جمعۃالمبارک ، 03 ستمبر ، 2010
فضل حسین اعوان ـ
لاہور ائیر پورٹ پر 14 پندرہ سال قبل بم دھماکے میں 18افراد جاں بحق ہوگئے۔ تحقیقاتی ادارے سرگرم ہوئے۔ مرنیوالوں کے لواحقین تک ان کے پاسپورٹس شناختی کارڈز یا دیگر ملنے والی دستاویزات کے ذریعے پہنچے۔ ان میں کوئی خود ہوائی جہاز کے ذریعے کہیں جارہا تھا کوئی ان کو الوداع کہنے آیا تھا۔ مرنیوالوں میں قصور کے سرحدی گاﺅں کا ایک نوجوان بھی تھا۔ اس کے ورثا نے بتایا کہ وہ اسحق میراثی کے ساتھ ائیر پورٹ گیا تھا۔ اسحق نے کراچی جانا تھا۔ پی آئی اے اور سول ایو ی ایشن کا ریکارڈ چیک کیا گیا اس میں اسحق کا کوئی ذکر نہیں تھا۔ اس کے نام سے ٹکٹ موجود تھی نہ بورڈنگ کارڈ، اس کی لاش ملی نہ وہ زخمیوں میں شامل تھا۔ ایجنسیوں نے اس کے دوستوںسے معلومات حاصل کیں تو پتہ چلا کہ وہ بارڈر کراس کرکے بھارت جاتا آتا رہتا ہے بعض اوقات مہینہ بھر بھی وہاں قیام کرتا ہے۔بالآخر و ہ قانون نافذ کرنیوالے اداروں کے ہتھے چڑھ گیا۔اس نے اپنا طریقہ واردات یہ بتایا” گاﺅں سے میرا کزن لاہور آرہا تھا۔میں نے اسے کہا کہ میں نے کراچی جانا ائیر پورٹ تک میرے ساتھ چلے وہ تیار ہو گیا۔ ائیرپورٹ میں داخل ہوکر میں نے اسے بریف کیس دیا جس میں دھماکہ خیز مواد تھا میں نے اسے کہا کہ وہ بنچ پر بیٹھے میں ایک دوست سے مل کر آتا ہوں، وہ بنچ پر لوگوں کے درمیان بیٹھا تو میں نے ریموٹ کنٹرول سے بریف کیس اڑا دیا“۔ اسحق نے مزید یہ اعتراف بھی کیا کہ اسے بھارت کی طرف سے دھماکوں میں ہلاک ہونیوالے ایک شخص کے بدلے 50ہزار روپے ملتے تھے۔اس لئے کوشش ہوتی تھی کہ ایک دھماکے میں زیادہ سے زیادہ لوگ مارے جائیں۔ اسحق کا ٹرائل ہوا اور اسے پھانسی لگا دی گئی۔ دشمن اندرونی ہے یا بیرونی آج بھی اپنے ایجنڈے پر کام کر رہا ہے۔آج ہر دھماکے کو خود کش قراردے دیا جاتا ہے۔یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہجوم میں گھسنے والے نوجوان کو یہ معلوم ہی نہ ہو کہ اسے کس مقصد کیلئے استعمال کیا جارہا ہے۔یہ ضروری نہیں کہ ہر حملہ خود کش حملہ ہو اور یہ بھی ضروری نہیںکہ جس کا سر مل گیا وہ خود کش بمبار نہ ہو۔ جو لوگ دھماکوں کی ذمہ داری قبول کرلیتے ہیں ان کا بھی مخصوص ایجنڈا ہوسکتا ہے۔ان کے بھی مذموم عزائم ہوسکتے ہیں اور یہ ضروری نہیں کہ اقبالی گروپ کی اصلیت بھی وہی ہو جو ظاہرکی جارہی ہے۔امریکہ اور اس کے اتحادی پنجاب میں آپریشن کی بھی حسرت لئے بیٹھے ہیں۔ مرکز اس پر تیار بھی ہے۔ لاہور میں گزشتہ روز یوم علی کے جلوس پر ہونے والے حملے بھی پنجاب میں اپریشن اور ڈرون حملوں کی راہ ہموار کرنے کی سازش ہوسکتے ہیں۔ یہ فرقہ واریت کی آگ دہکانے کی کوشش بھی ہوسکتی ہے۔ دشمن کے ایجنٹوں کی پاکستان کا امن تہہ و بالا کرنے کی پلاننگ بھی ہوسکتی ہے۔ بہر حال یہ مسلمہ امر ہے کہ ایسی حرکت کوئی مسلمان تو کیا جس میں تھوڑی انسانیت ہے وہ بھی نہیں کرسکتا اور پھر ان حالات میں جب رمضان المبارک کا مغفرت کا عشرہ شروع ہوچکا ہے اور ملک کا ایک چوتھائی رقبہ ڈوب گیا ہے۔دو کروڑ کے قریب لوگ بے گھر ہوکر کھلے آسمان تلے مجبور ومقہور پڑے ہیں۔
عموما ً یہ دیکھا گیا ہے کہ سنیوں کی مذہبی رسوم میں شیعہ حضرات بہت کم جاتے ہیں۔شیعوں کے جلوسوںمیں شیعہ حضرات سے زیادہ سنی موجود ہوتے ہیں۔کچھ احتراماً اور کچھ تماشائی کے طورپر۔ یہ کسی بھی نیت سے جائیں مسائل کو جنم دیتے ہیں۔ پولیس اور جلوسوں کی انتظامیہ اگر اس امر کو یقینی بنائے کہ مسلکی جلوسوں میں صرف اسی مسلک کے لوگ شامل ہوں تو رش نہ ہونے کے باعث سیکورٹی کے انتظامات 100فیصد کے قریب فول پروف ہوسکتے ہیں۔ دشمن کے ایجنڈے کو ناکام بنانے کیلئے قومی اتحاد اور اتفاق خصوصی طورپر بین المسالک ہم آہنگی کی اشد ضرورت ہے۔ بالکل ایسے رویے کی ضرورت ہے جس کا اظہار علامہ کمیلی نے کیا حکومت اگر تمام مسالک کو بٹھا کر موجودہ حالات کے پیش نظر طویل دورانیے کے جلوس نہ نکالنے پر قائل کرلے تو حالات کافی حد تک کنٹرول میں لائے جاسکتے ہیں۔جلوسوں کے بجائے محفوظ عمارتوںمیں سیمینارز بھی ہوسکتے ہیں جس سے جلوسوں کے مقاصد حاصل ہوسکتے ہیں اور انسانی جانوں کی حفاظت بھی ہوسکتی ہے۔
No comments:
Post a Comment