21-9-10
فضل حسین اعوان ـ
ہانگ کانگ پر 156 سال تک برطانوی پرچم لہراتا رہتا۔ یکم جولائی 1997ءکو برطانیہ نے ہانگ کانگ کے انتظامی معاملات چین کے حوالے کر دئیے۔ ملکہ برطانیہ نے دنیا کے بہت سے ممالک کو اپنی کالونی بنانے کے حوالے سے اعتراف کیا تھا کہ برطانیہ کا یہ تجربہ ناکام رہا ہے۔ ملکہ برطانیہ کا یہ فرمان بالکل درست ہے۔ برطانوی سلطنت میں کبھی سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔ اگر اس کا دوسرے ممالک پر قبضوں کا تجربہ کامیاب ہوتا تو یہ ممالک آج بھی اس کے قبضہ میں ہوتے۔ ہوا یہ کہ کچھ ممالک سے ان کے باسیوں نے انگریزوں کو نکال دیا کچھ کو انگریز خود چھوڑ کرچلے گئے۔ امریکہ نے شاید برطانیہ کی تاریخ پڑھی نہ اس کے تجربات سے کچھ سیکھنے کی کوشش کی۔ اسی لئے وہ ان تجربات کو دہرانے کی کوشش کر رہا ہے جو ناکام ثابت ہوئے اور ناکام ہوتے رہیں گے۔ برطانیہ نے تو جن ممالک پر قبضے کئے اکثر ممالک میں عوامی مشکلات کو حل کرکے امن قائم کر دیا۔ امریکہ کا معاملہ اس کے برعکس ہے۔ اس نے جدید اسلحہ او گولہ بارود کے زور پر جن ممالک پر اپنی فوج اور مقامی لوگوں کی لاشیں بچھا کر قبضہ کیا۔ پہلے دن کی طرح لاشیں گرانے اور اٹھانے کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔
قبضوں کی ناکامی کے تجربات کے بعد برطانیہ اور مغربی ممالک نے پوری دنیا کو زیر نگیں رکھنے کیلئے اس کی معیشت پر کنٹرول کی حکمت عملی اپنائی جس پر وہ کامیابی سے عمل پیرا ہے۔ آج جدھر بھی نظر دوڑائیں ملٹی نیشنل کمپنیاں پاکستان جیسے بے شمار ممالک میں سرایت کر چکی ہیں۔ ہم کالا باغ ڈیم کی تعمیر‘ کوئلہ سے بجلی بنائی جائے یا نہ بنائی جائے‘ بنائی جائے تو کس طرح اور کتنی بنائی جائے۔ جیسے معاملات میں الجھے ہوئے ہیں تیل کے بے پناہ ذخائر موجود ہیں۔ ان سے استفادہ کرنے کے بجائے عالمی منڈی سے مہنگا ترین تیل خرید کر حکومت اپنے اخراجات چلانے کیلئے اس کی قیمت دوگنا سے تین گنا تک وصول کرتی ہے۔ ایک ہفتے سے پٹرول کی ایسی قلت ہوئی کہ لوگ اس کی تلاش میں مارے مارے پھرتے ہیں۔ بلوچستان میں سونے کی کانیں اونے پونے ٹھیکے پر یہودی کمپنی کے حوالے کر دی گئیں۔ وسائل ہمارے، لوٹ رہی ہیں ملٹی نیشنل کمپنیاں۔ دراصل ہم اپنی تاریخ سے دور ہو کر ناکام ٹھہرے۔ اسلامی تعلیمات کو نظرانداز کرکے نامراد ٹھہرے۔ مغرب نے اسلامی تعلیمات کو اپنا کر کامیابیاں حاصل کیں اور کرتے جا رہے ہیں۔ وہ جو مفادات ملکوں پر قبضے کرکے اپنے فوجی مروا کر اور دوسرے ملکوں کے انسانوں کو مار کر حاصل کرتے تھے آج ان ملکوں پر احسان جتا کر حاصل کر رہے ہیں۔ اسلام میں رشوت لینے اور دینے والے کو جہنمی قرار دیا گیا ہے۔ اقربا پروری اور سفارش کی گنجائش نہیں۔ ملاوٹ کا تصور نہیں۔ ناپ تول میں کمی بیشی قابل مذمت فعل ہے جھوٹ بول کر تجارت سے منع کیا گیا ہے۔ آج ہمارے ہاں یہ سب کچھ مفقود‘ ملٹی نیشنل کمپنیاں یہی اسلامی اصول اپنا کر کامیابی کی منزل پر منزل مار رہی ہیں۔ مغرب کی ترقی اور اس کی ملٹی نیشنل کمپنیوں کی کامیابیاں اسلامی اصولوں پر عمل کی مرہون منت ہیں۔ ہماری ناکامیاں‘ رسوائیاں اور روسیاہیاں اسلامی تعلیمات سے دوری کے باعث ہیں۔ ہم آج بھی سرخرو ہو سکتے ہیں۔ رسوائیوں سے نکل سکتے ہیں کامیابیاں حاصل کر سکتے ہیں اپنے آباءکی طرح دنیا پر چھا سکتے ہیں پوری دنیا میں اپنی طاقت کا لوہا منوا سکتے اور دھاک بٹھا سکتے ہیں اگر اپنے اصل کی طرف لوٹ آئیں۔ قرآن پاک اور اسوہ رسول کو زبانی ضابطہ حیات قرار دینے کے بجائے اسے عملی طور پر اپنا لیں تو۔
No comments:
Post a Comment