اتوار ، 05 ستمبر ، 2010
فضل حسین اعوان ـ
انگریزی اور اردو جرائد میں کچھ اس قسم کی خوفناک رپورٹیں شائع ہوئی ہیں جن کو پڑھنے والا ایک بار تو دم بخود رہ جاتا ہے۔ ان رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ امریکہ، روس اور دیگر کچھ مغربی ممالک نے ماحولیاتی ہتھیار بنا لئے ہیں سائنسی زبان میں انہیں Selsmic Weapons کہا جاتا ہے۔ یہ ہتھیار یا ٹیکنالوجی جن ممالک کے پاس ہے وہ دنیا میں کہیں بھی سیلاب، زلزلہ، طوفان برپا کر سکتے ہیں۔ قطب جنوبی و قطب شمالی کی برف کو بڑی مقدار میں پگھلا سکتے ہیں اور پگھلتی ہوئی برف کے عمل کو روک بھی سکتے ہیں، اوزون کی تہوں کو تراش سکتے ہیں اور ان میں دراڑیں بھی ڈال سکتے ہیں۔ جہازوں کا رخ بدلا جا سکتا اور جب چاہے ان کو تباہ بھی کیا جا سکتا ہے۔ دماغی شعاعوں پر قابو پانے سے سمندروں کی لہروں تک کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے اور ضرورت پڑنے پر سمندری لہروں میں ہلچل پیدا کر کے بڑے بڑے سونامی برپا کئے جا سکتے ہیں۔ ماہرین کا دعویٰ ہے کہ اس سسٹم کے تحت سورج کی حدت میں کمی بیشی بھی کی جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ بھی بہت کچھ ہو سکتا ہے ۔۔۔ امریکہ نے مبینہ طور پر اس سسٹم پر مکمل عبور حاصل کر لیا ہے۔ اگر ماہرین کی رپورٹیں پر یقین کر لیا جائے تو سمجھ لیجئے کہ کرۂ ارض پر موسموں کی تبدیلی، آفات کا نزول، جہازوں کے حادثات، سیلابوں، طوفانوں، سونامیوں کا ظہور امریکہ کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پینٹاگان نے High Frequency Active Aural Research Programme (ہارپ HAARP) پر کام شروع کر رکھا ہے۔ ہارپ کی تنصیبات الاسکا سے 2 سو میل کے فاصلے پر 23 ایکڑ پر طاقتور ٹرانسمٹروں پر مشتمل ہیں جہاں 180 ٹاورز پر ہزاروں 72 میٹر لمبے انٹینے لگائے گئے ہیں جن سے تین ارب واٹ طاقت کی برقیاتی مقناطیسی لہریں خارج ہوتی ہیں، ان کو سیٹلائٹ کے ذریعے دنیا کے کسی بھی حصے میں تخریب کاری کیلئے استعمال کیا جا سکتا ہے اور مبینہ طور پر استعمال بھی کیا گیا ہے۔
امریکی قومی سلامتی کے سابق مشیر برزنسکی نے 1976 میں اپنی کتاب Between two ages میں لکھا تھا ’’امریکہ کے سائنسدانوں نے ماحولیاتی ہتھیار بنا لئے ہیں۔ ہم دنیا کے طاقت کے محور کو امریکہ لے گئے ہیں اور اب کبھی یورشیا میں نہیں آنے دیں گے‘‘۔
ندائے ملت میں میاں علی رضا کی شائع ہونے والی ریسرچ میں کہا گیا ہے کہ روسی سائنسدان ڈاکٹر اینڈرے آرچ نے الزام عائد کیا ہے کہ روس کے جنگلات میں بھڑکنے والی آگ بھی امریکہ کے ماحولیاتی ہتھیاروں کی ستم گری ہے۔ پاکستان کے 2005 کے زلزلے اور حالیہ سیلاب کو بھی ہارپ سسٹم کا شاخسانہ قرار دیا جا رہا ہے۔ جنوری 2010 کا ہیٹی کے زلزلے اور چین کے حالیہ طوفان میں بھی امریکی جدید ٹیکنالوجی کی کارفرمائی بتائی جا رہی ہے۔ 28 جولائی کو ائر بلیو کی مارگلہ کے پہاڑوں پر تباہی کو بھی امریکہ کے اسی سسٹم کی کارروائی کہا جا رہا ہے ۔۔۔ ذرا دل پہ ہاتھ رکھئے! امریکی ایجاد سے خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ امریکی ماہرین اور اس کے یہودی مداحین کے دعووں کی قلعی آسانی سے کھل جاتی ہے۔۔۔ اگر امریکہ کے پاس یہ سسٹم ہے تو عراق اور افغانستان میں اپنے اور اپنے 40 اتحادی ممالک کے فوجیوں کو کیوں مروا رہا ہے۔ ایران اور چین تو اب تک سیلابوں، زلزلوں اور سونامیوں سے صحفۂ ہستی سے مٹا دیے جانے چاہئیں تھے۔ ہوگو شاویز، کرنل قذافی، محمود احمدی نژاد اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان جیسے امریکہ کے بہت سے دشمن جہازوں میں سفر کرتے ہیں اب تک سینکڑوں جہاز گرائے جا چکے ہوتے۔ امریکہ ہارپ سے اپنے سونامیوں کو کیوں نہ روک سکا؟ اس سسٹم سے امریکہ اسامہ بن لادن کو تو ڈھونڈ لے۔ سیلاب، طوفان، سونامی اور دیگر آفات کرۂ ارض کی تخلیق کے ساتھ ہی شروع ہو گئے تھے۔ طوفانِ نوح اگر جدید دور میں آتا اور ٹائی ٹینک آج کل ڈوبتا تو شاید امریکی ماہرین انہیں ہارپ سسٹم کی کارروائی قرار دے دیتے۔ ہارپ سسٹم ماس ڈسٹرکشن ویپن تو ہو سکتا ہے اس سے محدود پیمانے پر بارش برسائی جا سکتی ہے، کسی حد تک گلیشیئر پگھلائے جا سکتے ہوں گے لیکن قدرت کے کاموں میں وسیع پیمانے پر مداخلت کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ قدرت آج بھی ہر شے پر قادر ہے اس نے اپنے معاملات امریکہ کے سپرد نہیں کئے اور نہ ہی ایسا امکان ہے۔ اس لئے آپ سکون سے رہئے، اطمینان رکھئے اور خدائے بزرگ و برتر کی ذات پر یقینِ کامل بھی۔!
No comments:
Post a Comment