو پاکستان کی شہ رگِ قرار دیتے تھے۔ قائداعظم نے تو شہ رگ پاکستان کو دشمن کے پنجہ استبداد سے چھڑانے کے لئے طاقت استعمال کرنے کی کوشش بھی کی تھی۔ جس پر بھارت بھاگا بھاگا اقوام متحدہ چلا گیا۔ اقوام متحدہ نے جنوری 1949ءکو کشمیریوں کے لئے استصواب کی قررداد منظور کی تھی۔ اس کے بعد سے آج تک بھارت نے پاکستان کو مذاکرات میں الجھا کر مسئلہ کشمیر کو لٹکایا ہوا ہے۔ بھارت نے 1956ءمیں استصواب کی قرارداد کی موجودگی کے باوجود مقبوضہ وادی کو آئین میں ترمیم کرتے ہوئے بھارت کا صوبہ قرار دے دیا۔ اس کے ساتھ اٹوٹ انگ کا راگ بھی الاپنا شروع کر دیا۔ اب بھارت اگر مسئلہ کشمیر کے حل پر آمادگی ظاہر کرتا ہے تو اس کی نظر میں متنازعہ وہ علاقے ہیں جو قبائلیوں نے قوت بازو سے آزاد کرائے تھے۔ قبائلیوں کی انہیں خدمات پر قائداعظم نے ان کو پاکستان کا بازوئے شمشیر زن قرار دیا تھا۔ آج امریکہ کی ڈکٹیشن پر انہی قبائلیوں کی نسلوں کی گردن اور بازو حکومتی شمشیر کی زد میں ہیں۔
بھارت جسے اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتا ہے۔ اس نے جسے آئین میں ترمیم کرکے اپنا صوبہ ڈیکلر کر لیا ہے کیا وہ آسانی سے اس سے دستبردار ہو سکتا ہے؟ جبکہ مذاکرات کے فریب کا ایک طویل عرصہ بھی ہندو کی بدنیتی کا گواہ ہے۔
بھارتی لوک سبھا کی سپیکر میرا کماری کی اسلام آباد میں بھی زبردست پذیرائی ہوئی۔ لاہور میں بھی اس مورکھ کو آنکھوں پہ بٹھایا گیا۔ شہباز شریف نے اس کے اعزاز میں دئیے گئے ظہرانے میں یہاں یہ کہا کہ ”پاکستان اور بھارت کو آپس میں اچھے ہمسایوں کی طرح رہنا ہو گا۔ باہمی تعلقات کے فروغ کے ساتھ ساتھ کشمیر سمیت تمام تنازعات کے حل کی مساعی بھی جاری رہنی چاہئے تاکہ برصغیر میں پائیدار امن قائم ہو اگر ہم اپنے مسائل گفت و شنید کے ذریعے حل کرتے اور وسائل جنگوں پر برباد کرنے کی بجائے ترقی اور عوامی بھلائی پر صرف کرتے تو دونوں ممالک ترقی کی کئی منازل طے کر چکے ہوتے۔ وقت آگیا ہے کہ دونوں ملک جنگ کی راہ چھوڑ کر امن کا راستہ اپنائیں اور اپنے وسائل لوگوں کی فلاح و بہبود اور ان کا معیار زندگی بلند کرنے پر صرف کریں۔“ شہباز شریف نے وہاں اشعار کے ذریعے بھی اپنے جذبات کا اظہار کیا۔ شہباز شریف نے یہ شعر پڑھا
معجزہ کوئی تو اب شعلہ گفتار کرے
کیا ضروری ہے ہر اک فیصلہ تلوار کرے
وزیراعلیٰ نے یہ شعر سنا کر وہاں موجود ”آوے ای آوے‘ جاوے ای جاوے“ کی شہرت رکھنے والوں سے بے پناہ داد وصول کی۔
اک شجر پیار کا ایسا بھی لگایا جائے
جس کا ہمسائے کے آنگن میں بھی سایہ جائے
آپ کے اُگائے ہوئے درخت کا سایہ یقیناً ہمسائے کے آنگن میں جانا چاہئے۔ لیکن پہلے ہمسائے کی فطرت تو دیکھ لیں۔ جو ہمسایہ آپ کی دھرتی پر سایہ دار درخت اگنے ہی نہ دے اس کے آنگن میں سائے نچھاور کرنے کی آرزو کیسے پوری ہو سکتی ہے؟ 64 سال گفتار کی نذر ہو گئے۔ اب بتائیے تلوار کے سوا کوئی چارہ ہے؟12 فروری کو بھارتی صنعتکاروں کے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے بھی شہباز شریف نے کہا تھا ”مسائل جنگوں سے حل نہیں ہو سکتے‘ تجارت کا فروغ پاکستان اور بھارت کے مفاد میں ہے“ بھارتیوں نے ایک پاکستانی تاجر کا مار مار جو حشر کیا ہے شہباز صاحب نے وہ خبر باتصویر دیکھ لی ہو گی۔ شہباز شریف نے آزادی کشمیر کے لئے نظریہ پاکستان کانفرنس میں جو کہا وہی ان کا اصولی اور مضبوط موقف ہونا چاہئے۔ جو کچھ وہ بھارتی صنعتکاروں اور سپیکر کے وفود سے کہتے ہیں وہ ان کا کہا نہیں ہونا چاہئے۔ کشمیر جیساکہ قائداعظم نے فرمایا تھا۔ ہماری شہ رگ‘ شہ رگ کے بغیر پاکستان زندہ نہیں رہ سکتا‘ بھارت سے حاصل کرنی چاہئے۔ اور بات چیت سے نہیں ہو گی جنگ سے ہی ہو گی۔ بھارت شہ رگ کو اٹوٹ کہنے کے باوجود جنگ کی تیاری دن رات کر رہا ہے۔