جمعۃالمبارک ، 17 ستمبر ، 2010
فضل حسین اعوان
عظیم تر ترک قوم لمبے عرصے بعد اتاترک کی پالیسیوں کے سحر سے آزاد ہورہی ہے۔انگریزوں کی ہیمفرے اور لارنس آف عریبیہ کی سازشوں کے ذریعے لگائی گئی فصلِ بدبودار برباد ہورہی ہے۔اب سیکولرازم کے بادل چھٹ رہے ہیں۔اس کے منحوس سائے ہٹ رہے ہیں۔ اسلام پسند طیب اردگان کی قیادت میں متحد ہورہے ہیں۔ اتاترک کی اسلام دشمن اور سیکولرازم کی پالیسیوں کے علم بردار جج اور جرنیل اسلام کی نشاةِ ثانیہ پر پھٹ رہے ہیں۔لیکن وہ جمہوری حکومت کے سامنے بے بس اور عوامی سیلاب کے سامنے بے کس ہیں۔ چند روز قبل وزیراعظم طیب اردگان نے فوج کی طرف سے 1982 میں بنایا گیا آئین بدلنے کیلئے ریفرنڈم کرایا جس میں پانچ کروڑ سے زائد رائے دہندگان نے حصہ لیا۔ فوجی حکومت کا بنایا آئین بدلنے کے حق میں 58 فیصد لوگوں نے ووٹ دیا ووٹنگ کی شرح 77فیصد رہی۔ یہ سیکولرازم کے مقابلے میں اسلام پسند اے کے پی کی زبردست فتح ہے۔ترکی میں عدلیہ اور فوج خود کو اتاترک کے سیکولرازم کا محافظ سمجھتی ہے۔اب اس ریفرنڈم کے بعد دونوں کے اختیارات پر قدغن لگی ہے۔فوج کا جب جی چاہتا جمہوری حکومت کا تختہ اُلٹ کر اقتدار میں آجاتی۔بالکل پاکستان کی طرح۔ عدنان مندریس کو پھانسی بھی فوجی حکمرانوں نے لگائی۔ بالکل ذوالفقار علی بھٹو کی طرح۔ ترک جرنیلوں نے چار بار اقتدار پر قبضہ کیا۔ بالکل پاکستان کے جرنیلوں کی طرح عدلیہ کے جانبدارانہ فیصلے اس حد تک تھے کہ جس پارٹی کو اتاترک کے نظریات کے برعکس پالیسیاں اپناتے دیکھا اس پر پابندیاں لگا دیں۔ اب بھی ترک جرنیل اور عدالتیں طیب اردگان کی حکومت اور پارٹی کی سیکولرازم گریز پالیسیوں کا حسبِ سابق نوٹس لینے کے پر تول رہی تھیں۔ فوج کی طرف سے 1980 جیسی بغاوت یا انقلاب کی تیاری ہورہی تھی کہ طیب اردگان نے جرات اور دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انقلابی سازش کو ناکام بنادیا اور اس کے سرغنوں آرمی، ائیر فورس اور نیوی کے سربراہان کو باعزت ریٹائرمنٹ کا موقع دیا آج وہ جمہوری حکومت کے خلاف بغاوت کے مقدمے میں درجنوں ساتھیوں سمیت جیل میں ہیں۔ موجودہ ریفرنڈم کے ذریعے فوج کوسول حکومت کے سامنے جوابدہ ہونے کا پابند بنایا گیا ہے۔ ججوں کی تقرری کیلئے پارلیمنٹ کو مزید اختیارات مل جائیں گے۔1980کی فوجی بغاوت کے مرکزی کرداروں پر مقدمہ نہ چلانے کی رعایت بھی ختم کردی گئی ہے۔ ترک جرنیل اور ان کی مرضی کے فیصلے دینے والی عدالتیں طیب اردگان کی حکومت کو کب کا الٹا چکی ہوتیں جرنیلوں کو اپنے پیشروﺅں کا انجام نظر آرہا ہے جو جیلوں میں بغاوت کے مقدمات میں قید ہیں۔ یہ وقت کسی بھی باغی جرنیل پر آسکتا ہے۔ پاکستان کی طرح ترکی میںبھی بغاوت کی سزا موت ہے۔ پاکستان میں تو سکندر مرزا کے مارشل لاءسے مشرف کے بندوق کی نوک پر اقتدار سنبھالنے تک کا کسی سول حکومت نے نوٹس نہیں لیا اس لئے طالع آزما کسی بھی وقت مہم جوئی کا ارتکاب کرسکتے ہیں ترکی میں ایسا ممکن نہیں رہا۔
طیب اردگان ترکی اور ترک قوم کو اپنے اصل کی طرف لا رہے ہیں۔ ان کی سیکولرزم سے بیزاری واضح ہوچکی ہے۔وہ مغرب سے فاصلے پر ہورہے ہیں۔ ترکی کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات ضرور ہیں لیکن غزہ میں فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم اور فریڈم فلوٹیلا پر حملے کے باعث ان تعلقات میں سرد مہری آچکی ہے۔ طیب اردگان کی حکومت اور پارٹی کا جھکاﺅ مغرب کے مقابلے میں اسلامی ممالک کی طرف ہورہا ہے۔ گزشتہ سال ترک صدر عبداللہ گل اور وزیراعظم طیب اردگان پاکستان کے دورے پر آئے تھے۔طیب اردگان پاکستان کے دورے کے بعد ایران گئے جو ترکی کے حمایتوں اسرائیل اور امریکہ سمیت پورے مغرب کیلئے آسانی سے سمجھ آنیوالا پیغام ہے۔ طیب اردگان پاکستان کے دورے کے دوران آزاد کشمیر بھی گئے جہاں انہوں نے مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے کا مطالبہ کیا۔انہیں صدر مملکت آصف علی زرداری نے نشان پاکستان دیا اور انہوں نے پاکستانی پارلیمنٹ سے خطاب بھی کیا۔ ایران میں کھڑے ہوکر طیب اردگان نے ایران کے ایٹمی پروگرام کی بھرپور حمایت کا اعلان کیا۔طیب اردگان نے اپنی پالیسیوں، جرات، دانشمندی اورحکومت پر مکمل کنٹرول کے ذریعے عالمی سطح پر ترکی کی اہمیت منوا لی ہے ۔اب شاید یورپی یونین میں شمولیت کیلئے ترکی کو بھیک مانگنے کی ضرورت نہ پڑے
No comments:
Post a Comment