. 25 -24 مئی ، 2011
”عزت کی روٹی“
فضل حسین اعوان
”مسلم لیگ ن کی پالیسی انکشافات کی صورت میں عیاں ہو رہی۔ کبھی میاں صاحب خود لنکا ڈھاتے ہیں کہیں ان کے قریبی ساتھی آشیاں پر بجلیاں گراتے ہیں۔ 16 مئی کو کراچی میں ایڈیٹرز اور سینئر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے میاں صاحب نے کہا تھا کہ بھارت کو نمبر ون دشمن قرار دینے کی پالیسی غلط ہے۔ اسے تبدیل ہونا چاہئے۔ ایبٹ آباد آپریشن کے بعد وہ متعدد بار دہرا چکے ہیں کہ خارجہ پالیسی بنانا فوج کا کام نہیں۔ آئی ایس آئی کو سیاسی جماعتوں کی تشکیل ان کی توڑ پھوڑ میں بھی ملوث قرار دے چکے ہیں۔ میاں صاحب لندن میں تھے تو چودھری نثار علی ایجنسیوں پر سیاست دانوں سے رابطے کا الزام لگاتے رہے۔ عمران خان کے پنڈی میں دھرنے کو ایجنسیوں کا سپانسرڈ قرار دیا۔ اب خواجہ سعد رفیق نے مسلم لیگ ن کے اندر کی بہت سی باتیں نوائے وقت کے حمید نظامی ہال میں ایک مذاکرے کے دوران کہہ دیں۔ خواجہ سعد جذباتی سیاستدان ضرور ہیں۔ جوش کے دوران بھی ہوش کا دامن تھامے رکھتے ہیں لیکن انہوں نے جو کچھ 21مئی کو مذاکرے کے دوران کہا، شبہ ہے کہ ”خواجہ فرخ سعید“ نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں۔ سعد ر فیق نے اس دن جو کچھ کہا ان کی حب الوطنی، مسلم لیگ سے کمٹمنٹ، اقبال و قائد عقیدت، نظریہ پاکستان اور دو قومی نظریہ سے واضح وابستگی کے باعث ان سے ایسا کہنے کی امید نہیں تھی۔ خواجہ صاحب نے فرمایا: ”مسلم لیک ن کی پالیسی ہے کہ بھارت کو دشمن نمبر ایک قرار دینے کی پالیسی جاری رکھنا غلط ہے۔ فوج ملک کی خارجہ اور داخلہ پالیسی بناتی ہے۔ فوج فیصلہ کرتی ہے کہ امریکہ اور انڈیا سے کیسے تعلقات رکھیں جو کہ سراسر غلط ہے۔ ہمیں ہندوستان کے ساتھ من پسند رویہ اختیار کرنا چاہئے۔ ہمارے پاس پینے کو پانی نہیں، بجلی نہیں، تیل کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں اور کہتے ہیں ہم نے جنگ کرنی ہے، جنہوں نے جنگ کرنی ہے، وہ کریں۔ مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف، دیگر رہنما?ں اور میری بلکہ مسلم لیگ ن کی اب پالیسی ہے کہ ہم کسی کا مقابلہ نہیں کرنا چاہتے، نہ ہی کسی سے دشمنی چاہتے ہیں۔ ہم 17 کروڑ عوام کے لئے عزت کی روٹی چاہتے ہیں۔ انڈیا مسئلہ کشمیر کو کشمیریوں کی مرضی کے مطابق حل کرے، ہم کشمیریوں کو انڈین فوج سے زیادہ بندوقیں نہیں دے سکتے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ جی ایچ کیو سیاست سے باہر ہو۔ مسلم لیگ ن نے ماضی میں جی ایچ کیو کے ساتھ مل کر سیاست کی ہے، اس لئے اس کی سیاست کو اچھی طرح سمجھتی ہے۔ سپر پاور سے بچنے کیلئے ہمیں اپنے ہمسایوں سے تعلقات بہتر بنانا ہوں گے“۔نوائے وقت نظریہ پاکستان کے تحفظ کا سب سے بڑا پلیٹ فارم، مظلوم مقہور اور مجبور کشمیریوں کی آواز، بھارت کے ساتھ مسئلہ کشمیر کے حل تک کسی بھی قسم کے تعلقات قائم نہ رکھنے کا علمبردار ہے۔ افسوس کہ خواجہ صاحب یہاں آ کر ”میا?ں“ کر گئے۔ مسلم لیگ ن کو فوج سے نہ جانے کیا مسئلہ ہے، یا یہ کسی کی انگیخت اور فرمائش پر فوج پر چڑھائی کئے ہوئے ہے۔ بیرونی محاذ پر امریکہ اور روس کے حواریوں نے پاک فوج کو ٹارگٹ بنایا ہوا ہے، اندرونی محاذ پر یار لوگوں نے۔ مسلم لیگ ن فوج سے مخاصمت کااظہار پیپلز پارٹی جرنیلوں سے محبت کا اقرار کر رہی ہے۔ عوامی سطح پر دونوں کی پالیسی کو درست نہیں سمجھا جا رہا۔بھارت کو پاکستان کا دشمن نمبر ایک قرار نہ دینا اگر ن لیگ کی پالیسی ہے تو پھر اس کی سیاست کا خدا حافظ۔ بھارت ہمارا دشمن نہیں تو جنوبی ایشا جنت نظیر ہے۔ کیا ہم واقعی جنت مثل خطے میں رہ رہے ہیں۔ بھارت نے پاکستان پر تین جنگیں مسلط کیں۔ ایک میں آدھا پاکستان الگ کر دیا۔ کارگل ایڈونچر کیا پاکستان بھارت دوستی کا نشان تھا؟ سیاچین پر قبضہ، مناوادر، حیدر آباد دکن اور جونا گڑھ پر جارحیت دوستی کے کس زمرے میں!۔ دونوں ممالک کے درمیان بڑا اور بنیادی تنازع کشمیر پر بھارت کا قبضہ ہے کشمیر کو قائد اعظم نے پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا۔ قائد کی مسلم لیگ کے وارث ہونے کے دعوے دار کس منہ سے اس مسئلہ کے حل کے بغیر بھارت سے من پسند تعلقات کی بات کر رہے ہیں۔
آپ مقابلہ نہ کریں۔ بھارت سے دشمنی نہ رکھیں۔ کشمیریوں نے کب آپ سے بندوقتیں مانگی ہیں؟
شمشاد بیگم سے گانے سننے، وزیر اعظم گجرال کو گانے سنانے اور پتا کا درجہ دینے والوں سے کشمیریوں کی خاطر جان لڑانے کی توقع بھی کیسے کی جا سکتی ہے۔ بھارت نے بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کے ذریعے الا? دہکا رکھا ہے۔ قبائلی علاقوں میں اس کے ایجنٹ شورش کو ہوا دے کر خود کش بمباروں کی کھیپ پہ کھیپ تیار کر رہے ہیں۔ پورے ملک میں اس کے دہشت گرد سرگرم ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق پاکستان کے مفاد کے سب سے بڑے منصوبے کالا باغ ڈیم کی تعمیر کی مخالفت کے لئے بھارت ہی غداروں میں دو ارب ڈالر سالانہ تقسیم کرتا ہے۔ پاکستان آنے والے دریا?ں پر بے شمار بند باندھ کر پاکستان کی زراعت اپنی مٹھی میں کر لی ہے۔ جب چاہے فصلوں کو خشک سالی سے دوچار کر دے، جب چاہے سیلاب میں ڈبو دے، سب سے بڑھ کر مقبوضہ کشمیر میں اس کی سات لاکھ سفاک سپاہ کشمیریوں کو خون میں نہلانے پر مامور ہے۔ یہاں انسانیت بلک سسک اور تڑپ رہی ہے۔ کشمیر کی بیٹیوں کی روائیں، آنچل اور چادریں ا ±چکی جا رہی ہیں۔ ظلم جبر اور زبردستی کا نشانہ بننے والی بچیوں کی آخری ہچکی لیتے ہوئے بھی کھلی آنکھیں پاکستان کی طرف سے آنے والے کسی محمد بن قاسم کی منتظر ہوتی ہیں۔ ہندو بنئیے کے پالتو فوجی کی سنگین کشمیری کے دل کے آر پار ہوتی ہے تو اس کی زبان سے اللہ اکبر کے ساتھ پاکستان زندہ باد کا نعرہ بلند ہوتا ہے۔ خواجہ صاحب امرتسر کے کشمیری شریف برادران کشمیر کے۔ اگرچہ ان کا جاتی عمرہ بھی امرتسر میں ہی تھا۔ خواجہ صاحب نے ن لیگ کی پالیسی واضح کرتے ہوئے کہا ”ہم کسی کا مقابلہ نہیں کرنا چاہتے نہ کسی سے دشمنی چاہتے ہیں، ہم 17 کروڑ عوام کے لئے عزت کی روٹی چاہتے ہیں“ گویا اب کشمیریوں کو پیغام دیدیا جائے کہ وہ جس خطے سے محمد بن قاسم کی آمد کی امید رکھتے ہیں۔ وہاں شریفوں اور زرداروں کی” بھوت پھیری“ ہے۔ وہاں کے خواجہ صاحب سترہ کروڑ عوام کے لئے ”عزت کی روٹی “کا بندوبست کر رہے ہیں۔ ان کو ”عزت کی روٹی “کے لئے ڈالر، پا?نڈ اور ریال سمیٹنے سے فرصت نہیں۔ یہ وہ ”عزت کی “ روٹی ہے جس کے بارے میں حکیم الامت نے کہا تھا۔
اے طائر لا ہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
بدروحنین والے بھی ایسی ہی عزت کی روٹی کے قائل ہو جاتے تو حجاز میں نور اسلام جلوہ افروز ہوتا نہ برصغیر میں اس کی کرنوں کے نور سے ضوفشانی ہوتی۔ خدا جانے آج کے پاکستانی بڑوں میں کون برہمن ہوتا کون دلت اور شودر۔ ان بڑوں کے ماضی قریب کو دیکھ لیں واضح ہو جائے گا کہ یہ ہندوستان میں کس قبیل سے متعلق ہوتے۔ خدا کا شکر کریں قائد کے پاکستان نے ان کو عزت دولت اور شہرت سے ہمکنار کیا۔ اپنے اندر خالد، قاسم و طارق اور ٹیپو جیسے جوہر پیدا کریں۔ جس کو عزت کی روٹی کہا جا رہا ہے اس سے غیرت کی موت بہتر ہے۔
جمعرات ، 26 مئی ، 2011
حاکم علی زرداری.... اناللہ ....
فضل حسین اعوان
انسان پانی کا بلبلہ ہے۔ اِدھر معلوم ہوا ا ±دھر معدوم۔ موت اٹل حقیقت ہے۔ اس سے فرار ممکن نہیں۔ عزرائیل کے لئے فٹ پاتھ پر پڑے لاچاروں، علا ج کی سکت نہ رکھنے والے بیماروں، ڈرونز اور دہشت گردی کا نشانہ بننے والے بیچاروں کی جان لینے میں کوئی آسانی ہے، نہ قلعوں میں محفوظ، جدید ہسپتالوں میں موجود شہواروں کی روح قبض کرنے میں کوئی پریشانی، ماہر ڈاکٹر جان بچانے پر قادر ہوتے تو بے حد و حساب دولت کے مالک ہزاروں سال کی عمریں پاتے۔
آصف علی زرداری آج پاکستان کی طاقتور ترین اور یکے از امیر ترین شخصیت ہےں۔ ان کے والد گرامی حاکم علی زرداری اس کے باوجود انتقال کر گئے کہ گھر میں بے ہوش ہو کر گرنے کے بعد ان کو بروقت پمز داخل کرا دیا گیا۔ بہترین سہولتوں سے مزین ہسپتال، ماہر ڈاکٹر، جدید مشینری خالص ادویات، ہر شے کی فراوانی تھی۔ جہاں صدر آصف علی زرداری، ایم این اے فریال تالپور اور عذرا پیچوہو کے سر سے دست شفقت اٹھا وہیں رواں سال اور اس کے بعد سے ہمیشہ کے فرانس میں 5 ایکٹر پر محیط Manor of the White Queen محل میں اداسیوں کے ڈیرے ہوں گے۔پاکستان میں گرمیوں کا آغاز ہوتا تو حاکم علی زرداری وہاں تشریف لے جاتے پاکستان میں موسم خوشگوار ہونے پر لوٹ آتے تھے۔ شمالی فرانس کے علاقے نار منڈے میں واقع سولہویں صدی میں یہ محل بادشاہ فلپVI کی بیوہ کے لئے تعمیر کیا گیا تھا۔ جھیلوں اور جنگلات پر مشتمل ہے اس محل کا شمار فرانس کی تاریخی یادگاروں میں ہوتا ہے۔ یہ محل گزشتہ 25 برس سے صدر زرداری کے خاندان کی ملکیت ہے۔آصف علی زرداری پاکستان کے دوسرے امیر ترین شخص ہیں تاہم ان کے والد کا تعلق سندھ کے متوسط زمیندار گھرانے سے تھا۔ انہوں نے جہاں سیاست میں نام کمایا وہیں کاروبار میں بھی قدم جمایا۔ آصف علی زرداری صاحب نے کسی فلم میں بطور چائلڈ سٹار بھی کام کیا ہے۔ حاکم زرداری نے بیٹے کے شوق کو دیکھ کر کراچی میں بمبینو سنیما بنوایا یا آصف کو ابا جی کا سنیما دیکھ کر اداکاری کا شوق چرایا۔ اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بینظیر سے شادی رچا کر دولت کے انبار لگا کر پاکستان کی سب سے بڑی پارٹی کا عہدہ پا کر اور منصب صدارت پر قدم رنجا فرما کر آصف نے والد محترم کا نام ضرور روشن کیا۔
حاکم علی زرداری نے کراچی میں تعمیراتی شعبے میں سرمایہ کاری کی۔ اس خاندان کا سیاست سے قدیم تعلق ہے۔ حاکم کے دادا سجاول انگریز دور میں سیاست سے وابستہ تھے۔ انہوں نے خود سیاست کا آغاز 1960ئ میں نواب شاہ سے ضلع کونسل کا الیکشن لڑ کر کیا۔
ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں جب پاکستان پیپلز پارٹی وجود میں آئی تو وہ اس کے بانی ممبران میں شامل ہوئے۔ پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر ہی 1970ئ کے انتخابات میں قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے دوران ہی پارٹی قیادت سے بعض اختلاف کی وجہ سے انہوں نے پیپلز پارٹی چھوڑ دی اور نیشنل عوامی پارٹی میں شامل ہو گئے۔ 90 کے عشرے میں آصف علی زرداری کی طرح ان کے والد حاکم علی زرداری اور والدہ کے خلاف بھی کرپشن اور دیگر جرائم میں مقدمات درج کئے گئے تھے۔ حاکم علی زرداری نے 1985ئ کے غیر جماعتی بنیادوں پر ہونے والے عام انتخابات میں بھی حصہ لیا لیکن کامیاب نہیں ہو سکے اور 1986ئ میں جب جنرل ضیائ الحق کے مارشل لائ کے دوران بے نظیر بھٹو نے پاکستان واپس جا کر پیپلز پارٹی کی باگ ڈور سنبھالی تو حاکم علی زرداری نے دوبارہ پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی۔ اگلے ہی برس ان کے اکلوتے بیٹے آصف علی زرداری اور بینظیر بھٹو رشتہ ازدواج میں منسلک ہو گئے۔ 1988ئ میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر دوسری بار قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ بینظیر بھٹو نے انہیں اپنی پہلی حکومت میں قومی اسمبلی کی پبلک اکا?نٹس کمیٹی کا سربراہ مقرر کیا تھا۔
1993ئ کے انتخابات میں وہ تیسری بار رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ 1997ئ کے بعد سے انہوں نے پاکستان کی عملی سیاست سے کنارہ کشی اختیار کر لی تھی۔
بے نظیر بھٹو نے اپنی کتاب ”ڈاٹر آف ڈیسٹنی، (مقدر کی بیٹی) میں لکھا ہے کہ ان کے اور زرداری خاندان میں اس سے زیادہ چیزیں مشترکہ ہیں جتنا انہوں نے سوچا تھا۔ زرداری خاندان نے بھی (جنرل ضیائ کے) مارشل لائ میں سختیاں جھیلیں تھیں۔ ایک فوجی عدالت نے حاکم علی زرداری پر سات سال کے لئے سیاست میں حصہ لینے پر پابندی لگا دی تھی اور فوجی حکومت نے ان کی آبائی زمین کو پانی کی فراہمی بند کرا دی تھی جس سے اٹھارہ سو ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ ہو گئی تھیں۔ بے نظیر بھٹو کے مطابق ان کے سسر پر زیادہ کڑا وقت ان کی اور آصف علی زرداری کی منگنی کے بعد آیا۔ ”جب قومی بینکوں سے حاکم علی زرداری کے تعمیراتی منصوبوں کے لئے منظور شدہ قرضوں کی ادائیگی اچانک روک دی گئی۔ منگنی کے بعد لوگوں نے ان سے کہا کہ آپ غلطی کر رہے ہیں اور پوری کی پوری فوج اور بیورو کریسی آپ کے پیچھے پڑ جائے گی لیکن وہ (حاکم) کہتے تھے کہ مجھے پروا نہیں۔ میری بیٹی کی خوشی مجھے زیادہ عزیز ہے“۔اللہ تعالیٰ مرحوم کو جوار رحمت میں جگہ اور لواحقین کو صدمہ برداشت کرنے کی ہمت عطا فرمائے۔
جمعہ المبارک ، 27 مئی ، 2011
پاکستان کے دشمن کون اور کیوں؟
فضل حسین اعوان
بھارت کی پاکستان سے دشمنی کی ایک وجہ ہے اسے صدمہ ہے کہ انگریز کی غلامی سے نکل کر برصغیر کے مسلمان جو بھارت کے حکمران رہے ہیں۔ اس کی غلامی میں آنے کی بجائے آزاد مملکت کے حصول میں کامیاب ہو گئے۔ اس کیلئے پاکستان کا وجود قابل برداشت نہیں۔ امریکہ اور اسرائیل سمیت اس کے حواریوں کے لئے پاکستان اس لئے معتوب ہے کہ خدا نے اسے ایٹمی قوت سے سرفراز کیا ہے۔ ان کی پاکستان سے مخاصمت اور مخالفت سمجھ آتی ہے۔ وزیرداخلہ رحمان ملک نے کہا کہ القاعدہ اور طالبان پاکستان کے دشمن ہیں۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ القاعدہ اور طالبان پاکستان کے دشمن کیوں ہیں؟
پی این ایس مہران میں دہشت گردوں کا گھس جانا معمولی واقعہ ہے نہ قابل معافی۔ ائرفورس کے پاس جواز تھا کہ ایبٹ آباد اپریشن میں سٹیلتھ ہیلی کاپٹر استعمال کئے گئے۔ بحریہ کے پاس فول پروف سکیورٹی نہ کرنے کا کیا جواز ہے۔ ہفتہ ڈیڑھ ہفتہ قبل دہشت گردوں نے نیوی کی بسوں پر پے در پے حملے کئے۔ اس کے باوجود نیول حکام کیوں سوئے رہے؟ جو سوئے رہے ان کے خلاف سخت کارروائی ہونی چاہئے۔ ایڈمرل نعمان بشیر کو سیریمونیئل ڈریس زیب تن کر کے شو پیش کےلئے نہیں رکھا ہوا۔ وہ اپنی ذمہ داری نبھانے میں قطعی ناکام رہے۔ اب بار بار کہہ رہے ہیں یہ سکیورٹی لیپ نہیں ہے نیوی کو اربوں کا نقصان ہوا۔ نہ صرف بحریہ بلکہ مسلح افواج کی ساکھ بری طرح متاثر ہوئی۔ پاکستان کے سمندر کا دفاع متاثر ہوا۔ امریکہ پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کو غیر محفوظ قرار دیتا ہے۔ بھارت اس واقعہ کی آڑ میں دنیا میں ثابت کر رہا ہے کہ پاکستان کے ایٹمی اثاثے واقعی غیر محفوظ ہیں۔ بزعم خویش عقل کل رحمان ملک نے آ? دیکھا نہ تا? القاعدہ و طالبان کو مجرم قرار دے دیا۔ یہ امریکہ اور بھارت کی پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کے خلاف کارروائی کا جواز پیدا کرنے کی واردات بھی ہو سکتی ہے۔
جو کچھ ہوا اس کی سب سے بڑی ذمہ داری نیول چیف اور اس کے بعد مہران ائر بیس کے کمانڈر پر عائد ہوتی ہے۔ سکیورٹی لیپس اور کیا ہے، کیا دہشت گرد بیس اٹھا کر لے جائیں تو اسے سکیورٹی کی ناکامی قرار دیا جائے گا؟ شرم کی بات ہے کہ چار دہشت گردوں نے پاکستان کے دفاعی سسٹم کو 17 گھنٹے یرغمال بنائے رکھا جس میں 10 اہلکار شہید ہوئے اس پر بھی کامیابی کے دعوے اور خوشی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ بیس کمانڈر کو تو معطل کر دیا گیا۔ نیول چیف اپنے عہدے پر کیوں موجود ہیں؟ احتساب کی روایت کہیں سے تو شروع کریں اور فوج میں احتساب کا مطلب کورٹ مارشل ہے۔ نیوی کی ساری تنصیبات سمندر کے اندر یا ساحل سمندر پر ہیں۔ نیول چیف ان سے ہزاروں میل دور اسلام آباد میں رہائش پذیر ہے لش پش وردی پہن کر تقریبات میں شرکت کبھی کبھی کرنا ہوتی ہے۔ بحریہ کی قیادت فل ٹائم جاب ہے۔ اس کا ہیڈ کوارٹر کراچی یا گوادر میں ہونا چاہئے نہ کہ اسلام آباد میں۔رحمان ملک نے یہ فتویٰ بھی جاری کر دیا کہ القاعدہ و طالبان کے حق میں بیان دینے والے مسلمان نہیں۔ اب ہر کوئی اپنے مسلمان ہونے کی تصدیق مفتی عبدالرحمن ملک صاحب سے کرایا کرے گا؟ یہاں ملک صاحب اور ڈالروں کے سائے میں سکھ سے سونے والوں سے سوال ہے کہ کیا امریکہ اور بھارت کی مخالفت، مخاصمت یا دشمنی پاکستان سے دوستی میں بدل سکتی ہے؟ دشمنی کی جو وجوہات بتائی گئی ہیں اس کے تناظر میں تو جواب ناں میں ہے۔ نہ ہم ان کی دشمنی کی وجوہات ختم کر سکتے ہیں نہ ان سے دوستی ہو سکتی ہے۔ دوسرا سوال یہ ہے کیا القاعدہ و طالبان کی مبینہ دشمنی پاکستان دوستی میں تبدیل ہو سکتی ہے؟ القاعدہ و طالبان کو پاکستان کا دشمن کس نے بنایا؟ مشرف اور موجودہ حکمرانوں کی امریکہ نوازی اور امریکہ کی غلامی نے کیا۔ القاعدہ و طالبان کی پاکستان سے مبینہ دشمنی کی وجوہات ختم کرنا کیا اتنا ہی مشکل ہے جتنا امریکہ و بھارت کی؟ یقیناً نہیں آپ امریکہ کی غلامی سے نکل آئیں اس کی جنگ کو خیرباد کہہ دیں تو طالبان پاکستان کے بازوئے شمشیرزن بن کر ایٹمی اثاثوں کی حفاظت کریں گے اور آزادی کشمیر کی خاطر کسی قربانی سے دریغ بھی نہیں کریں گے۔
ہفتہ ، 28 مئی ، 2011
یوم تکبیر پر نعرہ تکبیر بھی....
فضل حسین اعوان
آج قائد اعظم کا پاکستان زخموں سے چور چور ہے۔ ناحق بہتے خون کی ارزانی و فراوانی ہے۔ اپنوں نے غیروں کی فہمائش و فرمائش پر عقل سلیم رکھتے ہوئے بھی جنت نظیر وطن کو قتل گاہ بنا دیا۔ کہیں ڈرون لاشیں گرا رہے ہیں، کہیں خود کش بمبار قیامت ڈھا رہے ہیں۔ مشرف نے امریکہ کی جنگ کو آمین کہا، ان کے جاں نشینوں نے ثمہ آمین کہہ دیا۔ ڈیڑھ لاکھ پاکستانی سپاہ کو امریکہ کی جنگ میں جھونک دیا گیا۔ امریکہ کی جنگ اپنی جنگ قرار دیکر اپنے ہی لوگوں کے ساتھ لڑی جا رہی ہے۔ لڑنے والوں کا ملک ایک محاذ بھی ایک، اللہ رسول قرآن و ایمان بھی ایک۔ ایک دوسرے پر یلغار کرتے ہیں تو دونوں طرف سے ایک ہی نعرہ اللہ اکبر بلند ہوتا۔ مسلمان کی گولی یا سنگین دوسرے مسلمان کے جگر و دل سے پار ہوتی ہے تو نزع کے عالم میں لا الہ کا ورد زباں پر ہوتا ہے۔ 10 اِدھر سے مرے 15 ا ±دھر سے، کامیاب کون ٹھہرا۔ پندرہ مارنے والا؟۔ نہیں! کامیاب وہ ٹھہرا جس نے کلمہ گو بھائیوں کو ایک دوسرے کی بندوق کے سامنے لا کھڑا کیا۔ اس کے مقاصد واضح ہیں۔ بش نے نائن الیون کے بعد صلیبی جنگ کا اعلان کیا تھا۔ یہ جنگ افغانستان سے ہوتی ہوئی پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے۔ اس میں انسانوں کے ساتھ ساتھ انسانیت کا بھی خون بہایا جا رہا ہے۔ پاکستان کی خود مختاری اور وقار بھی سرِ مقتل ہے۔ یہ نہیں کہ ہماری قیادتوں کو ہمارے شہروں بازاروں، گلستانوں، شبستانوں، دشت و صحرا?ںریگرازوں اور کوہساروں تک کو بے گناہوں کے لہو سے رنگین ہونے کا ادراک نہیں۔ یہ سب جانتے ہیں لیکن احساس مر چکا ہے۔ ڈالروں کی چمک سے چندھیائی آنکھیں ذاتی مفادات سے آگے دیکھنے سے قاصر ہیں۔ سنہرے مستقبل کے سپنے ضمیر کو انگڑائی لینے سے قبل پھر سے سلا دیتے ہیں۔ خوف یہ ہے کہ امریکہ کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ جب مقابلہ نہیں کر سکتے تو اپنے بھائیوں کے خون کی تجارت ہی سہی۔ مشرف زندہ انسانوں کا سودا کرتے تھے یہ لاشوں کے سوداگر ٹھہرے۔ امریکہ کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ کیا ان کا کر رہے ہو جن کو امریکہ کے ایما پر دشمن قرار دیدیا؟ اب تک تو نہیں کیا۔ جو دشمن آپ کے سامنے نہیں اس کا مقابلہ اور خاتمہ کیسے ہو سکتا ہے جس کو دشمن سمجھ لیا اس کی آڑ میں اصل دشمن بھی اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لئے سرگرداں و سرگرم ہے۔ القاعدہ طالبان شاید ایک قوت اور فورس سے زیادہ کیفیت کا نام ہے۔ عام مولوی کی وعظ اور تبلیغ کسی کو کسی بھی وقت طالبان بنا سکتی ہے۔ زرداری، گیلانی، نواز شریف، اسفند یار، شجاعت اور عمران جیسے لوگ مولانا فضل الرحمن کا جہاد پر لیکچر سنیں تو شاید اگلے روز یہ بھی خود کش جیکٹیں پہن کر دشمن کی تنصیبات پر جا گریں۔ پہلے آپ اپنے اصل دشمن کو ملک سے نکال باہر کریں۔ ہزار بار کنواں پانی سے خالی کر دیں۔ جسد ناپاک کو باہر نکالنے سے ہی پاک ہو گا۔ اس کے بعد عسکریت پسندی شدت پسندی اپنی موت آپ مر جائے گی۔ ملک تعمیر و تخریب کے دوراہے پر ہے۔ ذمہ دار ہوش کے ناخن لیں۔ قوم کا اعتماد بحال کریں۔ اسے امریکہ کی جنگ سے باہرنکالیں۔ مبینہ عسکریت پسند بھی عقل کو ہاتھ ماریں خود کش حملوں میں عام اور معصوم لوگوں کو نشانہ بنانے سے کس کا نقصان کر رہے ہیں۔ اگر یہ ان کا کام نہیں تو ان کے نام پر جو کارروائیاں کر رہے ہیں۔ ان کو خود بے نقاب کریں۔پاکستان کے پاس کس چیز کی کمی ہے؟ بہترین فوج ہے، وطن کی آن پر کٹ مرنے والی قوم ہے۔ جذبہ ایمانی ہے، سب سے بڑھ کر بہترین ایٹمی صلاحیت موجود ہے۔ یہی صلاحیت غیروں کو د ±کھتی ہے۔ وہ اسے 57 اسلامی ممالک کا ایٹم بم قرار دیتے ہوئے اس کے پیچھے پڑے ہیں۔ یہ ہمارا عظیم دفاعی حصار ہے۔ آج اسی میں نقب زنی کی سازشیں ہو رہی ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر دوستی کی اوٹ میں دشمن وطن عزیز میں در آیا ہے۔ سیاسی و عسکری قیادت حب الوطنی کا مظاہرہ کرے۔ آج قوم یوم تکبیر منا رہی ہے، آج پاکستان کے دشمنوں کے خلاف نعرہ تکبیر بلند کرنے کی ضرورت ہے، اس روز عہد کریں کہ مادر وطن کے چپے چپے کا دفاع کریں گے۔ اغیار کو نکال باہر کریں گے۔ ملک کی سالمیت، سلامتی عزت و وقار اور خود مختاری کے لئے ایٹمی صلاحیت کو بھی بروئے کار لانا پڑے تو گریز نہیںکریں گے۔ دشمن ہمیں ویسے بھی پتھر کے دور میں دھکیل رہا ہے۔ بزدلوں کی طرح مرنے سے لڑکر جان دے دینا کہیں بہتر ہے۔ سینہ سپر ہونے میں بہرحال کامیابی و کامرانی کا موقع تو موجود ہے۔
اتوار ، 29 مئی ، 2011
بجٹ۔خسارہ۔ خود انحصاری
فضل حسین اعوان
سالانہ میزانیہ تیاری کے آخری مراحل میں ہے۔ حکومتی سقراط، بقراط، الکندی، خوارزمی، عمر خیام اور جابر بن حیان سر جوڑ کر بیٹھ گئے ہیں کہ مہنگائی، بیروزگاری کے مارے، دہشت و وحشت کی مچان پر بیٹھے عوام کی کس رگ میں خون باقی ہے جس کو نچوڑا جا سکے۔ اب تک سامنے آنے والے اعداد و شمار حکومتی اعلیٰ و بے مثال کارکردگی کی چغلی کھا رہے ہیں۔ الفاظ کی جادوگری اور اعداد و شمار کے ہیرپھیر سے مسائل حل ہونے ہوتے تو آج چارس ±و خوشحالی و ترقی کے پھریرے لہرا رہے ہوتے۔ بتایا گیا ہے کہ اگلے سال بجٹ کا حجم 36 کھرب روپے کے لگ بھگ ہوگا۔ حکومتی آمدن 26 کھرب ہو سکتی ہے۔ آمدن اور اخراجات میں 10 کھرب روپے کا فرق ہے۔ یہ 10 کھرب عوام کی نسوں سے خون کشید کر کے اکٹھے کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ کئی نئے ٹیکس لگیں گے، کئی جاری ٹیکسوں میں اضافہ ہوگا، عالمی مالیاتی اداروں کے پاﺅں پڑ کر ان کی عوام ک ±ش شرائط کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہوئے قرض لیا جائے گا۔ رواں مالی سال کے وسط تک پاکستان کے اندرونی و بیرونی قرضوں کا بوجھ 110 کھرب سے تجاوز کر چکا ہے جو مجموعی قومی بجٹ سے تین گنا سے بھی زیادہ ہے۔ ادھار ضرورتاً سے زیادہ عادتاً اور روایتاً لیا جاتا ہے۔ پاکستان میں وسائل کی کمی نہیں اس کے باوجود ہم گردش لیل و نہار کا شکار ہیں۔ وسائل شاید اس لئے بروئے کار نہیں لا رہے کہ استعمال کے ہزار سال بعد کیا بنے گا؟ 10 کھرب روپیہ بڑی رقم ہے۔ عوام کا خون نچوڑ کر خسارہ پورا کرنے کی کوشش کی گئی تو بہت سے لوگوں کا جان اور روح کا رابطہ قطع ہو جائے گا۔ وسائل کو بروئے کار نہیں لانا تو کوئی اور تدبیر کر لیں۔ کچھ فضول اخراجات کو سمیٹ لیں۔ پنجاب حکومت نے جزوی طور پر بیرونی امداد پر لات ماری ہے، اگر یہ ڈرامہ اور پوائنٹ سکورنگ کارروائی نہیں تو احسن فیصلہ ہے۔ کابینہ کے ارکان نے تنخواہوں اور مراعات میں رضاکارانہ 25 فیصد کمی کا اعلان کیا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ 25 فیصد کی کسر ہاتھ مار کر ہزار گنا کر کے نکالیں، مزید بہت کچھ ہو سکتا ہے۔ نوائے وقت ٹوڈے پروگرام میں دلاور چودھری کا موقف تھا کہ غیر ملکی امداد سے انکار اچھی بات ہے لیکن پنجاب کے حکمرانوں کو ایک کام اور کرنا چاہئے اور وہ یہ کہ پنجاب میں بڑی گاڑیوں، بڑے گھروں، غیر ملکی سامان تعیش، کپڑے، جوتے، میک اپ کا سامان استعمال کرنے والوں پر ”روٹی ٹیکس“ لگایا جائے اور اس سے حاصل ہونے والی آمدن سے ان غریبوں کیلئے دو وقت کی روٹی مہیا کی جائے، ان کیلئے روزگار کے مواقع پیدا کئے جائیں جن کے چولہوں کے ساتھ ان کی امیدوں کی کرنیں بھی بجھ چکی ہیں تاکہ وہ بھی زندگی کے دھارے میں شامل ہو سکیں اور دوسری طرف ہماری لوکل انڈسٹری کی حوصلہ افزائی ہو۔ اس سے بھی روزگار کے لاکھوں مواقع پیدا ہو سکیں گے۔ اس تجویز میں مزید اضافہ کرتے ہوئے اسے پورے ملک تک پھیلایا جا سکتا ہے۔ شہروں میں گاڑیوں کا اڑدھام ہے۔ ٹریفک گھنٹوں بلاک رہتی ہے۔ روزانہ کروڑوں کا ایندھن فضول جلتا ہے۔ اگر پبلک ٹرانسپورٹ مناسب کرائے پر اور بروقت دستیاب ہو تو 90 فیصد لوگ کاروں اور موٹر سائیکلوں کے بجائے پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کریں۔ حکومت خود دو منزلہ بسیں چلائے۔ بڑے شہروں میں سرکلر ریلوے کی منصوبہ بندی ہونی چاہئے۔ کھربوں کی درآمدات نے بھی معیشت کو ض ±عف پہنچایا ہے۔ صرف انتہائی ضروری اشیائ کی درآمدات ہونی چاہئے جیسے جان بچانے والی ادویات وہ بھی خودکفالت حاصل ہونے تک، ہر شعبہ کیلئے جدید ٹیکنالوجی وغیرہ۔ اجناس، تیل وغیرہ کو تو ہرگز درآمد نہ کیا جائے۔ کچھ لوگوں کو غیر ملکی اشیاءکے استعمال کا خبط ہے ایسی اشیاءضرور منگوائی جائیں لیکن ان پر 100 گنا ٹیکس لگا دیں۔ 50 والی چیز پر 500سو ٹیکس لگائیں۔ شوقین خواتین و حضرات اپنے شوق کی قیمت ادا کریں۔ خود انحصاری کی منزل حاصل کرنے کیلئے یہ اقدامات ناگزیر ہیں۔