About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Thursday, September 30, 2010

وزیر اعلیٰ وائیں---جنرل وائیں


کولمبس ۔۔ ہمارے آباءاور آج کے حاکم


 ا 30 ستمبر ، 2010



فضل حسین اعوان ـ 
امریکہ کو دریافت کرنے کا سہرا کرسٹوفر کولمبس کے سر باندھا گیا ہے۔ وہ 1451ءمیں پیدا ہوا۔ 1492ءمیں سپین کے شاہ فرڈی نینڈ اور ملکہ ازابیلا نے اسے نئی دنیا دریافت کرنے کیلئے اخراجات اور تین جہاز فراہم کر دئیے۔ اس کی پیدائش سے بھی بہت پہلے ایک نہیں کئی مسلمان اس علاقے میں اتر چکے تھے جسے بعد میں امریکہ کا نام دیا گیا۔ علی المسعودی (871-957) نے اپنی کتاب مروج الذہب میں بحراوقیاس میں ایک نامعلوم سرزمین کا ذکر کیا ہے جسے ارض مجہولہ کا نام دیا گیا ہے۔ دنیا کے سب سے بڑے جغرافیہ دان محمد الادرپسی (1166۔ 1110) نے بھی اپنی کتاب نزہت المشتاق میں بحراوقیاس (بحر ظلمات) اور نئی دنیا کی تلاش کیلئے مسلم جہاز رانوں کی کوششوں کے بارے میں لکھا ہے۔ وہ بحر ظلمات کے بارے میں لکھتے ہیں ”بحر ظلمات کے اس پار کیا ہے اس بارے میں کچھ معلوم نہیں۔ اس سمندر کو پار کرنا بہت مشکل ہے اس پر دھند کے گہرے بادل چھائے رہتے ہیں۔ اس کی لہریں بہت طاقتور ہیں۔ یہ خطرات سے پر ہے اور اس میں ہواوں کے تیز جھکڑ چلتے ہیں۔ بحر ظلمات کے جزائر پر سمندر کی لہریں غالب رہتی ہیں کوئی جہاز ان میںداخل نہیں ہوتا بلکہ ساحل سے قریب سے ہوتا ہوا گزر جاتا ہے“ لیکن مسلمان جہاز ران بحر ظلمات کا سینہ چیر کر ان جزائر پر اترے جہاں کے باشندوں کا رنگ سرخ تھا۔کولمبس نے بعدازاں ان جزائر پر پہنچ کر ان باشندوں کو Red Indian کا نام دیا تھا۔ 
ہم مسلمانوں کے جری اور بہادر آباءمیں سے ایک کا نام عقبہ بن نافع ہے۔ وہ بنو امیہ کے جرنیل تھے۔ 670ءمیں عقبہ نے مصر کے صحراوں کو تاراج کرکے شمالی افریقہ پر فتح کا پرچم لہرایا۔ اس کے بعد وہ بحر ظلمات تک پہنچے تو جذبات میں آکر اپنا گھوڑا سمندر میں ڈال دیا اس سمندر میں جس کی تندوتیز لہریں اور خوفناکی مشاق جہاز رانوں کو بھی بے بس کر دیتی ہیں۔ سمندر میں کھڑے ہوئے عقبہ نے اللہ تعالیٰ سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا ”اگر سمندر میری راہ میں حائل نہ ہوتا تو میں زمین کے آخری کونے تک تیرا نام بلند کرتا چلا جاتا۔ علامہ اقبال نے اسی مناسب سے کہا ہے
دشت تو دشت ہیں صحرا بھی نہ چھوڑے ہم نے
بحر ظلمات میں دوڑا دئیے گھوڑے ہم نے
عقبہ جیسے آباءکے کارنامے یاد کرکے سر فخر سے بلند اور آج کے حکمرانوں کی پست سوچ‘ خود غرضی‘ لالچ ....قوی وقار‘ خودداری اور خود مختار ی سے عاری پالیسیوں کے باعث محب وطن لوگوں کی آنکھیں پرنم اور گردنیں جھک جاتی ہیں.... اتحادی فورسز ارض پاک کو لاوارث سمجھ کر جب چاہے ہاتھ میں گنیں تھامے نہتے لوگوں کو خاک اور خون میں ملا دیتی ہیں۔ عرصہ سے بغیر پائلٹ کے جہاز پاکستانی اڈوں سے اڑ کر پاکستانیوں پر بمباری کرتے چلے آرہے ہیں گذشتہ دو تین روز سے نیٹو کے جنگی ہیلی کاپٹروں نے بھی حملے شروع کر دئیے ہیں۔ امریکی حکام واضح طور پر کہہ رہے ہیں کہ ڈرون اور ہیلی کاپٹروں سے پاکستان پر حملوں کی ایک معاہدے کے تحت انہیں اجازت ہے۔ ڈرون حملوں میں ہلاکتوں پر حکومت پاکستان کی طرف سے آج کل قطعاً کوئی ردعمل سامنے نہیں آرہا۔ البتہ اب ہیلی کاپٹروں کی بمباری سے 50 کے قریب افراد مارے گئے تو وزارت خارجہ نے اس کی مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ جوابی کارروائی کا حق محفوظ رکھتے ہیں.... کہاں وہ آباءجنہوں نے گھوڑوں کی ننگی پیٹھ پر سوار رہ کر اسلام کا بول بالا کیا۔ کہاں آج کے ایٹمی قوت کے حامل حکمران جن سے اپنے ممالک کی خود مختاری کا دفاع نہیں ہو رہا۔ بھٹو کے جاں نشیں سوچیں بھٹو زندہ ہوتے تو کیا وہ ان کی طرح امریکی جارحیت کے سامنے بھیگی بلی بن جاتے؟ غیرت اور قومی وقار کا تقاضا ہے کہ وطن عظیم کی طرف اٹھنے والی انگلی کاٹ دی جائے۔ یہاں تو معاملہ انگلی سے بہت آگے جا چکا ہے۔ بلی کو دیکھ کر کبوتر کی طرح آنکھیں بند رکھنے سے پوری قوم پر عذاب نازل ہوتا رہے گا۔ ہمت اور جرات سے ایک ڈرون یا ہیلی کاپٹر گرا لیا جائے ان کی بمباری بھی رک جائے گی اور خودکش حملے بھی!

Tuesday, September 28, 2010

تبدیلی۔۔۔ مگر کیسے؟

عافیہ کی رہائی .... فرض کریں

منگل ،27 ستمبر ، 2010

فضل حسین اعوان ـ 
انسانوں کو یرغمال بنا کر مطالبات تسلیم کرانے کا سلسلہ شاید نبی نوع انسان کی تخلیق کے ساتھ ہی شروع ہو گیا ہو۔ مسافر جہازوں کو اغوا کرکے مطالبات منوانے کی ریت گذشتہ صدی میں 20 فروری 1931ءکو پیرو کے جہاز کے اغوا سے قائم ہوئی اس سلسلے میں تیزی 1950ءکی دہائی میں آئی اس کے بعد سے آج تک چل رہی ہے۔ 
مارچ 1981ءمیں جنرل ضیاءالحق کے دور میں پی آئی اے کے جہاز کو کراچی سے پشاور جاتے ہوئے الذوالفقار نے اغوا کرکے کابل ائرپورٹ پر اتار لیا 100 سے زائد مسافروں سے لیفٹیننٹ طارق رحیم کو گولی مار کر اس کی لاش جہاز سے نیچے پھینک دی گئی۔ اس کے بعد جہاز دمشق لے جایا گیا۔ 13 دن بعد جنرل ضیاءالحق نے ان تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کر دیا جن کا اغوا کاروں نے مطالبہ کیا تھا۔
24 دسمبر 1999ءکو انڈین ایئرلائن کی پرواز کو کھٹمنڈو سے دہلی آتے ہوئے ہائی جیک کیا گیا۔ اس فلائٹ میں 176 مسافر تھے۔ جہاز نے فیول لینے کیلئے امرتسر لاہور اور دبئی ائرپورٹس پر لینڈنگ کرتے ہوئے حتمی طور پر طالبان دور میں قندھار ائرپورٹ پر لینڈ کیا۔ بھارتی حکومت نے اغوا کاروں کے مطالبات پر مشتاق احمد زرگر‘ احمد عمر سعید شیخ (ان کو بعدازاں ڈینئل پرل قتل کیس میں گرفتار کیا گیا) اور مولانا مسعود اظہر کو رہا کرکے اپنا جہاز اور یرغمالی چھڑائے۔ 
انقلاب ایران کے بعد ایرانی طلبا نے 52 امریکیوں کو ان کے سفارتخانے میں یرغمال بنا لیا امریکہ نے ان کی رہائی کی سرتوڑ کوشش کی۔ ایگل کلا کے نام سے ایک آپریشن بھی ترتیب دیا گیا جو قدرت کی طرف سے ناکام ہوا۔ امریکی اپنے کئی ہیلی کاپٹر ایران کے صحرا میں چھوڑ کر ناکامی کا داغ ماتھے پر سجائے گھر کو لوٹ آئے بالآخر امریکہ بہادر نے ایرانی طلبا کے مطالبات کے سامنے گھٹنے ٹیکتے ہوئے شہنشاہ ایران رضا شاہ پہلوی کی جائیداد اور اثاثے ایران کے حوالے کر دئیے۔ طلبا کا شاہ کی حوالگی کا مطالبہ بھی تھا۔ امریکہ نے شاہ کو ایران کے حوالے تو نہ کیا البتہ یہ کہا کہ وہ اسے اپنے پاس رکھے گا نہ پناہ دے گا۔ پھر شاہ کو جلد مصر بھجوا دیا گیا۔
پاکستان کی بیٹی عافیہ صدیقی کو امریکہ کی عدالت نے ناکردہ گناہوں کی 86 سال قید کی صورت میں سزا سنا دی۔ عافیہ کی بہن فوزیہ صدیقی کے بقول سزا دلانے میں حسین حقانی اور شاہ محمود قرشی کا کردار ہے۔ عافیہ کی والدہ کا کہنا ہے کہ امریکی حکام نے کہا تھا کہ اگر حکومت پاکستان یہ لکھ دے کہ عافیہ بے گناہ ہے تو ہم اسے رہا کر دیں گے۔ فیصلے کے ساتھ لگی دستاویزات میں حکومت پاکستان کی طرف سے جاری کردہ ایک خط بھی شامل ہے جس میں عافیہ پر دہشت گردی کی دفعات لگانے کا مشورہ دیا گیا تھا۔ 86 سال قید اسی لیٹر کے باعث سنائی گئی ہے۔ حکومت نے عافیہ کی رہائی کی اس وقت سنجیدگی سے کوشش کی نہ اب امید ہے۔ دعوے اور وعدے اس وقت بھی کئے گئے تھے اب سزا کے بعد کئے جا رہے ہیں۔
پاکستان طالبان تحریک کے ترجمان اعظم طارق نے کہا ہے کہ عافیہ صدیقی کو اب بندوق کی نوک پر امریکہ سے رہا کروا کے پاکستان لائیں گے۔ سر پھرے مجاہدین جو کہتے ہیں وہ کر بھی گزرتے ہیں.... فرض کریں فرض کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ چند سر پھرے ایک ایسے جہاز کو اغوا کر لیتے ہیں۔ پائلٹ سے مل کر جس میں ایک بہت بڑے ملک کا سفیر اور سفارتی عملا بھی سوار ہے۔ اغوا کاروں کو فرض کر لیں اپنی جان کی پروا نہیں اور وہ عافیہ صدیقی کی رہائی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ یہ یقینی بات ہے کہ عافیہ کی اہمیت جنرل ضیاءالحق جتنی نہیں ہے۔ سوال یہ نہیں کہ امریکہ فرضی یرغمالیوں کی رہائی کیلئے عافیہ کو چھوڑے گا یا نہیں۔ سوال یہ ہے کہ وہ عافیہ کو پاکستان پہنچانے کیلئے کسی کمرشل فلائٹ کا انتظار کرے گا یا طیارہ چارٹر کرے گا؟

Saturday, September 25, 2010

تبلیغ ۔قذافی اور حسینائیں


25-9-10فضل حسین اعوان ـ
نومبر 2009ءمیں روم کے پوش علاقے میں ایک ہال کو خوبصورتی سے سجایا گیا تھا۔قمقموں سے جگمگاتے اور روشنیوں سے بقعہ نور بنے ہال میں 2سو حسیناﺅں کیلئے نشستوں کا اہتمام تھا۔ خوبصورت عورتوں کو بتایا گیا تھا کہ انہوں نے ایک لیکچر اٹنڈ کرنا ہے جس کے اختتام پر 70یورو نقد اور تحائف بھی دئیے جائیں گے۔لیکچر میں شرکت کیلئے ایک معیار مقرر کیا گیا تھا۔ جس پر سختی سے عمل ہوا۔ ضروری قرار دیا گیا تھاکہ کسی کی عمر 15سال سے کم اور 35سال سے زائد نہ ہو۔قد کم از کم پانچ فٹ سات انچ۔کھلے گلے کی شرٹ اور منی سکرٹ پہن کر آنے پر پابندی تھی۔ حسینائیں ہال میں اپنی نشستوں پر بیٹھ چکیں تو بھی ان کو معلوم نہ تھا کہ لیکچر کون دے گا۔ تھوڑ ی دیر بعد سٹیج پر جو شخصیت نمودار ہوئی وہ لیبیا کے صدر کرنل قذافی تھے۔ وہی اس تقریب کے میزبان اور مقرر بھی تھے۔ کرنل قذافی نے دو گھنٹے خطاب کیا جس میں انہوں نے خدا کی وحدانیت اور قرآن کی حقانیت پر بات کی۔ان کے اذہان سے اسلام کے خلاف وہ زہر نکالنے کی کوشش کی جو متعصب اور اسلام دشمن عیسائی اور یہودی سکالرز نے بھرا تھا۔ قذافی نے قرآن و حدیث کی روشنی میں اسلام میں عورت کے بطور بہن بیٹی بیوی اور ماں کے مقام احترام اور حقوق پر سیر حاصل گفتگو کی۔ پھر ایسی ہی تقریبات کا اہتمام اس سال جون اور اگست 2010میں بھی کیا گیا۔ جون میں 700اور اگست کے آخر میں 500خواتین نے لیکچر میں شرکت کی۔ان لیکچرز میں جہاں کرنل قذافی نے اسلام کے خلاف مخصوص ذہنیت کے حامل غیر مسلموں کے دروغ گوئی پر مبنی پراپیگنڈے کا مدلل جواب دیا وہیں انہوں نے شرکاءکو دائرہ اسلام میں داخل ہونے کی بھی دعوت کی۔ جس کا اثر یہ ہوا کہ آخری لیکچر کے بعد تین خواتین حلقہ بگوش اسلام ہوگئیں۔
آج غیر مسلم دنیا میں اسلام کے خلاف وسیع پیمانے پر ہرزہ سرائی کی جاتی ہے۔ مذہب اسلام کو شدت کا مذہب قرار دیا جاتا ہے۔اس کے ماننے والوں کو شدت پسند، انتہا پسند اور دہشت گرد تک ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ تنقید اور تضحیک کرنے والے اسلام کی اصلیت سے واقف ہیں لیکن وہ اپنے مخصوص اور مذموم مقاصد کیلئے اسلام اور مسلمانوں کو بد نام کرتے ہیں۔آج اسلام پوری دنیا میں بڑی تیزی سے پھیل رہا ہے یہ لوگ اسلام کے پھیلاﺅ کو جھوٹ کے زور پر روکنا چاہتے ہیں۔ جو لوگ بد طنیت بزعم خوشِ سکالرز کی تقرریروںسے متاثر ہوکر ان کے آلہ کار بن جاتے ہیں وہ اسلامی تعلیمات سے مکمل طورپر نابلد ہوتے ہیں۔آج ان تک اسلام کا پیغام پہنچانے کی ضرورت ہے۔ کرنل قذافی ایک انوکھی اور انقلابی شخصیت ہیں۔انہوں نے تو مصر کو دعوت دی تھی لیبیا کو مصر میں ضم کرلیا جائے لیکن انور السادات نہیں مانے تھے۔ کرنل قذافی نے غیر مسلموں تک اسلام کا پیغام پہنچانے کا ایک منفرد راستہ اختیار کیا۔ جماعت اسلامی، جماعت الدعوة، تحریک منہاج القرآن اور دیگر تنظیمیں غیر مسلموں پر اسلام کی امن پسندی واضح کرنے کیلئے اپنا کوئی لائحہ عمل اور حکمت عملی ترتیب دے سکتی ہیں جس سے ان ذہنوں میں اسلام کے خلاف بھری گئی نفرت کی آگ ٹھنڈی ہوسکے۔
کرنل قذافی کے 14سو غیر مسلم خواتین کو لیکچر دینے کا یہ فائدہ ہوا کہ ان خواتین نے قذافی کا یہ پیغام ہزاروں لوگوں تک پہنچایا، اکیلی برطانیہ کی معروف ایکٹریس سلیوایونزCLIO Evansجس نے قذافی کے تینوں لیکچرز میں شرکت کی تھی اپنے انٹرویوز کے ذریعے لاکھوں یورپی اور دیگر ممالک میں موجود اپنے پرستاروں تک لیکچرز کی مکمل تفصیلات پہنچائیں۔ سلیوایونز نے ابھی اسلام قبول نہیں کیا تاہم وہ قذافی کی مہمان نوازی اور اسلام قبول کرکے لیبیا آنیوالی خواتین کو مکمل تحفظ عزت او راحترام دینے کے اعلان پر بڑی ایکسائٹیڈ ہیں۔ وہ اس پر بھی بڑی خوش ہیں کہ ان تقریبات میں شراب جیسی خرافات کہیں موجود نہیں ہوتیں۔
وضاحت: گذشتہ کالم میں پیر سید صبغت اللہ شاہ کو پھانسی کی تاریخ سہواً غلط شائع ہو گی۔ ان کو 20 مارچ 1943ءکو سزائے موت سے ہمکنار کیا گیا تھا۔

Friday, September 24, 2010

منتشرہ مسلم لیگ۔متحدہ مسلم لیگ

 جمعۃالمبارک ، 24 ستمبر ، 2010

فضل حسین اعوان ـ
پیرسید مردان علی شاہ المعروف پیر پگارا پاکستانی سیاست کا اہم ، باوقار اور متحمل مراج کردار ہیں۔ پیر پگارا کے والدِ محترم پیر سید صبغت اللہ شاہ کو انگریزوں نے تحریک آزادی میں سرگرمی سے حصہ لینے کی پاداش میں 20مارچ1943کو حیدر آباد جیل میں پھانسی لگا دی تھی۔ ان کو کہاں دفن کیا گیا وہ ہنوز ایک معمہ ہے۔ پیر پگارا1928 کو پیدا ہوئے۔ والد کی موت کے بعد ان کو باقی خاندان کے ساتھ نظر بند رکھا گیا۔ وہ علی گڑھ میں تعلیم کے لئے تین سال رہے اس کے بعد1946 میں ان کو بحری جہاز کے ذریعے انگلینڈ بھیج دیا گیا۔ یہاں لیور پول میں میجورڈیوس سکول میں داخل کرادیا گیا جس کا ماحول جیل کی صعوبتوں سے کم نہیں تھا۔ اس سکول میں صرف13طلبا تھے جن کا تعلق مختلف ممالک کے ان خاندانوں سے تھا جواپنے ممالک کی آزادی کے لیے سرگرم ہونے پر سزا کے مستوجب ٹھہرے تھے۔ پیر صاحب نے یہیں سے گریجویشن کی۔1949 میں وزیراعظم لیاقت علی خان برطانیہ کے دورے پر گئے۔ جہاں وہ پیر پگارا سے ملے اور انہیں” پیر پگارا“ کا سیٹس بحال کرانے کی یقین دہانی کرائی۔ 4فروری1952 کو گدی بحال کردی گئی اور اسی روز پیر صاحب کی دستار بندی ہوئی۔سندھ میں پیر پگارا کے مریدوں کی تعداد دیگر صوبوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔ سناہے سندھ کے اکثر مرید کہتے ہیں کہ سائیں جان آپ کے لئے، ووٹ بھٹو کے لئے۔ اس کے باوجود وہ کبھی کبھی جیت بھی جاتے ہیں ۔پیر پگارا نے مسلم لیگ کا پرچم مختلف ناموں سے اٹھائے رکھا ہے۔ آج ان کی مسلم لیگ کا نام فنکشنل لیگ ہے۔ وہ اپنی پارٹی کا تعلق ہمیشہ جی ایچ کیو سے بتاتے ہیں۔ آج ان کے گرد ق لیگ سے لیکر ڈاﺅن ورڈ شیخ رشید کی کاغذی عوام مسلم لیگ تک درجن کے قریب مسلم لیگیں منڈلا اور بھنبھنا رہی ہیں۔ پیر صاحب سیاست کے کتنے دھنی ہیں، اس بحث سے قطع نظر وہ بادشاہ تو نہیں بن سکے بادشاہ گر ضرور ہیں۔ جو نیجو اس کی بڑی مثال ہیں۔ آج کل ان کے گرد گھومنے والی مسلم لیگوں کے اکثر رہنما بھی اس چکر میں پیر صاحب کے در پر پہنچے ہوئے ہیں۔پیر صاحب کے مریدوںکی تعداد بے شمار، نیاز مندوں کی بھی کمی نہیں۔ یوسف رضا گیلانی جیسے بچے جو نامعقول لوگوں میں پھنس گئے ہیں وہ بھی کافی ہیں اور بچے کچھے اِدھر جاتے ہیں اور کبھی اُدھر۔ اب بالآخر ان کی چوکھٹ پر آگئے ہیں کئی کی نیت واقعی صاف اور وہ منتشر اوربکھری ہوئی مسلم لیگوں کو متحد دیکھناچاہتے ہیں۔ کئی ایسے ہیں جو ہمسائے سے خار کھائے بیٹھے ہیں۔ اس کی مَجھ مارنے کے لئے اپنی دیوار تک گرادینے پر کمر بستہ ہیں۔ یہ مسلم لیگ ن کو متحدہ مسلم لیگ میں لاناچاہتے ہیں جس کے سرپرست پگارا ہونگے۔ صدر چودھری شجاعت اور چیئر مین میاں نواز شریف۔مسلم لیگ ن ابھی اتحاد میں شامل نہیں ہوئی۔ اتحاد کے علمبرداروں نے عہدوں کی تقسیم کردی اور میاں نواز شریف کو وہ عہدہ دیا گیا جو آ ج مسلم لیگ ن میں راجہ ظفر الحق کے پاس ہے۔
مسلم لیگ ن کا وجود صرف اورصرف میاں نواز شریف کے دم قدم سے ہے گو وہ اپنی پروزرداری پالیسیوں کے باعث اپنی پارٹی کو نقصان پہنچا رہے ہیں تاہم وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف ساتھ ساتھ اپنی کارکردگی سے کافی حد تک اس کا مداوا بھی کر رہے ہیں ۔یوں معاملہ کسی حد تک متوازن ہے۔ 
مسلم لیگ ن کے سوا تمام مسلم لیگیں متحد ہوجائیں پھر بھی عوام میں مسلم لیگ ن کا اپنا ایک مقام ہے اور ووٹ بنک بھی۔ جس کا مقابلہ متحدہ مسلم لیگ نہیں کرسکتی۔ لیکن ن لیگ کے اتحاد میں شامل نہ ہونے کا نقصان خود ن لیگ اور متحدہ مسلم لیگ کو ہوگا۔ اس لئے تمام تر مسلم لیگوں کا اتحاد ہر مسلم لیگ کے لئے سود مند ہے۔ اس کیلئے مسلم لیگوں کے قائدین کو زمینی حقائق سے نظریں نہیں چرانی چاہئیں۔ میاں نواز شریف کو متحدہ مسلم لیگ عضو معطل بنا کر لانے کے بجائے ان کی اہمیت اور حیثیت کے مطابق ان کی پذیرائی کی جائے۔ پارٹیوں میں صدارتی انتخابات میں 18ویں ترمیم میں شجرِ ممنوعہ قراردیا گیا ہے۔ آج کی صورت حال کے مطابق پیر پگارا متحدہ مسلم لیگ کے سرپرست چودھری شجاعت راجہ ظفر الحق کی طرح چیئرمین اور نواز شریف با اختیار صدر ہوں تو متحدہ مسلم لیگ کا قیام ممکن ہے۔

Thursday, September 23, 2010

بزدل…غدار…لالچی


 جمعرات ، 23 ستمبر ، 2010


فضل حسین اعوان ـ
بزدلی، غداری، بے ایمانی، بدعنوانی ا ور بددیانتی کی مہر کسی کی پیشانی پر کندہ نہیں ہوتی۔ ان کمالات کی حامل شخصیات اپنے قول فعل اور کردار سے جانی اور پہچانی جاتی ہیں۔ ہماری سیاسی قیادت کئی بار کہہ چکی ہے کہ پاکستان کے شمالی علاقوں اور بلوچستان کی بدامنی میں بھارت کا ہاتھ ہے۔ بھارت یہ کارروائیاں افغانستان میں قائم اپنے ڈیڑھ درجن قونصل خانوں کے ذریعے کرا رہا ہے۔ گزشتہ روز وزیر داخلہ رحمن ملک نے ایک بار پھر کہا کہ بھارت نے پاکستان کا امن تباہ کرنے کے ثبوت افغان حکومت کے حوالے کر دیئے ہیں… بھارت کی مداخلت کی وجہ سے پاکستان کے قبائلی علاقے سلگ رہے ہیں۔ بلوچستان باقاعدہ بدامنی کی آگ کا الائو بن چکا ہے۔ ہماری لیڈر شپ ثبوت لے کر کرزئی کے آگے ڈھیر کر رہی ہے اس کرزئی کے آگے جسے اپنی جان کے لالے پڑے ہیں جسے افغانستان میں طالبان کی کارروائیوں کے پیچھے پاکستان کا ہاتھ دکھائی دیتا ہے۔ کرزئی رات کو اپنی سلامتی کے لئے نفل پڑھ کر سوتا اور صبح پھر نفل پڑھتا ہے کہ وہ زندہ ہے اور افغانستان کا صدر بھی ہے۔ حکومت پاکستان کا پاکستان میں بھارتی مداخلت کے ثبوت افغان کٹھ پتلی انتظامیہ کے حوالے کرنے کا کیا مقصد ہے؟ اس انتظامیہ کے احکامات پر عمل درآمد صرف کابل اور کابل کے صدارتی محل تک محدود ہے۔ امریکہ خود تسلیم کرتا ہے کہ افغانستان کے 34 میں سے 33 اضلاع پر طالبان کا جزوی یامکمل کنٹرول ہے۔ ممبئی حملوں کا بھارت نے پہلی گولی چلنے کے ساتھ ہی الزام پاکستان پر لگا کر پاکستان کو بدنام کیا کئی تنظیموں پر اقوام متحدہ کے ذریعے پابندی لگوائی، حافظ محمد سعید سمیت کئی لوگوں کو گرفتار اور نظر بند کرا دیا۔ فلاحی تنظیموں تک کے اثاثے منجمد کرائے اور ان کو کالعدم قرار دلایا۔ بزدلی کی انتہا ہے کہ ہمارے حکمران بھارتی مداخلت کے ثبوت ہاتھوں میں لئے گھوم رہے ہیں۔ کسی ردعمل کا اظہار نہیں کرتے۔ بھارت کی اینٹ سے اینٹ بجانے کا سامان موجود ہے اس کو بروئے کار نہیں لاتے۔ بھارت نہ صرف پاکستان کے شمالی علاقوں اور بلوچستان میں تخریب کاری اور دوسرے صوبوں سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹروں، انجینئروں اساتذہ اور دیگر شعبوں کے ماہرین کی ٹارگٹ کلنگ میں ملوث ہے بلکہ آج ایک مرتبہ پھر کشمیریوں کی نسلیں ختم کرنے کے درپے ہے۔ ’’بھارتیو کشمیر چھوڑ دو‘‘ تحریک کو ساڑھے تین ماہ ہو گئے اس دوران بھارتی سکیورٹی فورسز نے وادی کشمیر کو بے گناہ کشمیریوں کے خون سے رنگ دیا ہے۔ روزانہ خواتین اور بچوں سمیت درجنوں انسان خاک اور خون میں ملا دیئے جاتے ہیں۔ حکومت پاکستان کی طرف سے کشمیر کے حوالے سے بھی ویسی ہی بے حسی ہے جیسی شمالی علاقوں اور بلوچستان میں بھارت کی مداخلت پر ہے۔ کشمیر میں آزادی کی تحریک آج جس مقام پر ہے پہلے کبھی نہ تھی اگر پاکستانی سیاستدان اور حکمران اپنا قائداعظم جیسا کردار ادا کریں تو کشمیریوں کی آزادی کی منزل بہت قریب آ سکتی ہے اور اگر وادی میں ملت کے غداروں پر قابو پا لیا جائے تو یہ منزل صرف دو چار گام کے فاصلے پر رہ جائے گی۔ آزادی کے متوالوں کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بھارتی فوج کے بعد غدار ابن غدار شیخ عبداللہ فیملی ہے پہلے شیخ عبداللہ نے خود مختار کشمیر کا پرچم بلند کیا پھر نہرو کا ایجنٹ بن کر اقتدار کے ایوانوں میں جا بیٹھا۔ شیخ عبداللہ نے 1933 میں اکبر جہاں نامی خاتون سے شادی کی جس کا باپ یورپی عیسائی مائیکل ہیری، نیڈو ہوٹل انڈسٹری کا مالک تھا۔ اکبر جہاں کا پہلا خاوند ایک عرب کرم شاہ تھا۔ جس سے 1928 میں شادی کی تھی۔ کلکتہ کے ایک اخبار نے انکشاف کیا کہ کرم شاہ دراصل لارنس آف عریبیہ ہے تو وہ 1929ء میں غائب ہو گیا جس کے بعد شیخ عبداللہ نے اکبر جہاں کے ساتھ نکاح پر نکاح کر لیا۔ ظاہر ہے ایسی خاتون کے بطن سے فاروق عبداللہ جیسا راکھشس ہی پیدا ہو سکتا تھا جو ہندو بنیے کی اشیرباد سے 5 مرتبہ اپنے ہم وطنوں کی لاشوں سے گزر کر کشمیر کا وزیر اعلیٰ بنا۔ آج اس کا بیٹا عمر عبداللہ مقبوضہ کشمیر کا وزیراعلیٰ اور خود فاروق عبداللہ منموہن سنگھ کی کابینہ میں وزیر ہے۔ فاروق عبداللہ نے بنیئے کا نمک حلال اور خود کو ملت کا غدار ثابت کرتے ہوئے دو روز قبل کشمیریوں کے زخموں پر نمک چھڑکتے ہوئے کہا ’’دنیا کی کوئی بھی طاقت کشمیر کو بھارت سے الگ نہیں کر سکتی۔ کشمیر بھارت کا تاج ہے اور تاج کے بغیر ملک اپنی افادیت کھو دیتا ہے۔ کشمیر کل بھی بھارت کا اٹوٹ انگ تھا مستقبل میں بھی رہے گا۔ پاکستان بھارت کا ازلی دشمن ہے۔ کشمیر میں امن بگاڑنے میں پاکستان ملوث ہے‘‘ پاکستانی قیادت کو فاروق عبداللہ کی باتوں سے ہی غیرت میں آ جانا چاہئے۔ حکومت پاکستان تو ’’بھارتیو کشمیر چھوڑ دو‘‘ تحریک کا تماشا دیکھ رہی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ آج ہماری لالچی اور حریص قیادت کی نظر بھارت کی پاکستان میں مداخلت اور فاروق عبداللہ کی پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی سے زیادہ چودھری شجاعت کے اس بیان پر ہو کہ جب وہ نظام سقہ کی طرح چند روز کے وزیراعظم تھے تو کرنل قذافی نے ان سے کہا تھا کہ آپ کشمیر کی آزادی کی تحریک چلائیں جتنا خرچہ ہو گا میں ادا کروں گا!

Wednesday, September 22, 2010

کشمیر اور شہد چاٹتے حکمران


بدھ ، 22 ستمبر ، 2010
فضل حسین اعوان ـ
آج ملک کتنے بحرانوں میں مبتلا اور قوم کتنی مصیبتوں میں گھری ہوئی ہے یہ گنتے اور گنوانے کی ضرورت نہیں۔ ملک کو بحرانوں اور قوم کو مصائب سے صرف وہ لوگ نکال سکتے ہیں جنہوں نے آئین کے تحت اس کی ذمہ داری لی اور آج اقتدار کے ایوانوں میں شاد‘ شانت اور شاند زندگی گزار رہے ہیں آج قوم اور حکمرانوں کی سوچ یکساں نہیں کسی بھی پہلو سے اور کسی بھی معاملے میں یکساں نہیں۔ عوام اپنے معاملات درست کرنے‘ مسائل کے حل کیلئے حکمرانوں کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ عوام اپنے مسائل کے حل اور کوئی راست راہ اختیار کرنے کیلئے بے کس اور بے بس ہیں۔ جن کے بس میں سب کچھ ہے وہ لاچار نہیں عیار ہیں۔ بے بس نہیں بے حس ہیں۔ ان کی حالت اس مسافر کی سی ہے جو جنگل سے گزر رہا تھا۔ اس نے خونخوار جانور کو اپنی طرف آتے دیکھا تو سر پر پاؤں رکھ کر بھاگ کھڑا ہوا۔ جیسے پاکستان کو لوٹنے والے خطرات دیکھ کر بیرون ممالک بھاگ جاتے ہیں۔ مسافر نے ایک کنواں دیکھا مرتا کیا نہ کرتا۔ بچاؤ کی موہوم سی امید پر کنویں میں اتر گیا۔ کنویں کے اندر دیوار میں ایک درخت اگا تھا۔ اس کی شاخ ہاتھ میں آئی اس کے ساتھ لٹک گیا۔ نیچے دیکھا تو سانپ پھن پھیلائے بیٹھا تھا۔ جائے رفتن نہ پائے ماندن۔ یہیں پہ بس نہیں۔ وہ جس شاخ سے لٹکا تھا اسی کو چوہا بھی کتر رہا تھا۔ لیکن مسافر شاید ہم میں سے اور ہمارے سیاستدانوں اور حکمرانوں میں سے تھا۔ اس کی نظر ایک پتے پر قطروں کی صورت میں ٹپکنے والے سیال پر پڑی۔ تھوڑا اوپر دیکھا تو شہد کا چھتا نظر آیا اس سے شہد ٹپک رہا تھا۔ ہر طرف سے مصیبتوں میں گھرے مسافر نے خطرات سے بے نیاز ہو کر شہد چاٹنا شروع کر دیا۔
آج پاکستان دہشت گردی کی جنگ کا حصہ بن کر تباہی کے دہانے پر ہے۔ خود کش حملوں اور بم دھماکوں نے انسانی خون کو ازراں کر دیا۔ ڈرون حملوں سے انسانوں کے چیتھڑے اڑ رہے ہیں۔ سیلاب نے آدھا ملک اجاڑ کر رکھ دیا کروڑوں افراد کی حالت ایسی ہے جیسے ان کے پاؤں تلے سے زمین کھینچ لی گئی ہو اور سر سے آسمان ہٹا دیا گیا ہو۔ بجلی‘ گیس اور تیل کی بے تحاشا قیمتیں لیکن اس کے باوجود تکلیف دہ قلت‘ ملک میں امن نہ روزگار نہ کاروبار‘ خود کشیاں اور جرائم بے شمار‘ پاکستان کی شہ رگ وادی کشمیر سلگتے سلگتے شعلہ اور آج الاؤ بن چکی۔ یہ وادی اور اس کی آزادی ہماری بقا اور سالمیت کی ضمانت ہے اس کی طرف سے حکمرانوں نے مجرمانہ خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ ہر چیز کو یہ لوگ سمجھتے ہیں۔ جانتے ہیں۔ خطرات سے آگاہ ہیں لیکن ان خطرات اور بحرانوں سے نکلنے کا چارہ نہیں کرتے کنویں میں درخت کی شاخ کے ساتھ لٹکے مسافر کی طرح شہد چاٹ رہے ہیں۔
آج کشمیری اپنی تحریک کو اپنے خون سے اپنے جذبوں اور قربانیوں سے اوج ثریا پر لے گئے ہیں۔ سات لاکھ بھارتی فوج نے بھی اپنی بے بسی کا اظہار کر دیا ہے۔ حریت قیادت تقریباً ایک اور متحد ہو چکی ہے۔ وہ سرینگر آنے والے بھارتیوں کی لیڈر شپ کیساتھ پاکستان کے بغیر بات چیت کیلئے تیار نہیں کہاں جرات رندانہ اور کہاں ایسے میں پاکستان کو اپنا کردار ادا کرنے کی اشد ضرورت ہے پاکستان سے مطلب اس کے حکمران ہی ہیں لیکن حکمرانوں اور سیاستدانوں کے ہاں کشمیریوں کا ساتھ دینے کا کوئی جوش جذبہ اور ولولہ نظر نہیں آتا۔ شاہ محمود قریشی چند دن بعد روایتی بیان دیکر لمبی تان کر سو جاتے ہیں۔ صدر بولتے ہیں نہ وزیراعظم کشمیر کمیٹی اور وزارت کشمیر کی بڑی اہمیت ہے۔ دونوں کو مراعات بنا کر زرداری صاحب نے دوستوں کے حوالے کر دیا۔ کشمیر کمیٹی کے چیئرمین کے والد محترم نے فرمایا تھا شکر ہے ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شامل نہیں تھے قبلہ محترم کشمیر کی آزادی کے ’’گناہ‘‘ میں کیوں شامل ہوں؟ ان کو راضی کرنا تھا تو کشمیر کمیٹی کی چیئرمین شپ کی بجائے وزارت پٹرولیم و ’’ڈیزل‘‘ دے دی جاتی۔ آج وہ اسلامی نظریہ کونسل کی سربراہی اور بلتستان کی گورنری مانگ رہے ہیں کل آرمی چیف بننے کا مطالبہ بھی کر دیں گے۔ ہو سکتا ہے کہ ان کی نظر چیف جسٹس کی کرسی پر بھی ہو۔ 
آج کشمیر کمیٹی کو ماضی کی نسبت انتہائی زیادہ فعال ہونے کی ضرورت ہے۔ وزارت کشمیر بھی کفن بردوش ہو۔ وزیر خارجہ‘ وزارت خارجہ انتھک محنت کوشش اور جدوجہد کریں۔ وادی کے اندر کشمیریوں کی تحریک کی طرح پوری دنیا میں ایک طوفان برپا کر دیں۔ صدر اور وزیراعظم پوری دنیا میں موجود ہائی کمشنروں اور سفارتکاروں کو مسئلہ کشمیر اجاگر کرنے کا خصوصی ٹاسک دیں۔ اوباما کیمرون بانکی مون سے صدر اور وزیراعظم بات کریں۔ تھوڑی سے جرات کرکے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مزید ساتھ دینے کو مسئلہ کشمیر کے حل کے ساتھ مشروط کر دیں۔ بھارت مسئلہ کشمیر کے حل کے طور پر شاید کشمیر کو خود مختار ریاست بنانے پر تیار ہو جائے۔ یہ حل کشمیریوں کو قبول ہے نہ پاکستان کو۔ مسئلہ کشمیر کا ایک ہی حل ہے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کیلئے استصواب اسی پر آج پورا زور لگانا چاہئے۔ اب مسئلہ کشمیر حل ہونے کو ہے۔ کشمیر کی آزادی اور بھارت کے کشمیر پر قبضے کے منصوبوں کی بربادی کے درمیان صرف پاکستان کے ہنگامہ خیز کردار کا فاصلہ رہ گیا ہے۔

Tuesday, September 21, 2010

ہم رسوائیوں سے نکل سکتے ہیں اگر....

21-9-10
فضل حسین اعوان ـ
ہانگ کانگ پر 156 سال تک برطانوی پرچم لہراتا رہتا۔ یکم جولائی 1997ءکو برطانیہ نے ہانگ کانگ کے انتظامی معاملات چین کے حوالے کر دئیے۔ ملکہ برطانیہ نے دنیا کے بہت سے ممالک کو اپنی کالونی بنانے کے حوالے سے اعتراف کیا تھا کہ برطانیہ کا یہ تجربہ ناکام رہا ہے۔ ملکہ برطانیہ کا یہ فرمان بالکل درست ہے۔ برطانوی سلطنت میں کبھی سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔ اگر اس کا دوسرے ممالک پر قبضوں کا تجربہ کامیاب ہوتا تو یہ ممالک آج بھی اس کے قبضہ میں ہوتے۔ ہوا یہ کہ کچھ ممالک سے ان کے باسیوں نے انگریزوں کو نکال دیا کچھ کو انگریز خود چھوڑ کرچلے گئے۔ امریکہ نے شاید برطانیہ کی تاریخ پڑھی نہ اس کے تجربات سے کچھ سیکھنے کی کوشش کی۔ اسی لئے وہ ان تجربات کو دہرانے کی کوشش کر رہا ہے جو ناکام ثابت ہوئے اور ناکام ہوتے رہیں گے۔ برطانیہ نے تو جن ممالک پر قبضے کئے اکثر ممالک میں عوامی مشکلات کو حل کرکے امن قائم کر دیا۔ امریکہ کا معاملہ اس کے برعکس ہے۔ اس نے جدید اسلحہ او گولہ بارود کے زور پر جن ممالک پر اپنی فوج اور مقامی لوگوں کی لاشیں بچھا کر قبضہ کیا۔ پہلے دن کی طرح لاشیں گرانے اور اٹھانے کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔
قبضوں کی ناکامی کے تجربات کے بعد برطانیہ اور مغربی ممالک نے پوری دنیا کو زیر نگیں رکھنے کیلئے اس کی معیشت پر کنٹرول کی حکمت عملی اپنائی جس پر وہ کامیابی سے عمل پیرا ہے۔ آج جدھر بھی نظر دوڑائیں ملٹی نیشنل کمپنیاں پاکستان جیسے بے شمار ممالک میں سرایت کر چکی ہیں۔ ہم کالا باغ ڈیم کی تعمیر‘ کوئلہ سے بجلی بنائی جائے یا نہ بنائی جائے‘ بنائی جائے تو کس طرح اور کتنی بنائی جائے۔ جیسے معاملات میں الجھے ہوئے ہیں تیل کے بے پناہ ذخائر موجود ہیں۔ ان سے استفادہ کرنے کے بجائے عالمی منڈی سے مہنگا ترین تیل خرید کر حکومت اپنے اخراجات چلانے کیلئے اس کی قیمت دوگنا سے تین گنا تک وصول کرتی ہے۔ ایک ہفتے سے پٹرول کی ایسی قلت ہوئی کہ لوگ اس کی تلاش میں مارے مارے پھرتے ہیں۔ بلوچستان میں سونے کی کانیں اونے پونے ٹھیکے پر یہودی کمپنی کے حوالے کر دی گئیں۔ وسائل ہمارے، لوٹ رہی ہیں ملٹی نیشنل کمپنیاں۔ دراصل ہم اپنی تاریخ سے دور ہو کر ناکام ٹھہرے۔ اسلامی تعلیمات کو نظرانداز کرکے نامراد ٹھہرے۔ مغرب نے اسلامی تعلیمات کو اپنا کر کامیابیاں حاصل کیں اور کرتے جا رہے ہیں۔ وہ جو مفادات ملکوں پر قبضے کرکے اپنے فوجی مروا کر اور دوسرے ملکوں کے انسانوں کو مار کر حاصل کرتے تھے آج ان ملکوں پر احسان جتا کر حاصل کر رہے ہیں۔ اسلام میں رشوت لینے اور دینے والے کو جہنمی قرار دیا گیا ہے۔ اقربا پروری اور سفارش کی گنجائش نہیں۔ ملاوٹ کا تصور نہیں۔ ناپ تول میں کمی بیشی قابل مذمت فعل ہے جھوٹ بول کر تجارت سے منع کیا گیا ہے۔ آج ہمارے ہاں یہ سب کچھ مفقود‘ ملٹی نیشنل کمپنیاں یہی اسلامی اصول اپنا کر کامیابی کی منزل پر منزل مار رہی ہیں۔ مغرب کی ترقی اور اس کی ملٹی نیشنل کمپنیوں کی کامیابیاں اسلامی اصولوں پر عمل کی مرہون منت ہیں۔ ہماری ناکامیاں‘ رسوائیاں اور روسیاہیاں اسلامی تعلیمات سے دوری کے باعث ہیں۔ ہم آج بھی سرخرو ہو سکتے ہیں۔ رسوائیوں سے نکل سکتے ہیں کامیابیاں حاصل کر سکتے ہیں اپنے آباءکی طرح دنیا پر چھا سکتے ہیں پوری دنیا میں اپنی طاقت کا لوہا منوا سکتے اور دھاک بٹھا سکتے ہیں اگر اپنے اصل کی طرف لوٹ آئیں۔ قرآن پاک اور اسوہ رسول کو زبانی ضابطہ حیات قرار دینے کے بجائے اسے عملی طور پر اپنا لیں تو۔

حمیت نام تھا جس کا

20-9-10
فضل حسین اعوان ـ
دِلّی کے شاہی محل میں خوف دہشت اوروحشت اور عجب سناٹا تھا۔1778ءمیں غلام قادر روہیلا کی فوج محل پر قبضہ کرچکی تھی۔ غلام قادر روہیلا کے ایک ہاتھ میں خنجر، دوسرا ہاتھ مغل تاج دار مرزا عبداللہ المعروف شاہ عالم ثانی کے گریبان پر تھا۔ روہیلا کی آنکھوں میں خون اترا ہوا تھا اور چہرہ غصے سے سرخ۔ اس کی آنکھوں میں غوث گڑھ کا 1772 کا وہ منظر گھوم رہا تھا جب اس کی عمر 14,13 سال تھی، اس موقع پر اس کی آنکھوں کے سامنے مرہٹوں نے مغلوں کے ساتھ مل کر روہیلوں کے خون کے دریا بہا دئیے تھے۔ مرہٹوں اور مغل فوج نے قتل و غارت گری کے ساتھ ساتھ بے غیرتی کی بھی انتہا کردی۔ روہیلا قبیلے کی عورتوں کی بے حرمتی کی گئی۔ یہ منظر غلام قادرکی آنکھوں کے سامنے گھوما تو اس کی برداشت جواب دی گئی وہ ایک ایک مغل شہزادے اور جرنیل کو کاٹ کر رکھ دیناچاہتا تھا لیکن اس نے صرف شاہ عالم ثانی کی خنجر سے آنکھیں پھوڑنے پر اکتفا کیا۔ گو جوکچھ اس کی والدہ اور بہنوں کے ساتھ ہوا تھا یہ اس کا انتقام نہیں تھا تاہم اس کے اندر لگی آگ کے شعلے کسی حد تک مدہم پڑ گئے۔ اس نے مغل خواتین کی آبرو پر آنچ نہ آنے دی۔ تاہم غلام قادر روہیلا نے حرم کی عورتوں کو رقص کا حکم دیا تو وہ بلا جھجک ناچنے لگیں اس پر روہیلا کو شرم آئی۔ اس نے اپنی تلوار اور خنجر کھول کر رکھ دئیے اور نیند کی ایکٹنگ کی۔ وہ تھوڑی دیر بعد اٹھا۔ دیکھا کہ شہزادیاں محوِ رقص تھیں۔ ان کی غیرت اور حمیت مرچکی تھی کسی نے روہیلا کو اس کی تلوار اور خنجر سے سوتے میں ٹھکانے لگانے کی کوشش نہ کی۔ علامہ اقبال نے اسی موقع کی مناسبت سے نظم لکھی جس کا ایک شعر یہ ہے....
مگر یہ راز آخر کھل گیاسارے زمانے پر
حمیت نام تھا جس کا گئی تیمور کے گھر سے
طوائفوں کی کوئی عزت نہیں ہوتی، وہ سب کچھ پیسے کیلئے کرتی ہیں۔ ان کی عزت اور حمیت مرچکی ہوتی ہے۔ آج یہی کچھ حالت ان لوگوں کی ہے جن کے ہاتھ میں قائداعظم کے پاکستان کی باگ ڈور ناگہانی اور اتفاقیہ طور پرآگئی ہے۔ اس سے قبل جرنیلی آمریت کے دوران پاکستانیوں کو باقاعدہ امریکہ کے ہاتھ بیچا گیا جس میں خواتین کی بھی تخصیص نہ کی گئی۔ سلطانیِ جمہور میں بھی اس سودے بازی کا تدارک نہیں کیا گیا۔ بلکہ پرویز مشرف نے معاملات جہاں چھوڑے تھے ان کے جاں نشینوں نے وہیں سے معاملات کو آگے بڑھایا ہے۔ کوئی آپ کی طرف انگلی اٹھائے، الزام لگائے تضحیک کرے اور دھمکیاں دے غیرت کا تقاضا ہے کہ اس کا جواب دیا جائے۔ برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے جس دورے کے موقع پر بھارت میں کھڑے ہوکر پاکستان کے خلاف زہر اگلا تھا۔ اسی دورے کے دوران اس نے ایک نجی محفل میں سونیا گاندھی کے خلاف ریمارکس دئیے۔ سونیا کو پتہ چلا تو اس نے اگلے دن کی کیمرون کے ساتھ ملاقات منسوخ کردی۔ سونیا کے بیٹے راہول نے بھی ماں کی طرح ملاقات سے انکار کردیا۔ کیمرون کے پروٹوکول نے ان کی خواہش پر ملاقات کیلئے پورا زور لگایا لیکن دونوں ماں بیٹا نہ مانے۔
دو روز قبل رچرڈ ہالبروک نے پاکستان میں کھڑے ہوکر اعلا ن کیا کہ ڈرون حملے پاکستان کی اجازت سے ہورہے ہیں۔ دوسرے روز وزارت خارجہ نے اس پر پُھسپُھسا سا ردّ عمل دیا۔ گزشتہ روز ہالبروک نے ملتان میں وزیراعظم اور وزیر خارجہ کے شہر ملتان میں یہ کہا کہ پاکستان اربوں ڈالر کا انتظام خود کرے پاکستان نے اپنے شہریوں پر ٹیکس نہ لگائے تو ہماری امداد رک سکتی ہے۔ ساتھ ہی ایک اور خبر بھی ملاحظہ فرمائیے پاکستانی امریکی فوجی سربراہوں کی اجلاس میں حامد کرزئی کی موجودگی میں ان کو پاکستان کے قبائلی علاقوں اور بلوچستان میں بھارتی مداخلت کے ٹھوس ثبوت دئیے گئے.... اگر ڈرون حملے حکومت پاکستان کی مرضی اور اجازت سے ہورہے ہیں تو یہ مغل شہزادیوں کے رقص سے بھی بد تر عمل ہے۔ اگر ایسا نہیں ہے تو ہالبروک کا بیان ہضم کرکے حکومت نے بے حمیتی کی انتہا کردی.... پاکستان نے امریکہ کی دہشت گردی کی جنگ میں اپنا سب کچھ برباد کرالیا۔ اب ہالبروک چند کروڑ ڈالر امداد کی خاطر پاکستان کے معاملات میں کھلی مداخلت کر رہے ہیں۔ عزت کا تقاضا ہے کہ ہالبروک کے سر پر دہشت گردی کی جنگ لاد کر افغان سرحد پر لے جا کر ملا ضعیف کی طرح دھکا دیدیاجائے جب آپ کے پاس بھارت کی پاکستان میں مداخلت کے ٹھوس ثبوت ہیں تو انتظار کس بات کا؟ ان کو خفیہ کیوں رکھا جارہا ہے؟ ممبئی حملوں میں بھارت نے پاکستان کو بلا وجہ اور بغیر کسی ثبوت کے ملوث قرار دیاتھا۔ آپ ثبوت لےکر اور ممبئی حملوں سے ہزاروں گنا زیادہ تباہی کے باوجود بھی خاموش بیٹھے ہیں۔کیوں؟ پیسوں کے لئے؟۔ اقتدار کیلئے ہر صورت پیسہ کمانا اور اقتدار میں رہنا ہے؟ پھرناچتے رہو مغل شہزادیوں کی طرح!


Sunday, September 19, 2010

سیاسی خلا ۔ کچھ بھی ۔ کسی بھی وقت


 19 ستمبر ، 2010



فضل حسین اعوان ـ 
بدقسمت ہے وہ قوم جس کے ہاں مخلص اہل اور دیانتدار لیڈر شپ نہ ہو۔ اس سے بھی بدقسمت ہیں وہ لوگ جن کو اپنی لیڈر شپ ابھارنے اور محدود خول سے نکل کر قومی سطح پر کردار ادا کرنے کا سنہری موقع ملا لیکن مصلحتوں اور خوش فہمیوں کے باعث وہ اس سے فائدہ نہ اٹھا سکے۔ صدر مشرف اقتدار میں آئے تو اپنے لانے والے نواز شریف اور ان کے خاندان کے چند افراد گرفتار کر لئے گئے۔ محترمہ بینظیر بھٹو اس وقت ملک سے باہر جبکہ زرداری صاحب ”اندر“ تھے۔ مشرف کے ابتدائی دور میں کچھ سیاسی لیڈروں کی گرفتاریاں ضرور ہوئیں تاہم کسی کو کوڑے لگے نہ پھانسی دی گئی۔ اس کے باوجود مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کے لیڈروں کے اندر شاید ایوب خان اور خاص طور پر ضیاءالحق کے مارشل لاءکا خوف تھا کہ یہ لوگ اپنی اعلیٰ قیادت پر ستم ٹوٹنے کے باوجود زیر زمین رہے البتہ مشرف کے ابتدائی دور کے بعد آج کے پنجاب کے وزیر قانون، تب کے ڈپٹی اپوزیشن لیڈر رانا ثناءاللہ خان بہت سے لیگیوں کی طرح مشرف کے خلاف کافی بولتے تھے۔ 9مارچ2003ءکو ان کو ایجنسیوں نے رات کے پہلے پہر اٹھایا اور شب ڈھلتے ہی موٹر وے کی سروس لین پر پھینک دیا۔ وہ چار گھنٹے تشدد کا نشانہ بنتے رہے اور اس دوران ان کی مونچھیں بھی صاف کر دی گئیں تھیں ان کواٹھایا گیا تو رانا ثناءواپس آئے تو رانی ثنا تھے۔
بہر حال یہ وہ موقع تھا جب نئی لیڈر شپ ابھر سکتی تھی۔ خاص طور پر یہ خود کو نمایاں کرنے کا عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کے پاس بہترین موقع تھا یہ جمہوریت کی بحالی کی مہم چلاتے تو محترمہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کی جلاوطنی کی صورت میں پیدا ہونیوالا سیاسی خلا پُر کر سکتے تھے۔ بدقسمتی سے دونوں ریفرنڈم میں مشرف کے لئے ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر ووٹ مانگتے رہے۔ اب ڈاکٹر صاحب سیاست سے دور، عمران خان سیاست میں بدستور۔ نواز شریف نے فنکاروں کی محفل میں فرمایا ”بنیادی طور پر فنکار ہوں اچھاگا لیتا ہوں ہم بھی چھپے رستم ہیں یہ الگ بات ہے کہ ہم سیاست کی طرف چلے گئے“ اب گویے نواز شریف سے مل کر اتحاد بنائیں شہباز شریف سیاست کریں۔ نواز شریف گانے گائیں عمران خان چمٹا بجائیں۔ 
نواز شریف کو ایک موقع ملا تھا جس سے انہوں نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ یہ موقع تھا جب پاکستان کی سیاست میں دو طبقات تھے۔ پرو بھٹو اورفو بھٹو نواز شریف نے خواہ محاذ آرائی کے ذریعے ہی سہی خود کو اینٹی بھٹو ثابت کر دیا جس کے باعث وہ دو مرتبہ وزیراعظم بنے اور آج ملک کی دوسری بڑی پارٹی کے قائدہیں جو کئی مواقع پر پاکستان کی ٹاپ کی پارٹی بھی رہی ہے۔ آج ملکی سیاست کا محور پیپلز پارٹی اور ن لیگ ہیں۔ 
آج بھی بہت سے لوگ پیپلز پارٹی کو بھٹوز کی محبت میں اور مسلم لیگ ن کو ان کی نفرت میں ووٹ دیتے ہیں گویا جماعت اسلامی کے ”چھوٹی برائی اور بڑی برائی میں موازنے“ کے متروکہ فلسفے پر عمل جاری ہے۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ دونوں پارٹیوں کا ایک مستقل ووٹ بنک بھی برقرار ہے۔ اس کے باوجود نہ صرف ان پارٹیوں کے اندر بہتری کی بہت سی گنجائش ہے بلکہ دونوں کے درمیان کبھی دھینگا مشتی اور کبھی نورا کشتی کے باعث کسی تیسری سیاسی قوت کے ابھرنے کا بھی قوی امکان ہے۔ وہ تیسری قوت کونسی ہو سکتی ہے۔؟ آج مشرف پاکستانی سیاست میں بطور سیاست دان ان ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کی سیاسی راہیں لال مسجد آپریشن‘ پاکستانیوں کی امریکیوں کے پاس فروخت اور پاکستان کو امریکہ کی جنگ کا میدان بنانے کے باعث مسدود ہو چکی ہیں۔ وہ پاکستان آئیں یا وہیں کہیں رہیں ایک برابر ہے۔ وہ پاکستان میں کسی بھی جگہ جلسے جلوسوں سے براہ راست خطاب نہیں کر سکتے۔ فون پر جہاں بھی ہوں خطاب کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان آکر وہ جیل نہ بھی جائیں تو بھی سکیورٹی وجوہات پر گھر سے قدم نہیں نکال سکیں گے لیکن عدالتوں میں جانا پڑا تو کیا کریں گے؟
ملک میں واقعی ایک سیاسی بے چینی موجود ہے۔ اس کا ادراک اگر موجود قیادت نے نہ کیا تو متبادل کچھ بھی ہو سکتا ہے انقلاب آ سکتا ہے بقول شہباز شریف خون آشام اور خونیں انقلاب ۔۔۔ نئی قیادت ابھر سکتی ہے۔ کہاں سے؟ کارخانہ قدرت میں کچھ بھی ناممکن نہیں۔ کچھ بھی کسی بھی وقت ہو سکتا ہے۔


Saturday, September 18, 2010

بھارتی فلمیں

ماسٹر

 ہفتہ ، 18 ستمبر ، 2010
فضل حسین اعوان 
میاں بیوی اپنے بچے کوسکول داخل کرانے لے گئے ،بچے کو ماسٹر کے سامنے کھڑا کرتے ہوئے اس کے باپ نے کہا” جناب اسے داخل کرانا ہے“ ماسٹر نے پوچھا ”یہ آپ کا بیٹا ہے؟“ دیہاتی نے بڑی سادگی سے جواب دیا” جناب اب تو آپ کا ہے“ ماسٹر صاحب نے بچے سے پوچھا” یہ آپ کا باپ ہے؟“ بچے نے بڑی معصومیت سے باپ کا جواب دُہرایا” جناب اب توآپکا ہے“ ۔ماسٹر صاحب بڑے چالاک تھے۔ دیہاتی کے ساتھ کھڑی خاتون کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا” یہ بیوی اب کس کی ہے؟“.... ساد ہ لوح والدین کے معصوم بچے کی استاد نے اس نہج پر تعلیم و تربیت کی کہ بڑا ہوکر وہ حکومتی مشینری کا اہم پرزہ بنا.... آج زمامِ اقتدار جن ہاتھوں میں ہے یہ سارے کے سارے لوگ گھروں سے تعلیم حاصل کرکے اس مقام پر نہیں پہنچے۔ حکومتی مشینری اوراداروں کو چلانے والے لوگوں نے بھی الف بے اور اے بی سی کسی استاد اور معلم سے ہی سیکھی ہے۔فرانسیسیوں کے ہیرو نپولین بوناپارٹ نے کہا تھا” آپ مجھے اچھی مائیں دیں میں آپ کو اچھی قوم دونگا“ ابتدائی تعلیم کے حوالے سے استاد کا درجہ بھی ماں کی طرح ہے۔خصوصاً پاکستان جیسے معاشرے میں۔استاد بچوں کی تعلیم کے ساتھ ساتھ ان کی تربیت بھی کرتا ہے۔تعلیم کی مضبوط بنیاد بھی ابتدائی کلاسوں سے ہوتی ہے۔لیکن المیہ یہ ہے کہ جس استاد کو سب سے زیادہ محنت کرنا پڑتی ہے مسائل اور مصائب کا سب سے زیادہ سامنا بھی اسے ہی کرنا پڑتا ہے۔
پی ایس ٹی اساتذہ کی طرف سے ایڈیٹر انچیف کے نام بھیجے گئے ایک پمفلٹ میں ان مسائل کی نشاندہی کی گئی ہے جن کا اساتذہ کو سامنا ہے۔ان میں سب سے اہم یہ ہے کہ آج پرائمری سکول ٹیچر کی بنیادی کوالی فکیشن بی اے بی ایڈ ہے اسے سکیل9دیا گیا ہے۔ایلیمنٹری سکول ٹیچر اور ایس ایس ٹی کی بنیادی کوالی فکیشن بھی بی اے بی ایڈ ہے ان کو باالترتیب سکیل 14اور 16دیا گیا ہے۔کام کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ پرائمری سکول میں عموماً ایک استاد ہوتا ہے5کلاسوں کے اگر 6,6پیریڈ بھی ہوں تو روزانہ 30پیریڈ بنتے ہیں۔ ای ایس ٹی کے حصے میں36اور ایس ایس ٹی کے حصے میں 18پیریڈ ہفتے وار آتے ہیں۔
پرائمری سکول ٹیچرز کام کے بارے توشاید اتنے پریشان نہ ہوں البتہ سکیلوں کی ناانصافی سے ضرور دلبرداشتہ ہیں۔ پی ایس ٹی ٹیچرز ایسوسی ایشن نے جہاں اپنے سکیلوں میں اضافے کی بات کی ہے وہیں وہ تمام اساتذہ کیلئے تنخواہوں میں اضافے، ہاﺅسنگ سوسائٹی، ٹیچر فاﺅنڈیشن کے قیام اوردیگر مراعات کا بھی مطالبہ کیا ہے۔
کوئی بھی قوم اور معاشرہ تعلیم کے بغیر ترقی نہیں کرسکتا۔ تعلیم کا حصول استاد کے بغیر ممکن نہیں جب تک استاد تمام تر تفکرات اور پریشانیوں سے آزاد نہیں ہوگا اس سے کماحقہ، اپنا بہترین کردارادا کرنے کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ سب سے کٹھن اور مشکل کام پرائمری ٹیچر کا ہوتا ہے۔مغرب میں سب سے زیادہ مراعات بھی ابتدائی تعلیم کے ٹیچر کو دی جاتی ہیں۔ ہمارے ہاں الٹا سسٹم ہے۔
کسی بھی درجے میں تعلیمی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ اچھی قوم کی بنیاد اور تعمیر میں والدین سے بھی زیادہ کردار اساتذہ کا ہے یہ دوسروں کے بچوں کو اوجِ ثریا تک لے جاتے ہیں لیکن خود ان کے اپنے بچے عموماً بے وسیلہ ہونے کی وجہ سے میٹرک ایف اے کرنے کے بعد روزگار کی تلاش میں سرگرداں ہوجاتے ہیں یہ معاشرے کے اہم اور اہل افراد کے ساتھ ظلم ہے۔ سکول اساتذہ کو ماسٹر کہہ کر مخاطب کیاجاتا ہے جس کا مطلب آقا ہے ہمیں ان کو عملاً بھی آقا ثابت کرنا ہوگا۔ وہ اسی صورت ممکن ہے کہ حکومت ان کے مسائل کا ادراک کرے۔ان کی ضروریات کا احساس کرے۔بد قسمتی سے ملک کا سب سے زیادہ اہم شعبہ تعلیم سب اداروں کے مقابلے میں انحطاط پذیر ہے۔ اس کے بجٹ میں ہر سال کٹوتی کردی جاتی ہے۔ یہ سلسلہ نہ رکا تو آج پارلیمنٹ میں چند جعلی ڈگری ہولڈر ہیں آئندہ پارلیمنٹ سمیت ہر ادارے اور شعبے میں ان کی بھرمار ہوگی۔ مرکزی اور صوبائی حکومتیں دیگر شعبوں میں کٹوتی کریں، ترقیاتی و غیر ترقیاتی کاموں سے بچت کریں، اپنے اخراجات کم کریں اور پوری توجہ تعلیمی شعبہ کی طرف مرکوز کرتے ہوئے پولیس کی طرح اساتذہ کی نٹ پے ڈبل کردیں اور ہر ماسٹر کو بھرتی کے وقت کم از کم سکیل 17 دیاجائے۔ استاد خوشحال تو قوم نہال۔

Friday, September 17, 2010

ترکی سے سیکولرزم کے بادل چھٹنے لگے

جمعۃالمبارک ، 17 ستمبر ، 2010

فضل حسین اعوان 
عظیم تر ترک قوم لمبے عرصے بعد اتاترک کی پالیسیوں کے سحر سے آزاد ہورہی ہے۔انگریزوں کی ہیمفرے اور لارنس آف عریبیہ کی سازشوں کے ذریعے لگائی گئی فصلِ بدبودار برباد ہورہی ہے۔اب سیکولرازم کے بادل چھٹ رہے ہیں۔اس کے منحوس سائے ہٹ رہے ہیں۔ اسلام پسند طیب اردگان کی قیادت میں متحد ہورہے ہیں۔ اتاترک کی اسلام دشمن اور سیکولرازم کی پالیسیوں کے علم بردار جج اور جرنیل اسلام کی نشاةِ ثانیہ پر پھٹ رہے ہیں۔لیکن وہ جمہوری حکومت کے سامنے بے بس اور عوامی سیلاب کے سامنے بے کس ہیں۔ چند روز قبل وزیراعظم طیب اردگان نے فوج کی طرف سے 1982 میں بنایا گیا آئین بدلنے کیلئے ریفرنڈم کرایا جس میں پانچ کروڑ سے زائد رائے دہندگان نے حصہ لیا۔ فوجی حکومت کا بنایا آئین بدلنے کے حق میں 58 فیصد لوگوں نے ووٹ دیا ووٹنگ کی شرح 77فیصد رہی۔ یہ سیکولرازم کے مقابلے میں اسلام پسند اے کے پی کی زبردست فتح ہے۔ترکی میں عدلیہ اور فوج خود کو اتاترک کے سیکولرازم کا محافظ سمجھتی ہے۔اب اس ریفرنڈم کے بعد دونوں کے اختیارات پر قدغن لگی ہے۔فوج کا جب جی چاہتا جمہوری حکومت کا تختہ اُلٹ کر اقتدار میں آجاتی۔بالکل پاکستان کی طرح۔ عدنان مندریس کو پھانسی بھی فوجی حکمرانوں نے لگائی۔ بالکل ذوالفقار علی بھٹو کی طرح۔ ترک جرنیلوں نے چار بار اقتدار پر قبضہ کیا۔ بالکل پاکستان کے جرنیلوں کی طرح عدلیہ کے جانبدارانہ فیصلے اس حد تک تھے کہ جس پارٹی کو اتاترک کے نظریات کے برعکس پالیسیاں اپناتے دیکھا اس پر پابندیاں لگا دیں۔ اب بھی ترک جرنیل اور عدالتیں طیب اردگان کی حکومت اور پارٹی کی سیکولرازم گریز پالیسیوں کا حسبِ سابق نوٹس لینے کے پر تول رہی تھیں۔ فوج کی طرف سے 1980 جیسی بغاوت یا انقلاب کی تیاری ہورہی تھی کہ طیب اردگان نے جرات اور دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انقلابی سازش کو ناکام بنادیا اور اس کے سرغنوں آرمی، ائیر فورس اور نیوی کے سربراہان کو باعزت ریٹائرمنٹ کا موقع دیا آج وہ جمہوری حکومت کے خلاف بغاوت کے مقدمے میں درجنوں ساتھیوں سمیت جیل میں ہیں۔ موجودہ ریفرنڈم کے ذریعے فوج کوسول حکومت کے سامنے جوابدہ ہونے کا پابند بنایا گیا ہے۔ ججوں کی تقرری کیلئے پارلیمنٹ کو مزید اختیارات مل جائیں گے۔1980کی فوجی بغاوت کے مرکزی کرداروں پر مقدمہ نہ چلانے کی رعایت بھی ختم کردی گئی ہے۔ ترک جرنیل اور ان کی مرضی کے فیصلے دینے والی عدالتیں طیب اردگان کی حکومت کو کب کا الٹا چکی ہوتیں جرنیلوں کو اپنے پیشروﺅں کا انجام نظر آرہا ہے جو جیلوں میں بغاوت کے مقدمات میں قید ہیں۔ یہ وقت کسی بھی باغی جرنیل پر آسکتا ہے۔ پاکستان کی طرح ترکی میںبھی بغاوت کی سزا موت ہے۔ پاکستان میں تو سکندر مرزا کے مارشل لاءسے مشرف کے بندوق کی نوک پر اقتدار سنبھالنے تک کا کسی سول حکومت نے نوٹس نہیں لیا اس لئے طالع آزما کسی بھی وقت مہم جوئی کا ارتکاب کرسکتے ہیں ترکی میں ایسا ممکن نہیں رہا۔
طیب اردگان ترکی اور ترک قوم کو اپنے اصل کی طرف لا رہے ہیں۔ ان کی سیکولرزم سے بیزاری واضح ہوچکی ہے۔وہ مغرب سے فاصلے پر ہورہے ہیں۔ ترکی کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات ضرور ہیں لیکن غزہ میں فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم اور فریڈم فلوٹیلا پر حملے کے باعث ان تعلقات میں سرد مہری آچکی ہے۔ طیب اردگان کی حکومت اور پارٹی کا جھکاﺅ مغرب کے مقابلے میں اسلامی ممالک کی طرف ہورہا ہے۔ گزشتہ سال ترک صدر عبداللہ گل اور وزیراعظم طیب اردگان پاکستان کے دورے پر آئے تھے۔طیب اردگان پاکستان کے دورے کے بعد ایران گئے جو ترکی کے حمایتوں اسرائیل اور امریکہ سمیت پورے مغرب کیلئے آسانی سے سمجھ آنیوالا پیغام ہے۔ طیب اردگان پاکستان کے دورے کے دوران آزاد کشمیر بھی گئے جہاں انہوں نے مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے کا مطالبہ کیا۔انہیں صدر مملکت آصف علی زرداری نے نشان پاکستان دیا اور انہوں نے پاکستانی پارلیمنٹ سے خطاب بھی کیا۔ ایران میں کھڑے ہوکر طیب اردگان نے ایران کے ایٹمی پروگرام کی بھرپور حمایت کا اعلان کیا۔طیب اردگان نے اپنی پالیسیوں، جرات، دانشمندی اورحکومت پر مکمل کنٹرول کے ذریعے عالمی سطح پر ترکی کی اہمیت منوا لی ہے ۔اب شاید یورپی یونین میں شمولیت کیلئے ترکی کو بھیک مانگنے کی ضرورت نہ پڑے

Thursday, September 16, 2010

عمر مختار

جمعرات ، 16 ستمبر ، 2010


فضل حسین اعوان ـ
کمزوری دشمن اور توسیع پسندانہ عزائم رکھنے والی طاقتوں کے لئے جارحیت کی کھلی دعوت ہوتی ہے جس سے نہ صرف تاریخ بلکہ جغرافیہ بھی بدل جاتا ہے اور اپنے آباء کے کارناموں اور خوبیوں میں کیڑے نکالنے والوں کی تقدیر اور قسمت میں بھی کیڑے پڑ جاتے ہیں۔ تحریک آزادی میں جس نے بھی حصہ لیا وہ ہم پاکستانیوں کے ہیرو ہیں اور ہمارے سب سے بڑے ہیروز قائد اور اقبال ہیں۔ کچھ بدبخت قائد کے پاکستان میں رہتے ہوئے بھی ان پر تنقید کرنے اور الزام لگانے سے باز نہیں آتے۔ 
اپنے ہیروز کی قدر کیسے کی جاتی ہے۔ اس کے لئے تاریخ کے چند اوراق الٹنے سے آپ لیبیا پہنچیں گے، جہاں اکتوبر 1911ء میں اٹلی کے بحری جہاز لیبیا کے ساحلوں پر لنگر انداز ہوئے۔ اطالوی بیڑے کے سربراہ فارافیلی نے مطالبہ کیا کہ لیبیا ہتھیار ڈال دے۔ بصورت دیگر طرابلس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی جائے گی۔ لوگ طرابلس خالی کر کے جا چکے تھے۔ اس کے باوجود اٹلی نے خالی شہر پر تین روز بمباری کی اور شہر پر قبضہ کر لیا۔ اس موقع پر ایک مجاہد کی غیرت نے جوش مارا اور جارح دشمن کو للکارا۔ یہ معلم قرآن عمر مختار تھا جو صحرائی علاقوں کے چپے چپے سے واقف کار تھا۔ عمر مختار نے اطالوی فوج کو گوریلا حملوں سے پریشان کئے رکھا۔ اطالویوں نے عمر مختار کی تحریک مزاحمت روکنے کےلئے کئی تدبیریں اپنائیں، بوڑھوں، بچوں اور خواتین کےلئے عقوبت گاہیں بنائیں۔ ان میں 25ہزار لیبیائی اسیر ٹھہرے جن میں سے مظالم کی تاب نہ لاتے ہوئے ایک تہائی شہید ٹھہرے۔ اس کے باوجود عمر مختار کے جذبہ جہاد میں کوئی فرق آیا نہ عوام کا حریت پسندی کا عزم ماند پڑا۔ عمر مختار کی جارح دشمن کو اپنے وطن سے مار بھگانے کی جدوجہد میں کوئی فرق آیا نہ عوام کا حریت پسندی کا عزم ماند پڑا۔ عمر مختار کی جارح دشمن کو اپنے وطن سے مار بھگانے کی جدوجہد اس وقت اختتام کو پہنچی جب وہ ٹیپو سلطان کی طرح آخری دم تک لڑنے کی خواہش رکھتے تھے لیکن 11ستمبر 1931ءکو وہ زخم کھا کر گرے تو اطالوی فوج نے ان کو گرفتار کر کے زنجیروں سے جکڑ دیا۔ پا ء  و ں میں بیڑیاں ڈال دی گئیں۔ گرفتاری کے وقت عمر مختار کی عمر 70سال سے زائد تھی۔ ان پر اٹلی کی فوجی عدالت میں مقدمہ چلایا گیا اور 4دن کی سماعت کے بعد عدالت نے سزائے موت کا حکم سنا دیا۔ 1931ء کو آج کے دن 16ستمبر کو عمر مختار کو لیبیا میں اطالوی فوج نے پوری نخوت رعونت اور فرعونیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے وطن کی آزادی کی خاطر لڑنے والے مجاہد کو سرعام پھانسی لگا دی.... ان سے آخری خواہش پوچھی گئی تو کہا ”اناللہ وانا الیہ راجعون“ 
لیبیا کی قیادت نے وطن پر جان نچھاور کرنے والے کو بھلایا نہیں۔ عمر مختار کی خدمات اور قربانی کے اعتراف میں دس ریال کے نوٹ پر ان کی تصویر چھاپی گئی ہے۔ 1981ء میں کرنل قذافی نے ہالی ووڈ سے عمر مختار کی زندگی پر ”صحرا کا شیر“ نامی فلم بنوائی اس میں اطالوی فوج کے معصوم لیبیائی باشندوں پرظلم و ستم کو بھی نمایاں دکھایا گیا ہے۔ اس لئے اٹلی میں 1982ء میں اس فلم پر پابندی لگا دی گئی۔ 
ہمارے ہاں کیا ہوتا ہے؟ بھارتی وزیراعظم دورے پر آئے تو کشمیر سے منسوب شاہرات کے بورڈ ہٹا دیے جاتے ہیں۔ بھارتی وفد پاکستان آئے تو وہ جو بھی بک بک کر جائے ہمارے زعما مصلحت کے نام پر منافقانہ خاموشی اختیار کرتے ہیں۔ یہ بھارت جائیں تو بھی مصلحت کا انداز اپنانا ان پر ہی فرض ہے۔ وہاں جا کر ایسے بیان دیتے ہیں کہ ان پر بھارت کے تنخواہ دار ہونے کا گمان گزرتا ہے۔ وہ جتنا دباتے ہیں یہ اتنا دبتے چلے جاتے ہیں یا یہ جتنا دبتے ہیں وہ اتنا ہی دباتے چلے جاتے ہیں۔ 
کرنل قذافی گذشتہ سال دس جون 2009ء کو اپنے پہلے دورے پر اٹلی پہنچے۔ وہ وزیراعظم سلویو برلسکونی سے ملاقات کےلئے گئے تو ان کے سینے پر عمر مختار کی اطالوی فوج کے ہاتھوں گرفتاری کی تصویر چسپاں تھی۔ اسی تصویر کے ساتھ وہ اطالوی وزیراعظم کے ساتھ گلے ملے تھے۔ اس موقع پر اطالوی حکومت نے ایک اور زہر کا گھونٹ بھی اپنی مرضی سے پی لیا جب ایک چینل کو کرنل قذافی کی اپنے ہاں موجودگی میں Lion of Desert دکھانے کی ہدایت کر دی۔ 
ہمارے ہاں بھی آزادی کے ہر مجاہد کی عمر مختار کی طرح عزت اور قدر کی جانی چاہئے۔ قائداعظم کی تو کسی سے بھی بڑھ کر۔ کچھ بدبخت اور کم بخت قائداعظم کے پاکستان میں تمام سہولیات اور مراعات کو حاصل کر رہے ہیں لیکن قائد کی خدمات، کارناموں اور ارض پاک کی آزادی کی جدوجہد کو خامی بنا کر پیش کرتے ہیں۔ ایسے لوگ پھر اپنے لئے وہ ملک ڈھونڈ لیں جس کی آزادی قائد محترم کی مرہون منت نہ ہو۔

Tuesday, September 14, 2010

گلاس فیلو


14-9-10
فضل حسین اعوان ـ 
جلا وطنیوں کے بعد واپسی کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو یکم فروری 1979ء کو امام خمینی کی فرانس سے ایران واپسی کو ایک تاریخی اہمیت حامل ہے۔ 17 جنوری 1979ء کو شہنشاہ ایران ملک چھوڑ چکے تھے۔ وزیراعظم شاہ پور بختیار نے اعلان کر رکھا تھا کہ روح اللہ خمینی کو لیکر آنے والا طیارہ ایرانی حدود میں داخل ہوتے ہی مار گرایا جائے گا۔ اس کے باوجود امام خمینی نے اپنی واپسی کا ارادہ ترک نہیں کیا وہ تہران کے مہرآباد اڈے پر اترے تو بہشت زہرہ کے قبرستان تک لاکھوں لوگ والہانہ استقبال کیلئے موجود تھے۔ بعض ذرائع امام خمینی کی ایک جھلک دیکھنے والوں کی تعداد ایک کروڑ سے زائد بتاتے ہیں… فلپائن میں صدر فرڈی ننڈمارکوس نے اپنے سیاسی حریف بینگنو سائمن اکینو کو وطن واپسی سے باز رکھنے کیلئے ان کی راہ میں ہر ممکن رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی۔ مسٹر اکنیو تمام رکاوٹوں کو توڑتے ہوئے 21 اگست 1983ء کو سوا تین سالہ جلاوطنی کے بعد فلپائن پہنچے تو لاکھوں ہم وطن ان کی راہ دیکھ رہے تھے۔ وہ منیلا انٹرنیشنل ائرپورٹ پر اترے تو ان کو اس وقت گولی مار کو قتل کر دیا گیا جب وہ سکیورٹی فورسز کے دستوں کی نگرانی میں تھے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو 10 اپریل 1986ء کو 8 سالہ جلاوطنی کے بعد پاکستان واپس لوٹیں تو لاہور شہر میں ان کے استقبال کیلئے آنے والوں کی تعداد لاکھوں میں تھی۔ اس دن لاہور کی بڑی شاہراہوں پر تِل اور تَل دھرنے کو جگہ نہ تھی۔ بے نظیر کو باور کرایا گیا تھا کہ جنرل ضیاء الحق کی حکمرانی کے دوران ان کا پاکستان آنا خطرے سے خالی نہیں‘ پھر محترمہ دوبارہ 18اکتوبر 2007ء کو مشرف دور میں وطن واپس آئیں تو ان کا کراچی میں عظیم الشان استقبال ہوا اور ان پر قاتلانہ حملہ بھی۔ اس بار بھی محترمہ کو پاکستان آنے سے روکا گیا تھا۔ پاکستان کے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف شاہ صدارت سے استعفے کے بعد چند روز کیلئے غیر ملکی دورے پر گئے تھے جو تقریباً دو سال پر محیط ہونے کو ہے۔ اپنی صدارت کے دوران وہ موقع بے موقع اپنے بہادر‘ تیس مارخان اور بانکے ہونے کا دعویٰ کرتے رہتے تھے۔ آج وہ اسی ملک میں واپس آنے سے خوفزدہ ہیں۔ وہ کئی بار واپسی کا اعلان کر چکے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کا وطن واپسی پر استقبال تو امام خمینی‘ اکنیو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی طرح ہو لیکن ان کی سلامتی کو کوئی خطرہ نہ ہو۔ خمینی‘ اکنیو اور بے نظیر بھٹو اپنے اپنے وطن واپس لوٹے تو انہوں نے کوئی ایڈوانس پارٹی نہیں بھجوائی تھی۔ تینوں کے خاندانوں کے افراد بدستور وہیں موجود تھے جہاں سے ان کے طیاروں نے واپسی کیلئے اڑان بھری تھی۔ پرویز مشرف نے اپنی آمد کے حتمی فیصلے سے بھی قبل اہلیہ محترمہ کو اپنی بحفاظت واپسی کی راہ ہموار کرنے کیلئے پاکستان بھجوا دیا ہے۔ سیاست جوئے اور چرس کا جس کو نشہ لگ جائے وہ بمشکل چھوٹتا ہے۔ پرویز مشرف نے بھی سیاست کی الف ب شاید سیکھی ہو یا نہ سیکھی ہو خود کو بڑا سیاست دان ضرور سمجھتے ہیں۔ ’’لاوا لتیوں‘‘ سے متاثر ہو کر صدر مشرف نے پہلے 9 مارچ 2007ء کو جسٹس افتخار کو معطل کیا پھر اسی سال 3 نومبر کو پوری عدلیہ کو الٹا رکھ دیا ایمرجنسی نافذ کی اور اس اقدام کو خود ہی ماورائے آئین بھی قرار دیدیا۔ اس سے ان کی سیاسی سوجھ بوجھ طشت ازبام ہو جاتی ہے۔ بہرحال ان کو سیاست کا چسکا لگ چکا ہے وہ سیاست بھی کرنا چاہتے ہیں اور خطرات میں کودنے پر بھی تیار نہیں۔ ان کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے ساتھ 40 فیصد پاکستانی ہیں باقی 60 فیصد ان کے ساتھ ہیں… دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ 60 فیصد ووٹنگ کیلئے گھروں سے نہیں نکلتے۔ مشرف کو مراعاتی طبقے سے بہت سی توقعات ہیں لیکن مراعاتی طبقہ ایک مستقبل طبقہ ہے حکمران کوئی بھی ہو یہ اس کے ساتھ ہوتے ہیں۔ مشرف سے ان لوگوں نے مراعات لیں مشرف سے قبل یہ کسی اور سے مراعات لیتے تھے اور آج کسی اور سے لے رہے ہیں اس لئے مشرف کو اس نامراد طبقے سے کوئی فیض نہیں ملے گا۔ البتہ ’’مراعاثی‘‘ طبقہ کل کی طرح آج بھی مشرف کے ساتھ ہے۔ اسی طبقے کے لوگ مشرف سے وفاداری نبھائیں گے۔ مشرف واپس آتے ہیں تو کوئی سارنگی اٹھا کر ان کے آگے چلے گا کوئی ڈھولکی پیٹتا ہوا اور کوئی گٹار بجاتا ہوا۔ ہر طرف سے مولا خوش رکھے‘ بھاگ لگے رہن‘ لاگی رے سیاں لاگی نظر توسے لاگی‘ رات ککڑی دیندی بانگاں اج چک دے پھٹے اور سانوں نہر والے پل سے بلا کے‘ کی سریلی آوازیں سنائی دیں گی۔ مشرف کے بہت سے کلاس فیلو اور گلاس فیلو بھی ہیں۔ گلاس فیلو کو تو انہوں نے گورنری‘ وزارتیں‘ مشارتیں اور بڑے بڑے عہدے دئیے کئی گلاس فیلوز آج بھی عہدوں پر براجمان ہیں بہت سے مشرف کی جدائی میں گھل رہے اور لبوں تک جام لانے کیلئے ترس رہے ہیں۔ ’’مراعاثی‘‘ کے ساتھ ساتھ گلاس فیلو طبقہ بھی اپنے مربی کا بھرپور استقبال کرے گا۔ اس نے ساقی نہ بدل لیا تو۔ لوگوں کو مشرف اور ان کا دور دونوں یاد آرہے ہیں۔ ان یادوں سے مشرف کیلئے ہمدردی کا ایک جذبہ بھی ابھرتا ہے لیکن ساتھ ہی دہشت گردی کے نام پر وطن عزیز کو امریکہ کا باجگزار غلام بنا دینے کا عمل جس کے نتیجے میں دس ہزار سے زائد بے گناہ پاکستانی بچوں اور خواتین سمیت دہشت گردی کا نشانہ بنے۔ اسی جنگ سے لال مسجد آپریشن بھی وابستہ ہے جس میں بچیوں تک کو بارود سے پگھلا کر پانی بنا دیا گیا۔ پاکستانیوں کو جب یہ سب یاد آتا ہے تو مشرف سے ہمدردی کے جذبات مزید نفرت میں بدل جاتے ہیں۔ یہی شاہ صاحب کا بویا ہوا ہے۔ جو وہ کسی بھی وقت وطن واپس آکر کاٹ سکتے ہیں۔ رات ایک ٹی وی پر وہ پھر اپنی واپسی کا مژدہ دہرا رہے تھے۔

Saturday, September 11, 2010

11-9-2010......کرب درد اور عید

221

10-9-2010....پاکستانی بھارتی ماہی گیر



فضل حسین اعوان ـ
اسلام جہاں صلہ رحمی پر زور دیتا ہے وہیں انسانیت کا درس بھی دیتا ہے۔ ہر مسلمان انسانوں اور انسانیت کو درد اور کرب میں مبتلا دیکھ کر تڑپ اٹھتا ہے، کسی انسان کو معمولی تکلیف بھی پہنچے تو مسلمان اسے اپنی روح کی گہرائی تک محسوس کرتا ہے۔ اس کا دل پسیج جاتا ہے۔ اگر معاملہ جنگ اور میدان میں آن پڑے تو مسلمان میں خدائی صفات قہاری اور جباری عود کر آتی ہیں۔ علامہ اقبالؒ نے مومن کی زمانہ امن اور میدانِ جنگ کی کیفیت یوں بیان کی ہے؎
ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم...... رزمِ حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن
بھارت پاکستان کا ازلی دشمن ہے اس کے پاکستان کے حوالے سے اپنا خبثِ باطن کبھی چھپایا بھی نہیں ہے۔ ہندو کو سب سے بڑا رنج ہزار سال تک مسلمانوں کی غلامی کرنے کا ہے۔ وہ اس غلامی کا بدلہ انگریزوں کے برصغیر سے نکلنے پر متحدہ ہندوستان کے قیام کی صورت میں لینا چاہتا تھا۔ اقبال اور قائد نے تحریک آزادی کو بام عروج پر پہنچا کر ہندو کے سارے منصوبے خاک میں ملا دیئے۔ پاکستان کی صورت میں ریاست مدینہ کے بعد دنیا کی دوسری نظریاتی ریاست معرض وجود میں آئی تو ہندو کے سینے پر سانپ لوٹنے لگا۔ اس کے پاؤں جیسے انگاروں پر آ گئے، کتے کی دم پر پٹرول چھڑک کر آگ لگا دی جائے تو جو حالت اس کی ہوتی ہے وہی قیام پاکستان کے بعد سے اب تک بھارت کے انتہا پسند ہندو کی ہے۔ اس نے پاکستان کی نااہل قیادت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان کو دولخت کر دیا۔ کشمیر پر جارحانہ قبضہ جاری ہے، سیاچن کے بہت بڑے رقبے پر یلغار کر کے تسلط جما لیا، سرکریک کا ایریا اپنی حدود میں شامل کر لیا۔ اس کے باوجود بھی اس کے سینے میں ٹھنڈ نہیں پڑی۔ انتقام کی ایک آگ جل رہی ہے۔ ہندو بنیا یہ آگ اس کے ہاں گئے ہوئے پاکستانیوں پر ظلم وجبر کے پہاڑ ڈھا کر ٹھنڈی کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ شاید ان نہتے اور غریب الوطن پاکستانیوں کو بھارت حافظ سعید، ذکی الرحمن اور امیر حمزہ سمجھ لیتا ہے۔ چند روز قبل پاکستانی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پائے جانے والے 442 بھارتی ماہی گیر پکڑے گئے۔ انسانی ہمدردی کی بناء پر کچھ این جی اوز نے ان کی رہائی کے لئے عدلیہ سے رجوع کیا جس پر ان کی رہائی عمل میں آئی۔ اسی طرح کی انسانی حقوق کی تنظیمیں بھارت میں بھی ہیں ان کو ایسا اقدام اٹھانے کی توفیق نہیں ہوئی۔ بھارتی حکومت نے بھی انسانیت کا مظاہرہ نہیں کیا۔ بھارت میں تین سو پاکستانی ماہر گیر قید ہیں ان کی رہائی کے لئے پاکستانی حکومت کوشش کرتی ہے نہ بھارت ان کو چھوڑنے پر آمادہ ہے۔ دیگر قیدیوں کے حوالے سے صورت حال اس سے بھی ابتر ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان قیدیوں کا تبادلہ ہوتا ہے تعداد میں بھارت کے قیدی عموماً زیادہ اور ہٹے کٹے ہوتے ہیں جبکہ اکثر پاکستانی قیدی جیلوں میں تشدد سے ذہنی توازن کھو چکے ہوتے ہیں جو ذہنی طور پر تندرست ہوں وہ جسمانی طور پر مفلوج اور معذور ہوتے ہیں اور کئی بار تو تشدد سے پاکستانی قیدی مر بھی چکے ہیں۔ ہمارے ہاں دہشت گردی میں ملوث قیدیوں کو بھی پالا پوسا جاتا ہے دشمن کے ساتھ وہی سلوک ہونا چاہیے جیسا وہ کرتا ہے۔ دشمن سے رحم کے ساتھ پیش آنے کی ضرورت نہیں۔ بھارت نے ابھی تک پاکستانی ماہی گیر نہیں چھوڑے پاکستان کو بھی آئندہ قابو آئے ماہی گیر نہیں چھوڑنے چاہیں۔ انسانیت کے ناطے قیدیوں کے جو حقوق ہیں اس سے یقیناً انحراف نہیں بھی کرنا چاہیے۔ قیدیوں کے حوالے سے ہمارے پاس رسول خداؐ کی جنگ بدر کی مثال موجود ہے۔ آپؐ نے رہائی کی شرط غیر تعلیم یافتہ مسلمانوں کو لکھنا پڑھنا سکھانا رکھی تھی۔ حکومت پاکستان بھی بھارتی قیدیوں خصوصی طور پر ماہی گیروں کے دو دو تین قیدیوں کے گروپ بنا کر پاکستانی مچھیروں میں تقسیم کر دے جو ان کو ساتھ لے کر مچھلیوں کا شکار کریں اور ان میں جواوکھا سوکھا ہوا سے سمندر میں پھینک کر واپس چلے آئیں۔ باقی قیدیوں کو ’’وہلا‘‘ بٹھا کر کھلانے پلانے کے بجائے ان کو سیلاب متاثرین کی بحالی کے کے کام پر لگا دیا جائے۔

Wednesday, September 8, 2010

گِدڑ سنگھی


فضل حسین اعوان
رمضان المبارک کے یہی دن تھے جو آج کل ہیں، بحث بھی وہی جو آج ہو رہی ہے کہ جمعۃ المبارک کی عید سربراہِ مملکت کے لئے بھاری ہوتی ہے۔ وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو ان کے مولویوں کے توڑ کے لئے رکھے ہوئے سکالر نے بھی اپنی تشویش سے آگاہ کیا کہ جمعہ کی عید سربراہِ مملکت کے لئے بھاری ہوتی ہے بھٹو صاحب نے پریشان ہوتے ہوئے کہا۔ یہ تو بُرا ہو گا، فضل الٰہی چودھری تو بوڑھا ہے اوپر سے اس پر عید بھاری ہو گی۔ اپنے اوپر عید بھاری ہونے کا فلسفہ بھٹو صاحب نے یہ کہہ کر رد کر دیا کہ وہ سربراہِ حکومت ہیں۔ فضل الٰہی بطور صدر سربراہ مملکت… اب پھر امکان ہے کہ عید جمعہ کو ہو گی لیکن محکمہ موسمیات سے قوی امکان ظاہر کرایا جا رہا ہے کہ عید ہفتے کو ہو گی۔ ایک افواہ یہ بھی گردش کر رہی ہے کہ نائن الیون ہفتہ کو ہونے کی وجہ سے امریکہ کا دباؤ ہے کہ عید پاکستان میں جمعہ کو منائی جائے کیونکہ وہ سوگوار ہو اور پاکستان میں خوشی منائی جائے‘ یہ اسے برداشت نہیں‘ ایک طرف جمعہ کی بھاری عید دوسری طرف امریکہ کا جمعہ کوہی عید کرنے کا دباؤ دیکھیئے کیا فیصلہ ہوتا ہے۔ امریکہ کی طرف سے ایک اور ڈومور کا تقاضا۔ پہلے تمام تقاضوں اور مطالبوں کے سامنے سرِ تسلیم خم کرنے والے اب دیکھیئے کیا کرتے ہیں؟ یہ ایوبی دور نہیں ہے کہ رات گیارہ بجے چاند نظر آنے کی شہادتیں موصول ہوئیں اس وقت تک صدر ایوب خان سو چکے تھے۔ ہلال کمیٹی اور ایوبی کابینہ نے چاند نظر آنے کا اعلان نہیں کیا اگلے دن صدر صاحب نیند سے بیدار ہوئے تو ان کو چاند نظر آنے کی خوشخبری سنائی گئی اور ریڈیو پر عید کے دن عید کا چاند نظر آنے کا اعلان کیا گیا۔ آج ایسی صورت حال پیش آتی ہے تو مولوی اور مقتدی مل کر موجودہ نظام کو نقش کہن کی طرح مٹا ڈالیں گے… جمعہ کی عید واقعی سربراہ مملکت سربراہِ حکومت اور ان کے تمام فقیروں ملنگوں اور مریدوں پر بھاری پڑ جائے گی۔
عید کی مناسبت سے وزیراعظم گیلانی نے مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں 13 رکنی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اوور سائیٹ مینجمنٹ کونسل کی تشکیل کا اعلان کیا جس کے ابھی ارکان اور چیئرمین کا فیصلہ ہونا ہے۔ کائرہ نے اس کونسل کا مقصد متاثرین میں امداد کی شفاف تقسیم بتایا ہے۔ وزیراعظم نے یہ اعلان بھی کیا ہے کہ عید سے قبل ہر متاثرہ خاندان کو 20 ہزار روپے دیئے جائیں گے۔ کائرہ صاحب فرماتے ہیں کہ 20 ہزار روپے کی رقم متاثرین کو سمارٹ کارڈز کے ذریعے بنکوں میں اکاؤنٹ کھلوا کر دی جائے گی۔ ابھی تک کوئی لسٹ بنی ہے نہ کوئی تیاری اور عید میں صرف ایک دن باقی ہے کیا ہمارے وزیراعظم کے ہاتھ کوئی گِدڑ سنگھی لگ گئی ہے کہ اوورسائیٹ کونسل بھی ایک دن میں مکمل لسٹیں تیار، اکاؤنٹ کھل جائیں گے اور 20 ہزار فی خاندان ایک دن میں تقسیم ہو جائے گا؟ ہتھیلی پر سرسوں جمانے میں قبلہ بڑی مہارت رکھتے ہیں۔ نوازشریف کو ایسا چکر دیتے ہیں کہ ایک چکر سے وہ بمشکل نکلتے ہیں کہ دوسرا اور پھر تیسرا تیار ہوتا ہے۔ پنیترے بازی کے حوالے سے نہیں کہا جا سکتا کہ وہ پنتیرے زیادہ بدلتے ہیں یا اپنے سوٹ۔ 14 اگست کو نوازشریف نے ملاقات میں متاثرین کے لئے فنڈز اکٹھا کرنے اور اس کی ایمانداری سے تقسیم کے لئے قومی کمیشن بنانے کی تجویز پیش کی گیلانی صاحب نے اس کی باالکل ایسے بھرپور حمایت کی جیسے ٹونی بلیئر نے عراق پر حملہ کرنے کے لئے بش کی بش سے بڑھ کر حمایت کی تھی۔ 19 اگست کو گیلانی صاحب نے نوازشریف سے کیا ہوا وعدہ بھلا دیا اور امداد کی تقسیم کے لئے ایک کونسل بنانے کا اعلان کر دیا۔ پھر اس سے بھی دستبردار ہو گئے اور دو دن قبل اے پی سی کے ذریعے امداد کی تقسیم کا اعلان کر دیا اب نئی کونسل کا نزول ہو گیا ہے۔ حکومت کی کونسلوں کی تشکیل اور امداد کے انتظار میں متاثرین کا نہ جانے کیا حال ہو جائے؟ ضرورت تو امداد اور بحالی کے لئے جنگی بنیادوں پر کام کرنے کی ہے لیکن جہاں پنیترے بازی کے فن کی مہارت دکھائی اور آزمائی جا رہی ہے۔ وزیراعظم گیلانی نے ایک اور بھی اعلان کیا ہے اس پر یقین کامل کرنا ہو گا۔ فرمایا ’’عید سے قبل 40 ارب تقسیم ہونگے‘‘ آپ کیا سمجھتے ہیں سیلاب زدگان میں؟ … اگر آپ ایسا سمجھتے ہیں تو خوش گمانی میں کوئی حرج نہیں۔ ارب سے مراد کہیں عرب تو نہیں اتنے عرب بھی کہاں سے لائیں گے؟ ویسے لباس پہنا کر بنائے جا سکتے ہیں۔

اے این پی پر پاکستان کے دو قرض


نسان، اگر انسان ہوتو جیل میں رہتے ہوئے اس کے درو دیوار اور اس کی چکیوں تک سے انسیت محسوس کرنے لگ جاتا ہے۔ یہ میرا ماہِ تاباں، ماہِ نیم ماہ اور ماہ وش کی طرح چمکتا دمکتا روشن پاکستان کچھ طبقوں کیلئے خزانہ قارون تو ہے لیکن ان کو اس سے انس ہوسکا ہے نہ محبت۔ وہ اس کے ساتھ محبوبہ یک شب کا سلوک کر رہے ہیں۔ کوئی کہتا ہے ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شامل نہیں تھے اور ان کی اولاد اس پر آج بھی فخر کرتی ہے۔کسی نے پاکستان بننے کی بھرپور مخالفت کی اور پاکستان میں دفن ہونا بھی گوارا نہ کیا ان کی اولاد کو بھی اس پر پشیمانی نہیں ہے۔اس کے باوجود کہ ان کو پاکستان نے بہت کچھ دیا اتنا کچھ، ان سے پوچھا جائے کہ پاکستان نے آپ لوگوں کو کیا کچھ نہیں دیا تو شاید ان سے اس کا جواب نہ بن پائے۔
پاکستان کے وجود پر سب سے بڑا زخم بھارت نے کشمیر پر جارحانہ قبضے کی صورت میں لگا رکھا ہے اسے کسی حد تک صوبہ سرحد کے سپوتوں نے اس وقت مندمل کیا جب یہ لوگ لشکر در لشکر دشمن کی صفوں میں جا گھسے اور وہ علاقہ آزاد کرالیا جسے آج آزاد کشمیر کہا جاتا ہے۔ قائداعظم نے ان سرحد کے سپوتوں کو پاکستان کا بازوئے شمشیر زن قراردیا تھا… لیکن یہ زخم بدستور رس رہا ہے۔پاکستان کی ترقی و خوشحالی کی راہ میں رکاوٹ یہی بھارت کے قبضے میں پاکستان کو آزادی کیلئے پکارتا کشمیر ہی ہے۔ پاکستان کی شاہ رگ کو ارضِ پاک کیلئے ایک دکھ اور کرب بنانے میں انگریز اور ہندو تو شامل ہی تھے باچا خان نے بھی کوئی کسرنہیں چھوڑی۔
فدا احمد کاردار کی تحریک آزادی، تقسیم ہند اور تاریخ برصغیر پر گہری نظر ہے وہ لکھتے ہیں کہ پاکستان بن جانے کے بعد خصوصی طورپر سرحد میں ریفرنڈم میں شکست سے سرحدی گاندھی خان عبدالغفار خان کے دل میں پاکستان کے خلاف جو جوالا مکھی مچنا شروع ہوئی وہ ان کو گاندھی کے درپر لے گئی انہوں نے گاندھی کو ساتھ لیا اور مہاراجہ کشمیر ہر ی سنگھ کے پاس سری نگر جا پہنچے۔ دونوں گاندھیوں نے ہری سنگھ کو اکسایا کہ ان اصولوں سے انحراف کرے جن کے تحت مسلم اکثریتی آبادی کے کشمیر کو پاکستان کا حصہ بننا تھا۔ ہری سنگھ نے ان کی بات مان لی اس کے بعد جو کچھ ہوا اور ہورہا ہے وہ دنیا کے سامنے ہے۔ اور اس سب کا ’’ ایصالِ ثواب‘‘ بھی اب تک سرحدی گاندھی کی روح کو پہنچ رہا ہوگا۔
پاکستان کی بقا سلامتی اور سا لمیت کا انحصار کشمیر اور کشمیر سے آنیوالے پانیوں پر ہے دونوں پر بھارت قابض ہے۔ اندرونی طور پر پاکستان میں بجلی اور پانی کی وافر فراہمی کا دارومدار کالا باغ ڈیم کی تعمیر پر ہے۔ حالیہ سیلاب نے تو یہ بھی ثابت کردیا ہے کہ سیلاب کی تباہ کاریوں اور تاراجیوں سے کالا باغ ہوتا تو بچا جا سکتا تھا۔ پیپلز پارٹی نے حکومت میں آتے ہی سب سے پہلے کالا باغ ڈیم کی تعمیر کا باب بند کیا سیلاب نے ملک کا ایک چوتھائی رقبہ ڈبو دیا تو وہ اب تعمیر کی بات کرتے ہیں لیکن شاید اندر سے مضبوط لابی کی وجہ سے بات جرأت اظہار سے جرأت عمل تک نہیں پہنچی۔ تاہم کالا باغ ڈیم کی سب سے بڑی مخالف اے این پی ہے۔ جس کی صوبہ خیبر پی کے میں حکومت قائم ہے اور حالیہ سیلاب میں سب سے زیادہ نقصان بھی خیبر پی کے کو ہوا۔ ان کے آبا ان کیلئے قابلِ احترام اس لئے تو ہونگے کہ وہ ان کو عالمِ لا وجود سے وجود میں لانے کا سبب ہیں لیکن وہ آج جو کچھ ہیں پاکستان کی بدولت ہیں۔ان کا جاہ وحشم سیاست حکمرانی پاکستان کے عظیم ترین وجود کے باعث ہی ہے۔ آج ان کے پاس کسی چیز کی کمی نہیں بھارت سے الحاق ہوتا تو غلیلوں کے ساتھ شکار کرتے اور بیلچوں کے ساتھ دیواریں بنا کر اپنا او ر اپنے بچوں کا پیٹ پالتے۔ آج اے این پی پر پاکستان کے دو قرض ہیں جس نے ان کی شہرت اور عزت کو بامِ عروج پر پہنچایا ہے۔(1) باچا خان کے ہری سنگھ کو اکسانے کا مداوا کرنے کیلئے آزادی کشمیر کیلئے عملی اقدامات کریں۔ وہ لشکروں اور سفارتکاری کی صورت میں ہوسکتے ہیں(2) کالا باغ ڈیم کی مخالفت برائے مخالفت ترک کرتے ہوئے اس کی تعمیر میں ہر اول دستے کا کردار ادا کریں۔ اب یہ ان کا اور ہم سب کا پاکستان ہے۔63سال میں تو اس سے انس ہو جانا چاہیے۔

Monday, September 6, 2010

مرغی گھوڑا ۔ گائے اور خرگوش

منگل ، 07 ستمبر ، 2010
پاکستانی کرکٹرز کے ساتھ برطانیہ میں جو کچھ منسوب کیا جا رہا‘ اس سے بڑی کنفیوژن پیدا ہو چکی ہے۔ ہر اطلاع اور خبر غبار آلود ہے۔ کھلاڑیوں پر لگنے والے الزامات جھوٹ ہیں یا سچ‘ غلط ہیں یا صحیح‘ اس کا فیصلہ تو تحقیقات کے بعد ہوگا البتہ ان کھلاڑیوں کے بارے میں جو کچھ کہا جا رہا ہے وہ ہمارے معاشرے‘ ہماری سیاست ہمارے حکمرانوں اور بیورو کریسی کے رویوں کا عین مظہر اور عکاس ہے۔ سیلاب کی صورت میں قوم پر جو آفت اور تباہی نازل ہوئی اس سے بھی کوئی سبق نہیں سیکھا گیا۔ سیلاب کو شہروں کے شہر تاراج کرتے ہوئے آج ایک ماہ دس دن ہو چکے ہیں۔ ایک طرف سے پانی اترنا شروع ہوتا ہے تو دوسری طرف یلغار کر دیتا ہے۔ خیبر پی کے کے سیلاب زدہ علاقوں میں پانی خشک ہو چکا ہے۔ حکومت کی عدم توجہی کی وجہ سے چالیس روز بعد بھی یہاں کے متاثرین کل کے ٹھٹھہ اور دادو کے متاثرین کی طرح بے خانماں اور بے یارومددگار پڑے ہیں صوبے مرکز سے امداد مانگتے ہیں تو مرکز ایسے ہی ادھر ادھر دیکھنا شروع کر دیتا ہے جیسے گاؤں میں ایک مہمان گیا تو میزبان اپنی اہلیہ سے مہمان کے سامنے بار بار یہ کہہ رہا تھا مہمان کیلئے کیا پکائیں۔ کبھی دال پکانے کا مشورہ دیتا کبھی سبزی اور کبھی انڈے‘ مہمان نے میزبان کو تذبذب میں دیکھ کر صحن میں کڑکڑ کرتی پھرتی مرغیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ’’پریشان نہ ہوں آپ میرا گھوڑا ذبح کر لیں میں مرغی پر بیٹھ کر چلا جاؤں گا۔‘‘
وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے متاثرین کی امداد کیلئے اے پی سی بلانے کا اعلان کیا ہے۔ اے پی سی امداد کے حوالے سے کیا کرے گی؟ 14 اگست کو میاں نواز شریف‘ وزیراعظم سے ملے نواز شریف نے متاثرین کی امداد کیلئے فنڈز اکٹھا کرنے اور ان کی متاثرین میں شفاف تقسیم کیلئے کمشن تشکیل دینے کی تجویز پیش کی جسے وزیراعظم گیلانی نے نہ صرف سراہا بلکہ کمشن کے ممبران کے نام بھی تجویز کر دیئے۔ گھر پہنچے تو شاید کہا گیا’’ ایہہ توں کی کردتا‘‘ اس کے بعد وزیراعظم نے چپ سادھ لی جو کام فوری طور پر ہو جانا چاہئے تھا لٹکا دیا گیا، چھ دن بعد نواز شریف کی تجویز مسترد کر کے امداد تقسیم کرنے کیلئے کونسل بنانے کا اعلان کیا اس اعلان کو بھی آج پورے 20 دن ہو گئے اس کونسل کا بھی کوئی نام و نشان نہیں۔ اب اے پی سی کے ذمے متاثرین میں امداد کی تقسیم لگانے کا اعلان ہوا ہے دیکھئے اے پی سی کب ہوتی ہے، ہوتی بھی ہے یا نہیں اگر ہوتی ہے تو بھانت بھانت کی بولیا ں بولنے والے بھلا ایک موقف پر کیسے متفق ہونگے۔ اگر اے پی سی بلانی ہی ہے تو قومی حکومت کے حوالے سے بلانی چاہئے۔
حکومت پاکستان کے پاس کھربوں روپے کی امداد پہنچ چکی ہے۔ صوبے مانگتے ہیں تو لیت و لعل اور ٹال مٹول سے کام لیا جا رہا ہے۔ جس کے باعث ذمہ داروں کی نیت خود بخود مشکوک ہو جاتی ہے۔ نواز شریف نے پنجاب کے لئے 100 ارب مانگے ہیں تو وزیراعظم کہتے ہیں ’’100 ارب پنجاب کو دیئے تو آگے کیا کریں گے‘‘ آگے کیا کرنا ہے صوبوں کو تباہی کے تناسب سے فنڈز دے دیئے جائیں کھربوں کے فنڈز سے پنجاب کو ایک کھرب دیتے ہوئے کلیجہ منہ کو نہیںآنا چاہئے۔ خیبر پی کے، بلوچستان اور سندھ کو بھی ان کی ضرورت کے مطابق رقوم دی جائیں۔ پوری دنیا اور پاکستانیوں کی دی ہوئی امداد پر کسی کو سانپ بن کر نہیں بیٹھنا چاہئے۔ صوبوں کو امداد کے حوالے سے وفاقی حکومت جو کچھ کر رہی ہے اس سے محسوس ہوتا ہے کہ وہ صوبوں کو اس تناسب سے فنڈز دے گی جس تناسب سے ایک بڑے ہوٹل کے مالک نے خرگوش اور گائے کا گوشت مکس کیا تھا ایک گاہک صرف خرگوش کا گوشت کھانے جاتا تھا۔ آرڈر دیا تو ڈش خرگوش کے گوشت کی نہیں تھی۔ بیرے سے پوچھا تو اس نے کہا کہ خرگوش کے گوشت میں گائے کا گوشت مکس کیا گیا ہے، گاہک کا سوال تھا کسی تناسب سے بیرے نے کہا برابر برابر۔ گاہک نے کہا ایسا نظر تو نہیںآتا ہے، بیرے کا جواب تھا جناب ایک گائے اور ایک خرگوش، برابر برابر۔

اے راہ حق کے شہیدو ۔۔۔


6-9-10   ..فضل حسین اعوان
 ستمبر1965 ء میں معرکہ حق و باطل ہوا، پاک افواج اور پاکستانی قوم و قیادت کو اللہ جل شانۂ کی ذات پر یقین محکم اور اپنی صلاحیتوں پر بھروسہ تھا۔65ء کی جنگ صرف فوج نہیں پوری قوم نے فوج کے شانہ بشانہ ہوکر لڑی۔ دنیا کی بڑی سے بڑی فوج جدید ترین اسلحہ سے لیس ہونے کے باوجود قوم کو ساتھ لئے بنا کامرانی حاصل نہیں کرسکتی۔71ء کی جنگ صرف نالائق جرنیلوں نے لڑی نتیجہ سامنے ہے۔65ء کی جنگ کے بعد بہت کچھ بدل گیا۔ حتیٰ کہ پاکستان دو لخت ہوگیا۔ سیاچن کے بڑے رقبے پر بھارت نے قبضہ کرلیا۔ کرگل کی ناکام مہم جوئی کئی سو افسروں اور جوانوں کو موت کی وادی میں لے گئی۔ پاکستان توڑنے میں ملوث ہر کردار کو خدا نے عبرت کا نشان بنادیا۔ ایک طرح سے قدرت نے اسی دنیا میں انصاف کی ایک جھلک دکھادی… اس سب تغیر و تبدل کے باوجود بہت سی حقیقتیں نہیںبدلیں۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان طاقت کا توازن وہی ہے جو 65ء میں تھا۔اس کی فوج پاک فوج سے کئی گنا بڑی ہے۔اس کے پاس اسلحہ کے انبار پانچ گنا زیادہ ہیں اور سب سے بڑی بات کہ بھارت کی ذہنیت اور نیت نہیں بدلی۔ مسئلہ کشمیر جس کی خاطر جنگیں ہوئیں اپنی جگہ ایک اٹل حیثیت ہے۔پاکستان کو بھارت پر دوحوالوں سے برتری حاصل ہے۔(1) ایٹمی ٹیکنالوجی(2) قوت ایمانی اور جذبہ شہادت… بھارت نے پیام پاکستان کے صرف 18سال بعد 65ء میں جارحیت کا ارتکاب کیا پھر اس کے 6سال بعد پاکستانی حکمرانوں کی نا اہلی اور بے غیرتی کا فائدہ اٹھا کر پاکستان کو دولخت کردیا۔اس کے بعد پاکستان نے ایٹمی قوت کے حصول کی کوشش کرتے ہوئے اس میں کامیابی حاصل کرلی۔آج 71ء کی جنگ کو 39 سال ہوگئے بھارت پاکستان کو تباہ کرنے کی مذموم سازشیں تو کر رہا ہے کھل کر میدان میں نہیں آیا۔ جنگوں کی جیت میں اسلحہ ہی اہم نہیں ہوتا چلانے والے کے جگر اور حوصلے کا بھی امتحان ہوتا ہے مشہور محاورہ ہے
Man behind the gun is more important than the gun
مسلح افواج کا ہر جانباز جذبہ شہادت سے معمور محاذ پر جان لڑانے کا عزم رکھتا ہے۔ جب دشمن سامنے ہوتو جان کی پروا کئے بغیراس پر ٹوٹ پڑتا ہے۔پھر اس کے راستے میں آنیوالے دیوہیکل ٹینک بھی پاش پاش ہوکر بکھر جاتے ہیں۔ آرمی نیوی اور ائیرفورس کے ہر سپوت کویقین ہے کہ شہادت کے بعد کی زندگی، دنیاوی زندگی سے کہیں بہتر ہے۔ اور خدا نے وعدہ فرمایا ہے کہ شہید کو مردہ مت کہو وہ زندہ ہے۔اس کی ایک بہترین مثال لانس نائیک محمد محفوظ نشانِ حیدرکی ہے۔ محمد محفوظ شہید کے ورثا اور گائوں والوں نے ان کو قبرستان سے الگ دفنا کر مقبرہ بنانے کا فیصلہ کیا۔ اس وقت تک ان کو شہید ہوئے 6 ماہ 13 دن ہو چکے تھے۔ گرمیوں کا موسم تھا قبرکی کھدائی شروع ہوتے ہی ٹھنڈی ہوا چلنے لگی اور آسمان پر بادل چھا گئے۔ نعش نکالی گئی تو تابوت سے خون کے قطرے ٹپک رہے تھے جو گھر سے برتن منگوا کر محفوظ کر دئیے گئے۔ نئی قبر کھودی گئی تو وہ بھی پرانی قبر کی طرح معطر ہو گئی۔ شہید کے ایک بھائی نے دیدار نہیں کیا تھا۔ اس نے علماء سے دیدار کی درخواست کی۔ دوسروں کو کچھ نہ بتانے کی شرط پر اجازت دے دی گئی۔ بعد میں والدہ کے کہنے پر دیدار کرنے والے نے بتایا کہ شہید کی داڑھی تین انچ بڑھی ہوئی تھی جو شہادت اور تدفین کے وقت موجود نہ تھی۔ میت پر ڈالی گئی پھول کی پتیاں تروتازہ تھیں چہرے پر بشاشت اور طمانیت تھی۔
آج پاکستان ہر طرف سے مصائب میں گِھرا ہوا ہے۔ جو کچھ ذمہ داروں کے اعمال کا نتیجہ ہو سکتا ہے لیکن آج بھی قوم میں آزادی اور خودداری کا جذبہ موجود ہے اور پاک افواج کے ہر سپوت میں قوم ملک اور ملت کی خاطر کٹ مرنے کی بے پاں خواہش اور حسرت پائی جاتی ہے۔ ان کو یقین ہے کہ شہید زندہ ہوتا ہے۔ جب تک ایسا شوق شہادت موجود ہوتو اس قوم اور فوج کو دنیا کی کوئی طاقت شکست نہیں دے سکتی بشرطیکہ حکمران نیکِ نیت، اہل اور قوم و ملک کی خاطر تن من دھن قربان کرنے کا جذبہ رکھتے ہیں۔

Sunday, September 5, 2010

ہارپ

اتوار ، 05 ستمبر ، 2010

فضل حسین اعوان ـ
انگریزی اور اردو جرائد میں کچھ اس قسم کی خوفناک رپورٹیں شائع ہوئی ہیں جن کو پڑھنے والا ایک بار تو دم بخود رہ جاتا ہے۔ ان رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ امریکہ، روس اور دیگر کچھ مغربی ممالک نے ماحولیاتی ہتھیار بنا لئے ہیں سائنسی زبان میں انہیں Selsmic Weapons کہا جاتا ہے۔ یہ ہتھیار یا ٹیکنالوجی جن ممالک کے پاس ہے وہ دنیا میں کہیں بھی سیلاب، زلزلہ، طوفان برپا کر سکتے ہیں۔ قطب جنوبی و قطب شمالی کی برف کو بڑی مقدار میں پگھلا سکتے ہیں اور پگھلتی ہوئی برف کے عمل کو روک بھی سکتے ہیں، اوزون کی تہوں کو تراش سکتے ہیں اور ان میں دراڑیں بھی ڈال سکتے ہیں۔ جہازوں کا رخ بدلا جا سکتا اور جب چاہے ان کو تباہ بھی کیا جا سکتا ہے۔ دماغی شعاعوں پر قابو پانے سے سمندروں کی لہروں تک کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے اور ضرورت پڑنے پر سمندری لہروں میں ہلچل پیدا کر کے بڑے بڑے سونامی برپا کئے جا سکتے ہیں۔ ماہرین کا دعویٰ ہے کہ اس سسٹم کے تحت سورج کی حدت میں کمی بیشی بھی کی جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ بھی بہت کچھ ہو سکتا ہے ۔۔۔ امریکہ نے مبینہ طور پر اس سسٹم پر مکمل عبور حاصل کر لیا ہے۔ اگر ماہرین کی رپورٹیں پر یقین کر لیا جائے تو سمجھ لیجئے کہ کرۂ ارض پر موسموں کی تبدیلی، آفات کا نزول، جہازوں کے حادثات، سیلابوں، طوفانوں، سونامیوں کا ظہور امریکہ کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ 
اس میں کوئی شک نہیں کہ پینٹاگان نے High Frequency Active Aural Research Programme (ہارپ HAARP) پر کام شروع کر رکھا ہے۔ ہارپ کی تنصیبات الاسکا سے 2 سو میل کے فاصلے پر 23 ایکڑ پر طاقتور ٹرانسمٹروں پر مشتمل ہیں جہاں 180 ٹاورز پر ہزاروں 72 میٹر لمبے انٹینے لگائے گئے ہیں جن سے تین ارب واٹ طاقت کی برقیاتی مقناطیسی لہریں خارج ہوتی ہیں، ان کو سیٹلائٹ کے ذریعے دنیا کے کسی بھی حصے میں تخریب کاری کیلئے استعمال کیا جا سکتا ہے اور مبینہ طور پر استعمال بھی کیا گیا ہے۔ 
امریکی قومی سلامتی کے سابق مشیر برزنسکی نے 1976 میں اپنی کتاب Between two ages میں لکھا تھا ’’امریکہ کے سائنسدانوں نے ماحولیاتی ہتھیار بنا لئے ہیں۔ ہم دنیا کے طاقت کے محور کو امریکہ لے گئے ہیں اور اب کبھی یورشیا میں نہیں آنے دیں گے‘‘۔ 
ندائے ملت میں میاں علی رضا کی شائع ہونے والی ریسرچ میں کہا گیا ہے کہ روسی سائنسدان ڈاکٹر اینڈرے آرچ نے الزام عائد کیا ہے کہ روس کے جنگلات میں بھڑکنے والی آگ بھی امریکہ کے ماحولیاتی ہتھیاروں کی ستم گری ہے۔ پاکستان کے 2005 کے زلزلے اور حالیہ سیلاب کو بھی ہارپ سسٹم کا شاخسانہ قرار دیا جا رہا ہے۔ جنوری 2010 کا ہیٹی کے زلزلے اور چین کے حالیہ طوفان میں بھی امریکی جدید ٹیکنالوجی کی کارفرمائی بتائی جا رہی ہے۔ 28 جولائی کو ائر بلیو کی مارگلہ کے پہاڑوں پر تباہی کو بھی امریکہ کے اسی سسٹم کی کارروائی کہا جا رہا ہے ۔۔۔ ذرا دل پہ ہاتھ رکھئے! امریکی ایجاد سے خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ امریکی ماہرین اور اس کے یہودی مداحین کے دعووں کی قلعی آسانی سے کھل جاتی ہے۔۔۔ اگر امریکہ کے پاس یہ سسٹم ہے تو عراق اور افغانستان میں اپنے اور اپنے 40 اتحادی ممالک کے فوجیوں کو کیوں مروا رہا ہے۔ ایران اور چین تو اب تک سیلابوں، زلزلوں اور سونامیوں سے صحفۂ ہستی سے مٹا دیے جانے چاہئیں تھے۔ ہوگو شاویز، کرنل قذافی، محمود احمدی نژاد اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان جیسے امریکہ کے بہت سے دشمن جہازوں میں سفر کرتے ہیں اب تک سینکڑوں جہاز گرائے جا چکے ہوتے۔ امریکہ ہارپ سے اپنے سونامیوں کو کیوں نہ روک سکا؟ اس سسٹم سے امریکہ اسامہ بن لادن کو تو ڈھونڈ لے۔ سیلاب، طوفان، سونامی اور دیگر آفات کرۂ ارض کی تخلیق کے ساتھ ہی شروع ہو گئے تھے۔ طوفانِ نوح اگر جدید دور میں آتا اور ٹائی ٹینک آج کل ڈوبتا تو شاید امریکی ماہرین انہیں ہارپ سسٹم کی کارروائی قرار دے دیتے۔ ہارپ سسٹم ماس ڈسٹرکشن ویپن تو ہو سکتا ہے اس سے محدود پیمانے پر بارش برسائی جا سکتی ہے، کسی حد تک گلیشیئر پگھلائے جا سکتے ہوں گے لیکن قدرت کے کاموں میں وسیع پیمانے پر مداخلت کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ قدرت آج بھی ہر شے پر قادر ہے اس نے اپنے معاملات امریکہ کے سپرد نہیں کئے اور نہ ہی ایسا امکان ہے۔ اس لئے آپ سکون سے رہئے، اطمینان رکھئے اور خدائے بزرگ و برتر کی ذات پر یقینِ کامل بھی۔!

Saturday, September 4, 2010

سپریم کورٹ یہ بھی کر گزرے........ 04 ستمبر ، 2010


سپریم کورٹ یہ بھی کر گزرے!

فضل حسین اعوان ـ
ہمالیہ کی چوٹیوں سے لے کر بحیرہ عرب کے ساحل تک پانی کے بہاﺅ کا قدرتی راستہ بنا ہوا ہے۔ عموماً بحیرہ عرب تک وہی پانی پہنچ پاتا ہے جو راستے میں استعمال ہونے سے بچ رہے۔ اگر ہمالیہ کی چوٹیاں غضبناک ہو جائیں، ساتھ بارانِ رحمت بھی جوش میں آجائے اور پاکستان کا ازلی دشمن بھارت پاکستان کو مشکل میں دیکھ کر اس پر مزید ستم ڈھانے کیلئے اپنے ڈیموں کے دروازے پاکستان کی طرف کھول دے تو پانی کے قدرتی راستے محدود مسدود ہوکر تباہی کا سامان پیدا کردیتے ہیں۔ پھر پانی کے راستے میں آنیوالے انسان اور ہر دیوار خس و خاشاک کی طرح بہہ جاتی ہے۔ اخلاقی طورپر سیلابی کیفیت میں سب سے پہلی ترجیح انسانی جانوں کی حفاظت ہونی چاہئے۔ اس کے بعد دفاعی اہمیت کی حامل تنصیبات اس کے بعد دیگر انفراسٹرکچر کی حفاظت کی باری آتی ہے۔ جس قدر موجودہ سیلاب تباہ کن تھا اس سے جانی نقصان خدشات سے کہیں کم ہوا البتہ مالی نقصان اندازوں سے بہت زیادہ ہوا۔ ان نقصانات کو مزید کم کیاجاسکتا تھا اگر پانی کو گزرنے کا قدرتی راستہ فراہم کیاجاتا۔ پنجاب اور سندھ میں بڑے لوگوں نے اپنی سیاسی طاقت آزماتے ہوئے پانی کے قدرتی رخ کے راستوں میںرکاوٹیں کھڑی کردیں۔ جن بندوں کو توڑ کر پانی کو سیدھا راستہ فراہم کرناچاہیے تھا اس کے بجائے اپنے علاقوں اور فصلوںکو بچانے کیلئے وہ بند توڑدئیے جس سے پانی ایسے شہروںمیں بھی داخل ہوگیا جہاں ہزار سال سے قبل بھی پانی نہیں آیا تھا۔ اموات بھی ان علاقوں میں زیادہ ہوئیں۔ ان علاقوں کے متاثرین سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ پانی ان کے گھروں تک آسکتا ہے پنجاب میں وزیراعلیٰ شہباز شریف امدادی سرگرمیوں میں جُتے رہے ان کی اپنی پارٹی کے لوگ بھی غریبوں کی تباہی کا سامان کرتے رہے۔ مرکز سے تعلق رکھنے والے بعض با اثر لوگوں نے بھی خیر نہ کی۔ سب سے بڑا ظلم سندھ کے وڈیروں نے کیا جو بند توڑ کر پانی کو قدرتی راستہ فراہم کرنا تھا اس کے اوپر وڈیروں نے اپنے لوگ لا کر بٹھادئیے اور انتظامہ کو وہ بند توڑنے پر مجبور ہونا پڑا جس سے بلوچستان کے بہت سے محفوظ علاقے ڈوب گئے۔ اب بلوچستان اور جنوبی پنجاب کے جن علاقوں کو وڈیروں نے جان بوجھ کر ڈبویا آگے راستہ نہ ہونے کے باعث پانی وہیں رکا ہوا ہے۔ وسیع پیمانے پر کھڑے پانی کو نکالنے کا کوئی طریقہ نہیں جب تک موسم کی حدت اور زمین کے جذب سے خشک نہیں ہوجاتا وہاں کے مکینوں کی زندگی عذاب بنی رہے گی۔ اگر سندھ میں وڈیرے اپنی زمینیں بچانے کیلئے پانی کا رُخ غیر قدرتی راستوں کی طرف نہ موڑتے تو پانی آج کی نسبت کہیں کم تباہی پھیلاتا ہوا سندھ کے صحرا سے گزر کر بھارت کے راجستھان کے صحرا میں داخل ہوجاتا اورپانی کا کچھ حصہ سمندر میں بھی چلا جاتا۔ جن لوگوں نے اپنے مفادات کی خاطر بند توڑے اور اس سے انسانی ہلاکتیں اور تباہی ہوئی اس کے یہی لوگ ذمہ دار ہیں۔ غیر قانونی طورپر بند توڑنے کے حوالے سے وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف تک شکایات پہنچیں تو انہوں نے تحقیقات کیلئے ہائیکورٹ سے اپیل کی۔جس پر ہائیکورٹ نے جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں کمشن تشکیل دیدیا ہے پنجاب میں بند تڑوانے میں دو وفاقی ایک صوبائی وزیراو ر بہت سے اراکین اسمبلی اور جاگیردار ملوث ہیں۔ غیر قانونی طورپر بند توڑنے پر رحیم یار خان، راجن پور اور ڈیرہ غازی خان میں 70افراد کے خلاف تین مقدمات درج ہوچکے ہیں۔ پنجاب حکومت کا غیر انسانی اقدامات کے خلاف نوٹس لینا اطمینان بخش ہے لیکن معاملہ چونکہ پورے ملک پر محیط ہے اس لئے سپریم کورٹ اگر بند توڑنے کے ذمہ داروں کا تعین کرنے کیلئے کمشن تشکیل دے تو بہتر ہے۔خود کو اعلیٰ مخلوق اور غریبوں کو کیڑے مکوڑے سمجھنے والے کسی بھی صورت قابل معافی نہیں۔ان کا احتساب صرف عدلیہ کرسکتی ہے اور آج تو عدلیہ آزاد بھی، غیر جانبدار بھی ہے اور کسی کا دباﺅ بھی قبول نہیں کرتی۔

Friday, September 3, 2010

دشمن کے ایجنڈے کو ناکام بنانے کیلئے اتحاد کی ضرورت

جمعۃالمبارک ، 03 ستمبر ، 2010


فضل حسین اعوان ـ
لاہور ائیر پورٹ پر 14 پندرہ سال قبل بم دھماکے میں 18افراد جاں بحق ہوگئے۔ تحقیقاتی ادارے سرگرم ہوئے۔ مرنیوالوں کے لواحقین تک ان کے پاسپورٹس شناختی کارڈز یا دیگر ملنے والی دستاویزات کے ذریعے پہنچے۔ ان میں کوئی خود ہوائی جہاز کے ذریعے کہیں جارہا تھا کوئی ان کو الوداع کہنے آیا تھا۔ مرنیوالوں میں قصور کے سرحدی گاﺅں کا ایک نوجوان بھی تھا۔ اس کے ورثا نے بتایا کہ وہ اسحق میراثی کے ساتھ ائیر پورٹ گیا تھا۔ اسحق نے کراچی جانا تھا۔ پی آئی اے اور سول ایو ی ایشن کا ریکارڈ چیک کیا گیا اس میں اسحق کا کوئی ذکر نہیں تھا۔ اس کے نام سے ٹکٹ موجود تھی نہ بورڈنگ کارڈ، اس کی لاش ملی نہ وہ زخمیوں میں شامل تھا۔ ایجنسیوں نے اس کے دوستوںسے معلومات حاصل کیں تو پتہ چلا کہ وہ بارڈر کراس کرکے بھارت جاتا آتا رہتا ہے بعض اوقات مہینہ بھر بھی وہاں قیام کرتا ہے۔بالآخر و ہ قانون نافذ کرنیوالے اداروں کے ہتھے چڑھ گیا۔اس نے اپنا طریقہ واردات یہ بتایا” گاﺅں سے میرا کزن لاہور آرہا تھا۔میں نے اسے کہا کہ میں نے کراچی جانا ائیر پورٹ تک میرے ساتھ چلے وہ تیار ہو گیا۔ ائیرپورٹ میں داخل ہوکر میں نے اسے بریف کیس دیا جس میں دھماکہ خیز مواد تھا میں نے اسے کہا کہ وہ بنچ پر بیٹھے میں ایک دوست سے مل کر آتا ہوں، وہ بنچ پر لوگوں کے درمیان بیٹھا تو میں نے ریموٹ کنٹرول سے بریف کیس اڑا دیا“۔ اسحق نے مزید یہ اعتراف بھی کیا کہ اسے بھارت کی طرف سے دھماکوں میں ہلاک ہونیوالے ایک شخص کے بدلے 50ہزار روپے ملتے تھے۔اس لئے کوشش ہوتی تھی کہ ایک دھماکے میں زیادہ سے زیادہ لوگ مارے جائیں۔ اسحق کا ٹرائل ہوا اور اسے پھانسی لگا دی گئی۔ دشمن اندرونی ہے یا بیرونی آج بھی اپنے ایجنڈے پر کام کر رہا ہے۔آج ہر دھماکے کو خود کش قراردے دیا جاتا ہے۔یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہجوم میں گھسنے والے نوجوان کو یہ معلوم ہی نہ ہو کہ اسے کس مقصد کیلئے استعمال کیا جارہا ہے۔یہ ضروری نہیں کہ ہر حملہ خود کش حملہ ہو اور یہ بھی ضروری نہیںکہ جس کا سر مل گیا وہ خود کش بمبار نہ ہو۔ جو لوگ دھماکوں کی ذمہ داری قبول کرلیتے ہیں ان کا بھی مخصوص ایجنڈا ہوسکتا ہے۔ان کے بھی مذموم عزائم ہوسکتے ہیں اور یہ ضروری نہیں کہ اقبالی گروپ کی اصلیت بھی وہی ہو جو ظاہرکی جارہی ہے۔امریکہ اور اس کے اتحادی پنجاب میں آپریشن کی بھی حسرت لئے بیٹھے ہیں۔ مرکز اس پر تیار بھی ہے۔ لاہور میں گزشتہ روز یوم علی کے جلوس پر ہونے والے حملے بھی پنجاب میں اپریشن اور ڈرون حملوں کی راہ ہموار کرنے کی سازش ہوسکتے ہیں۔ یہ فرقہ واریت کی آگ دہکانے کی کوشش بھی ہوسکتی ہے۔ دشمن کے ایجنٹوں کی پاکستان کا امن تہہ و بالا کرنے کی پلاننگ بھی ہوسکتی ہے۔ بہر حال یہ مسلمہ امر ہے کہ ایسی حرکت کوئی مسلمان تو کیا جس میں تھوڑی انسانیت ہے وہ بھی نہیں کرسکتا اور پھر ان حالات میں جب رمضان المبارک کا مغفرت کا عشرہ شروع ہوچکا ہے اور ملک کا ایک چوتھائی رقبہ ڈوب گیا ہے۔دو کروڑ کے قریب لوگ بے گھر ہوکر کھلے آسمان تلے مجبور ومقہور پڑے ہیں۔
عموما ً یہ دیکھا گیا ہے کہ سنیوں کی مذہبی رسوم میں شیعہ حضرات بہت کم جاتے ہیں۔شیعوں کے جلوسوںمیں شیعہ حضرات سے زیادہ سنی موجود ہوتے ہیں۔کچھ احتراماً اور کچھ تماشائی کے طورپر۔ یہ کسی بھی نیت سے جائیں مسائل کو جنم دیتے ہیں۔ پولیس اور جلوسوں کی انتظامیہ اگر اس امر کو یقینی بنائے کہ مسلکی جلوسوں میں صرف اسی مسلک کے لوگ شامل ہوں تو رش نہ ہونے کے باعث سیکورٹی کے انتظامات 100فیصد کے قریب فول پروف ہوسکتے ہیں۔ دشمن کے ایجنڈے کو ناکام بنانے کیلئے قومی اتحاد اور اتفاق خصوصی طورپر بین المسالک ہم آہنگی کی اشد ضرورت ہے۔ بالکل ایسے رویے کی ضرورت ہے جس کا اظہار علامہ کمیلی نے کیا حکومت اگر تمام مسالک کو بٹھا کر موجودہ حالات کے پیش نظر طویل دورانیے کے جلوس نہ نکالنے پر قائل کرلے تو حالات کافی حد تک کنٹرول میں لائے جاسکتے ہیں۔جلوسوں کے بجائے محفوظ عمارتوںمیں سیمینارز بھی ہوسکتے ہیں جس سے جلوسوں کے مقاصد حاصل ہوسکتے ہیں اور انسانی جانوں کی حفاظت بھی ہوسکتی ہے۔

Thursday, September 2, 2010

2-9-2010....... متاثرین کو طوفان اور شعلہ نہ بننے دیاجائے



فضل حسین اعوان ـ
29جولائی2010 کو خیبر پی کے سے شروع ہونیوالا سیلاب چاروں صوبوں میں قیامت برپا کرکے اپنے منطقی انجام کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اب دنوں کی بات ہے کہ سیلابی پانی خشک اوراس کی تباہ کاریوں کے نشان باقی رہ جائیں گے۔اس خطے کی 80سالہ تاریخ کا یہ سب سے بڑا اور شاید طویل ترین دورانیے کا سیلاب ہے۔جو ملک کے ایک چوتھائی علاقے میں ’’بھوت پھیری ‘‘پھیر گیا،ایسی آفات سے بے شمار جانی نقصان ہوتا ہے۔سیلاب کے شروع میں حکومتوں اور متعلقہ اداروں کی طرف سے مناسب انتظامات اور اطمینان بخش پیش بندی نہ ہونے کے باعث چند روز میں اموات کی تعداد ڈیڑھ ہزار تک پہنچ گئی تھی۔اس کے بعد تباہی کو دیکھتے ہوئے جس علاقے میں بھی لوگوں کو خطرات سے آگاہ کیا گیا انہوں نے فوج اور دیگر اداروں سے اپنی ضد چھوڑ کر تعاون کیا اور محفوظ مقامات پر منتقل ہوگئے۔غریب آدمی کی بکری بھی مرجائے تو اس کا دکھ سوا ہوجاتا ہے جہاں تو دو کروڑ لوگ بے گھر ہوئے اور اکثر کے گھراور گھروندے تک مکمل اسباب کے ساتھ بہہ گئے۔ گھر دوبارہ بن سکتے ہیں۔مال اور اسباب بن سکتا ہے گیا انسان واپس نہیں آسکتا۔جو لوگ سیلاب کی نذر ہوکر دنیا سے چلے گئے ان کا افسوس ہے تاہم جو زندہ بچ گئے ان کو زندگی کی طرف لانے کی ضرورت ہے۔ان کی بحالی کے لئے پوری قوم سرگرداں ہے۔تن من اور دھن کے ساتھ۔لیکن افسوس یہ کہ متاثرین کی امداد کیلئے کوششیں مربوط نہیں ہیں،منتشر ہیں۔ آج بھی متاثرین کی امداد کیلئے ملک کے ہر علاقے سے ہزاروں ٹرک سامان لے کر نکل رہے ہیں۔ کئی لوگوں تک امداد اس قدر وافر مقدار میں پہنچ رہی ہے کہ ان کی ضرورت سے زیادہ ہونے کے باعث سامانِ خوردونوش سڑ رہا ہے اور کئی علاقوں میں کھانے کا نوالہ اور پانی کی بوند تک نہیں پہنچ رہی۔ جو لوگ خود سامان متاثرین تک لے جاتے ہیں وہی ان تک پہنچتا ہے جو دوسرے کے حوالے کردیتے ہیں وہ اکثر بازاروں میں فروخت ہوجاتا ہے۔ ایسے دھندے میں کچھ غیر معروف فراڈ تنظیمیں بھی ملوث ہیں۔
گو پاکستان کے بہت سے بڑے لوگوں نے اپنی جیبوں پربدستور بڑے زور سے ہاتھ رکھا ہوا ہے۔اس کے باوجود بھی ملک کے اندر سے وزیراعظم، وزرائے اعلیٰ اور با اعتماد و بااعتبار اداروں کے ریلیف فنڈ میں اربوں روپے جمع ہوچکے۔ بیرونِ ممالک سے کیش اور سامان کی صورت میں امداد کے بھی ڈھیر لگے ہوئے ہیں۔ وعدے وعید اس کے علاوہ ہیں۔ چین اور سعودی عرب نے اعلان کر رکھا ہے کہ پاکستان کو جو کچھ بھی چاہیے وہ فراہم کریں گے۔ ان دوست ممالک نے یہ سب کچھ زبانی کلامی نہیں کہا بلکہ عملاً بھی ایسا کردکھایا ہے چین کی کروڑوں ڈالر پر مشتمل امداد چار مرحلوں میں پاکستان پہنچ چکی ہے۔ سعودی عرب سے بھی تیزی سے ترسیل جاری ہے۔ایران خود مشکلات کا شکار ہے اس کے باوجود وہ بھی مدد کر رہا ہے۔ امریکی ایلچی ہالبروک نے طعنہ دیا تھا کہ پاکستان کے دوست چین اور ایران مشکل کے وقت کہاں ہیں؟ ان کو نظر آگیا ہوگا کہ پاکستان کے حقیقی دوست کہاں ہیں اور دوست نما دشمن کہاںہیں؟ آستین کے سانپ کہاں ہیں؟۔ پاکستان پر سیلاب ایک آفت کی صورت میں نازل ہوا اس کا محرک بھی امریکہ اور اس کا دوست بھارت ہے۔سیلاب سے وزیراعظم گیلانی کے بقول43 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔امریکہ کی جنگ میں پاکستا ن کو 45 ارب ڈالر کا نقصان ہوچکا ہے۔ ہالبروک کا مذکورہ بیان سفارتی آداب کے بالکل خلاف ہے تاہم اگر وہ ایسا طعنہ دیتے ہیں تو سیلاب زدگان کی مدد کیلئے چند کروڑ ڈالر دینے کے بجائے پاکستان کا وہ نقصا ن پورا کریںجو امریکہ کی جنگ لڑتے ہوئے پاکستان کو اٹھانا پڑا۔
صدر زرداری صاحب نے کہا ہے کہ پاکستان میں پیسے کی کوئی کمی نہیں سیلاب زدگان خود کو تنہا نہ سمجھیں۔شہباز شریف کا عزم ہے کہ جینا مرنا مصیبت زدہ لوگوں کے ساتھ ہے۔پاکستان کو کھربوں روپے کی بیرونی امداد مل چکی ہے۔او آئی سی نے ایک ارب ڈالر دینے کا تازہ ترین وعدہ کیا ہے، مزید امداد بھی آرہی ہے مرکز، صوبوں، فوج اور دیگر اداروں کے پاس بھی اربوں کے فنڈز جمع ہوچکے ہیں۔اگر یہ مصیبت زدہ لوگوں کی بحالی پر ایمانداری اور بہتر منصوبہ بندی سے خرچ کئے جائیں تو یہی کافی ہیں۔ اس کیلئے سیاستدان پوائنٹ سکورنگ چھوڑ دیں تو مزید آسانی ہوجائے گی۔لوگوں کو اعتبار نہیں ہے کہ سیاستدان اپنا وطیرہ چھوڑیںگے۔اس لئے ضروری ہے کہ امداد کی منصفانہ تقسیم کیلئے ایک آزادانہ اور غیرجانبدارانہ کمشن بنایاجائے۔جس کے ممبران پر قوم کو اعتبار ہو۔دوسری صورت میں سیلاب متاثرین زندگی سے دور ہوتے ہوتے خود ایک طوفان بن کر بہت کچھ بہا کر لے جائینگے آج سب سے بڑی ضرورت متاثرین کو طوفان اور شعلہ جوالا بننے سے روکنا ہے۔