14-9-10
فضل حسین اعوان ـ
جلا وطنیوں کے بعد واپسی کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو یکم فروری 1979ء کو امام خمینی کی فرانس سے ایران واپسی کو ایک تاریخی اہمیت حامل ہے۔ 17 جنوری 1979ء کو شہنشاہ ایران ملک چھوڑ چکے تھے۔ وزیراعظم شاہ پور بختیار نے اعلان کر رکھا تھا کہ روح اللہ خمینی کو لیکر آنے والا طیارہ ایرانی حدود میں داخل ہوتے ہی مار گرایا جائے گا۔ اس کے باوجود امام خمینی نے اپنی واپسی کا ارادہ ترک نہیں کیا وہ تہران کے مہرآباد اڈے پر اترے تو بہشت زہرہ کے قبرستان تک لاکھوں لوگ والہانہ استقبال کیلئے موجود تھے۔ بعض ذرائع امام خمینی کی ایک جھلک دیکھنے والوں کی تعداد ایک کروڑ سے زائد بتاتے ہیں… فلپائن میں صدر فرڈی ننڈمارکوس نے اپنے سیاسی حریف بینگنو سائمن اکینو کو وطن واپسی سے باز رکھنے کیلئے ان کی راہ میں ہر ممکن رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی۔ مسٹر اکنیو تمام رکاوٹوں کو توڑتے ہوئے 21 اگست 1983ء کو سوا تین سالہ جلاوطنی کے بعد فلپائن پہنچے تو لاکھوں ہم وطن ان کی راہ دیکھ رہے تھے۔ وہ منیلا انٹرنیشنل ائرپورٹ پر اترے تو ان کو اس وقت گولی مار کو قتل کر دیا گیا جب وہ سکیورٹی فورسز کے دستوں کی نگرانی میں تھے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو 10 اپریل 1986ء کو 8 سالہ جلاوطنی کے بعد پاکستان واپس لوٹیں تو لاہور شہر میں ان کے استقبال کیلئے آنے والوں کی تعداد لاکھوں میں تھی۔ اس دن لاہور کی بڑی شاہراہوں پر تِل اور تَل دھرنے کو جگہ نہ تھی۔ بے نظیر کو باور کرایا گیا تھا کہ جنرل ضیاء الحق کی حکمرانی کے دوران ان کا پاکستان آنا خطرے سے خالی نہیں‘ پھر محترمہ دوبارہ 18اکتوبر 2007ء کو مشرف دور میں وطن واپس آئیں تو ان کا کراچی میں عظیم الشان استقبال ہوا اور ان پر قاتلانہ حملہ بھی۔ اس بار بھی محترمہ کو پاکستان آنے سے روکا گیا تھا۔ پاکستان کے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف شاہ صدارت سے استعفے کے بعد چند روز کیلئے غیر ملکی دورے پر گئے تھے جو تقریباً دو سال پر محیط ہونے کو ہے۔ اپنی صدارت کے دوران وہ موقع بے موقع اپنے بہادر‘ تیس مارخان اور بانکے ہونے کا دعویٰ کرتے رہتے تھے۔ آج وہ اسی ملک میں واپس آنے سے خوفزدہ ہیں۔ وہ کئی بار واپسی کا اعلان کر چکے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کا وطن واپسی پر استقبال تو امام خمینی‘ اکنیو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی طرح ہو لیکن ان کی سلامتی کو کوئی خطرہ نہ ہو۔ خمینی‘ اکنیو اور بے نظیر بھٹو اپنے اپنے وطن واپس لوٹے تو انہوں نے کوئی ایڈوانس پارٹی نہیں بھجوائی تھی۔ تینوں کے خاندانوں کے افراد بدستور وہیں موجود تھے جہاں سے ان کے طیاروں نے واپسی کیلئے اڑان بھری تھی۔ پرویز مشرف نے اپنی آمد کے حتمی فیصلے سے بھی قبل اہلیہ محترمہ کو اپنی بحفاظت واپسی کی راہ ہموار کرنے کیلئے پاکستان بھجوا دیا ہے۔ سیاست جوئے اور چرس کا جس کو نشہ لگ جائے وہ بمشکل چھوٹتا ہے۔ پرویز مشرف نے بھی سیاست کی الف ب شاید سیکھی ہو یا نہ سیکھی ہو خود کو بڑا سیاست دان ضرور سمجھتے ہیں۔ ’’لاوا لتیوں‘‘ سے متاثر ہو کر صدر مشرف نے پہلے 9 مارچ 2007ء کو جسٹس افتخار کو معطل کیا پھر اسی سال 3 نومبر کو پوری عدلیہ کو الٹا رکھ دیا ایمرجنسی نافذ کی اور اس اقدام کو خود ہی ماورائے آئین بھی قرار دیدیا۔ اس سے ان کی سیاسی سوجھ بوجھ طشت ازبام ہو جاتی ہے۔ بہرحال ان کو سیاست کا چسکا لگ چکا ہے وہ سیاست بھی کرنا چاہتے ہیں اور خطرات میں کودنے پر بھی تیار نہیں۔ ان کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے ساتھ 40 فیصد پاکستانی ہیں باقی 60 فیصد ان کے ساتھ ہیں… دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ 60 فیصد ووٹنگ کیلئے گھروں سے نہیں نکلتے۔ مشرف کو مراعاتی طبقے سے بہت سی توقعات ہیں لیکن مراعاتی طبقہ ایک مستقبل طبقہ ہے حکمران کوئی بھی ہو یہ اس کے ساتھ ہوتے ہیں۔ مشرف سے ان لوگوں نے مراعات لیں مشرف سے قبل یہ کسی اور سے مراعات لیتے تھے اور آج کسی اور سے لے رہے ہیں اس لئے مشرف کو اس نامراد طبقے سے کوئی فیض نہیں ملے گا۔ البتہ ’’مراعاثی‘‘ طبقہ کل کی طرح آج بھی مشرف کے ساتھ ہے۔ اسی طبقے کے لوگ مشرف سے وفاداری نبھائیں گے۔ مشرف واپس آتے ہیں تو کوئی سارنگی اٹھا کر ان کے آگے چلے گا کوئی ڈھولکی پیٹتا ہوا اور کوئی گٹار بجاتا ہوا۔ ہر طرف سے مولا خوش رکھے‘ بھاگ لگے رہن‘ لاگی رے سیاں لاگی نظر توسے لاگی‘ رات ککڑی دیندی بانگاں اج چک دے پھٹے اور سانوں نہر والے پل سے بلا کے‘ کی سریلی آوازیں سنائی دیں گی۔ مشرف کے بہت سے کلاس فیلو اور گلاس فیلو بھی ہیں۔ گلاس فیلو کو تو انہوں نے گورنری‘ وزارتیں‘ مشارتیں اور بڑے بڑے عہدے دئیے کئی گلاس فیلوز آج بھی عہدوں پر براجمان ہیں بہت سے مشرف کی جدائی میں گھل رہے اور لبوں تک جام لانے کیلئے ترس رہے ہیں۔ ’’مراعاثی‘‘ کے ساتھ ساتھ گلاس فیلو طبقہ بھی اپنے مربی کا بھرپور استقبال کرے گا۔ اس نے ساقی نہ بدل لیا تو۔ لوگوں کو مشرف اور ان کا دور دونوں یاد آرہے ہیں۔ ان یادوں سے مشرف کیلئے ہمدردی کا ایک جذبہ بھی ابھرتا ہے لیکن ساتھ ہی دہشت گردی کے نام پر وطن عزیز کو امریکہ کا باجگزار غلام بنا دینے کا عمل جس کے نتیجے میں دس ہزار سے زائد بے گناہ پاکستانی بچوں اور خواتین سمیت دہشت گردی کا نشانہ بنے۔ اسی جنگ سے لال مسجد آپریشن بھی وابستہ ہے جس میں بچیوں تک کو بارود سے پگھلا کر پانی بنا دیا گیا۔ پاکستانیوں کو جب یہ سب یاد آتا ہے تو مشرف سے ہمدردی کے جذبات مزید نفرت میں بدل جاتے ہیں۔ یہی شاہ صاحب کا بویا ہوا ہے۔ جو وہ کسی بھی وقت وطن واپس آکر کاٹ سکتے ہیں۔ رات ایک ٹی وی پر وہ پھر اپنی واپسی کا مژدہ دہرا رہے تھے۔
No comments:
Post a Comment