فضل حسین اعوان ـ
اسلام جہاں صلہ رحمی پر زور دیتا ہے وہیں انسانیت کا درس بھی دیتا ہے۔ ہر مسلمان انسانوں اور انسانیت کو درد اور کرب میں مبتلا دیکھ کر تڑپ اٹھتا ہے، کسی انسان کو معمولی تکلیف بھی پہنچے تو مسلمان اسے اپنی روح کی گہرائی تک محسوس کرتا ہے۔ اس کا دل پسیج جاتا ہے۔ اگر معاملہ جنگ اور میدان میں آن پڑے تو مسلمان میں خدائی صفات قہاری اور جباری عود کر آتی ہیں۔ علامہ اقبالؒ نے مومن کی زمانہ امن اور میدانِ جنگ کی کیفیت یوں بیان کی ہے؎
ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم...... رزمِ حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن
بھارت پاکستان کا ازلی دشمن ہے اس کے پاکستان کے حوالے سے اپنا خبثِ باطن کبھی چھپایا بھی نہیں ہے۔ ہندو کو سب سے بڑا رنج ہزار سال تک مسلمانوں کی غلامی کرنے کا ہے۔ وہ اس غلامی کا بدلہ انگریزوں کے برصغیر سے نکلنے پر متحدہ ہندوستان کے قیام کی صورت میں لینا چاہتا تھا۔ اقبال اور قائد نے تحریک آزادی کو بام عروج پر پہنچا کر ہندو کے سارے منصوبے خاک میں ملا دیئے۔ پاکستان کی صورت میں ریاست مدینہ کے بعد دنیا کی دوسری نظریاتی ریاست معرض وجود میں آئی تو ہندو کے سینے پر سانپ لوٹنے لگا۔ اس کے پاؤں جیسے انگاروں پر آ گئے، کتے کی دم پر پٹرول چھڑک کر آگ لگا دی جائے تو جو حالت اس کی ہوتی ہے وہی قیام پاکستان کے بعد سے اب تک بھارت کے انتہا پسند ہندو کی ہے۔ اس نے پاکستان کی نااہل قیادت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان کو دولخت کر دیا۔ کشمیر پر جارحانہ قبضہ جاری ہے، سیاچن کے بہت بڑے رقبے پر یلغار کر کے تسلط جما لیا، سرکریک کا ایریا اپنی حدود میں شامل کر لیا۔ اس کے باوجود بھی اس کے سینے میں ٹھنڈ نہیں پڑی۔ انتقام کی ایک آگ جل رہی ہے۔ ہندو بنیا یہ آگ اس کے ہاں گئے ہوئے پاکستانیوں پر ظلم وجبر کے پہاڑ ڈھا کر ٹھنڈی کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ شاید ان نہتے اور غریب الوطن پاکستانیوں کو بھارت حافظ سعید، ذکی الرحمن اور امیر حمزہ سمجھ لیتا ہے۔ چند روز قبل پاکستانی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پائے جانے والے 442 بھارتی ماہی گیر پکڑے گئے۔ انسانی ہمدردی کی بناء پر کچھ این جی اوز نے ان کی رہائی کے لئے عدلیہ سے رجوع کیا جس پر ان کی رہائی عمل میں آئی۔ اسی طرح کی انسانی حقوق کی تنظیمیں بھارت میں بھی ہیں ان کو ایسا اقدام اٹھانے کی توفیق نہیں ہوئی۔ بھارتی حکومت نے بھی انسانیت کا مظاہرہ نہیں کیا۔ بھارت میں تین سو پاکستانی ماہر گیر قید ہیں ان کی رہائی کے لئے پاکستانی حکومت کوشش کرتی ہے نہ بھارت ان کو چھوڑنے پر آمادہ ہے۔ دیگر قیدیوں کے حوالے سے صورت حال اس سے بھی ابتر ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان قیدیوں کا تبادلہ ہوتا ہے تعداد میں بھارت کے قیدی عموماً زیادہ اور ہٹے کٹے ہوتے ہیں جبکہ اکثر پاکستانی قیدی جیلوں میں تشدد سے ذہنی توازن کھو چکے ہوتے ہیں جو ذہنی طور پر تندرست ہوں وہ جسمانی طور پر مفلوج اور معذور ہوتے ہیں اور کئی بار تو تشدد سے پاکستانی قیدی مر بھی چکے ہیں۔ ہمارے ہاں دہشت گردی میں ملوث قیدیوں کو بھی پالا پوسا جاتا ہے دشمن کے ساتھ وہی سلوک ہونا چاہیے جیسا وہ کرتا ہے۔ دشمن سے رحم کے ساتھ پیش آنے کی ضرورت نہیں۔ بھارت نے ابھی تک پاکستانی ماہی گیر نہیں چھوڑے پاکستان کو بھی آئندہ قابو آئے ماہی گیر نہیں چھوڑنے چاہیں۔ انسانیت کے ناطے قیدیوں کے جو حقوق ہیں اس سے یقیناً انحراف نہیں بھی کرنا چاہیے۔ قیدیوں کے حوالے سے ہمارے پاس رسول خداؐ کی جنگ بدر کی مثال موجود ہے۔ آپؐ نے رہائی کی شرط غیر تعلیم یافتہ مسلمانوں کو لکھنا پڑھنا سکھانا رکھی تھی۔ حکومت پاکستان بھی بھارتی قیدیوں خصوصی طور پر ماہی گیروں کے دو دو تین قیدیوں کے گروپ بنا کر پاکستانی مچھیروں میں تقسیم کر دے جو ان کو ساتھ لے کر مچھلیوں کا شکار کریں اور ان میں جواوکھا سوکھا ہوا سے سمندر میں پھینک کر واپس چلے آئیں۔ باقی قیدیوں کو ’’وہلا‘‘ بٹھا کر کھلانے پلانے کے بجائے ان کو سیلاب متاثرین کی بحالی کے کے کام پر لگا دیا جائے۔
No comments:
Post a Comment