About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Sunday, September 19, 2010

سیاسی خلا ۔ کچھ بھی ۔ کسی بھی وقت


 19 ستمبر ، 2010



فضل حسین اعوان ـ 
بدقسمت ہے وہ قوم جس کے ہاں مخلص اہل اور دیانتدار لیڈر شپ نہ ہو۔ اس سے بھی بدقسمت ہیں وہ لوگ جن کو اپنی لیڈر شپ ابھارنے اور محدود خول سے نکل کر قومی سطح پر کردار ادا کرنے کا سنہری موقع ملا لیکن مصلحتوں اور خوش فہمیوں کے باعث وہ اس سے فائدہ نہ اٹھا سکے۔ صدر مشرف اقتدار میں آئے تو اپنے لانے والے نواز شریف اور ان کے خاندان کے چند افراد گرفتار کر لئے گئے۔ محترمہ بینظیر بھٹو اس وقت ملک سے باہر جبکہ زرداری صاحب ”اندر“ تھے۔ مشرف کے ابتدائی دور میں کچھ سیاسی لیڈروں کی گرفتاریاں ضرور ہوئیں تاہم کسی کو کوڑے لگے نہ پھانسی دی گئی۔ اس کے باوجود مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کے لیڈروں کے اندر شاید ایوب خان اور خاص طور پر ضیاءالحق کے مارشل لاءکا خوف تھا کہ یہ لوگ اپنی اعلیٰ قیادت پر ستم ٹوٹنے کے باوجود زیر زمین رہے البتہ مشرف کے ابتدائی دور کے بعد آج کے پنجاب کے وزیر قانون، تب کے ڈپٹی اپوزیشن لیڈر رانا ثناءاللہ خان بہت سے لیگیوں کی طرح مشرف کے خلاف کافی بولتے تھے۔ 9مارچ2003ءکو ان کو ایجنسیوں نے رات کے پہلے پہر اٹھایا اور شب ڈھلتے ہی موٹر وے کی سروس لین پر پھینک دیا۔ وہ چار گھنٹے تشدد کا نشانہ بنتے رہے اور اس دوران ان کی مونچھیں بھی صاف کر دی گئیں تھیں ان کواٹھایا گیا تو رانا ثناءواپس آئے تو رانی ثنا تھے۔
بہر حال یہ وہ موقع تھا جب نئی لیڈر شپ ابھر سکتی تھی۔ خاص طور پر یہ خود کو نمایاں کرنے کا عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کے پاس بہترین موقع تھا یہ جمہوریت کی بحالی کی مہم چلاتے تو محترمہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کی جلاوطنی کی صورت میں پیدا ہونیوالا سیاسی خلا پُر کر سکتے تھے۔ بدقسمتی سے دونوں ریفرنڈم میں مشرف کے لئے ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر ووٹ مانگتے رہے۔ اب ڈاکٹر صاحب سیاست سے دور، عمران خان سیاست میں بدستور۔ نواز شریف نے فنکاروں کی محفل میں فرمایا ”بنیادی طور پر فنکار ہوں اچھاگا لیتا ہوں ہم بھی چھپے رستم ہیں یہ الگ بات ہے کہ ہم سیاست کی طرف چلے گئے“ اب گویے نواز شریف سے مل کر اتحاد بنائیں شہباز شریف سیاست کریں۔ نواز شریف گانے گائیں عمران خان چمٹا بجائیں۔ 
نواز شریف کو ایک موقع ملا تھا جس سے انہوں نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ یہ موقع تھا جب پاکستان کی سیاست میں دو طبقات تھے۔ پرو بھٹو اورفو بھٹو نواز شریف نے خواہ محاذ آرائی کے ذریعے ہی سہی خود کو اینٹی بھٹو ثابت کر دیا جس کے باعث وہ دو مرتبہ وزیراعظم بنے اور آج ملک کی دوسری بڑی پارٹی کے قائدہیں جو کئی مواقع پر پاکستان کی ٹاپ کی پارٹی بھی رہی ہے۔ آج ملکی سیاست کا محور پیپلز پارٹی اور ن لیگ ہیں۔ 
آج بھی بہت سے لوگ پیپلز پارٹی کو بھٹوز کی محبت میں اور مسلم لیگ ن کو ان کی نفرت میں ووٹ دیتے ہیں گویا جماعت اسلامی کے ”چھوٹی برائی اور بڑی برائی میں موازنے“ کے متروکہ فلسفے پر عمل جاری ہے۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ دونوں پارٹیوں کا ایک مستقل ووٹ بنک بھی برقرار ہے۔ اس کے باوجود نہ صرف ان پارٹیوں کے اندر بہتری کی بہت سی گنجائش ہے بلکہ دونوں کے درمیان کبھی دھینگا مشتی اور کبھی نورا کشتی کے باعث کسی تیسری سیاسی قوت کے ابھرنے کا بھی قوی امکان ہے۔ وہ تیسری قوت کونسی ہو سکتی ہے۔؟ آج مشرف پاکستانی سیاست میں بطور سیاست دان ان ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کی سیاسی راہیں لال مسجد آپریشن‘ پاکستانیوں کی امریکیوں کے پاس فروخت اور پاکستان کو امریکہ کی جنگ کا میدان بنانے کے باعث مسدود ہو چکی ہیں۔ وہ پاکستان آئیں یا وہیں کہیں رہیں ایک برابر ہے۔ وہ پاکستان میں کسی بھی جگہ جلسے جلوسوں سے براہ راست خطاب نہیں کر سکتے۔ فون پر جہاں بھی ہوں خطاب کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان آکر وہ جیل نہ بھی جائیں تو بھی سکیورٹی وجوہات پر گھر سے قدم نہیں نکال سکیں گے لیکن عدالتوں میں جانا پڑا تو کیا کریں گے؟
ملک میں واقعی ایک سیاسی بے چینی موجود ہے۔ اس کا ادراک اگر موجود قیادت نے نہ کیا تو متبادل کچھ بھی ہو سکتا ہے انقلاب آ سکتا ہے بقول شہباز شریف خون آشام اور خونیں انقلاب ۔۔۔ نئی قیادت ابھر سکتی ہے۔ کہاں سے؟ کارخانہ قدرت میں کچھ بھی ناممکن نہیں۔ کچھ بھی کسی بھی وقت ہو سکتا ہے۔


No comments:

Post a Comment