ہفتہ ، 18 ستمبر ، 2010
فضل حسین اعوان
میاں بیوی اپنے بچے کوسکول داخل کرانے لے گئے ،بچے کو ماسٹر کے سامنے کھڑا کرتے ہوئے اس کے باپ نے کہا” جناب اسے داخل کرانا ہے“ ماسٹر نے پوچھا ”یہ آپ کا بیٹا ہے؟“ دیہاتی نے بڑی سادگی سے جواب دیا” جناب اب تو آپ کا ہے“ ماسٹر صاحب نے بچے سے پوچھا” یہ آپ کا باپ ہے؟“ بچے نے بڑی معصومیت سے باپ کا جواب دُہرایا” جناب اب توآپکا ہے“ ۔ماسٹر صاحب بڑے چالاک تھے۔ دیہاتی کے ساتھ کھڑی خاتون کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا” یہ بیوی اب کس کی ہے؟“.... ساد ہ لوح والدین کے معصوم بچے کی استاد نے اس نہج پر تعلیم و تربیت کی کہ بڑا ہوکر وہ حکومتی مشینری کا اہم پرزہ بنا.... آج زمامِ اقتدار جن ہاتھوں میں ہے یہ سارے کے سارے لوگ گھروں سے تعلیم حاصل کرکے اس مقام پر نہیں پہنچے۔ حکومتی مشینری اوراداروں کو چلانے والے لوگوں نے بھی الف بے اور اے بی سی کسی استاد اور معلم سے ہی سیکھی ہے۔فرانسیسیوں کے ہیرو نپولین بوناپارٹ نے کہا تھا” آپ مجھے اچھی مائیں دیں میں آپ کو اچھی قوم دونگا“ ابتدائی تعلیم کے حوالے سے استاد کا درجہ بھی ماں کی طرح ہے۔خصوصاً پاکستان جیسے معاشرے میں۔استاد بچوں کی تعلیم کے ساتھ ساتھ ان کی تربیت بھی کرتا ہے۔تعلیم کی مضبوط بنیاد بھی ابتدائی کلاسوں سے ہوتی ہے۔لیکن المیہ یہ ہے کہ جس استاد کو سب سے زیادہ محنت کرنا پڑتی ہے مسائل اور مصائب کا سب سے زیادہ سامنا بھی اسے ہی کرنا پڑتا ہے۔
پی ایس ٹی اساتذہ کی طرف سے ایڈیٹر انچیف کے نام بھیجے گئے ایک پمفلٹ میں ان مسائل کی نشاندہی کی گئی ہے جن کا اساتذہ کو سامنا ہے۔ان میں سب سے اہم یہ ہے کہ آج پرائمری سکول ٹیچر کی بنیادی کوالی فکیشن بی اے بی ایڈ ہے اسے سکیل9دیا گیا ہے۔ایلیمنٹری سکول ٹیچر اور ایس ایس ٹی کی بنیادی کوالی فکیشن بھی بی اے بی ایڈ ہے ان کو باالترتیب سکیل 14اور 16دیا گیا ہے۔کام کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ پرائمری سکول میں عموماً ایک استاد ہوتا ہے5کلاسوں کے اگر 6,6پیریڈ بھی ہوں تو روزانہ 30پیریڈ بنتے ہیں۔ ای ایس ٹی کے حصے میں36اور ایس ایس ٹی کے حصے میں 18پیریڈ ہفتے وار آتے ہیں۔
پرائمری سکول ٹیچرز کام کے بارے توشاید اتنے پریشان نہ ہوں البتہ سکیلوں کی ناانصافی سے ضرور دلبرداشتہ ہیں۔ پی ایس ٹی ٹیچرز ایسوسی ایشن نے جہاں اپنے سکیلوں میں اضافے کی بات کی ہے وہیں وہ تمام اساتذہ کیلئے تنخواہوں میں اضافے، ہاﺅسنگ سوسائٹی، ٹیچر فاﺅنڈیشن کے قیام اوردیگر مراعات کا بھی مطالبہ کیا ہے۔
کوئی بھی قوم اور معاشرہ تعلیم کے بغیر ترقی نہیں کرسکتا۔ تعلیم کا حصول استاد کے بغیر ممکن نہیں جب تک استاد تمام تر تفکرات اور پریشانیوں سے آزاد نہیں ہوگا اس سے کماحقہ، اپنا بہترین کردارادا کرنے کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ سب سے کٹھن اور مشکل کام پرائمری ٹیچر کا ہوتا ہے۔مغرب میں سب سے زیادہ مراعات بھی ابتدائی تعلیم کے ٹیچر کو دی جاتی ہیں۔ ہمارے ہاں الٹا سسٹم ہے۔
کسی بھی درجے میں تعلیمی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ اچھی قوم کی بنیاد اور تعمیر میں والدین سے بھی زیادہ کردار اساتذہ کا ہے یہ دوسروں کے بچوں کو اوجِ ثریا تک لے جاتے ہیں لیکن خود ان کے اپنے بچے عموماً بے وسیلہ ہونے کی وجہ سے میٹرک ایف اے کرنے کے بعد روزگار کی تلاش میں سرگرداں ہوجاتے ہیں یہ معاشرے کے اہم اور اہل افراد کے ساتھ ظلم ہے۔ سکول اساتذہ کو ماسٹر کہہ کر مخاطب کیاجاتا ہے جس کا مطلب آقا ہے ہمیں ان کو عملاً بھی آقا ثابت کرنا ہوگا۔ وہ اسی صورت ممکن ہے کہ حکومت ان کے مسائل کا ادراک کرے۔ان کی ضروریات کا احساس کرے۔بد قسمتی سے ملک کا سب سے زیادہ اہم شعبہ تعلیم سب اداروں کے مقابلے میں انحطاط پذیر ہے۔ اس کے بجٹ میں ہر سال کٹوتی کردی جاتی ہے۔ یہ سلسلہ نہ رکا تو آج پارلیمنٹ میں چند جعلی ڈگری ہولڈر ہیں آئندہ پارلیمنٹ سمیت ہر ادارے اور شعبے میں ان کی بھرمار ہوگی۔ مرکزی اور صوبائی حکومتیں دیگر شعبوں میں کٹوتی کریں، ترقیاتی و غیر ترقیاتی کاموں سے بچت کریں، اپنے اخراجات کم کریں اور پوری توجہ تعلیمی شعبہ کی طرف مرکوز کرتے ہوئے پولیس کی طرح اساتذہ کی نٹ پے ڈبل کردیں اور ہر ماسٹر کو بھرتی کے وقت کم از کم سکیل 17 دیاجائے۔ استاد خوشحال تو قوم نہال۔
No comments:
Post a Comment