جمعرات ، 23 ستمبر ، 2010
فضل حسین اعوان ـ
بزدلی، غداری، بے ایمانی، بدعنوانی ا ور بددیانتی کی مہر کسی کی پیشانی پر کندہ نہیں ہوتی۔ ان کمالات کی حامل شخصیات اپنے قول فعل اور کردار سے جانی اور پہچانی جاتی ہیں۔ ہماری سیاسی قیادت کئی بار کہہ چکی ہے کہ پاکستان کے شمالی علاقوں اور بلوچستان کی بدامنی میں بھارت کا ہاتھ ہے۔ بھارت یہ کارروائیاں افغانستان میں قائم اپنے ڈیڑھ درجن قونصل خانوں کے ذریعے کرا رہا ہے۔ گزشتہ روز وزیر داخلہ رحمن ملک نے ایک بار پھر کہا کہ بھارت نے پاکستان کا امن تباہ کرنے کے ثبوت افغان حکومت کے حوالے کر دیئے ہیں… بھارت کی مداخلت کی وجہ سے پاکستان کے قبائلی علاقے سلگ رہے ہیں۔ بلوچستان باقاعدہ بدامنی کی آگ کا الائو بن چکا ہے۔ ہماری لیڈر شپ ثبوت لے کر کرزئی کے آگے ڈھیر کر رہی ہے اس کرزئی کے آگے جسے اپنی جان کے لالے پڑے ہیں جسے افغانستان میں طالبان کی کارروائیوں کے پیچھے پاکستان کا ہاتھ دکھائی دیتا ہے۔ کرزئی رات کو اپنی سلامتی کے لئے نفل پڑھ کر سوتا اور صبح پھر نفل پڑھتا ہے کہ وہ زندہ ہے اور افغانستان کا صدر بھی ہے۔ حکومت پاکستان کا پاکستان میں بھارتی مداخلت کے ثبوت افغان کٹھ پتلی انتظامیہ کے حوالے کرنے کا کیا مقصد ہے؟ اس انتظامیہ کے احکامات پر عمل درآمد صرف کابل اور کابل کے صدارتی محل تک محدود ہے۔ امریکہ خود تسلیم کرتا ہے کہ افغانستان کے 34 میں سے 33 اضلاع پر طالبان کا جزوی یامکمل کنٹرول ہے۔ ممبئی حملوں کا بھارت نے پہلی گولی چلنے کے ساتھ ہی الزام پاکستان پر لگا کر پاکستان کو بدنام کیا کئی تنظیموں پر اقوام متحدہ کے ذریعے پابندی لگوائی، حافظ محمد سعید سمیت کئی لوگوں کو گرفتار اور نظر بند کرا دیا۔ فلاحی تنظیموں تک کے اثاثے منجمد کرائے اور ان کو کالعدم قرار دلایا۔ بزدلی کی انتہا ہے کہ ہمارے حکمران بھارتی مداخلت کے ثبوت ہاتھوں میں لئے گھوم رہے ہیں۔ کسی ردعمل کا اظہار نہیں کرتے۔ بھارت کی اینٹ سے اینٹ بجانے کا سامان موجود ہے اس کو بروئے کار نہیں لاتے۔ بھارت نہ صرف پاکستان کے شمالی علاقوں اور بلوچستان میں تخریب کاری اور دوسرے صوبوں سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹروں، انجینئروں اساتذہ اور دیگر شعبوں کے ماہرین کی ٹارگٹ کلنگ میں ملوث ہے بلکہ آج ایک مرتبہ پھر کشمیریوں کی نسلیں ختم کرنے کے درپے ہے۔ ’’بھارتیو کشمیر چھوڑ دو‘‘ تحریک کو ساڑھے تین ماہ ہو گئے اس دوران بھارتی سکیورٹی فورسز نے وادی کشمیر کو بے گناہ کشمیریوں کے خون سے رنگ دیا ہے۔ روزانہ خواتین اور بچوں سمیت درجنوں انسان خاک اور خون میں ملا دیئے جاتے ہیں۔ حکومت پاکستان کی طرف سے کشمیر کے حوالے سے بھی ویسی ہی بے حسی ہے جیسی شمالی علاقوں اور بلوچستان میں بھارت کی مداخلت پر ہے۔ کشمیر میں آزادی کی تحریک آج جس مقام پر ہے پہلے کبھی نہ تھی اگر پاکستانی سیاستدان اور حکمران اپنا قائداعظم جیسا کردار ادا کریں تو کشمیریوں کی آزادی کی منزل بہت قریب آ سکتی ہے اور اگر وادی میں ملت کے غداروں پر قابو پا لیا جائے تو یہ منزل صرف دو چار گام کے فاصلے پر رہ جائے گی۔ آزادی کے متوالوں کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بھارتی فوج کے بعد غدار ابن غدار شیخ عبداللہ فیملی ہے پہلے شیخ عبداللہ نے خود مختار کشمیر کا پرچم بلند کیا پھر نہرو کا ایجنٹ بن کر اقتدار کے ایوانوں میں جا بیٹھا۔ شیخ عبداللہ نے 1933 میں اکبر جہاں نامی خاتون سے شادی کی جس کا باپ یورپی عیسائی مائیکل ہیری، نیڈو ہوٹل انڈسٹری کا مالک تھا۔ اکبر جہاں کا پہلا خاوند ایک عرب کرم شاہ تھا۔ جس سے 1928 میں شادی کی تھی۔ کلکتہ کے ایک اخبار نے انکشاف کیا کہ کرم شاہ دراصل لارنس آف عریبیہ ہے تو وہ 1929ء میں غائب ہو گیا جس کے بعد شیخ عبداللہ نے اکبر جہاں کے ساتھ نکاح پر نکاح کر لیا۔ ظاہر ہے ایسی خاتون کے بطن سے فاروق عبداللہ جیسا راکھشس ہی پیدا ہو سکتا تھا جو ہندو بنیے کی اشیرباد سے 5 مرتبہ اپنے ہم وطنوں کی لاشوں سے گزر کر کشمیر کا وزیر اعلیٰ بنا۔ آج اس کا بیٹا عمر عبداللہ مقبوضہ کشمیر کا وزیراعلیٰ اور خود فاروق عبداللہ منموہن سنگھ کی کابینہ میں وزیر ہے۔ فاروق عبداللہ نے بنیئے کا نمک حلال اور خود کو ملت کا غدار ثابت کرتے ہوئے دو روز قبل کشمیریوں کے زخموں پر نمک چھڑکتے ہوئے کہا ’’دنیا کی کوئی بھی طاقت کشمیر کو بھارت سے الگ نہیں کر سکتی۔ کشمیر بھارت کا تاج ہے اور تاج کے بغیر ملک اپنی افادیت کھو دیتا ہے۔ کشمیر کل بھی بھارت کا اٹوٹ انگ تھا مستقبل میں بھی رہے گا۔ پاکستان بھارت کا ازلی دشمن ہے۔ کشمیر میں امن بگاڑنے میں پاکستان ملوث ہے‘‘ پاکستانی قیادت کو فاروق عبداللہ کی باتوں سے ہی غیرت میں آ جانا چاہئے۔ حکومت پاکستان تو ’’بھارتیو کشمیر چھوڑ دو‘‘ تحریک کا تماشا دیکھ رہی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ آج ہماری لالچی اور حریص قیادت کی نظر بھارت کی پاکستان میں مداخلت اور فاروق عبداللہ کی پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی سے زیادہ چودھری شجاعت کے اس بیان پر ہو کہ جب وہ نظام سقہ کی طرح چند روز کے وزیراعظم تھے تو کرنل قذافی نے ان سے کہا تھا کہ آپ کشمیر کی آزادی کی تحریک چلائیں جتنا خرچہ ہو گا میں ادا کروں گا!
No comments:
Post a Comment