About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Wednesday, September 8, 2010

گِدڑ سنگھی


فضل حسین اعوان
رمضان المبارک کے یہی دن تھے جو آج کل ہیں، بحث بھی وہی جو آج ہو رہی ہے کہ جمعۃ المبارک کی عید سربراہِ مملکت کے لئے بھاری ہوتی ہے۔ وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو ان کے مولویوں کے توڑ کے لئے رکھے ہوئے سکالر نے بھی اپنی تشویش سے آگاہ کیا کہ جمعہ کی عید سربراہِ مملکت کے لئے بھاری ہوتی ہے بھٹو صاحب نے پریشان ہوتے ہوئے کہا۔ یہ تو بُرا ہو گا، فضل الٰہی چودھری تو بوڑھا ہے اوپر سے اس پر عید بھاری ہو گی۔ اپنے اوپر عید بھاری ہونے کا فلسفہ بھٹو صاحب نے یہ کہہ کر رد کر دیا کہ وہ سربراہِ حکومت ہیں۔ فضل الٰہی بطور صدر سربراہ مملکت… اب پھر امکان ہے کہ عید جمعہ کو ہو گی لیکن محکمہ موسمیات سے قوی امکان ظاہر کرایا جا رہا ہے کہ عید ہفتے کو ہو گی۔ ایک افواہ یہ بھی گردش کر رہی ہے کہ نائن الیون ہفتہ کو ہونے کی وجہ سے امریکہ کا دباؤ ہے کہ عید پاکستان میں جمعہ کو منائی جائے کیونکہ وہ سوگوار ہو اور پاکستان میں خوشی منائی جائے‘ یہ اسے برداشت نہیں‘ ایک طرف جمعہ کی بھاری عید دوسری طرف امریکہ کا جمعہ کوہی عید کرنے کا دباؤ دیکھیئے کیا فیصلہ ہوتا ہے۔ امریکہ کی طرف سے ایک اور ڈومور کا تقاضا۔ پہلے تمام تقاضوں اور مطالبوں کے سامنے سرِ تسلیم خم کرنے والے اب دیکھیئے کیا کرتے ہیں؟ یہ ایوبی دور نہیں ہے کہ رات گیارہ بجے چاند نظر آنے کی شہادتیں موصول ہوئیں اس وقت تک صدر ایوب خان سو چکے تھے۔ ہلال کمیٹی اور ایوبی کابینہ نے چاند نظر آنے کا اعلان نہیں کیا اگلے دن صدر صاحب نیند سے بیدار ہوئے تو ان کو چاند نظر آنے کی خوشخبری سنائی گئی اور ریڈیو پر عید کے دن عید کا چاند نظر آنے کا اعلان کیا گیا۔ آج ایسی صورت حال پیش آتی ہے تو مولوی اور مقتدی مل کر موجودہ نظام کو نقش کہن کی طرح مٹا ڈالیں گے… جمعہ کی عید واقعی سربراہ مملکت سربراہِ حکومت اور ان کے تمام فقیروں ملنگوں اور مریدوں پر بھاری پڑ جائے گی۔
عید کی مناسبت سے وزیراعظم گیلانی نے مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں 13 رکنی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اوور سائیٹ مینجمنٹ کونسل کی تشکیل کا اعلان کیا جس کے ابھی ارکان اور چیئرمین کا فیصلہ ہونا ہے۔ کائرہ نے اس کونسل کا مقصد متاثرین میں امداد کی شفاف تقسیم بتایا ہے۔ وزیراعظم نے یہ اعلان بھی کیا ہے کہ عید سے قبل ہر متاثرہ خاندان کو 20 ہزار روپے دیئے جائیں گے۔ کائرہ صاحب فرماتے ہیں کہ 20 ہزار روپے کی رقم متاثرین کو سمارٹ کارڈز کے ذریعے بنکوں میں اکاؤنٹ کھلوا کر دی جائے گی۔ ابھی تک کوئی لسٹ بنی ہے نہ کوئی تیاری اور عید میں صرف ایک دن باقی ہے کیا ہمارے وزیراعظم کے ہاتھ کوئی گِدڑ سنگھی لگ گئی ہے کہ اوورسائیٹ کونسل بھی ایک دن میں مکمل لسٹیں تیار، اکاؤنٹ کھل جائیں گے اور 20 ہزار فی خاندان ایک دن میں تقسیم ہو جائے گا؟ ہتھیلی پر سرسوں جمانے میں قبلہ بڑی مہارت رکھتے ہیں۔ نوازشریف کو ایسا چکر دیتے ہیں کہ ایک چکر سے وہ بمشکل نکلتے ہیں کہ دوسرا اور پھر تیسرا تیار ہوتا ہے۔ پنیترے بازی کے حوالے سے نہیں کہا جا سکتا کہ وہ پنتیرے زیادہ بدلتے ہیں یا اپنے سوٹ۔ 14 اگست کو نوازشریف نے ملاقات میں متاثرین کے لئے فنڈز اکٹھا کرنے اور اس کی ایمانداری سے تقسیم کے لئے قومی کمیشن بنانے کی تجویز پیش کی گیلانی صاحب نے اس کی باالکل ایسے بھرپور حمایت کی جیسے ٹونی بلیئر نے عراق پر حملہ کرنے کے لئے بش کی بش سے بڑھ کر حمایت کی تھی۔ 19 اگست کو گیلانی صاحب نے نوازشریف سے کیا ہوا وعدہ بھلا دیا اور امداد کی تقسیم کے لئے ایک کونسل بنانے کا اعلان کر دیا۔ پھر اس سے بھی دستبردار ہو گئے اور دو دن قبل اے پی سی کے ذریعے امداد کی تقسیم کا اعلان کر دیا اب نئی کونسل کا نزول ہو گیا ہے۔ حکومت کی کونسلوں کی تشکیل اور امداد کے انتظار میں متاثرین کا نہ جانے کیا حال ہو جائے؟ ضرورت تو امداد اور بحالی کے لئے جنگی بنیادوں پر کام کرنے کی ہے لیکن جہاں پنیترے بازی کے فن کی مہارت دکھائی اور آزمائی جا رہی ہے۔ وزیراعظم گیلانی نے ایک اور بھی اعلان کیا ہے اس پر یقین کامل کرنا ہو گا۔ فرمایا ’’عید سے قبل 40 ارب تقسیم ہونگے‘‘ آپ کیا سمجھتے ہیں سیلاب زدگان میں؟ … اگر آپ ایسا سمجھتے ہیں تو خوش گمانی میں کوئی حرج نہیں۔ ارب سے مراد کہیں عرب تو نہیں اتنے عرب بھی کہاں سے لائیں گے؟ ویسے لباس پہنا کر بنائے جا سکتے ہیں۔

No comments:

Post a Comment