بدھ ، 22 ستمبر ، 2010
فضل حسین اعوان ـ
آج ملک کتنے بحرانوں میں مبتلا اور قوم کتنی مصیبتوں میں گھری ہوئی ہے یہ گنتے اور گنوانے کی ضرورت نہیں۔ ملک کو بحرانوں اور قوم کو مصائب سے صرف وہ لوگ نکال سکتے ہیں جنہوں نے آئین کے تحت اس کی ذمہ داری لی اور آج اقتدار کے ایوانوں میں شاد‘ شانت اور شاند زندگی گزار رہے ہیں آج قوم اور حکمرانوں کی سوچ یکساں نہیں کسی بھی پہلو سے اور کسی بھی معاملے میں یکساں نہیں۔ عوام اپنے معاملات درست کرنے‘ مسائل کے حل کیلئے حکمرانوں کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ عوام اپنے مسائل کے حل اور کوئی راست راہ اختیار کرنے کیلئے بے کس اور بے بس ہیں۔ جن کے بس میں سب کچھ ہے وہ لاچار نہیں عیار ہیں۔ بے بس نہیں بے حس ہیں۔ ان کی حالت اس مسافر کی سی ہے جو جنگل سے گزر رہا تھا۔ اس نے خونخوار جانور کو اپنی طرف آتے دیکھا تو سر پر پاؤں رکھ کر بھاگ کھڑا ہوا۔ جیسے پاکستان کو لوٹنے والے خطرات دیکھ کر بیرون ممالک بھاگ جاتے ہیں۔ مسافر نے ایک کنواں دیکھا مرتا کیا نہ کرتا۔ بچاؤ کی موہوم سی امید پر کنویں میں اتر گیا۔ کنویں کے اندر دیوار میں ایک درخت اگا تھا۔ اس کی شاخ ہاتھ میں آئی اس کے ساتھ لٹک گیا۔ نیچے دیکھا تو سانپ پھن پھیلائے بیٹھا تھا۔ جائے رفتن نہ پائے ماندن۔ یہیں پہ بس نہیں۔ وہ جس شاخ سے لٹکا تھا اسی کو چوہا بھی کتر رہا تھا۔ لیکن مسافر شاید ہم میں سے اور ہمارے سیاستدانوں اور حکمرانوں میں سے تھا۔ اس کی نظر ایک پتے پر قطروں کی صورت میں ٹپکنے والے سیال پر پڑی۔ تھوڑا اوپر دیکھا تو شہد کا چھتا نظر آیا اس سے شہد ٹپک رہا تھا۔ ہر طرف سے مصیبتوں میں گھرے مسافر نے خطرات سے بے نیاز ہو کر شہد چاٹنا شروع کر دیا۔
آج پاکستان دہشت گردی کی جنگ کا حصہ بن کر تباہی کے دہانے پر ہے۔ خود کش حملوں اور بم دھماکوں نے انسانی خون کو ازراں کر دیا۔ ڈرون حملوں سے انسانوں کے چیتھڑے اڑ رہے ہیں۔ سیلاب نے آدھا ملک اجاڑ کر رکھ دیا کروڑوں افراد کی حالت ایسی ہے جیسے ان کے پاؤں تلے سے زمین کھینچ لی گئی ہو اور سر سے آسمان ہٹا دیا گیا ہو۔ بجلی‘ گیس اور تیل کی بے تحاشا قیمتیں لیکن اس کے باوجود تکلیف دہ قلت‘ ملک میں امن نہ روزگار نہ کاروبار‘ خود کشیاں اور جرائم بے شمار‘ پاکستان کی شہ رگ وادی کشمیر سلگتے سلگتے شعلہ اور آج الاؤ بن چکی۔ یہ وادی اور اس کی آزادی ہماری بقا اور سالمیت کی ضمانت ہے اس کی طرف سے حکمرانوں نے مجرمانہ خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ ہر چیز کو یہ لوگ سمجھتے ہیں۔ جانتے ہیں۔ خطرات سے آگاہ ہیں لیکن ان خطرات اور بحرانوں سے نکلنے کا چارہ نہیں کرتے کنویں میں درخت کی شاخ کے ساتھ لٹکے مسافر کی طرح شہد چاٹ رہے ہیں۔
آج کشمیری اپنی تحریک کو اپنے خون سے اپنے جذبوں اور قربانیوں سے اوج ثریا پر لے گئے ہیں۔ سات لاکھ بھارتی فوج نے بھی اپنی بے بسی کا اظہار کر دیا ہے۔ حریت قیادت تقریباً ایک اور متحد ہو چکی ہے۔ وہ سرینگر آنے والے بھارتیوں کی لیڈر شپ کیساتھ پاکستان کے بغیر بات چیت کیلئے تیار نہیں کہاں جرات رندانہ اور کہاں ایسے میں پاکستان کو اپنا کردار ادا کرنے کی اشد ضرورت ہے پاکستان سے مطلب اس کے حکمران ہی ہیں لیکن حکمرانوں اور سیاستدانوں کے ہاں کشمیریوں کا ساتھ دینے کا کوئی جوش جذبہ اور ولولہ نظر نہیں آتا۔ شاہ محمود قریشی چند دن بعد روایتی بیان دیکر لمبی تان کر سو جاتے ہیں۔ صدر بولتے ہیں نہ وزیراعظم کشمیر کمیٹی اور وزارت کشمیر کی بڑی اہمیت ہے۔ دونوں کو مراعات بنا کر زرداری صاحب نے دوستوں کے حوالے کر دیا۔ کشمیر کمیٹی کے چیئرمین کے والد محترم نے فرمایا تھا شکر ہے ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شامل نہیں تھے قبلہ محترم کشمیر کی آزادی کے ’’گناہ‘‘ میں کیوں شامل ہوں؟ ان کو راضی کرنا تھا تو کشمیر کمیٹی کی چیئرمین شپ کی بجائے وزارت پٹرولیم و ’’ڈیزل‘‘ دے دی جاتی۔ آج وہ اسلامی نظریہ کونسل کی سربراہی اور بلتستان کی گورنری مانگ رہے ہیں کل آرمی چیف بننے کا مطالبہ بھی کر دیں گے۔ ہو سکتا ہے کہ ان کی نظر چیف جسٹس کی کرسی پر بھی ہو۔
آج کشمیر کمیٹی کو ماضی کی نسبت انتہائی زیادہ فعال ہونے کی ضرورت ہے۔ وزارت کشمیر بھی کفن بردوش ہو۔ وزیر خارجہ‘ وزارت خارجہ انتھک محنت کوشش اور جدوجہد کریں۔ وادی کے اندر کشمیریوں کی تحریک کی طرح پوری دنیا میں ایک طوفان برپا کر دیں۔ صدر اور وزیراعظم پوری دنیا میں موجود ہائی کمشنروں اور سفارتکاروں کو مسئلہ کشمیر اجاگر کرنے کا خصوصی ٹاسک دیں۔ اوباما کیمرون بانکی مون سے صدر اور وزیراعظم بات کریں۔ تھوڑی سے جرات کرکے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مزید ساتھ دینے کو مسئلہ کشمیر کے حل کے ساتھ مشروط کر دیں۔ بھارت مسئلہ کشمیر کے حل کے طور پر شاید کشمیر کو خود مختار ریاست بنانے پر تیار ہو جائے۔ یہ حل کشمیریوں کو قبول ہے نہ پاکستان کو۔ مسئلہ کشمیر کا ایک ہی حل ہے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کیلئے استصواب اسی پر آج پورا زور لگانا چاہئے۔ اب مسئلہ کشمیر حل ہونے کو ہے۔ کشمیر کی آزادی اور بھارت کے کشمیر پر قبضے کے منصوبوں کی بربادی کے درمیان صرف پاکستان کے ہنگامہ خیز کردار کا فاصلہ رہ گیا ہے۔
No comments:
Post a Comment