About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Tuesday, February 28, 2012

شہباز پاکستان سے

 منگل ، 28 فروری ، 2012

شہباز پاکستان سے!
فضل حسین اعوان ـ 
شہباز شریف نے 17 فروری کو نظریہ پاکستان کانفرنس میں کئی موضوعات پر جوش خطابت کے جوہر دکھائے۔ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے فرمایا۔ ”کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے۔ یہ بات ہمارے بزرگوں اور قائداعظم نے کہی تھی۔ کشمیر اسی صورت میں پاکستان کا حصہ بن سکتا ہے۔ جب ہم کردار عظمت دیانت‘ امانت اور مسلسل محنت سے کام کریں۔ کشمیر کو پاکستان کا حصہ بنانے کے لئے نعروں کے بجائے عملی اقدامات کرنا ہوں گے۔ کشمیر اس وقت پاکستان بنے گا جب میثاق مدینہ پر عمل ہو گا۔“
باتوں سے کشمیر کی آزادی ممکن ہوتی تو کشمیر پر ہمارے حکمران‘ سیاستدان اور دیگر طبقات کے لوگ جتنا زبانی جمع خرچ کر چکے ہیں اس سے اب تک کشمیر آزاد ہو چکا ہوتا۔ کشمیر پر جس مکار دشمن کا قبضہ ہے اس پر باتوں کا کوئی اثر نہیں ہو سکتا۔ وہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کو کوئی اہمیت نہیں دیتا۔ باتوں سے کیا اثر لے گا۔ شہباز شریف نے بھی تسلیم کیا ہے کہ قائداعظم کشمیر کو پاکستان کی شہ رگِ قرار دیتے تھے۔ قائداعظم نے تو شہ رگ پاکستان کو دشمن کے پنجہ استبداد سے چھڑانے کے لئے طاقت استعمال کرنے کی کوشش بھی کی تھی۔ جس پر بھارت بھاگا بھاگا اقوام متحدہ چلا گیا۔ اقوام متحدہ نے جنوری 1949ءکو کشمیریوں کے لئے استصواب کی قررداد منظور کی تھی۔ اس کے بعد سے آج تک بھارت نے پاکستان کو مذاکرات میں الجھا کر مسئلہ کشمیر کو لٹکایا ہوا ہے۔ بھارت نے 1956ءمیں استصواب کی قرارداد کی موجودگی کے باوجود مقبوضہ وادی کو آئین میں ترمیم کرتے ہوئے بھارت کا صوبہ قرار دے دیا۔ اس کے ساتھ اٹوٹ انگ کا راگ بھی الاپنا شروع کر دیا۔ اب بھارت اگر مسئلہ کشمیر کے حل پر آمادگی ظاہر کرتا ہے تو اس کی نظر میں متنازعہ وہ علاقے ہیں جو قبائلیوں نے قوت بازو سے آزاد کرائے تھے۔ قبائلیوں کی انہیں خدمات پر قائداعظم نے ان کو پاکستان کا بازوئے شمشیر زن قرار دیا تھا۔ آج امریکہ کی ڈکٹیشن پر انہی قبائلیوں کی نسلوں کی گردن اور بازو حکومتی شمشیر کی زد میں ہیں۔ 
بھارت جسے اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتا ہے۔ اس نے جسے آئین میں ترمیم کرکے اپنا صوبہ ڈیکلر کر لیا ہے کیا وہ آسانی سے اس سے دستبردار ہو سکتا ہے؟ جبکہ مذاکرات کے فریب کا ایک طویل عرصہ بھی ہندو کی بدنیتی کا گواہ ہے۔ 
بھارتی لوک سبھا کی سپیکر میرا کماری کی اسلام آباد میں بھی زبردست پذیرائی ہوئی۔ لاہور میں بھی اس مورکھ کو آنکھوں پہ بٹھایا گیا۔ شہباز شریف نے اس کے اعزاز میں دئیے گئے ظہرانے میں یہاں یہ کہا کہ ”پاکستان اور بھارت کو آپس میں اچھے ہمسایوں کی طرح رہنا ہو گا۔ باہمی تعلقات کے فروغ کے ساتھ ساتھ کشمیر سمیت تمام تنازعات کے حل کی مساعی بھی جاری رہنی چاہئے تاکہ برصغیر میں پائیدار امن قائم ہو اگر ہم اپنے مسائل گفت و شنید کے ذریعے حل کرتے اور وسائل جنگوں پر برباد کرنے کی بجائے ترقی اور عوامی بھلائی پر صرف کرتے تو دونوں ممالک ترقی کی کئی منازل طے کر چکے ہوتے۔ وقت آگیا ہے کہ دونوں ملک جنگ کی راہ چھوڑ کر امن کا راستہ اپنائیں اور اپنے وسائل لوگوں کی فلاح و بہبود اور ان کا معیار زندگی بلند کرنے پر صرف کریں۔“ شہباز شریف نے وہاں اشعار کے ذریعے بھی اپنے جذبات کا اظہار کیا۔ شہباز شریف نے یہ شعر پڑھا
معجزہ کوئی تو اب شعلہ گفتار کرے
کیا ضروری ہے ہر اک فیصلہ تلوار کرے
وزیراعلیٰ نے یہ شعر سنا کر وہاں موجود ”آوے ای آوے‘ جاوے ای جاوے“ کی شہرت رکھنے والوں سے بے پناہ داد وصول کی۔ 
اک شجر پیار کا ایسا بھی لگایا جائے
جس کا ہمسائے کے آنگن میں بھی سایہ جائے
آپ کے اُگائے ہوئے درخت کا سایہ یقیناً ہمسائے کے آنگن میں جانا چاہئے۔ لیکن پہلے ہمسائے کی فطرت تو دیکھ لیں۔ جو ہمسایہ آپ کی دھرتی پر سایہ دار درخت اگنے ہی نہ دے اس کے آنگن میں سائے نچھاور کرنے کی آرزو کیسے پوری ہو سکتی ہے؟ 64 سال گفتار کی نذر ہو گئے۔ اب بتائیے تلوار کے سوا کوئی چارہ ہے؟12 فروری کو بھارتی صنعتکاروں کے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے بھی شہباز شریف نے کہا تھا ”مسائل جنگوں سے حل نہیں ہو سکتے‘ تجارت کا فروغ پاکستان اور بھارت کے مفاد میں ہے“ بھارتیوں نے ایک پاکستانی تاجر کا مار مار جو حشر کیا ہے شہباز صاحب نے وہ خبر باتصویر دیکھ لی ہو گی۔ شہباز شریف نے آزادی کشمیر کے لئے نظریہ پاکستان کانفرنس میں جو کہا وہی ان کا اصولی اور مضبوط موقف ہونا چاہئے۔ جو کچھ وہ بھارتی صنعتکاروں اور سپیکر کے وفود سے کہتے ہیں وہ ان کا کہا نہیں ہونا چاہئے۔ کشمیر جیساکہ قائداعظم نے فرمایا تھا۔ ہماری شہ رگ‘ شہ رگ کے بغیر پاکستان زندہ نہیں رہ سکتا‘ بھارت سے حاصل کرنی چاہئے۔ اور بات چیت سے نہیں ہو گی جنگ سے ہی ہو گی۔ بھارت شہ رگ کو اٹوٹ کہنے کے باوجود جنگ کی تیاری دن رات کر رہا ہے۔



Sunday, February 26, 2012

آمنہ.... عافیہ.... عدلیہ

 اتوار ، 26 فروری ، 2012

آمنہ.... عافیہ.... عدلیہ
فضل حسین اعوان
قانون یقیناً اندھا اور اسکے سینے میں پتھر کا دل ہوتا ہے۔ ایسا ہونا بھی چاہئے، اندھے قانون کی کوکھ سے ہی انصاف کی کرنیں پھوٹ کر بے انصافی کی تاریکیوں میں اجالے بکھیر دیتی ہیں لیکن ”قانون تو اندھا ہوتا ہے“ کی آڑ میں اندھیر مچانے سے معاشرے میں بے چینی پیدا ہونے کے ساتھ ساتھ منصف کا کردار پیشے سے کمٹمنٹ اور اہلیت بھی زیربحث آتی ہے۔ جمہوری آمروں سے زخم خوردہ قوم کی روح کو کبھی کبھی انصاف کا ترازو تھامنے والے بھی گھائل کرجاتے ہیں۔
17 فروری کو لاہور ہائیکورٹ کی عمارت میں اس وقت ہر آنکھ اشک بار ہوگئی جب 11 سالہ آمنہ کو اسکے باپ کی ”حبس بے جا“ سے نکال کر اسکی فرانسیسی ماں برینڈن برگر کے حوالے کردیا گیا۔ اس عدالتی حکم پر آمنہ نے چیختے، چلاتے اور دھاڑیں مارتے ہوئے آسمان سر پر اٹھا لیا جس سے وہاں کی فضا میں غم، دکھ اور کرب کا ارتعاش تو موجود تھا ہی، شائد بچی کی فریاد عرش سے بھی جا ٹکرائی ہو۔ بچی کی فریاد اور پکارپر خود جج صاحب بھی اپنے آنسو ضبط نہ کرسکے۔ ٹی وی پر یہ منظر دیکھنے والے لوگوں کی بھی آنکھیں تر تھیں۔ بچی نے جج صاحب سے کہا ”انکل میرے والد نے مجھے قرآن حفظ کرایا، مجھے کافر ماں کے حوالے نہ کریں، اگر یہ مسلمان ہوجائے تو میں اسکے ساتھ بخوشی چلی جاتی ہوں“ بچی فیصلے کے بعد اپنے دادا اور چچا سے لپٹی لیکن آمنہ کو برینڈن برگر کے حوالے کرنیوالے ہاتھ زیادہ سخت اور مضبوط تھے جن کو بے رحمانہ فیصلے پر عمل کرانا تھا حالانکہ دل انکے بھی رو رہے تھے۔ بچی کے باپ عبدالرزاق کو ایسے ہی فیصلے کا یقین تھا جس پر اسکے دل کی دھڑکن اس قدر بے قابو ہوئی کہ اسے ہسپتال لے جانا پڑا۔ اس نے فیصلہ ہسپتال کے بستر پر ہی سنا تو بے سدھ ہوگیا۔ ہوش آیا تو حالت بے ہوشی کی کیفیت سے زیادہ قابل رحم تھی۔ ایک رپورٹر نے رابطہ کیا تو اسکا یہ فقرہ معنی خیز تھا ”میں بیٹی کو لیکر 8سال تک چھپتا رہا لیکن ایجنسیوں نے ڈھونڈ نکالا“ اس فقرے کے پیچھے چونکا دینے والے حقائق ہیں جن سے ایک بار پھر ہمارے حکمرانوں کی اوقات، انکی نظر میں عوام کی حیثیت، ملکی خودمختاری اور قومی خودداری عیاں ہوگئی ۔ فرانسیسی عدالت نے آمنہ کو اسکی ماں کے حوالے کرنے کا فیصلہ دیا تھا۔ اس پر عمل سے قبل عبدالرزاق بیٹی کو پاکستان لے آیا۔ اب میڈیا میں اس خط کا تذکرہ ہو رہا ہے جو فرانس کے سفارت خانے کی جانب سے آئی جی پنجاب کو لکھا گیا جس میں کہا گیا ہے کہ صدر آصف علی زرداری کے دورہ فرانس کے دوران صدر سرکوزی نے انکے سامنے یہ معاملہ اٹھایا۔ صدر صاحب نے یہ معاملہ وزیر داخلہ رحمان ملک کے حوالے کیا تھا۔ آمنہ کے باپ کے اس فقرے ”ایجنسیوں نے ڈھونڈ نکالا“ اور کیوں ڈھونڈ نکالا؟ کی بخوبی سمجھ آجاتی ہے۔ 
آمنہ کو اسکی ماں کے حوالے کردیا گیا اسکے بعد اسکے والد کے پاس سپریم کورٹ جانے کا حق تھا جس سے اسے محروم کر دیا گیا۔ ادھر فیصلہ آیا‘ ادھر آمنہ کو اسکی ماں فرانسیسی قونصل خانے لے گئی اور اسی روز اسے فرانس پہنچانے کا اہتمام کر دیا گیا۔ آمنہ گیارہ پارے حفظ کر چکی تھی‘ وہ مشرقی روایات کا عملی نمونہ تھی۔ نماز کی پابند اور نقاب و حجاب پر کاربند۔ فرانس میں نقاب سکارف اور حجاب پر پابندی ہے جس پر عمل اسکی ماں نے ایئرپورٹ پر اترنے سے قبل کرالیا۔ آمنہ جہاز سے باہر آئی تو آنکھیں سوجی ہوئیں‘ چہرہ اترا ہوا اور سر غیرمسلم ماں کی شرم و حیا کی طرح ننگا تھا۔ علمائے کرام اور فقہیانِ عظام کی رائے ہے کہ نہ صرف مسلمان بچی کو اسکی غیرمسلم ماں کے حوالے نہیں کیا جا سکتا‘ بلکہ ماں مسلمان ہو اور وہ بھی بچی کو اسلامی ریاست سے غیراسلامی معاشرے میںلے جانا چاہتی ہو تو اسکی بھی اجازت نہیں۔ بچے یا بچی کی تربیت دارالسلام یعنی اسلامی معاشرے میں ہونی چاہیے۔ انسانی حقوق کی بات کرنیوالوں کو اسلامی قوانین کو بھی مدنظر رکھناچاہیے۔ دین اسلام میں انسانی حقوق کا کسی بھی مذہب سے بڑھ کر خیال رکھا اور تحفظ کیا جاتا ہے۔ بڑے جج صاحب اداکارہ سے شراب برآمد ہونے تک جیسے معمولی معاملات پر سوموٹو لے لیتے ہیں‘ کیا آمنہ کی پکار نے انکے دل پر دستک نہیں دی؟ کیا سپریم کورٹ میں آمنہ کے باپ کی اپیل سے قبل آمنہ کو بغیر پاسپورٹ کے ریمنڈ ڈیوس کی طرح اس لئے فوراً پاکستان سے نکال لیا گیا کہ اس کیس کے پیچھے صدر سرکوزی تھا جس کے ملک میں ہمارے صدر صاحب کا پانچ ایکڑ پر مشتمل باغات سے لدا پھندا‘ خوبصورت جھیلوں اور آبشاروں سے مزین و مرصع Manor of white Queen محل ہے۔ سرکوزی نے کچھ کیا‘اسے بطور صدر اپنی شہری کی دادرسی کیلئے ایسا ہی کرنا چاہیے تھے۔ 
مارچ 2009ءمیں شمالی کوریا نے دو امریکی خواتین کو جاسوسی کے الزام میں گرفتار کیا۔ انہوں نے خود کو صحافی ظاہر کیا تھا۔ جاسوسی کے جرم میں ان کو بارہ سال سزا سنا دی گئی۔ جون 2009ءکو سابق امریکی صدربل کلنٹن شمالی کوریا گئے۔ شمالی کوریا کے ایٹمی پروگرام پر دونوں ملکوں میں ”اِٹ کتے دا ویر“ ہے۔ کلنٹن نے شمالی کوریا کے صدر کم جانگ ال سے ملاقات کی اور جھکے سر کے ساتھ اینا اور لورا کی رہائی کی درخواست کی جسے کم نے قبول کرتے ہوئے انکی رہائی کا حکم دیدیا۔ دنیا یہ بھی جانتی ہے کہ برطانیہ پاکستان سے اپنے سزائے موت کے قیدی کو چھڑواکے لے گیا تھا۔ 
عافیہ صدیقی کی رہائی کےلئے کیا ہمارے صدر اور وزیراعظم نے ایسی سنجیدہ کوششیں کی ہیں‘ جیسی سرکوزی آمنہ کو پاکستان سے لے جانے اور اوبامہ نے کلنٹن کو بھجوا کر اینا اور لورا کو چھڑوانے کیلئے کیں۔ جس طریقے سے پاکستان امریکہ کی جنگ لڑ رہا ہے اسکے پیش نظر وہ امریکہ سے مقبوضہ کشمیر کی آزادی سمیت ہر مطالبہ منوا سکتا ہے۔ عافیہ صدیقی کی رہائی تو معمولی بات ہے لیکن شاید آج کے حکمرانوں کا اپنے پیشرو مشرف کی طرح احساس ہی مر چکا ہے۔ غیرت و حمیت اور ضمیر ہی ڈالروں بہا سے خوابیدہ ہو گیا۔
٭٭٭٭

اقبال و قائد کے سپاہی

 فروری,25 ، 2012

اقبال و قائد کے سپاہی
فضل حسین اعوان ـ 1 دن 16 گھنٹے پہلے شائع کی گئی
فانی انسان کی یادوں کو اس کا کردار اور عمل لافانی بنا دیتا ہے۔ اقبال اور قائد کی یادیں، ان کی باتیں اور فکر و فلسفہ آج ہمارے لئے اثاثہ اور سرمایہ ہے۔ قائد اعظم نے برصغیر کے مسلمانوں کو یہاں انگریز کی غلامی سے آزادی دلائی اور ہندو کی غلامی میں جانے سے بچایا وہیں نوجوان صحافی حمید نظامی سے نوائے وقت کی بنیاد رکھوائی۔ 23 مارچ 1940ءکو پندرہ روزہ نوائے وقت کا پہلا شمارہ شائع ہوا۔ 1942ءکو یہ ہفت روزہ اور قائداعظم کے فرمان پر 22 جولائی 1944ءکو روزنامہ بن گیا۔ گویا قائد محترم کی ہدایت پر حمید نظامی کے ہاتھوں یوم پاکستان کے روز لگایا گیا پودا قیام پاکستان سے قبل بہت سی منزلیں طے کر چکا تھا۔ یہ تحریک آزادی کا ترجمان بنا۔ مسلمانوں کی زبان دو قومی نظریہ کا اعلان اور وطن کے مجاہدوں کا عہد و پیمان بنا۔ حمید نظامی تحریک آزادی کے گرم جوش طالب علم رہنما قائد کے وفادار ساتھی، غلامی کی زنجیریں توڑنے کے لئے ہمہ وقت تیار، آزادی کے لئے ہمہ تن برسرپیکار، خون جگر دینے پر مائل، استعمار کی بیخ کنی کرنے کے قائل تھے۔ پاکستان بنا تو نوائے وقت کو عام آدمی کی صدا نوا دوا، دعا اور ندا بنا دیا۔ مجید نظامی عمر میں حمید نظامی سے 13سال چھوٹے ہیں انہوں نے باپ بن کر پالا تو مجید نظامی صاحب نے بھی بیٹا ہونے کا حق ادا کر دیا۔ کوئی بھی تقریب فنکشن یا جلسہ ہو پہلے حمید نظامی کا نام آتا ہے۔ مجید نظامی صاحب بھی تحریک آزادی کے مجاہد اور غازی ہیں۔ تحریک پاکستان کے پہلے شہید عبدالمالک کے سر پر اینٹ لگی تو مجید نظامی ان کے ساتھ کھڑے تھے۔ تحریک پاکستان کے پہلے شہید اسلامیہ کالج کے عبدالمالک نے مجید نظامی کے بازوﺅں میں ہی جان دی۔ ان کو سنبھاتے ہوئے نظامی صاحب کے کپڑے بھی شہید کے خون سے رنگے گئے۔ لیاقت علی خان نے ان کو مجاہدانہ خدمات پر سند کے ساتھ تلوار عنایت کی۔
قیام پاکستان کے بعد حمید نظامی نے حق گوئی و بیباکی، بیداری، وطن سے وفا کی علمبرداری کا پرچم اٹھائے اور لہرائے رکھا۔ جس سے انگریز کے کتے نہلانے کے انعام میں جا گیریں اور اقتدار حاصل پانے والے دیوانوں، مستانوں، دولتانوں اور ٹوانوں کی جھوٹی انا مجروح ہوئی جو نوائے وقت انگریز کی حکمرانی میں بھی مسلسل بلا تعطل شائع ہوتا رہا وہ 1950ء کی دہائی میں کچھ عرصہ کے لئے بند کر دیا گیا۔ مجید نظامی تعلیم کے ساتھ ساتھ اخباری معاملات میں اپنے بھائی جان کی معاونت بھی کیا کرتے تھے۔ حکمرانوں کی درشتی، دھونس اور جبر دونوں بھائیوں کے عزم اور پائے استقلال میں ہلکی سی لرزش اور جنبش بھی نہ لا سکا۔ قائداعظم کے پاکستان میں 1958ء میں مارشل لاءلگا تو حمید نظامی روح تک لرز گئے۔ کیا لاکھوں جانوں اور آبروﺅں کی قربانی یہ دن دیکھنے کے لئے دی گئی تھی؟ مارشل لاءکے باعث حمید نظامی کی صحت گرنے لگی، باقی کسر اخبار کے ساتھیوں نے بے وفائی کرکے پوری کر دی جس کے باعث حمید نظامی صاحب 25 فروری 1962ءکو جاں سے گزر گئے۔
اسی روز مجید نظامی کو لندن سے بلوایا گیا۔ نظامی صاحب کے کہنے پر آغا شورش نے انہیں فون کیا۔اس کے بعد اخباری معاملات مجید نظامی کے پاس آئے تو انہوں نے وہیں سے ان کو آگے بڑھایا جہاں سے حمید نظامی صاحب چھوڑ کر جان جانِ آفرین کے سپرد کر گئے تھے۔ اس کے بعد مجید نظامی صاحب نے چار مارشل لاﺅں کو جس طرح حق ہوتا ہے اسی طرح بھگتا۔ نوائے وقت شجر سایہ دار تو حمید نظامی کی حیات میں ہی بن گیا تھا۔ اس شجر سایہ دار کو ثمر بار مجید نظامی نے بنایا۔ نوائے وقت اشاعت کے پہلے روز سے کرائے کی عمارت سے نکلتا رہا۔ آج لاہور، کراچی، ملتان، پنڈی میں اس کے اپنے دفاتر ہیں۔ ساتھ ہفت روزہ ندائے ملت، فیملی میگزین، ماہانہ پھول، ڈیلی دی نیشن بھی نوائے وقت کی آگنائزیشنز ہیں۔ چار سال سے وقت نیوز چینل بھی اپنی بلڈنگ میں نشریات جاری رکھے ہوئے ہے۔
مجید نظامی کا کامیاب ایڈیٹر کے ساتھ ساتھ بہترین منظم ہونا بھی ان کی شخصیت کا نمایاں پہلو ہے۔ بہت سے لوگوں کی محبت نوائے وقت ہے لیکن نوائے وقت والوں کی پہلی محبت اسلام پاکستان اور نظریہ پاکستان ہے۔ مجید نظامی صاحب نوائے وقت پبلیکیشنز کی طرف بڑی توجہ دیتے ہیں لیکن اس سے بھی زیادہ توجہ نظریہ پاکستان ٹرسٹ پر مرکوز ہے۔ دفتر آنے سے قبل نظریہ پاکستان جاتے ہیں۔ تن، من دھن سے اس کی خدمت پر تین بائی پاس ہونے کے باوجود کمربستہ ہیں۔ نوائے وقت ملک کا ایک بڑا اشاعتی اور نشریاتی گروپ ہے لیکن اس کے مالک درویشانہ زندگی گزارتے ہیں۔ مجید نظامی صاحب نے دو کنال جگہ کھیتوں میںخریدی اور اپنا گھر بنا لیا اسی قدیم وضع کے گھر میں قیام پذیر ہیں۔ وضعدار ایسے کہ ہر ملنے والا سمجھتا ہے کہ اس سے زیادہ کسی پر مہربان نہیں۔ کوئی اپنا ہو یا پرایا اسے تکلیف میں دیکھ کر تڑپ اٹھتے اور ہر ممکن مدد کرتے ہیں۔ سچی بات ہے کہ حمید نظامی نے قائد اعظم کے سپاہی اور مجید نظامی نے حمید نظامی کے بھائی اور قائد کے فدائی ہونے کا حق ادا کر دیا۔ آج مجید نظامی صاحب‘ چھوٹی بی بی رمیزہ مجید نظامی کی تربیت بھی انہیں خطوط اور نہج پر کر رہے ہیں جس طرح حمید نظامی نے ان کی کی تھی۔ رب ذوالجلال پاکستان‘ مجید نظامی‘ رمیزہ مجید نظامی‘ ادارے‘ کارکنوں اور ادارے کے چاہنے والوں کا حامی و ناصر ہو۔

Thursday, February 23, 2012

شیطان اور سمندر کے درمیان

جمعرات ، 23 فروری ، 2012

شیطان اور سمندر کے درمیان
فضل حسین اعوان 
وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی شوق شہادت کا اظہار بلکہ اعلان تو کرتے ہیں جبکہ اندر کا خوف ان کے بیانات سے عیاں ہو جاتا ہے۔ متعدد بار کہہ چکے ہیں وزیراعظم نہ رہا تو غوث اعظم کی اولاد ہونے کا عہدہ تو وزارت عظمیٰ سے بہت بڑا ہے۔ وہ مجھ سے کوئی نہیں چھین سکتا۔ اگر گیلانی صاحب دل و جان سے ایسا سمجھتے ہیں تو بڑے عہدے پر براجمان ہونے کے باوجود چھوٹے مقام کو پسند کیوں فرما لیا۔ پھر اس کے ساتھ ایسا چمٹے کہ یہ مقام لامقام ہونے کا دھڑکا لگا تو اسے اپنے لئے شہادت قرار دے رہے ہیں۔ ایک طرف میمو گیٹ کیس میں اس عزم کا اظہار کیا کہ معاملہ صدر زرداری کی طرف بڑھا تو میں اپنے سر لے لوں گا۔ میمو گیٹ کیس کا فیصلہ کچھ دور ہے۔ این آر او کیس کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ ظاہر کرتے ہیں کہ سوئس حکام کو خط نہ لکھنے کا عہد زرداری پر جانثاری ہے۔ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان ہر دوسرے روز ایک ہی لے پر دھمال ڈالتی ہیں کہ شہید بھٹوز کی قبروں کا ٹرائل نہیں ہونے دیں گے۔ جس کی جان پہ بنی ہے اس کے دل میں جھانک کر دیکھیں۔ بظاہر تو وہ بھی جھومتے ہوئے کہتے یہی سنائی دیتے کہ خط نہ لکھنے کا پارٹی کا فیصلہ ہے۔ صدر کو استثنیٰ حاصل ہے۔ خط نہیں لکھیں گے۔ جب اس کے بھیانک نتائج خونخوار جن کی طرح ناچتے ہوئے سامنے آتے ہیں تو امیدوں‘ آرزوں اور تمناوں کے دیے بجھتے دکھائی دینے لگتے ہیں۔ ایسے میں وزیراعظم صاحب بہت کچھ ایسا کہہ جاتے ہیں جو لایعنی و بے معنی ہوتا ہے۔ 80 کا ہندسہ زبان پر چڑھا ہے شاید اس لئے کہ 80 کی دہائی میں جنرل محمد ضیاءالحق کے ہاتھ پر بیعت کی۔ اسی کی دہائی میں ہی ضیاءالحق نے ان کا ہاتھ جونیجو مرحوم کے ہاتھوں میں دے دیا۔ اسی دہائی میں ہی جونیجو کا ساتھ چھوڑ دیا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو 86 میں لندن سے واپس آئیں تو گیلانی صاحب ان کے ساتھ جا ملے یہ ان دنوں کی بات ہے جب میاں نواز شریف نے بے نظیر بھٹو کی خدمت میں 30 لاکھ روپے پارٹی فنڈ کے طور پر پیش کئے جو محترمہ نے بصد شکریہ رکھ لئے تھے۔ گیلانی صاحب کا دعویٰ ہے کہ میثاق جمہوریت پر 80 فیصد عمل کر دیا۔ آغاز حقوق بلوچستان پر 80 فیصد عمل کرایا۔ شاہ زین بگٹی کا کہنا ہے کہ آغاز پر صرف اڑھائی سے تین فیصد تک عمل ہوا۔ وزیراعظم گیلانی اپنے چار سالہ دور کو کامرانیوں کی داستان قرار دیتے ہیں۔ یہاں شاید 80 فیصد سے بھی زائد عوامی مسائل حل کرنے کے دعویدار ہیں۔ لگتا ہے کہ وہ زخم خوردہ عوام سے نہیں مردوں سے مخاطب ہوں....
وزیراعظم کی طرف سے اپنے صدر پر جاں نچھاور کرنے کی جو بے پاں خواہش ظاہر کی جا رہی ہے۔ وہ دراصل اس محاورے کے عین مطابق ہے 
Between devil and deep sea. 
ایک طرف عدلیہ دوسری طرف وہ پارٹی سربراہ ہے۔ اٹھارہویں ترمیم نے جس کی دراز میں ارکان پارلیمنٹ کے ضمیر رکھوا دئیے ہیں۔ گیلانی کیا کوئی کبھی رکن پارلیمنٹ پارٹی سربراہ کی مرضی کے خلاف دم بھی نہیں مار سکتا۔ شہادت‘ غازی‘ جانثاری کی محض باتیں ہیں‘ گیلانی صاحب کا اصل دکھ 15 فروری کو سینئر صحافیوں کے ساتھ ملاقات کے دوران سامنے آیا جس میں انہوں نے 5 واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ان واقعات میں انہیں بلاوجہ ملوث کر دیا گیا۔ ”حج سکینڈل میں شکیل درانی کے حوالے سے مجھ پر الزام تراشی کی گئی اور کہا گیا کہ سارے راستے وزیراعظم ہاوس کی طرف جاتے ہیں۔۔۔ ایک لڑکا لندن کے کالج میں میرے بیٹے عبدالقادر گیلانی کا کلاس فیلو تھا‘ اس نے ایک جیپ امپورٹ کی جس کی اس نے ڈیوٹی نہیں دی۔ یہ جیپ میرے بیٹے کے کھاتے میں ڈالی گئی۔ میں بھوٹان میں کانفرنس میں شریک تھا کہ مجھے چٹ ملی کہ چیف جسٹس نے وفاقی سیکرٹریوں کی پروموشن کو کالعدم قرار دیا ہے۔ ہم نے دوبارہ جائزہ لیا تو نوے فیصد وہی سیکرٹری دوبارہ پروموٹ ہو گئے۔ ان سیکرٹریوں میں کوئی میرا فیورٹ نہیں تھا۔ (90 فیصد میرٹ پر‘ دس فیصد کہاں سے آئے؟) کوئی اہم شخصیت میرے پاس آئی اور کہا کہ خواجہ عدنان کو جاب دی جائے، میں نے سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ سے کہا کہ وہ ان کی کوالیفکیشن دیکھ کر انہیں جاب دیں۔ اس پر بھی میرا مذاق اڑایا گیا۔ دراصل خرم رسول پی ٹی وی کا کنسلٹنٹ تھا، اسے پی پی پی کی ایک سینئر شخصیت کے کہنے پر پی ٹی وی کا کنسلٹنٹ لگایا گیا تھا۔“ وزیراعظم کے ان اعترافات کے باوجود بھی دعویٰ ہے کہ ہم گنہگار نہیں۔ 
این آر او کیس میں گیلانی صاحب نے خود کو 
Between Devil and deep Sea .
پایا تو اس سے نجات کے لئے ایک ہی کی صورت نظر آئی کہ وکیل کرنے کے بجائے وہ جج کر لیں۔ اس کے لئے انہوں نے پیپلز پارٹی کی نوازشات کے تلے دبے معروف وکیل کی خدمات 100 روپے دیکر حاصل کیں۔ ان کے وکیل کا دعویٰ رہا ہے کہ ان کی چیف جسٹس کے ساتھ بے تکلفانہ دوستی ہے۔ اپنے اس قول پر چار سال عمل کیا کہ وہ کسی کیس میں چیف جسٹس کے روبرو پیش نہیں ہوں گے۔ بالآخر فرد جرم کے حوالے سے نظرثانی کیس میں پیش ہوئے۔ موکل کو امید تھی کہ وہ انہیں مکھن میں سے بال کی طرح نکال لیں گے۔ ججوں نے شاید مکھن میں مکھی سمجھ کر جو کیا‘ سو کیا۔ کم از کم ایک بار تو یہ تاثر ختم ہو گیا کہ وکیل کو اپنی اہلیت پر کیس لڑنا ہو گا۔ جج کرنا مشکل ہے۔ اب 27 فروری کو دیکھئے کیا ہوتا ہے۔
مٹھہ ٹوانہ میں غلام عباس صاحب کا فون آیا کہ ان کو ایک تگڑے وکیل کی ضرورت ہے۔ جو سپریم کورٹ میں کیس کرے کہ بے نظیر بھٹو کے پہلے دور میں ان کے وزیر داخلہ نے خالصتان موومنٹ کے لیڈروں کی لسٹیں بھارت کے حوالے کی تھیں۔ یہ ”حب الوطنی“ کے کس ضمن میں آتا ہے؟ ان کو بتایا کہ موصوف تو انکار کرتے ہیں۔ غلام عباس کا کہنا تھا کہ ملزم نے بھی کبھی اپنا جرم مانا ہے؟ سپریم کورٹ ہی اس حوالے سے بریت یا جرم کے تعین کا بہترین فورم ہے۔ ان کو بتایا کہ سپریم کورٹ کے معروف وکلاءکی فیس تو کروڑوں میں ہے۔ بے چارہ سابق فوجی اور آج کا کسان کہتا ہے میں دو اڑھائی لاکھ ادا کر سکتا ہوں۔ اگر اس کے پاس بھی کروڑوں ہوتے تو شاید ”وزیراعظم کا وکیل“ ان کا کیس پکڑ لیتا کیونکہ وہ پروفیشنل وکیل ہے۔ پیپلز پارٹی میں رہتے ہوئے نواز شریف کے کیس بھی تو لڑے ہیں۔ کوئی بے اصولی کرنی ہو تو سیاست میں کچھ بھی حرف آخر نہیں ہوتا اور وکالت میں میں تو پیشہ ور وکیل ہوں کہہ دیا جاتا ہے۔ آخر سند یافتہ دہشت گرد ریمنڈ ڈیوس اور کشمیر سنگھ کا کیس بھی تو ہمارے وکیلوں نے پیشہ ور وکیل ہونے کے ناتے ہی لڑا تھا۔

Tuesday, February 21, 2012

.......کی محمد سے وفا تو نے

 منگل ، 21 فروری ، 2012

کی محمد سے وفا تو نے
فضل حسین اعوان ـ 15 گھنٹے 50 منٹ پہلے شائع کی گئی
بعداز خدا بزرگ توئی قصہ مختصر، کے عنوان سے ولادت ختم الرسل کے موقع پر 12ربیع الاوّل کو کالم کی اشاعت پر پروفیسر سلیم صاحب نے فون کرکے اس رباعی کے خالق کا نام دریافت کیا اور مشورہ دیا کہ آئندہ یہ رباعی کبھی شائع کرنا مقصود ہو تو اس کا اردو ترجمہ بھی ضرور دے دینا۔ یا۔ اپنے طور پر رباعی کے شاعر کے بارے میں جاننے کی کوشش کی تو دوست احباب میں سے کسی نے اسے علامہ اقبال کا کلام قرار دیا‘ کسی نے یہ رباعی سعدی و فردوسی سے منسوب کی۔ اسی جستجو کے دوران محمد سعید شاد صاحب کا خط موصول ہوا‘ ان کی تحقیق کے مطابق واضح ہو گیا کہ اس عشق مصطفی سے مزین اور عقیدت سے لبریز رباعی کے شاعر کے بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ تاریخ میں بھی بعض اسے حافظ شیرازی اور کچھ جامی‘ سعدی اور شاہ عبدالعزیز دہلوی سے منسوب کرتے ہیں۔ گمان غالب ظاہر کیا گیا ہے کہ یہ حافظ شمس الدین محمد شیرازی کے اشعار ہو سکتے ہیں۔ محمد سعید شاد صاحب نے اپنی تالیف ”طَلَعَ البَدَرُ عَلَینا“ میںاس رباعی کا اردو اور پنجابی زبانوں میں منظوم ترجمہ بھی دیا ہے۔
یاصاحب الجمال و یا سید البشر
اے سوہنے مکھڑے والے کل انساناں دے سردار
من وجھک المنیر لقد نور القمر
تیرے مکھڑے دے نور نال ای چند روشن اے
لایمکن الثناء کما کان حقہ
ساتھوں تیری وڈیائی دا حق ادا نہیں ہو سکدا
بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر
مکدی کہ رب تعالیٰ دے بعد صرف تسیں ای سب تو وڈیرے او
(اردو منظوم)
اے مالک حسن و ادا انسانیت کے متقدیٰ
ماہتاب کا اپنا ہے کیا سب تیرے چہرے کی ضیائ
ممکن کہاں حق ہو ادا کیسے کروں تیری ثنائ
اس قول میں لوں میں پناہ تجھ سے بڑا بس اک خدا
(مختار جاوید منہاس)
رباعی مذکور کے چاروں مصروں میںسے تین عربی، آخری اور چوتھا مصرع فارسی میں ہے۔ اس کی کوئی بھی وجہ ہو سکتی ہے تاہم خیال فوری طور پر شیخ سعدی کی عربی رباعی کی طرف چلا جاتا ہے۔ سعدی نے تین مصرے کہے:
بَلَغَ الُّعَلیٰ بَکَمالِہ
کَشَفَ الدُّجیٰ بَجَمالِہ
حَسَنَتُّ جَمِیعُ وَ خَصَالِہ
چوتھے مصرعے پر سعدی اٹک گئے ان کے ذہن میں آخری مصرع نہیں بن پا رہا تھا کہ ایک شب رسول اللہ کی خواب میں زیارت ہوئی۔ حضور نے چوتھا مصرع یوں ارشاد فرمایا:
صَلُّو عَلَیہِ وَآلِہ
بات عشق رسول کی ہو رہی ہے تو امام بوصیری کے اور ان کے قصیدہ بردہ شریف کا تذکرہ بھی برمحل نظر آتا ہے۔ جس کا اس شعر سے آغاز ہوتا ہے:
مولا¸ صل¸ وسلم دائماً ا¿بدا¿ علی حبیبک خیر الخلق کلھم
قصیدہ¿ بردہ شریف کے لکھنے کا واقعہ یوں ہے کہ اس قصیدے کو لکھنے سے پہلے، امام بوصیری کوڑھ کے مرض میں مبتلا تھے۔ اسی عالم میں آپ نے حالات سے پریشان ہو کر داد رسی کیلئے یہ قصیدہ تحریر فرمایا، اسی شب امام بوصیری کو خواب میں حضور پاک کی زیارت ہوئی اور آپ نے امام بوصیری کو اپنی کملی عنایت فرمائی۔ دوسرے دن جب امام بوصیری بیدار ہوئے تو وہ کملی آپ کے جسم پر موجود تھی اور آپ مکمل طور پر صحت یاب ہو چکے تھے۔کچھ مسلمانوں کا یہ بھی ماننا ہے کہ اگر قصیدہ بردہ شریف سچی محبت اور عقیدت کے ساتھ پڑھا جائے تو یہ بیماریوں سے بچاتا ہے اور دلوں کو پاک کرتا ہے، اب تک اس کلام کی 90 سے زائد تشریحات تحریر کی جا چکی ہیں اور اس کے تراجم فارسی، اردو، ترکی، بربر، پنجابی، انگریزی، فرینچ، جرمنی، سندھی و دیگر بہت سی زبانوں میں کیے جا چکے ہیں۔آخر میں یہ بھی سن لیجئے۔ رفیق ڈوگر صاحب سے نوائے وقت کے قارئین واقف ہیں، وہ طویل عرصہ نوائے وقت سے منسلک رہے۔ 92 میں ان کو گھٹنے کا کینسر ہوا، ماہر ڈاکٹروں نے ٹانگ کاٹنے کو ناگزیر قرار دیا۔ ڈوگر صاحب نے کہا اگر بیماری خدا کی طرف سے ہی ہے تو شفا بھی منجانب اللہ ہو گی۔ اس کے ساتھ ہی حضور کی سیرت پر تصنیف کا ارادہ باندھ کر اس کا آغاز کر دیا۔ پھر وہ دیکھتے ہی دیکھتے صحت یاب ہوئے اور چار جلدوں میں سیرت النبی کتاب تصنیف کی۔ان واقعات پر نظر ڈالنے سے بے ساختہ علامہ کا یہ شعر زبا ں پر آ جاتا ہے:
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں


Monday, February 20, 2012

فوج‘ آئی ایس آئی کےخلاف امریکی و بھارتی گماشتوں کی سازشیں

 پیر ، 20 فروری ، 2012

فوج‘ آئی ایس آئی کےخلاف امریکی و بھارتی گماشتوں کی سازشیں
فضل حسین اعوان
لاپتہ افراد کے حوالے سے آج بڑا غلغلہ ہے۔ بلاشبہ 10 ہزار افراد کا لاپتہ ہو جانا کسی المیے اور سانحے سے کم نہیں لیکن ہر کیس میں فوج کو ملوث کرنا بھی درست نہیں۔ لاپتہ افراد کے حوالے سے مشرف کہا کرتے تھے وہ شدت پسندوں کے ساتھ مل کر امریکہ کے خلاف لڑ رہے ہیں، وہ مارے گئے یا افغانستان میں ہونگے۔ لاپتہ افراد کے لواحقین کا غم دیکھا نہیں جاتا۔ سپریم کورٹ لاپتہ افراد کو بازیاب کرا رہی ہے گویا لاپتہ افراد کے ملنے کی امید موجود ہے۔ پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائی میں 35 ہزار افراد مارے جا چکے ہیں۔ ہر ایک کے لواحقین کا غم رنج اور دکھ درد لاپتہ افراد کے لواحقین جیسا ہے۔ بلکہ کچھ بڑھ کر ہے۔ جی ایچ کیو، کامرہ کمپلیکس، آئی ایس آئی کے حمزہ کیمپ اور پریڈ لائن مسجد پر حملوں میں 300 کے قریب فوجی اور سویلین شہید ہوئے۔ ان مقامات پر حملہ کرنے والوں کو کیا فوج پھول پیش کرے؟ عسکریت پسند امریکہ کی جنگ میں اس کا ساتھ دینے پر حکومت کے خلاف مصروف عمل ہیں لیکن فوجی تنصیبات جی ایچ کیو اور آئی ایس آئی کے کیمپوں اور بسوں پر حملے اس قوت نے کرائے جوفوج کو کمزور اور آئی ایس آئی کو بے بس کر کے رکھ دینا چاہتی ہے۔ آج لاپتہ افراد کی آڑ میں فوج اور آئی ایس آئی کو ٹارگٹ بھی اسی قوت کی آشیرباد بلکہ بڑی بڑی ادائیگی کے بعد ہی کیا جا رہا ہے۔ کسی بھی پاکستانی کو کسی نے بھی اٹھایا ہو اس کی حمایت نہیں کی جا سکتی لیکن پرامن شہریوں اور دہشت گردوں کے درمیان فرق ضرور ہونا چاہئے۔ جن پر ہاتھ پڑنے پر امریکہ کے پیٹ میں مروڑ اٹھیں اور بھارت بے چین ہو۔ ایسے میں بھارت اور امریکہ کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے والوں کی حب الوطنی کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔گوادر کو مشترکہ نیول بیس بنانے کا چینی نائب وزیراعظم کا غیر سرکاری اور غیر رسمی موقف امریکہ کے گلے کی پھانس بن کر رہ گیا ہے۔ اب اسے گوادر پورٹ بھی پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی طرح نظر آتی ہے۔ اس نے اپنی طفیلی ریاستوں کے توسط سے گوادر پورٹ کو ناکام بنانے کا ٹاسک دے رکھا ہے۔ انہی ممالک میں بلوچستان کے مفرور ہی وطن کے خلاف سازشوں کے جال بنتے ہیں۔ الطاف حسین کے لندن کے اخراجات پر تو انگلی اٹھائی جاتی ہے بلوچستان کے بھگوڑوں کے اخراجات کے بارے میں کوئی نہیں سوچتا۔
موجودہ حکمرانوں سمیت ہر دور کے حکمران کو فوج کو فکس کرنے کا شوق رہا ہے۔ جونیجو کے وزیر دفاع رانا نعیم نجی محفلوں میں کہتے تھے اب جرنیل (اوجڑی کیمپ کے حوالے سے) قابو آئے ہیں لیکن جرنیلوں پر گرفت سے قبل جنرل ضیاءالحق نے اپنی ہی تخلیق جمہوری حکومت کا ”گھُٹ“ بھر لیا۔ یہ یقیناً جنرل ضیاءکی بہت بڑی غلطی تھی جس سے فائدہ امریکہ نے اٹھایا پھر جو کچھ پاکستان اور پاکستانیوں کے ساتھ ہوتا رہا اور ہو رہا ہے، وہ سامنے ہے۔ نواز شریف کے وزیر مشاہد حسین بھی ڈنڈے کی بات کیا کرتے تھے، گیلانی کا اپنی ہی فوج کے بارے میں اشتعال تاریخ میں رقم ہو چکا ہے۔ امریکہ ملک کی سرحدوں کی محافظ، ایٹمی پروگرام کی گارڈین فوج اور اندرونی طور پر پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی سازشوں کو ناکام بنانے اور مقامی و عالمی سطح پر سی آئی اے، را، موساد، رام کا مقابلہ کرنے والی آئی ایس آئی کو کمزور کرنے کیلئے جو ہو سکتا ہے کر رہا ہے۔ وہ یہ جنگ میڈیا کے ذریعے بھی جیتنا چاہتا ہے۔ فوج نے ایبٹ آباد آپریشن پر شدید ردعمل کا اظہار کیا، سلالہ چیک پوسٹ سانحہ کے بعد سخت موقف اپناتے ہوئے نیٹو سپلائی معطل کی، شمسی ایئربیس خالی کرایا تو گویا امریکہ کی دم پر پاﺅں رکھ دیا جس سے امریکی گماشتوں کو پسو پڑ گئے۔ ہمارے حکمرانوں کا بس چلتا تو نیٹو سپلائی کی معطلی کی نوبت ہی نہ آتی۔ بھارت کو ویزہ کے فری سٹیٹ قرار دے دیا جاتا‘ شمسی ایئربیس خالی نہ ہوتا۔ امریکہ اور بھارت کے اشاروں پر ناچنے اور پاکستان کے مفادات کو نقصان پہنچانے والے میڈیا گروپس‘ سیاستدان سیاسی پارٹیاں اور دیگر حلقے بے شناخت نہیں۔ لیکن کچھ لوگ نادانستگی میں ان کی جعلی و جذباتی باتوں میں آکر ان کے شانہ بشانہ ہو جاتے ہیں وہ ذرا دانشمندی سے کام لیں۔ اپنے پرائے میں فرق کریں۔ پاکستان کے مفادات اور نقصانات کو مدنظر رکھیں۔ فوج اور آئی ایس آئی کمزور ہوئی تو سمجھ لیجئے آپ کا ایٹمی پروگرام گیا۔ کشمیر سے دستبرداری ہو گئی اور غلامی کا طوق طویل عرصے تک گلے میں پڑ گیا۔ فوج ایوب‘ ضیاءاور مشرف کا نام نہیں۔ وہ ایک ادارہ ہے جس کے ہر فرد نے پاکستان کے تحفظ کی قسم کھائی اور عہد کرکے اسے نبھایا اور نبھا رہا ہے۔ اقتدار پر شب خون مارنے والے جرنیلوں سے خدا نے نبٹ لیا۔ موجودہ اپنے کام سے کام رکھنے والی قیادت کو آمروں کی صف میں لاکھڑا نہیں کیا جا سکتا جس نے بار بار موقع ملنے کے باوجود بھی کوئی غیر آئینی اقدام نہیں اٹھایا۔ اس لئے قوم ملکی دفاع کی خاطر‘ ایٹمی پروگرام کے تحفظ کے لئے فوج اور آئی ایس آئی کے شانہ بشانہ ہو کر امریکی گماشتوں اور بھارتی شرد ھالوںکی سازش کو ناکام بنا دے۔(ختم شد)

Sunday, February 19, 2012

فوج‘ آئی ایس آئی کےخلاف امریکی و بھارتی گماشتوں کی سازشیں

 اتوار ، 19 فروری ، 2012

فوج‘ آئی ایس آئی کےخلاف امریکی و بھارتی گماشتوں کی سازشیں
فضل حسین اعوان
یو ایس ایس آر ٹوٹا تو یو ایس اے کو دنیا کی واحد سپر پاور ہونے کا اعزاز مل گیا۔ USSR کو ٹکڑوں میں بکھیرنے میں نوے فیصد کردار پاکستان کا تھا گویا امریکہ اگر دنیا کی واحد سپر پاور بنا تو اس میں پاکستان کا کردار اہم ترین تھا۔ عالمی تھانیدار بننے کے بعد امریکہ کو انکساری تحمل اور بردباری سے کام لینا چاہئے تھا لیکن اس نے پوری دنیا کو اپنی لائن پر چلانے کی کوشش کی۔ اس میں اسے کامیابیاں بھی ملیں۔ تو اس کا حوصلہ بڑھتا چلا گیا۔ اپنی چودھراہٹ کے زعم میں اسے ویتنام سے ملنے والا سبق بھول گیا اور پھر سے جنگ و جدل اور ملکوں کو فتح کرنے نکل پڑا۔ کس کو جینے کا حق دینا ہے‘ کس سے یہ حق چھین لینا ہے وہ اسے اپنا حق سمجھتا ہے۔ پاکستان میں اکثر امریکہ کے حوالے سے غلامانہ ذہنیت کے حکمران آئے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے جرات رندانہ کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایٹمی پروگرام کے حصول کی کاوش کی تو امریکہ کی نظر میں مطعون ٹھہرے۔ دھمکیوں کو بھی خاطر میں نہ لائے تو پی این اے بنوا کر ان کا تختہ الٹوا دیا۔ پھر تختہ دار پر بھی چڑھا دیا۔ بھٹو کی ہی طرح جنرل ضیاءالحق نے بھی ایٹمی پروگرام کو جاری رکھا۔ وہ بھی راندہ درگاہ ٹھہرے لیکن ان کی افغان وار میں امریکہ کو ضرورت تھی اس لئے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے درگزر سے کام لیا۔ روس افغانستان سے نکلا تو پاکستان کا ایٹمی پروگرام عروج حاصل کر چکا تھا۔ جس کا سہرا جنرل ضیاءالحق کے سر تھا اس لئے ان کا سر لے لیا گیا۔ امریکہ کے تن بدن میں پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر آگ لگی تھی اس پر میاں نواز شریف کے 28 مئی 1998ءکے دھماکوں نے تیل چھڑک کر اس آگ کو مزید بھڑکا دیا۔ امریکہ کو امید تھی کہ کبھی تو اس کی مرضی کی حکومت آئے گی جو ایٹمی اثاثے اس کے قدموں میں ڈھیر کر دے گی۔ اس کی امیدوں پر پانی یوں پھر گیا کہ ایٹمی اثاثوں پر مکمل کنٹرول فوج کے پاس ہے۔ یہی امریکہ اور اس کے حامی یا اتحادی ممالک کا دکھ ہے۔ وہ پاکستان کے ایٹمی اثاثوں تک اپنی دسترس کی راہ میں پاک فوج کو رکاوٹ سمجھتا ہے۔ یقیناً ایسا ہی ہے۔ ایٹمی پروگرام ”سیاسی قیادت“ کے ہاتھ میں ہوتا تو اب تک اس کو ترک کرنے کی قیمت لگ چکی ہوتی اور رقم سوئٹزر لینڈ کے بنکوں میں جمع ہو چکی ہوتی۔ امریکہ اس رکاوٹ کو ہٹانے کے لئے سرتوڑ کوشش کرتا ہے۔ فوج کے مضبوط ہوتے ہوئے اس کی کوئی سازش پنپ سکتی ہے نہ کوئی کوشش کامیاب ہو سکتی ہے لہٰذا وہ پاک فوج کو اس حد تک کمزور کر دینا چاہتا ہے کہ اس کی ایٹمی پروگرام پر گرفت ڈھیلی ہو جائے۔ 
پاکستان میں ایک طبقہ‘ میڈیا کا معتدبہ حصہ اور سیاستدانوں کا بڑا طبقہ فوج کو بدنام اور کمزور کرنے کے لئے باقاعدہ امریکہ کے پے رول پر ہے۔ پاک فوج کے حوالے سے امریکہ اور بھارت کی سوچ یکساں ہے۔ اس حوالے سے دانستہ یا نادانستہ ہمارے حکمران ان کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں۔ پاکستان بھارت جنگوں میں سیاستدان نہیں افواج کے اہلکار شہید ہوئے۔ مسئلہ کشمیر ہنوز حل طلب ہے۔ جس فوج نے کشمیر کی خاطر قربانیاں دیں وہ مسئلہ کشمیر کے حل تک بھارت کے ساتھ ہاتھ ملانے کا سوچ بھی نہیں سکتی چہ جائیکہ اس کے ساتھ تجارت اور اسے پسندیدہ ملک قرار دینے کی حمایت کرے۔ یہ جو کہتے ہیں کہ فوج کو اعتماد میں لیا گیا ہے ۔ سراسر جھوٹ ہے۔ بلکہ یہ فوج پر بہتان ہے۔ اگر واقعی فوج کو اعتماد میں لیا ہے تو اس پر فوج سے بیان بھی دلوا دیا جائے! 
امریکہ نے ایٹمی اثاثوں تک رسائی کے لئے 2005ءکے زلزلے کے دوران امدادی کارروائیوں اور متاثرین کی بحالی کی آڑ میں سپیشل کمانڈوز اور سی آئی اے کے جاسوس پاکستان بھجوائے جس کا تذکرہ امریکہ میں شائع ہونے والی تازہ ترین کتاب ”دی کمانڈ ڈیپ ان سائیڈ دا پریذیڈنٹ سیکرٹ آرمی“ میں کیا گیا ہے۔ حسین حقانی نے ہزاروں مشکوک امریکیوں کو ویزے دان کر دئیے ان کا مقصد ایٹمی اثاثوں تک رسائی تھی لیکن پاکستان کا ایٹمی پروگرام کسی بھی ملک کے پروگرام سے زیادہ محفوظ ہے۔ امریکہ برطانیہ فرانس اور روس کے ایٹمی پروگرام کے گرد چار چار حفاظتی سرکل ہیں پاکستان کے پروگرام کے گرد پانچ ہیں۔ (1) سائنسدان (2) انجینئرز (3) انٹیلی جنس (4) فوج (5) انتظامیہ‘ اگر سرتوڑ کوشش کے باوجود امریکہ کے ماہر دہشت گرد اس تک نہیں پہنچ سکے تو اور کوئی بھی کبھی نہیں پہنچ سکتا۔ غیر محفوظ ہاتھوں کا واویلا فوج کو کمزور کرنے کا سوچا سمجھا منصوبہ ہے۔ بلوچستان میں جو کچھ ہوتا ہے وہ بھی فوج کو بدنام کرنے کے لئے کیا جا رہا ہے۔ بلوچستان کے 27 اضلاع میں سے پانچ میں شورش ہے کوئٹہ‘ قلات‘ خضدار‘ بگٹی اور کوہلو ان اضلاع میں موجود اور بیرون ممالک مقیم علیحدگی پسندوں کو امداد بھارت اور امریکہ کی طرف سے ملتی ہے۔ را‘ سی آئی اے اور موساد ٹریننگ افغانستان میں دیتی ہےں۔ امریکی کانگریس کمیٹی میں بلوچستان کی آزادی کی بات ہوئی تو حربیار مری کی سرگرمیاں تیز ہو گئیں اس نے لندن میں خان آف قلات سلمان دا ¶د خان اور جنیوا میں براہمداغ بگٹی سے ملاقاتیں کیں۔ جن میں بلوچستان کی آزادی کے منشور کی بات ہوئی۔ کیا یہ ملاقاتیں امریکہ کی آشیرباد کے بغیر ممکن ہیں؟ امریکہ جند اللہ کھڑی کرکے پاکستان ایران تعلقات خراب کرنے کی سازش بھی کر رہا ہے۔ بلوچستان میں ایف سی موجود ہے جس کو اپنی بیرکوں سے نکلنے کی اجازت نہیں۔ صوبائی حکومت جہاں چاہے اسے ڈپلائے کر سکتی ہے۔ اگر کوئی کارروائی ہوتی ہے تو بلوچستان حکومت کے حکم پر ہوتی ہے۔ شور مچایا جاتا ہے کہ فوج نے یہ کر دیا۔ وہ کر دیا۔ اس پر سیاستدان چپ سادھ لیتے کہ فوج بدنام ہو رہی ہے‘ ہوتی رہے۔(جاری ہے)


Friday, February 17, 2012

امیدوں کے چراغ


فضل حسین اعوان

 امیدوں کے چراغ
اٹلی کا سلویو برلسکونی بالکل ایسا ہی چتر، چالاک اور شاطر وزیر اعظم تھا‘ جیسے بڑے نام کے سیاستدانوں سے پاکستانیوں کا واہ پڑا ہوا ہے۔ برلسکونی اور ہمارے اقتدار کے مدار المہاموں کے کارہائے نمایاں میں انیس بیس کا فرق ہے۔ کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ انیس کون اور بیس کون؟ جو بھگت رہے ہیں وہ اپنے اپنے سیاسی بڑوں کو بیس قرار دیتے ہیں۔ ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق برلسکونی کرپشن، فراڈ، دھوکہ دہی، غبن وغیرہ کے بل پر دولت مند ہوا۔ پھر پیسے کے بل پر سیاست میں داخل ہوا اور سترہ سال تک وقفے وقفے سے اٹلی کا وزیر اعظم رہا۔ اس دوران سلویو برلسکونی پر مقدمات چلے لیکن وہ بچتا رہا۔ سلویو برلسکونی پر مختلف مقدمے چل رہے تھے چنانچہ اس نے اپنی پارٹی کے ارکان کے تعاون سے ایسے کئی قوانین بنائے جو اسے عدلیہ اور قانون سے محفوظ رکھیں۔ برلسکونی ہی اٹلی میں سب سے بڑی میڈیا کمپنی، میڈیا سیٹ کا مالک ہے۔ چنانچہ اس کے اخبارات ٹی وی نیٹ ورکس نے ہمیشہ اسے دیوتا کی حیثیت سے پیش کیا ‘ جیسے ہمارے حکمرانوں کوPTV پیش کراتا ہے۔حالانکہ برلسکونی انتہائی عیاش آدمی تھا۔ طوائفوں کی خدمات حاصل کرنا اس کا وتیرہ تھا اور سیاسی سازشیں اپنانا عادت مغلظہ۔جنوری 2010ءمیں جب وزیر اعظم برلسکونی کو محسوس ہوا کہ میلان کی عدالت اسے کرپشن اور فراڈ کے دو کیسوں میں طلب کرنے والی ہے تو اس نے سینٹ سے اپنا ”عارضی استثنیٰ“ منظور کرا لیا۔ اس استثنیٰ کی رو سے برلسکونی کو یہ حق مل گیا کہ وہ ”اہم“ عوامی ذمے داریاں انجام دینے کے باعث اٹھارہ ماہ تک عدالت میں حاضر نہیں ہو سکتا۔اسی استثنیٰ کے خلاف میلان کے سرکاری وکیل سپریم کورٹ پہنچ گئے۔ جنوری 2011ءمیں اٹلی کے کئی سو ججوں نے استثنیٰ کے خلاف مظاہرہ کیا۔ جنوری 2011ءہی میں سپریم کورٹ نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے عارضی استثنیٰ کا قانون کالعدم قرار دے ڈالا۔ سپریم کورٹ نے فیصلے میں لکھا کہ یہ قانون آئین کی شق 3 کے منافی ہے اس شق کی رو سے اٹلی کے تمام شہری یکساں معاشرتی درجہ رکھتے ہیں۔اسلام میں 14سو سال قبل یہ فیصلہ ہوچکا ہے ۔استثنیٰ سے محروم ہونے کے بعد برلسکونی پہلی مرتبہ 28مارچ 2011ءکو عدالت میں حاضر ہونے پر مجبور ہوگیا۔ اس کے بعد مختلف مقدمات کے سلسلے میں وہ عدالتوں کے چکر لگاتا رہا۔ برلسکونی اور اس کے وکلاءمختلف ہتھکنڈے استعمال کرکے کیس لٹکائے رکھتے تھے۔جیسے ہمارے ہاں چار سال سے ہو رہا ہے۔ یوں کئی مقدمے اس لیے خارج ہوئے کہ ان کے گواہ ہی ادھر ادھر ہو گئے۔ ہمارے این آئی سی ایل کیس ایسی ہی مثا ل ہے۔پھر وہ جان بوجھ کر مقدمے کی تاریخوں میں بین الاقوامی دورے رکھ دیتا یا میٹنگیں کرتا پھرتا۔ قانون کو چکمہ دینے پر برلسکونی اظہار فخر کرتا تھا۔ایسا ہی ہمارے سیاست دان کرتے ہیں۔سفارش، رشوت اور دھونس کی وجہ سے ایک مقدمے کے سوا برلسکونی کو کبھی سزا نہ ہو سکی۔ چنانچہ 2006ءمیں اس نے بڑے فخریہ لہجے میں کہا عدالتیں میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں بلکہ مجھے فخر ہے کہ میری مزاحمت اور قربانیوں کے ذریعے اطالوی عوام کو ایک موثر عدالتی نظام میسر آ جائے گا۔مغرو ر متکبر اور چالاک برلسکونی کے گرد قانون کا گھیرا تنگ ہوتا گیا۔لیکن وہ ہمارے گیلانی صاحب کی طرح اقتدار سے چمٹا رہنا چاہتا تھا لیکن اس حرکتوں کے باعث اس کے ساتھی اس کو چھوڑتے گئے اس کی اکثریت اقلیت میں بدلی تو16 نومبر 2011 کو استعفیٰ دیدیا۔پیپلز پارٹی کے اتحادیوںکے اعصاب مضبوط ہیں،نظر کمزور ہے کان قوت سماعت سے محروم ہیں؟۔اور تو اور سپریم کورٹ کی جانب سے ملزم قرار دینے کے باوجود ان کے دامن سے لپٹے ہیں ۔ شاید ان کے دامن سے نہیں اقتدار کے دامن سے چمٹے ہیں ۔ جو بھی مقتدر ہو اس کے ساتھی ہیں۔ہمارے حکمرانوں کے سارے کام برلسکونی جیسے ہیں انجام بھی خیر سے ویسا ہی ہو گا۔
سوہارتو طویل عرصہ اقتدار میں رہا۔ اس کی حکمرانی کے پہلے دس سال میں انڈونیشیا نے ریکارڈ ترقی کی پھر اس کی حکمرانی ذاتی مفادات کی کھیتی بنتی گئی۔ اس نے بھی اپنی اولادوں، رشتہ داروں، اور دوستوں پر نوازشات کی بھرمار کر دی۔ اقتدار سے گیا تو اس کے ڈکلیئر اثاثہ جات کی مالیت35 ارب ڈالر تھی۔ جان سے گیا تو حکومت نے قوم کے خون کے قطرے قطرے کا حساب لے لیا۔ آج سوہارتو کی لوٹ مار سے اکٹھا کیا گیا پیسہ انڈونیشیا کی مزید ترقی و خوشحالی کے لئے استعمال ہو رہا ہے۔
نیکلس کی کہانی تو ہم نے پڑھ رکھی ہے۔ نہیں نہیں ترک وزیراعظم طیب اردگان کی اہلیہ ایمن کے نیکلس کی نہیں۔ ایمن نے جو نیکلس سیلاب متاثرین کےلئے دیا تھا وہ مستقلاً یا عاریتاً کس کے پہناوے کا حصہ ہے اس بارے میں تاریخ اور انویسٹی گیشن رپورٹنگ والے خاموش ہیں۔ ہم اس کہانی کی بات کر رہے ہیں۔ جس کے ایک کردار نے اپنی امیر کبیر سہیلی سے نیکلس ایک شادی میں شرکت کیلئے لیا تھا۔ بدقسمتی سے شادی کے دوران وہ ہار گر گیا۔جس سے ہار گنوانے والی اور اس کا شوہر حواس باختہ ہو گئے۔ بہرحال ادھار تو لوٹانا تھا۔ ایسا ہی ہیروں کا ہار بنوانے کیلئے جوڑے نے یہاں اپنی ضروریات مختصر کیں وہیں دن رات ایک کر دیا۔ مشقت محنت اور کسی حد تک فاقہ کشی سے ان کی حالت بالکل ایسی ہو گئی جیسی آج ہمارے حاکموں کی سختیوں، وسائل پر دسترس لوٹ مار اور فارن اکاﺅنٹس بھرنے کی حسرت اور اقدامات کے باعث مسائل و مصائب زدہ ا ور بحرانوں میں گھرے عوام کی ہو چکی ہے۔ کپڑوں کا رنگ اڑا، چہرے کا روپ گیا، آواز میں لرزش، چال میں لغزش.... کوڑی کوڑی جوڑ کر جوڑے نے خوبصورت چمکتا دمکتا لشکارے مارتا ہیروں اور جواہرات کا نیکلس خریدا۔ ادھار لوٹانے گئے مالکن خاتون کو سارا ماجرا سناتے ہوئے ہار اس کے سامنے رکھا تو وہ بڑی حیران ہوئی اور یہ کہہ کر اس جوڑے کو ششدر اور ساکت کر دیا کہ کھو جانے والا ہار تو نقلی تھا۔ جوڑا سکتے سے باہر آیا تو خوشی سے ان کا چہرہ چمک اٹھا۔ سالوں کی تھکن مشقت اور نقاہت دور ہو گئی.... قوم فکر نہ کرے آج ان کی محنت کی لوٹی گئی ایک ایک پائی سوئٹزرلینڈ کے بنکوں میں جمع ہو رہی ہے۔ برلسکونی والا انجام بھی ہم دیکھیں گے۔ سوہارتو والا احتساب بھی نظر آئے گا۔ سوئٹزر لینڈ کے نئے قانون کے مطابق سوئس بنک لوٹ مار کا پیسہ واپس اس ملک کو دینے کے پابند ہیں۔ بعد از مرگ تو یقیناً کیس کیا جائے گا لٹیرے کی زندگی میں بھی ہوسکتا ہے۔حساب تو آخر دینا ہی ہو گا۔ اندازہ کیجئے کھربوں روپے واپس قومی خزانے میں آئے تو قوم کو ایسی خوشیاں ملیں گی جیسی پائی پائی جوڑ کر اصل ہار خریدنے والے جوڑے کو اس کی اپنی ملکیت ہونے پر ملی تھیں۔ زرق برق لباس، پرنور چہرے سخن میں لطافت چال میں وقار، ہر طرف ترقی و خوشحالی!!awan368@yahoo.com


جلاد ۔۔۔ قصاب

 فروری,16 ، 2012

جلاد ۔۔۔ قصاب
فضل حسین اعوان ـ
برطانوی ہفت روزہ اکانومسٹ نے ”بھارت کا آخری جلاد“ کے عنوان سے لکھنو کے احمد اللہ کے پیشے اور اس کی شخصیت کے دلچسپ پہلووں سے پردہ اٹھایا ہے۔ احمد اللہ کا آبائی پیشہ سزائے موت کے قیدیوں کو پھانسی کے ذریعے موت سے ہمکنار کرنا ہے۔ اس حوالے سے اسے جلاد ہی کہا جائے گا۔ وہ اپنے پیشے کے حوالے سے اپنے گھر پر کسی سے بات کرنے کے لئے تیار ہے نہ اس کی چرچا چاہتا ہے کہ لوگ اس کے پیشے سے آگاہ ہو سکیں۔ اسے اپنے پیشے پر کوئی شرمندگی تو نہیں لیکن لوگ چونکہ اس پیشے کو پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھتے اس لئے وہ بھی نہیں چاہتا کہ لوگ آئیں اور اسے ایک احمق کے طور پر دیکھیں۔
1965ءمیں احمد اللہ نے اپنے باپ سے لکھنو کے چیف جلاد کا چارج لیا تھا۔ اس وقت اسے تنخواہ کے علاوہ ایک سزا یافتہ انسان کو موت کی لکیر پار کرانے پر 25 روپے (5 ڈالر) ملتے تھے۔ اسے اپنے فریضے کی ادائیگی کے لئے دہلی‘ آسام اور مدھیہ پردیش بھی جانا پڑتا تھا۔ اب تک وہ 40 انسانوں کا ان کی روح اور جسم کے درمیان رشتہ ختم کرا چکا ہے۔ اب اس کا بزنس مندے کا شکار ہے۔ آخری مرتبہ اس نے 20 سال قبل آسام کے ایک نوجوان کو پھانسی پر لٹکایا تھا جس نے ایک بچے کو اغوا کے بعد قتل کر دیا تھا۔ ان دنوں اس کے معاوضے میں حیرت انگیز اضافہ ہو چکا تھا‘ 10 ہزار روپے فی پھانسی۔ بھارت میں موت کی سزا پر بہت کم عملدرآمد ہوتا ہے۔ آخری پھانسی 17 سال قبل دی گئی تھی۔ بھارت میں سزائے موت کے خلاف اشرافیہ ایک باقاعدہ مہم چلائے ہوئے ہے لیکن اب چونکہ اجمل قصاب کو ممبئی حملوں میں مجرم قرار دے کر سزائے موت سنا دی گئی ہے اس لئے ہندو اشرافیہ نے سزائے موت کے خلاف مہم کو بھی معرض التوا میں ڈال رکھا ہے۔ اگر قصاب بھارتی ایجنسیوں کا مہرہ نہیں تو احمد اللہ کی خدمات آخری بار اجمل قصاب کو لٹکانے کے لئے حاصل کی جا سکتی ہیں۔ اس کے بعد شاید سزائے موت کے خاتمے کے لئے قانون سازی کر دی جائے۔ احمد اللہ ایک مسلمان کے طور پر سزائے موت کے خاتمے کے حق میں نہیں اس کے نزدیک سزائے موت کا خاتمہ کیا گیا تو جو لوگ پھانسی کے خوف سے انتہائی قدم نہیں اٹھاتے۔ سزائے موت کے خاتمے سے ان کی حوصلہ افزائی ہو گی۔ آج اس کا اپنی تنخواہ میں بمشکل گزارہ ہوتا ہے۔ اس کا پھانسی الاونس تقریباً بند ہو چکا ہے۔ اسے جس کام کے لئے رکھا گیا تھا وہ 20 سال سے نہیں ہو رہا۔ ایک وقت وہ تھا کہ انگریزوں نے اتنے لوگوں کو سزائے موت کا حکم سنایا کہ احمد اللہ کے باپ کے پاس سر کھجانے کا بھی وقت نہیں ہوتا تھا اگر اس وقت معاوضہ وہی ہوتا جو احمد اللہ نے آخری پھانسی پر (10 ہزار) وصول کیا تھا تو یہ جلاد خاندان کروڑ پتی ہو چکا ہوتا۔ وہ پھانسی میں اسے اپنی مہارت قرار دیتا ہے کہ اس نے جس کو بھی پھندا لگایا اس کی فوری اور کم از کم تکلیف کے ساتھ جان جان آفرین کے سپرد ہو گئی۔ تارا مسیح کا بھی یہی دعویٰ تھا۔ احمد اللہ کو اپنے پیشے اور کارکردگی پر فخر ضرور ہے لیکن لوگ چونکہ اس پیشے کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں وہ ان کی چبھتی نظروں کا سامنا نہیں کر سکتا اس لئے وہ اس بزنس کو اپنی اولاد تک منتقل نہیں کرنا چاہتا۔ وہ کہتا ہے کہ وہ اپنے خاندان کا آخری جلاد ہے۔ 
ہمارے ہاں جلاد اور قصاب کو بے رحم‘ ظالم اور سنگ دل کے معانی میں لیا جاتا ہے۔ ضروری نہیں کہ پیشہ ور جلاد اور قصاب کی فطرت بھی جلادی اور قصابی ہو۔ جیسے احمد اللہ کی کوشش ہوتی ہے کہ مرنے والے کو ممکنہ حد تک کم تکلیف ہو۔ قصاب بھی چھری کی دھار کو انتہائی کاٹ دار بنا کر ہی جانور کے گلے پر پھیرتے ہیں۔ ان کا مقصد ذبیحہ تو ہے ہی ساتھ خیال رکھا جاتا ہے کہ جانور کی تڑپے بغیر روح نکل جائے۔
ہمارے ہاں عرف عام میں جن کو جلاد و قصاب کہا اور سمجھا جاتا ہے ان کے چہرے بے نقاب ہو چکے ہے۔ سرعام انسانوں کو خون میں نہلا دینا‘ آگ میں جلاد بنا‘ ٹارگٹ کلنگ میں اڑا دینا یہ جلادی قصابی اور فسادی کارروائیاں آئے دن دیکھنے میں آتی ہیں۔ ان کے دل احمد اللہ اور تارا مسیح جیسے ترحم سے خالی ہیں۔ 
آج کے حکمران بھی جلادوں اور قصابوں کا ہی روپ بہروپ ہیں۔ حمزہ شہباز کہتے ہیں کہ سالانہ 10 ہزار ارب کی کرپشن ہوتی ہے۔ اسے مبالغہ سمجھ لیا جائے تو ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ تو مصدقہ ہے کہ گذشتہ 4 سال میں 8500 ارب روپے کی لوٹ مار ہو چکی ہے۔ یہی قومی خزانے میں موجود ہوتے تو آج مہنگائی بیروزگاری اور خود کشیوں کی وہ صورت حال نہ ہوتی جو آج درپیش ہے۔ اپنی توندیں بڑھانے اور بنک اکاونٹس بھرنے والے ہی کروڑوں ہم وطنوں کے دکھوں‘ تکلیفوں‘ مسائل‘ مصائب کے ذمہ دار اور ان کی امنگوں و آرزوں کے قاتل ہیں۔ احمد اللہ اور تارا مسیح کی بھی کوشش ہوتی تھی سولی پر چڑھنے والے کی جان آسانی سے نکل جائے لیکن یہ جلاد اور قصاب بے بس‘ بے کس اور لاچار لوگوں کو جان کنی کے عالم میں دیکھ کر شاید محظوظ ہوتے ہیں۔ احمد اللہ نے کہا ہے کہ وہ اپنے خاندان کا آخری جلاد ہے خدا کرے کہ قومی سلامتی اور خودداری کا سودا کرنے والے اور ملک و قوم کو ہر بحران میں مبتلا کرنے والے جلاد اور قصاب صفت لوگ پاکستان کے حکمران نہ بن سکیں۔ پاکستان اقبالؒ و قائدؒ کا اسلامی جمہوری فلاحی عوامی پاکستان ہو!

Tuesday, February 14, 2012

ایران پر شب خون کی تیاریاں

منگل ، 14 فروری ، 2012

ایران پر شب خون کی تیاریاں
فضل حسین اعوان 
رضا شاہ پہلوی کی بادشاہت میں ایران کلچر اور معاشرت کے حوالے سے مغربی اقدار کا نمونہ نظر آتا تھا۔ امام خمینی نے اپنے ہم وطنوں کے ضمیر کو جھنجھوڑا‘ غیرت ملی کو جگایا تو بکھرے اور گروہوں سے بٹے ہوئے ایرانی ہجوم سے ایک قوم بن گئے۔ پھر اس قوم نے امریکہ کے پروردہ شہنشاہ کو ایران سے بھگا کر دم لیا اور امریکہ کی ایران سے مداخلت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا۔ ایرانیوں نے 33 سال سے ”مرگ بر امریکہ“ نعرہ اپنایا ہوا ہے۔ ایران میں امریکہ کی شہنشاہ کے دور کے دوران جس طرح پذیرائی مثالی تھی اسی طرح اسلامی انقلاب کے بعد اس کی رسوائی بھی اپنی مثال آپ ہے۔ امریکہ ایسی ذلت ٹھنڈے پیٹوں کہاں ہضم کرنے والا ہے۔ ہمہ وقت ایران پر شب خون مارنے کی تاک میں رہا۔ آج اس کی ایران پر حملے کی تیاریاں مکمل ہیں۔ بہانا وہی جو عراق پر آہن و بارود برسانے کے لئے تراشا گیا تھا۔ وہاں اسے وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار نظر آئے تو آج اسے ایران ایٹم بم بناتا دکھائی دیتا ہے۔ اسی کی آڑ میں اس پر پابندی در پابندی عائد کی جاتی رہی۔ جاسوسی کے لئے اس کے ساحل کے قریب کبھی آبدوزیں گشت کرتی ہیں تو کبھی ڈرون سرحد کے قریب اڑتے اڑتے ایران کی فضا میں داخل ہو جاتے ہیں۔ ایران نے اپنی بحری اور فضائی حدود میں داخل ہونے والی آبدوز واپس جانے دی نہ ڈرون۔۔ اب تک ایران تین امریکی ڈرون گرا چکا اور ایک کو بحفاظت ہوائی اڈے پر لینڈ کرا چکا ہے۔ اب امریکہ اور اس کے اتحادی ایران پر مزید پابندیاں لگانے کے ساتھ ایران کے گرد گھیرا بھی تنگ کر رہے ہیں۔ امریکہ کے دو بحری بیڑے ایرانی سمندر کے قریب لنگر انداز ہیں مزید ایک پہنچا چاہتا ہے۔ فرانس اور اٹلی کے بیڑے بھی امریکی مدد کے لئے تیار ہیں۔ بری اور فضائی پہنچ کے لئے افغانستان اور عراق تو امریکہ کی کالونی کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ پاکستان میں مشرف اور آج کے باضمیر اور غیرت مند حکمرانوں سے امریکہ کی کاسہ لیسی اور حاشیہ برداری کے سوا کسی اور کردار کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ گویا ایران کے گرد امریکہ اور اس کے اتحادی ”مرگ بر امریکہ“ کا انتقام لینے کے لئے اپنی دانست میں شکنجہ کس رہے ہیں۔ اسرائیل ایران پر حملے کی براہ راست دھمکی نہیں دیتا۔ اس کی طرف سے دھمکیاں امریکی حکام کی طرف سے سنائی اور دہرائی جاتی ہیں۔ ایران نے امریکہ اور اس کے کاسہ لیسوں کی دھمکیوں کا کبھی اثر لیا نہ پابندیوں کو درخور اعتنا سمجھا۔ وہ خدا کے بھروسے پر اپنی دانست میں جسے منزل سمجھتے ہیں۔ اس کی طرف برق رفتاری سے قدم بڑھاتے چلے جا رہے ہیں۔ منزل کی طرف تیز گامی بھی مغرب کا دکھ ہے۔ اسرائیل فلسطینیوں‘ ایرانیوں ہی نہیں عربوں سمیت عالم اسلام کے لئے ایک ناسور ہے۔ ایران کی توپوں کا رخ اس ناسور کی طرف ہے۔ افسوس آج اکثر مسلم ممالک بھی ایران کے خلاف امریکہ کے کندھے سے کندھا ملائے ہوئے ہیں جو دراصل اسرائیل کی کھل کر حمایت کے مترادف ہے۔
آج ہمارے حکمران ایران کے ساتھ گیس کے معاہدوں پر عملدرآمد سے محض امریکہ کے خوف کی وجہ سے کبھی ہچکچاہٹ کا انداز اپناتے ہیں تو کبھی صاف مکر جاتے ہیں۔ امریکہ ایران پر چڑھائی کرتا ہے تو آج کے حکمرانوں کی موجودگی میں کوئی بعید نہیں کہ خود پاکستان کی حدود ایران کے خلاف بھی اسی طرح استعمال کرنے کی اجازت دے دی جائے۔ جس طرح افغانستان کے خلاف استعمال ہو رہی ہیں۔ امریکہ نے ایران پر حملے کے لئے اسرائیل کو شہ دی یا خود حماقت تو اس سے یہاں خطے میں تباہی و بربادی ہو گی وہیں امریکہ اور اسرائیل کے مفادات خود ان کے اپنے اور دیگر ممالک میں بھی خطرات میں ہوں گے۔ ایرانی سپریم رہنما آیت اللہ خامنہ ای نے کہا ہے کہ ایران اسرائیل کو 9 منٹ میں تباہ کر سکتا ہے۔ سچ بھی یہی ہے۔ اس کے باوجود بھی ایران پر حملہ ہوتا ہے تو پھر ہر طرف بربادی ہی نظر آئے گی۔ ہمارے حکمران جو امریکہ کی غلامی کے لئے دل میں ایک تڑپ رکھتے ہیں۔ ایران پر حملے میں بھی امریکہ کا ساتھ دیا تو اندرونی طور پر ملک جس انتشار اور افتراق کا شکار ہو گا اس کا شاید حکمرانوں کو اندازہ نہیں۔ معاملات بڑے مخدوش ہو سکتے اور بہت دور تک جا سکتے ہیں۔ یہاں یوگوسلاویہ کی مثال بھی برمحل ہو گی کہ دوسری جنگ عظیم کے دوران یوگوسلاویہ کی سیاسی قیادت عوامی خواہشات کے برعکس ہٹلر کے ساتھ تھی۔ کچھ عرصہ بعد فوج نے عوامی دباو پر اقتدار پر قبضہ کیا اور فوری طور پر ہٹلر کی حمایت ترک کرکے اتحادی کیمپ میں شامل ہو گئی۔


Sunday, February 12, 2012

ترکی کے بعد شہباز کی جرمنی کی بھی کامیاب پرواز

اتوار ، 12 فروری ، 2012

ترکی کے بعد شہباز کی جرمنی کی بھی کامیاب پرواز
فضل حسین اعوان 
دورے کے چوتھے روز وزیر اعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف نے جرمن آرٹسٹوں، وکلائ، صحافیوں اور دانشوروں سے ملاقات کی۔ ملاقات کے دوران گفتگو کرتے انہوں نے کہا کہ پاکستان نے عالمی شہرت کے حامل فنکار، موسیقار اور مصور پیدا کئے ہیں۔ پنجاب جرمنی کے ساتھ دانشوروں اور فنکاروں کے ایکسچینج پروگرام کو خوش آمدید کہے گا۔ لاہور علم و فن کا گہوارہ ہے، جرمن پینٹنگز کی نمائش کیلئے تمام سہولتیں فراہم کریں گے۔ دہشت گردی اور انتہاپسندی تخلیقی عمل میں رکاوٹ پیدا نہیں کر سکتی۔ جرمنی کے ساتھ پاکستان کے عظیم ثقافتی و تہذیبی رشتے ہیں اور اسے شاعر مشرق علامہ محمد اقبالؒ کی درس گاہ ہونے کا منفرد اعزاز بھی حاصل ہے۔ جرمن فنکاروں اور دانشوروں نے تعلیم کے فروغ میں وزیر اعلیٰ پنجاب کی کوششوں کی تعریف کی۔ محمد شہباز شریف نے ملتان سے اغوا ہونے والے جرمن باشندے کی اہلیہ سے برلن میں ملاقات کی۔ ملاقات کے دوران گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آپ کے شوہر کی جلد از جلد بازیابی کی کوشش کی جائے گی، آپ کے شوہر کے اغوا پر مجھے اور میری حکومت کو سخت تشویش ہے۔ مغوی جرمن اہلکار کی اہلیہ نے وزیر اعلیٰ سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ آپ سے ملاقات کے بعد میرا حوصلہ بڑھا ہے۔ اسی روز برلن میں ایک پرہجوم پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔ اس موقع پر صوبائی وزیر خزانہ کامران مائیکل، سیکرٹری زراعت عارف ندیم، رکن صوبائی اسمبلی چودھری ارشد جٹ، پنجاب انویسٹمنٹ بورڈ کے وائس چیئرمین مفتاح اسماعیل، پی ایم ایل (این) برطانیہ کے صدر زبیر گل اور پاک جرمن کونسل کے صدر شاہد ریاض گوندل اور بڑی تعداد میں جرمن میڈیا کے نمائندے بھی موجود تھے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب نے کہا ہے کہ میں نے زرعی ایکسپورٹ کے ذریعے پنجاب کے دیہات کی پسماندگی کو خوشحالی میں بدلنے کا عزم کر رکھا ہے۔ وہ وقت دور نہیں جب پاکستان فوڈ آئٹمز برآمد کرنے والے ممالک میں سرفہرست ہوگا۔ یورپی سرمایہ کار پنجاب میں مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کیلئے آگے بڑھیں۔ میں خود یورپی سرمایہ کاروں کے سرمائے کے تحفظ کی نگرانی کروں گا۔ پریس کے نمائندوں نے جرمن زبان میں خطاب پر وزیر اعلیٰ کو خراج تحسین پیش کیا اور انہوں نے دورے کے اخراجات ذاتی جیب سے ادا کرنے پر وزیر اعلیٰ پنجاب اور ان کے ساتھیوں کی تعریف کی۔ جرمن صحافیوں نے کہا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب کے طرز عمل کی پیروی مغربی دنیا کے رہنماﺅں کو بھی کرنی چاہئے۔ دورے کے آخری روز 22 جنوری کو برلن میں مقیم سفارتکاروں‘ بین الاقوامی ماہرین اقتصادیات اور سرمایہ کاروں نے برلن میں پاکستان کی زرعی اجناس کی نمائش کو پنجاب اور پاکستان کی بڑی کامیابی قرار دیا ہے۔
نمائش کے سلسلے میں منعقد ہونے والی تقریب میں تقریر کرتے ہوئے وزیراعلیٰ محمد شہباز شریف نے کہا کہ میں اپنی اور پاکستانی وفد کی شاندار پذیرائی پر جرمنی کی سیاسی قیادت اور اعلیٰ حکام کا شکر گزار ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ میرا دورہ پاکستان کی زرعی اجناس کی برآمد میں فروغ کے ساتھ ساتھ پاک جرمن تعلقات کو مضبوط تر بنانے کا باعث بنے گا۔(ختم شد)


Saturday, February 11, 2012

ترکی کے بعد شہباز کی جرمنی کی بھی کامیاب پرواز

 ہفتہ ، 11 فروری ، 2012

ترکی کے بعد شہباز کی جرمنی کی بھی کامیاب پرواز
فضل حسین اعوان 
گذشتہ ماہ کے ترکی کے کامیاب دورے کی طرح وزیراعلیٰ پنجاب محمد شہباز شریف کا جرمنی کا 5 روزہ دورہ بھی کامیابیوں کی نوید لایا۔ میاں محمد شہباز شریف 18 فروری کو برلن ائرپورٹ پر اترے تو پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد نے ان کا والہانہ اور پرجوش استقبال کیا۔ ائرپورٹ کی عمارت قائداعظم زندہ باد‘ پاکستان زندہ باد اور نواز شریف زندہ کے فلک شگاف نعروں سے گونج اٹھی۔ اس موقع پر وزیراعلیٰ نے ان سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ امر خوش آئند ہے کہ بیرون ملک موجود پاکستانی وطن کی خدمت اور حفاظت کا غیر معمولی جذبہ رکھتے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) پاکستان کو کرپشن‘ اقربا پروری اور لوٹ مار سے نجات دلا کر اسے خوشحالی اور عظیم ترین ترقی سے ہمکنار کرنے کے لئے کوشاں ہے۔ اس موقع پر انہوں نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا عالمی زرعی نمائش گرین ویک کے ذریعے پنجاب کے پھلوں‘ سبزیوں اور دیگر مصنوعات کا تعارف بین الاقوامی منڈی میں پاکستان کو اعلیٰ مقام دلانے میں اہم کردار ادا کرے گا۔ قدرت نے پاکستان کو بہترین پھلوں اور سبزیوں سے نوازا ہے جو پیداوار‘ لذت اور کوالٹی میں دنیا کے کسی بھی خطے کا مقابلہ کر سکتی ہیں۔
19 فروری کو شہباز شریف نے برلن میں مسلم لیگی کارکنوں اور پاکستانیوں کو دکھی دل کے ساتھ بحرانوں میں گھرے ہوئے قائداعظم کے پاکستان کی حالت زار سے آگاہ کیا اور ان کو امید کی ایک کرن دکھاتے ہوئے کہاکہ بیرون ملک تارکین وطن پاکستان میں کرپٹ اور لوٹ مار میں مصروف حکمرانوں کی رخصتی کی خوشخبری جلد سننے کیلئے تیار رہیں۔ پاکستان کی زرعی مصنوعات کو دنیا میں فروغ دینے کیلئے جو کام مسلم لیگ (ن) کی پنجاب حکومت کر رہی ہے اگر گذشتہ 63 برس کے دوران اسی طرح کیا جاتا تو آج پاکستان کا شمار دنیا کے خوشحال ترین ملکوں میں ہوتا۔ آج ہم اربوں ڈالر کی بیرونی امداد لینے کے بعد دنیا کے اشاروں پر ناچ رہے ہیں اگر ہم انے پا ¶ں پر کھڑے ہو جائیں تو یہی دنیا ہمارے فیصلوں کا انتظار کرے گی۔ 
مغربی دنیا میں پاکستان کے بارے میں پھیلائی جانے والی تمام باتیں درست نہیں۔ پاکستان رجعت پسندی اور عسکریت پسندی کا نام نہیں۔ ہمارے عوام اور فوج نے دہشت گردی کے خلاف بے مثال قربانیاں دی ہیں۔ اسلام سمیت تمام آسمانی مذاہب امن‘ بھائی چارے اور برداشت کا درس دیتے ہیں۔ اپنے دورے کے دوسرے روز محمد شبہاز شریف نے برلن میں سفارتکاروں‘ جرمن سرمایہ کاروں‘ کاشتکاروں اور سول سوسائٹی کے اراکین سے جرمن زبان میں طویل خطاب کرکے شرکاءکو حیران کر دیا۔ محمد شہباز نے یہ خطاب فی البدیہہ کیا اپنے خطاب کے دوران وزیراعلیٰ نے پاک جرمن تعلقات پر روشنی ڈالنے کے علاوہ جرمنی کے عظیم ثقافتی اور تہذیبی روایات کا بھی ذکر کیا۔ وزیراعلیٰ نے اپنی تقریر میں پاکستانی پھلوں خصوصاً آم کی لذت کا خاص طور پر ذکر کیا اور کہا کہ اگر جرمنی کا مشہور شاعر گوئٹے آج موجود ہوتا تو وہ پاکستانی آم کی تعریف میں ایک نظم ضرور لکھتا۔ 
جرمنی کے دورے کے تیسرے روز وزیراعلیٰ محمد شہباز شریف نے جرمن سٹیٹ سیکرٹری برائے خارجہ امور ایملی ہیبر (Emily Haber) سے ملاقات کی اور ان کے ساتھ خطے کو درپیش صورتحال اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے کردار کے بارے میں تفصیلی گفتگو کی۔
ایملی ہیبر سے ملاقات کے بعد محمد شبہاز شریف نے برلن میں گرین ویک کے تحت پاکستانی اجناس اور زرعی مصنوعات کی نمائش کے سٹالز کا افتتاح کیا۔ اس موقع پر نمائش میں حصہ لینے والے پاکستانی کاشتکاروں اور سرمایہ کاروں کے علاوہ مشرقی یورپ کے سرمایہ کاروں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔ نمائش میں پنجاب سے 21 زرعی اجناس اور مصنوعات رکھی گئی تھیں۔ پاکستان کی 63 سالہ تاریخ میں ملکی زرعی برآمدات بڑھانے کے حوالے سے کسی مغربی ملک میں لگائی جانے والی اپنی نوعیت کی یہ پہلی نمائش تھی۔ جرمنی کی وزارت برائے اقتصادی تعاون و ترقی کی پارلیمانی سٹیٹ سیکرٹری مسز جڈرون کوپ Judrun Kopp نے پاکستانی مصنوعات کی نمائش کے سٹالز کا دورہ کیا اور وزیراعلیٰ پنجاب کو پاکستانی مصنوعات کی نمائش کی مقبولیت پر مبارکباد دی۔ 
اسی روز جرمنی کے وزیر زراعت و خوراک نے وزیر اعلیٰ کو استقبالیہ دیا جس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ پنجاب نے کہا کہ پاکستان سے سبزیوں اور پھلوں کی درآمد پاکستان اور جرمنی دونوں کیلئے سودمند ثابت ہوگی۔ اس سے جہاں پاکستان میں معیاری زراعت کو فروغ ملے گا وہاں جرمنی بھی اعلیٰ کوالٹی کی اجناس حاصل کر سکے گا۔ جرمنی پاکستانی گوشت کی درآمد میں پنجاب سے بھی پورا تعاون کرے گا۔ 
(جاری ہے )


Thursday, February 9, 2012

سینٹ الیکشن .... نواز شریف روایت شکن بنیں گے؟

جمعۃالمبارک ، 10 فروری ، 2012


سینٹ الیکشن .... نواز شریف روایت شکن بنیں گے؟
فضل حسین اعوان 
جاوید ہاشمی جیسا نواز شریف کا پارٹی میں سب سے زیادہ بااعتماد ساتھی، وفادار اور پارٹی و پارٹی قیادت کی خاطر پانچ سال جیل کاٹنے والا، مصائب سے نہ گھبرانے، آمریت کے سامنے جھکنے اور کسی قیمت پر بھی نہ بکنے والا شخص مسلم لیگ ن چھوڑ سکتا ہے تو کوئی بھی لیگی کارکن اور لیڈر پارٹی قیادت کے رویے اور حق تلفی کے باعث پارٹی سے کنارہ کشی اور لاتعلقی اختیار کر سکتا ہے۔ جاوید ہاشمی عمران خان کے دامن وابستہ ہوئے تو ن لیگ کی اعلیٰ قیادت نے انگڑائی لے کر ناراض اور نظر انداز ہونے والے کارکنوں کی دلجوئی کی ایک مہم کا آغاز کیا۔ میاں نواز شریف نے کارکنوں کو قیادت سے دور رکھنے کی کوشش کرنے والوں کو سخت تنبیہ کی اور کارکنوں کے لیے دل اور گھر کے دروازے کھول دیئے۔ کان کی کھڑکیاں شاید بند یا نیم وا ہیں۔ سرانجام خان روٹھے روٹھے سے تھے ان کو منانے پشاور چلے گئے۔ عہدوں کی تقسیم کے دوران ان کی نہ سنی گئی تو وہ اجلاس سے واک آﺅٹ کر گئے گویا ان کو مزید ناراض کر دیا۔ اس کام میں میاں صاحب بڑے ماہر ہیں۔ جاوید ہاشمی کے مسلم لیگ ن سے جانے کے بعد مزید چند روز پت جھڑ جاری رہی جو نہ صرف جلد رُک گئی بلکہ پارٹی پر موسم بہار کا بھی گمان ہونے لگاہے یوں تو سارے سیاست دان کم و بیش ایک جیسے ہوتے ہیں لیکن میاں نواز شریف اور روایتی سیاستدانوں میں تھوڑا سا فرق ہے۔ محمد خان جونیجو کرپٹ لوگوں کو برداشت نہیں کرتے تھے انہوں نے کئی بدعنوان وزراءکو فارغ کیا میاں نواز شریف میں محمد خان جونیجو جیسی کم از کم یہ ایک خوبی تو موجود ہے۔ میاں صاحب نے بھی اپنی وزارت عظمیٰ کے دوران کئی وزراءکو کرپشن پر کابینہ سے نکال باہر کیا۔اگر میاں نواز شریف کی یہ خوبی زرداری صاحب کے اندر بھی حلول کر جائے تو شاید پوری کابینہ نئی بنانی پڑے۔عمران خان کے کزن انعام نیازی بھی جاوید ہاشمی کی طرح مسلم لیگ ن کے وفادار تھے۔ ان کا پارٹی چھوڑنا قیادت کیلئے ایک جھٹکا تھا۔ ان لوگوں کے جانے کے بعد پارٹی قیادت نے اچھے اقدامات کیے جن سے کارکن مطمئن دکھائی دیتے ہیں مگر اصل مرحلہ انتخابات میں آئے گا جب پی پی پی، چودھری لیگ اور عمرانی گروپ کے خلاف کھڑے ہوں گے لیکن قیادت کے لیے فوری امتحان سینٹ کے الیکشن ہیں۔ اس میں دیکھئے پارٹی قیادت سرخرو ہوتی ہے یا ورکرز کی نظروں سے گر جاتی ہے۔ پنجاب سے مسلم لیگ ن سینٹ کی چار جنرل نشستوں سے کامیابی حاصل کر سکتی ہے جبکہ امیدواروں کی تعداد ڈیڑھ درجن کے قریب ہے۔ ان میں سردار ذوالفقار علی خان کھوسہ (مشیر وزیر اعلیٰ پنجا ب) سعید مہدی (نواز شریف کے سابق پرنسپل سیکرٹری رہے) صدیق الفاروق ، عارف سندھیلہ، خواجہ محمود ایڈووکیٹ، اسحٰق ڈار (اعلیٰ تجربے کے حامل آج بھی سینیٹر ہیں )، غلام دستگیر خان (متعدد بار ایم این اے رہے، گریجوایشن کے باعث بیٹے کو ایم این اے بنوایا)، چودھری سردار (برطانیہ میں عوامی نمائندگی کر چکے ہیں)، پروفیسر محمد مظفر مرزا، .... ہارون اختر خان، نعیم چٹھہ، طارق عظیم یہ حضرات آج بھی ق لیگ کے سینیٹر ہیں اور اگلی مدت کیلئے مسلم لیگ ن سے ٹکٹ کی باریابی کی امید لیے ہوئے ہیں۔ انور بیگ (پیپلز پارٹی کے سنیٹر ہیں)جعفر اقبال (اہلیہ ایم این اے، خود سنیٹر بننے کے خواہشمند ہیں)۔ اس کے علاوہ بھی شاید امیدوار ہوں بہرحال سردست ان کے نام ہی سامنے آئے ہیں۔ ان میں سے چار پانچ کا انتخاب میاں صاحب کیلئے واقعی ایک آزمائش ہے۔ کچھ کارکن شاید پارٹی قیادت کے رویے کے شاکی ہیں کہ سینٹ کے ٹکٹ کیلئے بہت کم درخواستیں آئی ہیں ہو سکتا ہے کئی اہل کارکن بھاری بھر کم فیس کے باعث گھر بیٹھے رہے ہوں۔ بہرحال درخواست جمع کرانے کے حوالے سے پارٹی قیادت سے گلہ نہیں کیا جا سکتا۔ اب میاں صاحب کو حساب کتاب کرنا ہو گا کہ ان کی قید اور جلاوطنی کے دوران کس نے ان سے وفاداری اور کس نے آمریت کی تابعداری کی۔ جن پر پہلے ہی نوازشات ہیں ان کیلئے مزید عنایات کی ضرورت ہے؟ مروجہ سیاست میں جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور بڑے لیڈروں کو مزید بڑا لیڈر بنانے کی روایت رہی ہے۔ میاں نواز شریف روایت شکن بنتے ہیں یا روایت پرور؟ دیکھئے کن لوگوں کو سینٹ میں لاتے جو پارٹی کی خدمات میں پیش پیش رہے اور پارٹی کا اثاثہ ہیں یا ....! اب کی بار ٹکٹوں کی تقسیم میں پرانی روایت اور روش کو ہی برقرار رکھا گیا تو مطمئن کارکن پھر بد دل ہوں گے۔ میاں صاحب کی کچھ سیاسی مجبوریاں ہو سکتی ہیں لیکن اپنے کارکنوں اور پارٹی اثاثے کسی قیمت پر مجبوری کو آڑ بنانا ناقابل تلافی نقصان کا باعث بنے گا ۔ مشرف کو سلامی اس کے نظریات کو فروغ دینے اور وردی میں بیسیوں سال منتخب کرانے کی دعویدار مسلم لیگ ق کے لیڈروں روایتی و مشکوک و فاداری کے حامل افراد کو ٹکٹ دینے سے قبل ہزار بار سوچئے گا۔

 

ازالہ

جمعرات ، 09 فروری ، 2012

ازالہ
فضل حسین اعوان 
سپریم کورٹ کے حکم پر 28 ارکان کی سینٹ، قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کی رکنیت معلق ہوئی تو 6 سات ماہ سے سوئی ہوئی حکومت ہڑبڑا کر اٹھ گئی۔ جو کام اتنی مدت میں نہ ہو سکا حکومت کی طرف سے قومی اسمبلی کی مجلس قائمہ برائے قانون و انصاف و پارلیمانی امور کی چیئرپرسن نسیم اختر چودھری نے وہ کام ایک دو روز میں کر گزرنے کی یقین دہانی کراتے ہوئے ایک ہفتے کی مہلت مانگی لیکن عدلیہ نے ہر معاملے میں مہلت مہلت پکارنے والی حکومت کو مزید مہلت نہ دی۔ 20ویں ترمیم پہلے ہی حکومت کے زیر غور تھی۔ 28 ارکان پر افتاد پڑی جن کی چند ہفتے بعد سینٹ کے الیکشن میں اشد ضرورت ہے تو حکومت نے یہ ترمیم فوری طور پر منظور کرانے کے لئے ہنگامی بنیادوں پر کام شروع کر دیا۔ معطلی کی زد میں آنے والے ارکان کا نامکمل الیکشن کمشن کی طرف سے انتخابات کرانے میں کوئی قصور نہیں۔ قصور کسی کا تو ہے۔ 28ارکان کی رکنیت آئین و قانون کی خلاف ورزی پر ہی معطل کی گئی ہے۔ یہ آئین شکنی کس نے کی اس کا بھی محاسبہ ہونا چاہئے۔ چونکہ کیس ابھی جاری ہے شاید سپریم کورٹ اس کا بھی کسی مرحلے پر نوٹس لے لے۔ بہرحال اب آئینی ترمیم کی تیاری اور اس کو متفقہ منظور کرانے کی کوششیں عروج پر ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے بغیر 20ویں آئینی ترمیم کا دو تہائی اکثریت سے منظور ہونا مشکل اگر ایک آدھ دوسری پارٹی بھی مسلم لیگ ن کا ساتھ دے تو ناممکن ہے۔ پیپلز پارٹی کی اس حد تک مثبت سوچ ہے کہ وہ اسے اتفاق رائے سے منظور کرانا چاہتی ہے۔ مسلم لیگ ن بھی ایسا ہی چاہتی ہے لیکن اپنے کچھ تحفظات دور کرا کے اور مطالبات منوا کے۔ حکومت ن لیگ کے کئی مطالبات ماننے پر تیار ہے ڈیڈ لاک نگران حکومت کے سیٹ اپ پر ہوا ہے۔ یہ ڈیڈ لاک کوئی مستقل نہیں عارضی ہے۔ مسلم لیگ ن اس موقف پر سختی سے قائم ہے کہ آئندہ انتخابات کے لئے نگران حکومت میں غیر جانبدار بے داغ شخصیات کو شامل کیا جائے۔ اپوزیشن کے اتفاق سے نگران وزیراعظم بنایا جائے اور نگران حکومت کو 20ویں آئینی ترمیم میں تحفظ دیا جائے۔ چیف الیکشن کمشنر کے اتفاقِ رائے سے تقرر پر بھی پیش رفت نہ ہو سکی۔ 
حکومت کی 4 سالہ کارکردگی دنیا کے سامنے ہے جس پر سب سے زیادہ تنقید مسلم لیگ ن کی طرف سے کی جاتی ہے۔ مسلم لیگ ن ہی اسے کرپٹ ترین حکومت قرار دیتے ہوئے اسے ہر مسئلے اور بحران کی جڑ قرار دیتی ہے۔ اب حکومت کو اس کی ضرورت پڑی ہے تو صرف چند مطالبات سامنے رکھ کر اس کی حمایت پر آمادہ نظر آتی ہے۔ مسلم لیگ ن ایک بڑی فعال پارٹی اور عوامی طاقت ہے جس کے بل بوتے پر نواز شریف نے لانگ مارچ کیا تو حکومت ججوں کی بحالی پر مجبور ہو گئی۔ گذشتہ سال ستمبر میں حکومت نے خود ساختہ بجلی بحران پیدا کیا تو ن لیگ عوام کے ساتھ سڑکوں پر آ گئی۔ اس کے بعد ایک بار تو بجلی کی لوڈشیڈنگ کا مکمل خاتمہ ہو گیا۔
آج عام آدمی کا مسئلہ 20ویں آئینی ترمیم، چیف الیکشن کمشنر کا تقرر اور غیر جانبدار نگران حکومت سے کہیں بڑھ کر ہے۔ اسے روزی روٹی کی فکر اور اپنی جان کے لالے پڑے ہیں۔ وہ پہلے ان سے نجات چاہتا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں اب تک 8.5 کھرب روپے یعنی 94 ارب ڈالر کی بے ایمانی، بدعنوانی، لوٹ مار اور چور بازاری ہو چکی ہے۔ یہ رقم قومی خزانے میں اور ساتھ ہی زمام اقتدار دیانت دار لوگوں کے ہاتھ میں ہوتی تو ملک اندرونی اور بیرونی قرضوں سے نکل چکا ہوتا۔ پٹرول 95 جبکہ ڈیزل ایک سو روپے لٹر سے بھی اوپر ہے اس کی قیمت 44 روپے لٹر ہوتی جس پر یہ نیٹو کو فراہم کیا جاتا ہے۔ آئی پی پیز کو عدم ادائیگیوں کی وجہ سے بجلی کی لوڈشیڈنگ ہوتی نہ لاکھوں کارخانے فیکٹریاں اور دیگر کاروبار بند ہونے سے نصف کروڑ لوگ بے روزگار ہوتے۔ ایک طرف مسلم لیگ ن پیپلز پارٹی کی حکومت کو کرپٹ ترین قرار دے کر اس سے چھٹکارے کے لئے کوشاں اور اسے گرانے کی تحریک شروع کئے ہوئے ہے۔ دوسری طرف 20ویں آئینی ترمیم کی منظوری کی حمایت کے لئے محض ایسی شرائط پیش کر رہی ہے جس کا عوامی مسائل سے کوئی تعلق نہیں۔ اگر آپ نے حمایت کرنی ہے تو عوامی مفاد کی شرائط سامنے رکھیں۔ قوم کے نگلے ہوئے 94 ارب ڈالر اگلوانے کی بات کریں۔ بجلی و گیس کی فراہمی کا مطالبہ کریں۔ مہنگائی، بے روزگاری اور لاقانونیت کے خاتمے کا عہد لیں قومی سلامتی اور خود مختاری پر سمجھوتہ نہ کرنے پر قائل کریں۔بھارت کو پسندیدہ قوم قرار دینے کا فیصلہ واپس لینے پر مائل کریں۔ سب سے بڑھ کر پیپلز پارٹی کو ”ڈٹھے کھوہ“ میں پھینکے گئے کالاباغ ڈیم منصوبے کو باہر نکالنے پر مجبور کریں۔ ن لیگ نے اپنی تاریخ کا سب سے بڑا غیر دانشمندانہ فیصلہ خیبر پختون خواہ کی منظوری کی حمایت کرکے کیا تھا۔ اتنی بڑی بے اصولی کرنی تھی تو کالاباغ ڈیم کی تعمیر سے مشروط کر دیا جاتا بہرحال اب 20ویں ترمیم کی حمایت کالاباغ ڈیم کی تعمیر سے مشروط کرکے اس غلطی یا بے اصولی کا کسی حد تک ازالہ کیا جا سکتا ہے۔


Tuesday, February 7, 2012

کرپشن کا ہمالہ

منگل ، 07 فروری ، 2012

کرپشن کا ہمالہ
فضل حسین اعوان
غربت سے تنگ آکر خودکشی کرنے والوں کے لواحقین اور ٹھنڈے ہوتے چولہے کے باعث جاں سے گزر کر دنیا کے دکھوں سے نجات کا ارادہ رکھنے والے سوچیں۔ ان کو اس مقام پر پہنچانے کا ذمہ دار کون ہے۔ جوان بیٹیوں کے ہاتھ پیلے کرنے سے قاصر‘ اولاد کو تعلیم دلانے میں بے بس تنخواہ دار اور دیہاڑی دار اور کاروباری لوگ سوچیں کہ خون پسینہ بہانے کے باوجود ان کی آمدن مہینہ بھر کے راشن اور اخراجات کے لئے کم کیوں پڑ جاتی ہے؟ صرف کم ہی نہیں‘ انتہائی کم‘ پہلے تنخواہ دار طبقہ کھینچ تان کر 20 پچیس دن نکال لیتا تھا۔ اب ہفتہ ڈیڑھ ہفتہ میں سب کچھ ختم‘ گھر میں اگر کچھ ہوتا ہے تو بے بسی‘ بے کسی‘ بے چارگی و لاچارگی ہوتی ہے۔ آخر اس کا ذمہ دار کون ہے؟ ذمہ دار کا تعین کرنے کے لئے عقل سقراط کی ضرورت ہے نہ حکمت بقراط اور دانش افلاطون کی۔ ملک اور عوام کو پسماندگی کی اتھاہ گہرائیوں میں پھینکنے والے وہی لوگ ہیں جن کو عوام مشرف کی آمریت سے چھٹکارہ حاصل کرنے کے لئے ووٹ کی طاقت سے لاکر اپنے دکھوں کا درماں سمجھتے تھے۔ لیکن جن کو مسیحا سمجھا وہی قاتل نکلے انسانوں کے قاتل‘ انسانیت کے قاتل‘ رہبر رہزن کا روپ دھار گئے جن سے کوئی ادارہ محفوظ رہا نہ کوئی شعبہ نہ کاروبار نہ ملکی معیشت اور نہ ہی قومی سلامتی و خودمختاری‘ آج ایمنسٹی انٹرنیشنل کی چشم کشاءرپورٹ نے اہل اقتدار کا مزید بھرم کھول کر رکھ دیا ہے۔تازہ ترین رپورٹ میں کہا گیا کہ چار سالہ دور جمہوریت میں پاکستان کو ناقابل یقین حد تک مالی نقصان ہوا ہے۔ کرپشن‘ ٹیکس چوری اور خراب طرز حکمرانی کے باعث ملک کو 8500 ارب روپے کا نقصان پہنچا۔ اس رقم کو ڈالروں میں دیکھا جائے تو 94 ارب امریکی ڈالر بنتے ہیں۔ پاکستان کا کل قرضہ جو حکومت نے عالمی مالیاتی اداروں اور اپنے بینکوں سے لے رکھا ہے وہ بھی 90 ارب ڈالر سے زیادہ نہیں۔ بیرونی قرضوں کی مالیت 56 ارب ڈالر ہے۔ گویا اندرونی اور بیرونی قرضوں سے 5 چھ ارب ڈالر زیادہ چند لوگوں کے پیٹ میں حرام کی صورت میں اتر گئے۔ کیری لوگر بل کی مد میں پاکستان سے سالانہ ڈیڑھ ارب ڈالر کی امداد کا وعدہ کیا گیا ہے۔ تین سال میں پاکستان کو ساڑھے چار ارب ڈالر مل جانے چاہئیں تھے لیکن ابھی تک صرف دو ارب روپے ملے ہیں۔ اس دوران قومی سلامتی و خود مختاری جس طرح سے امریکہ کے پاس گروی رکھی جا چکی ہے یہ طرز حکمرانی کی ایک شرمناک مثال ہے۔
کرپشن کے ہمالہ کی نشاندہی صرف ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ہی نہیں کی۔ اسی حکومت کے وزیر خزانہ شوکت ترین نے اپنی وزارت کے دوران اعتراف کیا تھا کہ صرف ایف بی آر میں سالانہ 500 ارب کی بے ایمانی ہوتی ہے۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے 2010میں 315 ارب کی بدیانتی کا اعتراف کیا۔ پبلک اکا ¶نٹس کمیٹی نے چودھری نثار علی کی سربراہی میں تین ساڑھے تین سال میں ملکی خزانے سے لوٹے گئے 115 ارب روپے واپس خزانے میں جمع کرائے۔ سپریم کورٹ بھی رینٹل پاور پلانٹس کی تنصیب میں کئے گئے گھپلوں کے اربوں روپے واپس کروا چکی ہے۔ رپورٹ میں بھی کہا گیا ہے کہ نیب اور ایف آئی اے نے کرپشن روکنے کے بجائے کرپٹ لوگوں کا ساتھ دیا۔ حکمران جتنا بھی طاقتور ہو قومی خزانے کو اپنی مرضی سے نہیں لوٹ سکتا۔ کرپشن کا ہمالہ کھڑا کرنے میں اسے بیورو کریسی کی ضرورت ہوتی ہے۔ جب سرکاری ملازم بھی لوٹ مار میں حکومت کا ساتھ دیں تو حشر وہی ہوتا ہے جو آج قوم و ملک اور قومی خزانے کا ہے۔ جس کی صورت آج خزاں رسیدہ درخت کی ہو چکی ہے۔ قائداعظم نے اگست 1948ءکو پشاور میں سرکاری ملازمین سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا۔ 
”حکومتیں بنتی ہیں‘ حکومتیں گرتی ہیں لیکن آپ لوگ وہیں رہتے ہیں۔ اس طرح آپ کے کاندھوں پر ایک عظیم ذمہ داری آجاتی ہے‘ آپ کو اس لئے بھی تکلیف پہنچ سکتی ہے کہ آپ غلط کام کی بجائے صحیح کیوں کر رہے ہیں۔ آپ کو قربانی دینی ہوگی اور میں آپ سے اپیل کرتا ہوں کہ آگے بڑھیں اور قربانی دیں‘ خواہ آپ بلیک لسٹ ہو جائیں یا پریشانی اور تکلیف میں مبتلا کر دئیے جائیں‘ آپ کی انہی قربانیوں سے حالات بدلیں گے۔“
بیورو کریٹس نے قائداعظم کے فرمان کو مشعل راہ بنایا ہوتا تو آج ملک ترقی یافتہ اور قوم خوشحال ہوتی۔ سرکاری ملازمین کا عوام دل کی گہرائیوں سے احترام کرتے۔ ظفر قریشی بھی تو سرکاری ملازم تھا جس نے پوری دیانت داری سے این آئی سی ایل کیس کی تحقیقات کیں۔ وہ بھی سرکاری ملازم تھے جو سرکار کے آلہ کار بن گئے اور سپریم کورٹ تک کو بے بس کرکے رکھ دیا۔ چیف سیکرٹری اور ڈی جی ایف آئی اے بھی سرکاری ملازم ہیں جو حکمرانوں کے ایما پر عدلیہ کے احکامات کو درخودر اعتنا نہیں سمجھتے۔ لوگ بھی احترام کارکردگی اور دیانتداری و ایمانداری دیکھ کر کرتے ہیں۔
اب جبکہ واضح ہو چکا ہے کہ عام آدمی کو مسائل اور مصائب کی دلدل میں کس نے دھکیلا۔ کاروبار کس نے تباہ کئے۔ تو لوگ ایسے ظالموں کے خلاف اٹھ کھڑے کیوں نہیں ہوتے؟ ان کے گریبانوں تک ہاتھ ڈالنے سے کس نے روکا ہے؟ شاید ان کو قائد اور قیادت کی ضرورت ہو۔ وہ نواز شریف کی صورت میں ہو سکتا ہے۔ جس نے لانگ مارچ کیا تو جج بحال ہو گئے۔ جلسے جلوس نکالے تو ستمبر میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ہو گیا۔ اب وہ شاید مزید قدم اس لئے نہیں بڑھا رہے کہ ان کو اپنے اقتدار کی منزل قریب نظر آرہی ہے اور جو حکومت میں آتا ہے کم و بیش وہی کچھ کرتا ہے جو آج کی جمہوری حکومت کر رہی ہے۔ اس لئے عوام خود اپنے مستقبل کے بارے میں سوچیں کرپشن کا ہمالہ گرانے کے لئے پہلے قوم بنیں پھر تمام وسائل اور معاملات ان کی اپنی مٹھی میں ہو سکتے ہیں۔

Monday, February 6, 2012

بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر

فروری5 ، 2012


بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر
فضل حسین اعوان 
صحرائے عرب کے سنگلاخ پہاڑوں اور بطحا کے بے برگ بے بار و گیاہ ریگزاروں میں کھلنے والے رحمت وعظمت کے پھول کی خوشبو نے کائناتِ کل کو معطر کردیا۔شافعِ محشرﷺپوری انسانیت کی رہبری ورہنمائی کے لئے تشریف لائے۔سیدالبشر‘نورُُ علیٰ‘نبی مکرم ﷺ کا مقام ومرتبہ نوروبشراورعلمِ غیب کی مباحث سے کہیں بلند ترہے ۔بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر ©؛ کہہ دیا اور مان لیا تو مزید بحث کی کوئی گنجائش نہیں رہ جاتی۔ویسے بھی ہمیں بحث و تمحیص سے زیادہ کردار وعمل کی ضرورت ہے ۔جس میں ہم اپنے آباﺅ اجداد سے بہت پیچھے ہیں ۔حضرت علامہ نے درست موازنہ کیا
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہوکر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہوکر
ہم خدا سے شکوہ کنا ں تو رہتے ہیںلیکن اپنی اداﺅںاور اطوار پر غور کرتے ہیں‘ نہ اپنے اعمال‘ افعال اور کردار کا جائزہ لیتے ہیں‘ یہ بھی نہیں سوچتے کہ ہم غیروں کے رحم و کرم پر کیوں ہیں؟ انکے غیظ و غضب کا نشانہ کیوں بن رہے ہیں‘ اس قدر لاچار‘ بیکار‘ بے بس‘ بے کس‘ مجبور و مقہور‘ بدنام‘ بے نام کیوں ہیں؟ وجہ بڑی سادہ سی ہے‘ ہمارے آباء جب سر پر کفن باندھ کر دنیا میں اسم محمدﷺ سے اجالا کرنے نکلتے تو پہاڑ انکے راستے کی دیوار بنتے‘ نہ سمندر و دریا رکاوٹ‘ وہ طوفان کی مانند بڑھتے چلے جاتے۔ 
ہم حیران اور پریشان ہیں کہ بدر کی طرح آج فرشتے ہماری مدد کو کیوں نہیں آتے ہیں؟ فرشتے آج بھی مدد کیلئے کمربستہ ہیں‘ آپ معرکہ بدر تو برپا کریں‘ ہماری خواہش ہے ہم گھروں میں سر بسجود رہیں‘ فرشتے ہمارے دشمنوں پر قہر بن کر ٹوٹ پڑیں اور کامرانی کا علم ہمیں تھما دیں۔
فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو 
اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی 
فضائے بدر پیدا کرنے کیلئے صاحب لولاک‘ سیاحِ ارض و افلاک‘ سرور کشور رسالتﷺ کے نقشِ پا سے رہنمائی اور دانائی حاصل کرنا ہو گی۔ خدا تک رسائی کیلئے اسکے محبوب کا دامن تھامنا ہو گا۔
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
آج ہماری دنیا میں ذلت و رسوائی‘ پستی و بے توقیری کی ایک ہی وجہ ہے کہ ہم نے اسوہ رسولﷺ سے منہ موڑ کر ان سے رشتہ جوڑ لیا جن کے بارے میں قرآن اور صاحبِ قرآن کا ارشاد ہے‘ ”یہ تمہارے دوست نہیں ہو سکتے“۔ جب ہم نے اپنا کعبہ ہی بدل لیا تو صاحبِ کعبہ سے شکوہ و شکایت کیوں؟ ہم شمشیر و سناں سے تائب‘ طاﺅس و رباب کے قائل ہو کر رہ گئے‘ تن آسانی کیلئے اپنا ضمیر بیچا‘ جاہ و جلال بیچا‘ خودی اور خودداری بیچی‘ شجاعت و کمال بیچا‘ پھر اپنے حال پر نظر دوڑاتے ہیں تو دل کے کسی نہاں خانے میں پڑی چنگاری‘ تاب ناک ماضی کی یاد دلاتی ہے تو دل سے نکلے ہوئے الفاظ آنسوﺅں کی صورت میں بہتے لگتے ہیں۔
اے خاصہ خاصان رسل وقت دعا ہے 
امت پہ تیری آکے عجب وقت پڑا ہے 
جو دین بڑی شان سے نکلا تھا وطن سے
پردیس میں وہ آج غریب الغربا ہے 
امت پہ جو عجب وقت پڑا اور دین غریب الغربا ہوا‘ اس میں دوش کس کا ہے؟ جب امت مباحات سے کنارہ کرکے خرافات میں کھو جائے‘ لغویات کو اپنالے‘ آمادہِ فسادات ہو‘ تو ٹھنڈی ہواﺅں اور منزہ فضاﺅں کی توقع عبث ہے۔ کیا ہم نے دین کو اوجِ ثریا تک پہنچانے میں اپنا کردار ادا کیا؟ وہ کردارکیا ہے۔
قوت عشق سے ہر پست کو بالا کر دے 
دہر میں اسم محمد سے اجالا کر دے 
نبیوں کے تاجور‘ محبوب اکبر و عزوجل‘ شہنشاہ خوش خصال‘ پیکر حسن و جمال‘ دافعِ رنج و ملال نے بگڑے ہوئے معاشرے کو چند سال میں راہِ راست پر لا کر دنیا کا رہبرو رہنماءبنا دیا۔ صاحب التاجِ والمعراج نے دنیا کو ایک دستور‘ ضابطہ حیات اور آئین دیا اس ہستی اطہرو مطہر کی زندگی کا ایک ایک لمحہ ہمارے لئے منزل عظمت و عزیمت کا نشان ہے۔
وہ دانائے سبل ختم الرسل مولائے کل جس نے 
غبار راہ کو بخشا فروغ وادی سینا 
ہم گرد و غبار نہیں‘ انسان ہیں‘ اشرفِ مخلوق ہیں‘ اس نورمجسم ﷺکے امتی جو طواف کریں تو حرم بھی وجد میں آجائے‘ ہماری ٹھوکر میں دنیا سما سکتی ہے‘ پہاڑ رائی بن سکتے ہیں‘ ضرورت نبی محترم و مکرمﷺ کے قدموں کی دھول کو سرمہ بنا لینا ہے۔ خیرالبشر کے اسوہ کو اپنا لینا ہے۔ لاالٰہ الااللہ محمد رسول اللہ کہہ کر افغانستان میں مجاہدین نے دنیا کی دو بڑی طاقتوں کو ادھیڑ کر اور بکھیر کر رکھ دیا۔ ہم پاکستانی بھی سید عرب والعجمﷺ کا نام لے کر نکلیں‘ اپنے دشمن کو پہچانیں‘ اس پر وار کریں‘ یلغار کریں تو اپنا کھویا ہوا مقام‘ عزت و وقار حاصل کر سکتے ہیں۔ اسلام کا پرچم بلند کر سکتے ہیں۔ پیار سے مشرقی پاکستان کو ساتھ ملا سکتے ہیں‘ تلوار سے کشمیر آزاد کرا سکتے ہیں‘ اس کیلئے سر پر کفن باندھنا ہوگا‘ جان ہتھیلی پر رکھنا ہو گی‘ سر بکف ہونا ہو گا‘ اسلام صرف نماز اور روزے میں ہی پوشیدہ نہیں۔
یہ شہادت گہ الفت میں قدم رکھنا ہے
لوگ آساں سمجھتے ہیں مسلماں ہونا 
ہمارے مصائب مسائل پستی ،پسماندگی، درماندگی‘ دکھوں‘ دردوں کا ایک درماں ہے‘ دامنِ مصطفیٰ تھام لیں‘ درِ خیرالانعام سے وابستہ ہو جائیں‘ اسکی رحمتوں سے پیوستہ ہو جائیں۔
یا صاحب الجمال و یا سید البشر
من و جہک المنیر لقد نورالقمر 
لایمکن الثناء کما کان حقہ
بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر

”تاجران جمہوریت“

فروری 2، 2012ا

”تاجران جمہوریت“
فضل حسین اعوان
 ہمارے ہاں بوٹوں کے زور پر آمریت برپا کرنےوالے ہی نہیں‘ ووٹوں کے ذریعے سر پر دستار جمہوریت سجا کر تخت نشین ہونیوالے بھی خود کو شہنشاہ سمجھنے لگتے ہیں۔ آمریت و جمہوریت دونوں اطوار جہانبانی کے مدارالمہام خود کو عقل کل سمجھتے ہوئے اقتدار و اختیارات کو اپنی ذات کے اندر مرتکز کر لیتے ہیں۔ اول الذکر پالشیوں کو آخرالذکر مالشیوں کو انکی اوقات سے کہیں زیادہ نواز دیتے ہیں۔ اوقات سے بڑھ کر نوازے جانیوالے پالشیوں اور مالشیوں کی اکثریت وزیر مشیر اور سفیر بننے کے بعد اس اعلیٰ مقام پر پہنچانے والوں کے ماتھے کا جھومر بننے کے بجائے مشکل وقت میں کلنک کا ٹیکہ ثابت ہوئی۔ خدمت گار کو اسکی اوقات کے مطابق نوازا جائے تو دانشمندی‘ اسکی اوقات سے بڑھ کر اس پر نوازشات اور عنایات اسکے ساتھ بھی ستم اور اگر یہ نالائق‘ کم فہم اور کم ظرف بھی ہو تو ملک و قوم کا بیڑہ غرق کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑتے جس کے نظائر آج قوم دیکھ اور نتائج بھگت رہی ہے۔ میاں نواز شریف کے التفات کی کہانیاں دلچسپی کی حامل ہیں۔ وزیراعلیٰ تھے تو ایک دوست کو اسکے باوجود وزیر لگا دیا کہ وہ دستخط بھی نہیں کرسکتا تھا۔ وزیراعظم بنے تو اکیڈمی ادبیات کا قلمدان اس چاپلوس پر نچھاور کر دیا جو صرف دستخط ہی کر سکتا تھا۔ کئی وزیروں‘ مشیروں اور سفیروں کی اہلیت کاسہ لیسی‘ حاشیہ برداری اور مسخرانہ طبیعت و بھانڈانہ ذہنیت ہی تھی البتہ میاں نواز شریف کو اپنے دور میں کوئی وزیر یا بیورو کریٹ کرپٹ نظر آیا تو اسے برطرف کرنے اور ہتھکڑیاں تک لگوانے سے گریز نہیں کیا۔ محمد خان جونیجو بھی اپنی کابینہ کا کڑا احتساب کرتے تھے۔ 
آج کی حکمرانی سے دیانت‘ امانت اور صداقت کے فوارے نہیں‘ کرپشن‘ جھوٹ اور فریب کے شرارے پھوٹتے ہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف‘ شیخ رشید، اعظم سواتی صدر اور وزیراعظم کو تاریخ کا کرپٹ ترین صدر اور وزیراعظم قرار دے چکے ہیں‘ اس پر کبھی دونوں تاجداران جمہوریت نے صفائی پیش کی نہ عدالت میں ہتک عزت کا کیس دائر کیا۔ اس سے کوئی کیا سمجھے؟ ان کو تاجدارانِ جمہوریت یا ”تاجرانِ “ جمہوریت۔ لگتا ہے کرپشن اور فریب کو ہی میرٹ بنا لیا گیا ہے جس زبان سے بڑے بڑے معاملات چلتے اور بہو بیٹیوں کے رشتے ناطے طے ہوتے ہوتے ہیں‘ اسی زبان کی یہاں پاسداری نہیں کی جاتی۔ وزیراعظم نے انتہائی سنجیدہ معاملات پر مختصر عرصے میں کم از کم تین مرتبہ یوٹرن لیکر قوم کو ششدر کردیا۔ صدر صاحب نے الیکشن کے حوالے سے ایک ماہ میں تین بار بیان بدلا۔ اعتزاز احسن کا سوئس حکام کو خط لکھنے کا موقف وزیراعظم کا وکیل بننے پر یکسر بدل گیا۔ اب کہتے ہیں سپریم کورٹ واضح حکم دے تو خط لکھنے کو تیار ہیں۔ کیا اب تک سپریم کورٹ ہوا میں حکم دیتی رہی ہے؟ تیل کی قیمتوں میں اضافے کا اعلان مہینے کے آخری دن رات گئے ہوتا ہے‘ وزیر گیس و پٹرولیم عاصم حسین نے اس مرتبہ قیمتوں میں اضافے کا چار روز قبل اعلان کر دیا جس سے پٹرول پمپ مالکان نے صارفین پر ایک عذاب نازل کردیا۔ وزیراعظم نے ”صدر کے وزیر“ کے بیان کو غلط قرار دیا تو موصوف اپنے آقاﺅں کی طرح صاف مکر گئے۔ آج دیکھئے تیل کی قیمتوں میں ویسا ہی اضافہ ہوا جس کی محترم نے پیش گوئی یا انکشاف کرکے ذخیرہ اندوزوں کو فائدہ پہنچایا۔ کہتے ہیں آصف زرداری جیل کے دنوں میں ہسپتال میں تھے‘ تو ڈاکٹر عاصم حسین نے خدمات کی بجاآوری میں کوئی کسر نہ چھوڑی جس پر عنایات لازم تھیں۔ اس کیلئے ان کو متعلقہ شعبے یا ادارے میں کھپا دیا جاتا۔ شاید وہ گاڑی میں پٹرول ڈلواتے اور گھر میں گیس استعمال کرتے ہیں۔ اسی کو میرٹ سمجھ لیا گیا ہو۔ ایسے میرٹ پر آنیوالے اپنے محکموں کا جو حشر کرتے ہیں‘ وہ آج اداروں کی بربادی‘ تباہی اور زبوں حالی کی صورت میں سامنے ہے۔ ہر شعبے‘ محکمے اور ادارے میں بھوت پھیری نظر آتی ہے۔ معاملات بھوتوں کے سپرد ہوں گے تو یہی کچھ ہو گا۔ ڈاکٹر عاصم کو چودھری نثار علی خان نے جعلی ڈاکٹر قرار دیا تھا‘ انٹرنیٹ پر انکے تعارف کے ساتھ ہی ”فراڈیا“ لسٹ دی گئی ہے اس میں بھی ان کا نام ہے۔ انہوں نے چودھری نثار علی خان کی بات کا جواب دیا‘ نہ لسٹ شائع کرنیوالوں کےخلاف کوئی قانونی کارروائی کی۔ دو اڑھائی ماہ قبل وزیر موصوف نے بڑی جرات مندی سے کہا تھا کہ ایران سے گیس ضرور حاصل کرینگے‘ صدر صاحب نے امریکہ کو آنکھیں دکھاتے ہوئے کہا تھا جس سے چاہیں گے‘ گیس لیں گے۔ پھر نہ جانے کیوں ایسا لگا کہ جیسے آنکھ لگ گئی۔ اب وزیر پٹرولیم کہتے ہیں‘ ایران سے نہیں‘ بھارت سے تیل خریدیں گے۔ بھارت خود ایران سے امریکی دباﺅ کو مسترد کرتے ہوئے تیل خریدتا ہے۔ آج بجلی اور گیس کی شدید کمی کا سامنا ہے‘ میڈیکل ڈاکٹر اور جس کا میرٹ ہی مالش ہو ملک کو گیس کے بحران سے کیا نکالے گا؟ اب تک اصلاح کی طرف ایک قدم بھی نہیںبڑھایا گیا۔ دنیا میں گیس کی تلاش کیلئے دس کنوﺅں میں سے ایک سے گیس دریافت ہوتی ہے۔ خدائے بزرگ و برتر کی کرم نوازی پاکستان میں شرح تین میں سے ایک ہے۔ کوئی نکالنے کی کوشش کرے تو تب! عالمی مارکیٹ میں تیل کی کمی نہیں‘ بھارت سے ہی خریداری کیوں؟ وہ مڈل مین بن کر منافع کمائے گا۔ خریداروں کو کیا فائدہ؟ کمیشن اور صرف کمیشن۔ سانپ کے سوا ہر چرند‘ پرند اور درندے تک اپنی نسل اور قوم قبیلے کو بخش دیتے لیکن یہاں انسانوں کی بستی میں دیکھ لیجئے کیا ہو رہا ہے؟ اعلیٰ مقام پر بیٹھا انسان کم مرتبے کے انسان کو کیسے ڈس رہا ہے!