About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Saturday, September 4, 2010

سپریم کورٹ یہ بھی کر گزرے........ 04 ستمبر ، 2010


سپریم کورٹ یہ بھی کر گزرے!

فضل حسین اعوان ـ
ہمالیہ کی چوٹیوں سے لے کر بحیرہ عرب کے ساحل تک پانی کے بہاﺅ کا قدرتی راستہ بنا ہوا ہے۔ عموماً بحیرہ عرب تک وہی پانی پہنچ پاتا ہے جو راستے میں استعمال ہونے سے بچ رہے۔ اگر ہمالیہ کی چوٹیاں غضبناک ہو جائیں، ساتھ بارانِ رحمت بھی جوش میں آجائے اور پاکستان کا ازلی دشمن بھارت پاکستان کو مشکل میں دیکھ کر اس پر مزید ستم ڈھانے کیلئے اپنے ڈیموں کے دروازے پاکستان کی طرف کھول دے تو پانی کے قدرتی راستے محدود مسدود ہوکر تباہی کا سامان پیدا کردیتے ہیں۔ پھر پانی کے راستے میں آنیوالے انسان اور ہر دیوار خس و خاشاک کی طرح بہہ جاتی ہے۔ اخلاقی طورپر سیلابی کیفیت میں سب سے پہلی ترجیح انسانی جانوں کی حفاظت ہونی چاہئے۔ اس کے بعد دفاعی اہمیت کی حامل تنصیبات اس کے بعد دیگر انفراسٹرکچر کی حفاظت کی باری آتی ہے۔ جس قدر موجودہ سیلاب تباہ کن تھا اس سے جانی نقصان خدشات سے کہیں کم ہوا البتہ مالی نقصان اندازوں سے بہت زیادہ ہوا۔ ان نقصانات کو مزید کم کیاجاسکتا تھا اگر پانی کو گزرنے کا قدرتی راستہ فراہم کیاجاتا۔ پنجاب اور سندھ میں بڑے لوگوں نے اپنی سیاسی طاقت آزماتے ہوئے پانی کے قدرتی رخ کے راستوں میںرکاوٹیں کھڑی کردیں۔ جن بندوں کو توڑ کر پانی کو سیدھا راستہ فراہم کرناچاہیے تھا اس کے بجائے اپنے علاقوں اور فصلوںکو بچانے کیلئے وہ بند توڑدئیے جس سے پانی ایسے شہروںمیں بھی داخل ہوگیا جہاں ہزار سال سے قبل بھی پانی نہیں آیا تھا۔ اموات بھی ان علاقوں میں زیادہ ہوئیں۔ ان علاقوں کے متاثرین سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ پانی ان کے گھروں تک آسکتا ہے پنجاب میں وزیراعلیٰ شہباز شریف امدادی سرگرمیوں میں جُتے رہے ان کی اپنی پارٹی کے لوگ بھی غریبوں کی تباہی کا سامان کرتے رہے۔ مرکز سے تعلق رکھنے والے بعض با اثر لوگوں نے بھی خیر نہ کی۔ سب سے بڑا ظلم سندھ کے وڈیروں نے کیا جو بند توڑ کر پانی کو قدرتی راستہ فراہم کرنا تھا اس کے اوپر وڈیروں نے اپنے لوگ لا کر بٹھادئیے اور انتظامہ کو وہ بند توڑنے پر مجبور ہونا پڑا جس سے بلوچستان کے بہت سے محفوظ علاقے ڈوب گئے۔ اب بلوچستان اور جنوبی پنجاب کے جن علاقوں کو وڈیروں نے جان بوجھ کر ڈبویا آگے راستہ نہ ہونے کے باعث پانی وہیں رکا ہوا ہے۔ وسیع پیمانے پر کھڑے پانی کو نکالنے کا کوئی طریقہ نہیں جب تک موسم کی حدت اور زمین کے جذب سے خشک نہیں ہوجاتا وہاں کے مکینوں کی زندگی عذاب بنی رہے گی۔ اگر سندھ میں وڈیرے اپنی زمینیں بچانے کیلئے پانی کا رُخ غیر قدرتی راستوں کی طرف نہ موڑتے تو پانی آج کی نسبت کہیں کم تباہی پھیلاتا ہوا سندھ کے صحرا سے گزر کر بھارت کے راجستھان کے صحرا میں داخل ہوجاتا اورپانی کا کچھ حصہ سمندر میں بھی چلا جاتا۔ جن لوگوں نے اپنے مفادات کی خاطر بند توڑے اور اس سے انسانی ہلاکتیں اور تباہی ہوئی اس کے یہی لوگ ذمہ دار ہیں۔ غیر قانونی طورپر بند توڑنے کے حوالے سے وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف تک شکایات پہنچیں تو انہوں نے تحقیقات کیلئے ہائیکورٹ سے اپیل کی۔جس پر ہائیکورٹ نے جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں کمشن تشکیل دیدیا ہے پنجاب میں بند تڑوانے میں دو وفاقی ایک صوبائی وزیراو ر بہت سے اراکین اسمبلی اور جاگیردار ملوث ہیں۔ غیر قانونی طورپر بند توڑنے پر رحیم یار خان، راجن پور اور ڈیرہ غازی خان میں 70افراد کے خلاف تین مقدمات درج ہوچکے ہیں۔ پنجاب حکومت کا غیر انسانی اقدامات کے خلاف نوٹس لینا اطمینان بخش ہے لیکن معاملہ چونکہ پورے ملک پر محیط ہے اس لئے سپریم کورٹ اگر بند توڑنے کے ذمہ داروں کا تعین کرنے کیلئے کمشن تشکیل دے تو بہتر ہے۔خود کو اعلیٰ مخلوق اور غریبوں کو کیڑے مکوڑے سمجھنے والے کسی بھی صورت قابل معافی نہیں۔ان کا احتساب صرف عدلیہ کرسکتی ہے اور آج تو عدلیہ آزاد بھی، غیر جانبدار بھی ہے اور کسی کا دباﺅ بھی قبول نہیں کرتی۔

No comments:

Post a Comment