جمعۃالمبارک ، 24 ستمبر ، 2010
فضل حسین اعوان ـ
پیرسید مردان علی شاہ المعروف پیر پگارا پاکستانی سیاست کا اہم ، باوقار اور متحمل مراج کردار ہیں۔ پیر پگارا کے والدِ محترم پیر سید صبغت اللہ شاہ کو انگریزوں نے تحریک آزادی میں سرگرمی سے حصہ لینے کی پاداش میں 20مارچ1943کو حیدر آباد جیل میں پھانسی لگا دی تھی۔ ان کو کہاں دفن کیا گیا وہ ہنوز ایک معمہ ہے۔ پیر پگارا1928 کو پیدا ہوئے۔ والد کی موت کے بعد ان کو باقی خاندان کے ساتھ نظر بند رکھا گیا۔ وہ علی گڑھ میں تعلیم کے لئے تین سال رہے اس کے بعد1946 میں ان کو بحری جہاز کے ذریعے انگلینڈ بھیج دیا گیا۔ یہاں لیور پول میں میجورڈیوس سکول میں داخل کرادیا گیا جس کا ماحول جیل کی صعوبتوں سے کم نہیں تھا۔ اس سکول میں صرف13طلبا تھے جن کا تعلق مختلف ممالک کے ان خاندانوں سے تھا جواپنے ممالک کی آزادی کے لیے سرگرم ہونے پر سزا کے مستوجب ٹھہرے تھے۔ پیر صاحب نے یہیں سے گریجویشن کی۔1949 میں وزیراعظم لیاقت علی خان برطانیہ کے دورے پر گئے۔ جہاں وہ پیر پگارا سے ملے اور انہیں” پیر پگارا“ کا سیٹس بحال کرانے کی یقین دہانی کرائی۔ 4فروری1952 کو گدی بحال کردی گئی اور اسی روز پیر صاحب کی دستار بندی ہوئی۔سندھ میں پیر پگارا کے مریدوں کی تعداد دیگر صوبوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔ سناہے سندھ کے اکثر مرید کہتے ہیں کہ سائیں جان آپ کے لئے، ووٹ بھٹو کے لئے۔ اس کے باوجود وہ کبھی کبھی جیت بھی جاتے ہیں ۔پیر پگارا نے مسلم لیگ کا پرچم مختلف ناموں سے اٹھائے رکھا ہے۔ آج ان کی مسلم لیگ کا نام فنکشنل لیگ ہے۔ وہ اپنی پارٹی کا تعلق ہمیشہ جی ایچ کیو سے بتاتے ہیں۔ آج ان کے گرد ق لیگ سے لیکر ڈاﺅن ورڈ شیخ رشید کی کاغذی عوام مسلم لیگ تک درجن کے قریب مسلم لیگیں منڈلا اور بھنبھنا رہی ہیں۔ پیر صاحب سیاست کے کتنے دھنی ہیں، اس بحث سے قطع نظر وہ بادشاہ تو نہیں بن سکے بادشاہ گر ضرور ہیں۔ جو نیجو اس کی بڑی مثال ہیں۔ آج کل ان کے گرد گھومنے والی مسلم لیگوں کے اکثر رہنما بھی اس چکر میں پیر صاحب کے در پر پہنچے ہوئے ہیں۔پیر صاحب کے مریدوںکی تعداد بے شمار، نیاز مندوں کی بھی کمی نہیں۔ یوسف رضا گیلانی جیسے بچے جو نامعقول لوگوں میں پھنس گئے ہیں وہ بھی کافی ہیں اور بچے کچھے اِدھر جاتے ہیں اور کبھی اُدھر۔ اب بالآخر ان کی چوکھٹ پر آگئے ہیں کئی کی نیت واقعی صاف اور وہ منتشر اوربکھری ہوئی مسلم لیگوں کو متحد دیکھناچاہتے ہیں۔ کئی ایسے ہیں جو ہمسائے سے خار کھائے بیٹھے ہیں۔ اس کی مَجھ مارنے کے لئے اپنی دیوار تک گرادینے پر کمر بستہ ہیں۔ یہ مسلم لیگ ن کو متحدہ مسلم لیگ میں لاناچاہتے ہیں جس کے سرپرست پگارا ہونگے۔ صدر چودھری شجاعت اور چیئر مین میاں نواز شریف۔مسلم لیگ ن ابھی اتحاد میں شامل نہیں ہوئی۔ اتحاد کے علمبرداروں نے عہدوں کی تقسیم کردی اور میاں نواز شریف کو وہ عہدہ دیا گیا جو آ ج مسلم لیگ ن میں راجہ ظفر الحق کے پاس ہے۔
مسلم لیگ ن کا وجود صرف اورصرف میاں نواز شریف کے دم قدم سے ہے گو وہ اپنی پروزرداری پالیسیوں کے باعث اپنی پارٹی کو نقصان پہنچا رہے ہیں تاہم وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف ساتھ ساتھ اپنی کارکردگی سے کافی حد تک اس کا مداوا بھی کر رہے ہیں ۔یوں معاملہ کسی حد تک متوازن ہے۔
مسلم لیگ ن کے سوا تمام مسلم لیگیں متحد ہوجائیں پھر بھی عوام میں مسلم لیگ ن کا اپنا ایک مقام ہے اور ووٹ بنک بھی۔ جس کا مقابلہ متحدہ مسلم لیگ نہیں کرسکتی۔ لیکن ن لیگ کے اتحاد میں شامل نہ ہونے کا نقصان خود ن لیگ اور متحدہ مسلم لیگ کو ہوگا۔ اس لئے تمام تر مسلم لیگوں کا اتحاد ہر مسلم لیگ کے لئے سود مند ہے۔ اس کیلئے مسلم لیگوں کے قائدین کو زمینی حقائق سے نظریں نہیں چرانی چاہئیں۔ میاں نواز شریف کو متحدہ مسلم لیگ عضو معطل بنا کر لانے کے بجائے ان کی اہمیت اور حیثیت کے مطابق ان کی پذیرائی کی جائے۔ پارٹیوں میں صدارتی انتخابات میں 18ویں ترمیم میں شجرِ ممنوعہ قراردیا گیا ہے۔ آج کی صورت حال کے مطابق پیر پگارا متحدہ مسلم لیگ کے سرپرست چودھری شجاعت راجہ ظفر الحق کی طرح چیئرمین اور نواز شریف با اختیار صدر ہوں تو متحدہ مسلم لیگ کا قیام ممکن ہے۔
No comments:
Post a Comment