منگل ،27 ستمبر ، 2010
فضل حسین اعوان ـ
انسانوں کو یرغمال بنا کر مطالبات تسلیم کرانے کا سلسلہ شاید نبی نوع انسان کی تخلیق کے ساتھ ہی شروع ہو گیا ہو۔ مسافر جہازوں کو اغوا کرکے مطالبات منوانے کی ریت گذشتہ صدی میں 20 فروری 1931ءکو پیرو کے جہاز کے اغوا سے قائم ہوئی اس سلسلے میں تیزی 1950ءکی دہائی میں آئی اس کے بعد سے آج تک چل رہی ہے۔
مارچ 1981ءمیں جنرل ضیاءالحق کے دور میں پی آئی اے کے جہاز کو کراچی سے پشاور جاتے ہوئے الذوالفقار نے اغوا کرکے کابل ائرپورٹ پر اتار لیا 100 سے زائد مسافروں سے لیفٹیننٹ طارق رحیم کو گولی مار کر اس کی لاش جہاز سے نیچے پھینک دی گئی۔ اس کے بعد جہاز دمشق لے جایا گیا۔ 13 دن بعد جنرل ضیاءالحق نے ان تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کر دیا جن کا اغوا کاروں نے مطالبہ کیا تھا۔
24 دسمبر 1999ءکو انڈین ایئرلائن کی پرواز کو کھٹمنڈو سے دہلی آتے ہوئے ہائی جیک کیا گیا۔ اس فلائٹ میں 176 مسافر تھے۔ جہاز نے فیول لینے کیلئے امرتسر لاہور اور دبئی ائرپورٹس پر لینڈنگ کرتے ہوئے حتمی طور پر طالبان دور میں قندھار ائرپورٹ پر لینڈ کیا۔ بھارتی حکومت نے اغوا کاروں کے مطالبات پر مشتاق احمد زرگر‘ احمد عمر سعید شیخ (ان کو بعدازاں ڈینئل پرل قتل کیس میں گرفتار کیا گیا) اور مولانا مسعود اظہر کو رہا کرکے اپنا جہاز اور یرغمالی چھڑائے۔
انقلاب ایران کے بعد ایرانی طلبا نے 52 امریکیوں کو ان کے سفارتخانے میں یرغمال بنا لیا امریکہ نے ان کی رہائی کی سرتوڑ کوشش کی۔ ایگل کلا کے نام سے ایک آپریشن بھی ترتیب دیا گیا جو قدرت کی طرف سے ناکام ہوا۔ امریکی اپنے کئی ہیلی کاپٹر ایران کے صحرا میں چھوڑ کر ناکامی کا داغ ماتھے پر سجائے گھر کو لوٹ آئے بالآخر امریکہ بہادر نے ایرانی طلبا کے مطالبات کے سامنے گھٹنے ٹیکتے ہوئے شہنشاہ ایران رضا شاہ پہلوی کی جائیداد اور اثاثے ایران کے حوالے کر دئیے۔ طلبا کا شاہ کی حوالگی کا مطالبہ بھی تھا۔ امریکہ نے شاہ کو ایران کے حوالے تو نہ کیا البتہ یہ کہا کہ وہ اسے اپنے پاس رکھے گا نہ پناہ دے گا۔ پھر شاہ کو جلد مصر بھجوا دیا گیا۔
پاکستان کی بیٹی عافیہ صدیقی کو امریکہ کی عدالت نے ناکردہ گناہوں کی 86 سال قید کی صورت میں سزا سنا دی۔ عافیہ کی بہن فوزیہ صدیقی کے بقول سزا دلانے میں حسین حقانی اور شاہ محمود قرشی کا کردار ہے۔ عافیہ کی والدہ کا کہنا ہے کہ امریکی حکام نے کہا تھا کہ اگر حکومت پاکستان یہ لکھ دے کہ عافیہ بے گناہ ہے تو ہم اسے رہا کر دیں گے۔ فیصلے کے ساتھ لگی دستاویزات میں حکومت پاکستان کی طرف سے جاری کردہ ایک خط بھی شامل ہے جس میں عافیہ پر دہشت گردی کی دفعات لگانے کا مشورہ دیا گیا تھا۔ 86 سال قید اسی لیٹر کے باعث سنائی گئی ہے۔ حکومت نے عافیہ کی رہائی کی اس وقت سنجیدگی سے کوشش کی نہ اب امید ہے۔ دعوے اور وعدے اس وقت بھی کئے گئے تھے اب سزا کے بعد کئے جا رہے ہیں۔
پاکستان طالبان تحریک کے ترجمان اعظم طارق نے کہا ہے کہ عافیہ صدیقی کو اب بندوق کی نوک پر امریکہ سے رہا کروا کے پاکستان لائیں گے۔ سر پھرے مجاہدین جو کہتے ہیں وہ کر بھی گزرتے ہیں.... فرض کریں فرض کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ چند سر پھرے ایک ایسے جہاز کو اغوا کر لیتے ہیں۔ پائلٹ سے مل کر جس میں ایک بہت بڑے ملک کا سفیر اور سفارتی عملا بھی سوار ہے۔ اغوا کاروں کو فرض کر لیں اپنی جان کی پروا نہیں اور وہ عافیہ صدیقی کی رہائی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ یہ یقینی بات ہے کہ عافیہ کی اہمیت جنرل ضیاءالحق جتنی نہیں ہے۔ سوال یہ نہیں کہ امریکہ فرضی یرغمالیوں کی رہائی کیلئے عافیہ کو چھوڑے گا یا نہیں۔ سوال یہ ہے کہ وہ عافیہ کو پاکستان پہنچانے کیلئے کسی کمرشل فلائٹ کا انتظار کرے گا یا طیارہ چارٹر کرے گا؟
No comments:
Post a Comment