About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Thursday, September 16, 2010

عمر مختار

جمعرات ، 16 ستمبر ، 2010


فضل حسین اعوان ـ
کمزوری دشمن اور توسیع پسندانہ عزائم رکھنے والی طاقتوں کے لئے جارحیت کی کھلی دعوت ہوتی ہے جس سے نہ صرف تاریخ بلکہ جغرافیہ بھی بدل جاتا ہے اور اپنے آباء کے کارناموں اور خوبیوں میں کیڑے نکالنے والوں کی تقدیر اور قسمت میں بھی کیڑے پڑ جاتے ہیں۔ تحریک آزادی میں جس نے بھی حصہ لیا وہ ہم پاکستانیوں کے ہیرو ہیں اور ہمارے سب سے بڑے ہیروز قائد اور اقبال ہیں۔ کچھ بدبخت قائد کے پاکستان میں رہتے ہوئے بھی ان پر تنقید کرنے اور الزام لگانے سے باز نہیں آتے۔ 
اپنے ہیروز کی قدر کیسے کی جاتی ہے۔ اس کے لئے تاریخ کے چند اوراق الٹنے سے آپ لیبیا پہنچیں گے، جہاں اکتوبر 1911ء میں اٹلی کے بحری جہاز لیبیا کے ساحلوں پر لنگر انداز ہوئے۔ اطالوی بیڑے کے سربراہ فارافیلی نے مطالبہ کیا کہ لیبیا ہتھیار ڈال دے۔ بصورت دیگر طرابلس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی جائے گی۔ لوگ طرابلس خالی کر کے جا چکے تھے۔ اس کے باوجود اٹلی نے خالی شہر پر تین روز بمباری کی اور شہر پر قبضہ کر لیا۔ اس موقع پر ایک مجاہد کی غیرت نے جوش مارا اور جارح دشمن کو للکارا۔ یہ معلم قرآن عمر مختار تھا جو صحرائی علاقوں کے چپے چپے سے واقف کار تھا۔ عمر مختار نے اطالوی فوج کو گوریلا حملوں سے پریشان کئے رکھا۔ اطالویوں نے عمر مختار کی تحریک مزاحمت روکنے کےلئے کئی تدبیریں اپنائیں، بوڑھوں، بچوں اور خواتین کےلئے عقوبت گاہیں بنائیں۔ ان میں 25ہزار لیبیائی اسیر ٹھہرے جن میں سے مظالم کی تاب نہ لاتے ہوئے ایک تہائی شہید ٹھہرے۔ اس کے باوجود عمر مختار کے جذبہ جہاد میں کوئی فرق آیا نہ عوام کا حریت پسندی کا عزم ماند پڑا۔ عمر مختار کی جارح دشمن کو اپنے وطن سے مار بھگانے کی جدوجہد میں کوئی فرق آیا نہ عوام کا حریت پسندی کا عزم ماند پڑا۔ عمر مختار کی جارح دشمن کو اپنے وطن سے مار بھگانے کی جدوجہد اس وقت اختتام کو پہنچی جب وہ ٹیپو سلطان کی طرح آخری دم تک لڑنے کی خواہش رکھتے تھے لیکن 11ستمبر 1931ءکو وہ زخم کھا کر گرے تو اطالوی فوج نے ان کو گرفتار کر کے زنجیروں سے جکڑ دیا۔ پا ء  و ں میں بیڑیاں ڈال دی گئیں۔ گرفتاری کے وقت عمر مختار کی عمر 70سال سے زائد تھی۔ ان پر اٹلی کی فوجی عدالت میں مقدمہ چلایا گیا اور 4دن کی سماعت کے بعد عدالت نے سزائے موت کا حکم سنا دیا۔ 1931ء کو آج کے دن 16ستمبر کو عمر مختار کو لیبیا میں اطالوی فوج نے پوری نخوت رعونت اور فرعونیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے وطن کی آزادی کی خاطر لڑنے والے مجاہد کو سرعام پھانسی لگا دی.... ان سے آخری خواہش پوچھی گئی تو کہا ”اناللہ وانا الیہ راجعون“ 
لیبیا کی قیادت نے وطن پر جان نچھاور کرنے والے کو بھلایا نہیں۔ عمر مختار کی خدمات اور قربانی کے اعتراف میں دس ریال کے نوٹ پر ان کی تصویر چھاپی گئی ہے۔ 1981ء میں کرنل قذافی نے ہالی ووڈ سے عمر مختار کی زندگی پر ”صحرا کا شیر“ نامی فلم بنوائی اس میں اطالوی فوج کے معصوم لیبیائی باشندوں پرظلم و ستم کو بھی نمایاں دکھایا گیا ہے۔ اس لئے اٹلی میں 1982ء میں اس فلم پر پابندی لگا دی گئی۔ 
ہمارے ہاں کیا ہوتا ہے؟ بھارتی وزیراعظم دورے پر آئے تو کشمیر سے منسوب شاہرات کے بورڈ ہٹا دیے جاتے ہیں۔ بھارتی وفد پاکستان آئے تو وہ جو بھی بک بک کر جائے ہمارے زعما مصلحت کے نام پر منافقانہ خاموشی اختیار کرتے ہیں۔ یہ بھارت جائیں تو بھی مصلحت کا انداز اپنانا ان پر ہی فرض ہے۔ وہاں جا کر ایسے بیان دیتے ہیں کہ ان پر بھارت کے تنخواہ دار ہونے کا گمان گزرتا ہے۔ وہ جتنا دباتے ہیں یہ اتنا دبتے چلے جاتے ہیں یا یہ جتنا دبتے ہیں وہ اتنا ہی دباتے چلے جاتے ہیں۔ 
کرنل قذافی گذشتہ سال دس جون 2009ء کو اپنے پہلے دورے پر اٹلی پہنچے۔ وہ وزیراعظم سلویو برلسکونی سے ملاقات کےلئے گئے تو ان کے سینے پر عمر مختار کی اطالوی فوج کے ہاتھوں گرفتاری کی تصویر چسپاں تھی۔ اسی تصویر کے ساتھ وہ اطالوی وزیراعظم کے ساتھ گلے ملے تھے۔ اس موقع پر اطالوی حکومت نے ایک اور زہر کا گھونٹ بھی اپنی مرضی سے پی لیا جب ایک چینل کو کرنل قذافی کی اپنے ہاں موجودگی میں Lion of Desert دکھانے کی ہدایت کر دی۔ 
ہمارے ہاں بھی آزادی کے ہر مجاہد کی عمر مختار کی طرح عزت اور قدر کی جانی چاہئے۔ قائداعظم کی تو کسی سے بھی بڑھ کر۔ کچھ بدبخت اور کم بخت قائداعظم کے پاکستان میں تمام سہولیات اور مراعات کو حاصل کر رہے ہیں لیکن قائد کی خدمات، کارناموں اور ارض پاک کی آزادی کی جدوجہد کو خامی بنا کر پیش کرتے ہیں۔ ایسے لوگ پھر اپنے لئے وہ ملک ڈھونڈ لیں جس کی آزادی قائد محترم کی مرہون منت نہ ہو۔

No comments:

Post a Comment