About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Monday, September 6, 2010

اے راہ حق کے شہیدو ۔۔۔


6-9-10   ..فضل حسین اعوان
 ستمبر1965 ء میں معرکہ حق و باطل ہوا، پاک افواج اور پاکستانی قوم و قیادت کو اللہ جل شانۂ کی ذات پر یقین محکم اور اپنی صلاحیتوں پر بھروسہ تھا۔65ء کی جنگ صرف فوج نہیں پوری قوم نے فوج کے شانہ بشانہ ہوکر لڑی۔ دنیا کی بڑی سے بڑی فوج جدید ترین اسلحہ سے لیس ہونے کے باوجود قوم کو ساتھ لئے بنا کامرانی حاصل نہیں کرسکتی۔71ء کی جنگ صرف نالائق جرنیلوں نے لڑی نتیجہ سامنے ہے۔65ء کی جنگ کے بعد بہت کچھ بدل گیا۔ حتیٰ کہ پاکستان دو لخت ہوگیا۔ سیاچن کے بڑے رقبے پر بھارت نے قبضہ کرلیا۔ کرگل کی ناکام مہم جوئی کئی سو افسروں اور جوانوں کو موت کی وادی میں لے گئی۔ پاکستان توڑنے میں ملوث ہر کردار کو خدا نے عبرت کا نشان بنادیا۔ ایک طرح سے قدرت نے اسی دنیا میں انصاف کی ایک جھلک دکھادی… اس سب تغیر و تبدل کے باوجود بہت سی حقیقتیں نہیںبدلیں۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان طاقت کا توازن وہی ہے جو 65ء میں تھا۔اس کی فوج پاک فوج سے کئی گنا بڑی ہے۔اس کے پاس اسلحہ کے انبار پانچ گنا زیادہ ہیں اور سب سے بڑی بات کہ بھارت کی ذہنیت اور نیت نہیں بدلی۔ مسئلہ کشمیر جس کی خاطر جنگیں ہوئیں اپنی جگہ ایک اٹل حیثیت ہے۔پاکستان کو بھارت پر دوحوالوں سے برتری حاصل ہے۔(1) ایٹمی ٹیکنالوجی(2) قوت ایمانی اور جذبہ شہادت… بھارت نے پیام پاکستان کے صرف 18سال بعد 65ء میں جارحیت کا ارتکاب کیا پھر اس کے 6سال بعد پاکستانی حکمرانوں کی نا اہلی اور بے غیرتی کا فائدہ اٹھا کر پاکستان کو دولخت کردیا۔اس کے بعد پاکستان نے ایٹمی قوت کے حصول کی کوشش کرتے ہوئے اس میں کامیابی حاصل کرلی۔آج 71ء کی جنگ کو 39 سال ہوگئے بھارت پاکستان کو تباہ کرنے کی مذموم سازشیں تو کر رہا ہے کھل کر میدان میں نہیں آیا۔ جنگوں کی جیت میں اسلحہ ہی اہم نہیں ہوتا چلانے والے کے جگر اور حوصلے کا بھی امتحان ہوتا ہے مشہور محاورہ ہے
Man behind the gun is more important than the gun
مسلح افواج کا ہر جانباز جذبہ شہادت سے معمور محاذ پر جان لڑانے کا عزم رکھتا ہے۔ جب دشمن سامنے ہوتو جان کی پروا کئے بغیراس پر ٹوٹ پڑتا ہے۔پھر اس کے راستے میں آنیوالے دیوہیکل ٹینک بھی پاش پاش ہوکر بکھر جاتے ہیں۔ آرمی نیوی اور ائیرفورس کے ہر سپوت کویقین ہے کہ شہادت کے بعد کی زندگی، دنیاوی زندگی سے کہیں بہتر ہے۔ اور خدا نے وعدہ فرمایا ہے کہ شہید کو مردہ مت کہو وہ زندہ ہے۔اس کی ایک بہترین مثال لانس نائیک محمد محفوظ نشانِ حیدرکی ہے۔ محمد محفوظ شہید کے ورثا اور گائوں والوں نے ان کو قبرستان سے الگ دفنا کر مقبرہ بنانے کا فیصلہ کیا۔ اس وقت تک ان کو شہید ہوئے 6 ماہ 13 دن ہو چکے تھے۔ گرمیوں کا موسم تھا قبرکی کھدائی شروع ہوتے ہی ٹھنڈی ہوا چلنے لگی اور آسمان پر بادل چھا گئے۔ نعش نکالی گئی تو تابوت سے خون کے قطرے ٹپک رہے تھے جو گھر سے برتن منگوا کر محفوظ کر دئیے گئے۔ نئی قبر کھودی گئی تو وہ بھی پرانی قبر کی طرح معطر ہو گئی۔ شہید کے ایک بھائی نے دیدار نہیں کیا تھا۔ اس نے علماء سے دیدار کی درخواست کی۔ دوسروں کو کچھ نہ بتانے کی شرط پر اجازت دے دی گئی۔ بعد میں والدہ کے کہنے پر دیدار کرنے والے نے بتایا کہ شہید کی داڑھی تین انچ بڑھی ہوئی تھی جو شہادت اور تدفین کے وقت موجود نہ تھی۔ میت پر ڈالی گئی پھول کی پتیاں تروتازہ تھیں چہرے پر بشاشت اور طمانیت تھی۔
آج پاکستان ہر طرف سے مصائب میں گِھرا ہوا ہے۔ جو کچھ ذمہ داروں کے اعمال کا نتیجہ ہو سکتا ہے لیکن آج بھی قوم میں آزادی اور خودداری کا جذبہ موجود ہے اور پاک افواج کے ہر سپوت میں قوم ملک اور ملت کی خاطر کٹ مرنے کی بے پاں خواہش اور حسرت پائی جاتی ہے۔ ان کو یقین ہے کہ شہید زندہ ہوتا ہے۔ جب تک ایسا شوق شہادت موجود ہوتو اس قوم اور فوج کو دنیا کی کوئی طاقت شکست نہیں دے سکتی بشرطیکہ حکمران نیکِ نیت، اہل اور قوم و ملک کی خاطر تن من دھن قربان کرنے کا جذبہ رکھتے ہیں۔

No comments:

Post a Comment