About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Thursday, September 2, 2010

2-9-2010....... متاثرین کو طوفان اور شعلہ نہ بننے دیاجائے



فضل حسین اعوان ـ
29جولائی2010 کو خیبر پی کے سے شروع ہونیوالا سیلاب چاروں صوبوں میں قیامت برپا کرکے اپنے منطقی انجام کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اب دنوں کی بات ہے کہ سیلابی پانی خشک اوراس کی تباہ کاریوں کے نشان باقی رہ جائیں گے۔اس خطے کی 80سالہ تاریخ کا یہ سب سے بڑا اور شاید طویل ترین دورانیے کا سیلاب ہے۔جو ملک کے ایک چوتھائی علاقے میں ’’بھوت پھیری ‘‘پھیر گیا،ایسی آفات سے بے شمار جانی نقصان ہوتا ہے۔سیلاب کے شروع میں حکومتوں اور متعلقہ اداروں کی طرف سے مناسب انتظامات اور اطمینان بخش پیش بندی نہ ہونے کے باعث چند روز میں اموات کی تعداد ڈیڑھ ہزار تک پہنچ گئی تھی۔اس کے بعد تباہی کو دیکھتے ہوئے جس علاقے میں بھی لوگوں کو خطرات سے آگاہ کیا گیا انہوں نے فوج اور دیگر اداروں سے اپنی ضد چھوڑ کر تعاون کیا اور محفوظ مقامات پر منتقل ہوگئے۔غریب آدمی کی بکری بھی مرجائے تو اس کا دکھ سوا ہوجاتا ہے جہاں تو دو کروڑ لوگ بے گھر ہوئے اور اکثر کے گھراور گھروندے تک مکمل اسباب کے ساتھ بہہ گئے۔ گھر دوبارہ بن سکتے ہیں۔مال اور اسباب بن سکتا ہے گیا انسان واپس نہیں آسکتا۔جو لوگ سیلاب کی نذر ہوکر دنیا سے چلے گئے ان کا افسوس ہے تاہم جو زندہ بچ گئے ان کو زندگی کی طرف لانے کی ضرورت ہے۔ان کی بحالی کے لئے پوری قوم سرگرداں ہے۔تن من اور دھن کے ساتھ۔لیکن افسوس یہ کہ متاثرین کی امداد کیلئے کوششیں مربوط نہیں ہیں،منتشر ہیں۔ آج بھی متاثرین کی امداد کیلئے ملک کے ہر علاقے سے ہزاروں ٹرک سامان لے کر نکل رہے ہیں۔ کئی لوگوں تک امداد اس قدر وافر مقدار میں پہنچ رہی ہے کہ ان کی ضرورت سے زیادہ ہونے کے باعث سامانِ خوردونوش سڑ رہا ہے اور کئی علاقوں میں کھانے کا نوالہ اور پانی کی بوند تک نہیں پہنچ رہی۔ جو لوگ خود سامان متاثرین تک لے جاتے ہیں وہی ان تک پہنچتا ہے جو دوسرے کے حوالے کردیتے ہیں وہ اکثر بازاروں میں فروخت ہوجاتا ہے۔ ایسے دھندے میں کچھ غیر معروف فراڈ تنظیمیں بھی ملوث ہیں۔
گو پاکستان کے بہت سے بڑے لوگوں نے اپنی جیبوں پربدستور بڑے زور سے ہاتھ رکھا ہوا ہے۔اس کے باوجود بھی ملک کے اندر سے وزیراعظم، وزرائے اعلیٰ اور با اعتماد و بااعتبار اداروں کے ریلیف فنڈ میں اربوں روپے جمع ہوچکے۔ بیرونِ ممالک سے کیش اور سامان کی صورت میں امداد کے بھی ڈھیر لگے ہوئے ہیں۔ وعدے وعید اس کے علاوہ ہیں۔ چین اور سعودی عرب نے اعلان کر رکھا ہے کہ پاکستان کو جو کچھ بھی چاہیے وہ فراہم کریں گے۔ ان دوست ممالک نے یہ سب کچھ زبانی کلامی نہیں کہا بلکہ عملاً بھی ایسا کردکھایا ہے چین کی کروڑوں ڈالر پر مشتمل امداد چار مرحلوں میں پاکستان پہنچ چکی ہے۔ سعودی عرب سے بھی تیزی سے ترسیل جاری ہے۔ایران خود مشکلات کا شکار ہے اس کے باوجود وہ بھی مدد کر رہا ہے۔ امریکی ایلچی ہالبروک نے طعنہ دیا تھا کہ پاکستان کے دوست چین اور ایران مشکل کے وقت کہاں ہیں؟ ان کو نظر آگیا ہوگا کہ پاکستان کے حقیقی دوست کہاں ہیں اور دوست نما دشمن کہاںہیں؟ آستین کے سانپ کہاں ہیں؟۔ پاکستان پر سیلاب ایک آفت کی صورت میں نازل ہوا اس کا محرک بھی امریکہ اور اس کا دوست بھارت ہے۔سیلاب سے وزیراعظم گیلانی کے بقول43 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔امریکہ کی جنگ میں پاکستا ن کو 45 ارب ڈالر کا نقصان ہوچکا ہے۔ ہالبروک کا مذکورہ بیان سفارتی آداب کے بالکل خلاف ہے تاہم اگر وہ ایسا طعنہ دیتے ہیں تو سیلاب زدگان کی مدد کیلئے چند کروڑ ڈالر دینے کے بجائے پاکستان کا وہ نقصا ن پورا کریںجو امریکہ کی جنگ لڑتے ہوئے پاکستان کو اٹھانا پڑا۔
صدر زرداری صاحب نے کہا ہے کہ پاکستان میں پیسے کی کوئی کمی نہیں سیلاب زدگان خود کو تنہا نہ سمجھیں۔شہباز شریف کا عزم ہے کہ جینا مرنا مصیبت زدہ لوگوں کے ساتھ ہے۔پاکستان کو کھربوں روپے کی بیرونی امداد مل چکی ہے۔او آئی سی نے ایک ارب ڈالر دینے کا تازہ ترین وعدہ کیا ہے، مزید امداد بھی آرہی ہے مرکز، صوبوں، فوج اور دیگر اداروں کے پاس بھی اربوں کے فنڈز جمع ہوچکے ہیں۔اگر یہ مصیبت زدہ لوگوں کی بحالی پر ایمانداری اور بہتر منصوبہ بندی سے خرچ کئے جائیں تو یہی کافی ہیں۔ اس کیلئے سیاستدان پوائنٹ سکورنگ چھوڑ دیں تو مزید آسانی ہوجائے گی۔لوگوں کو اعتبار نہیں ہے کہ سیاستدان اپنا وطیرہ چھوڑیںگے۔اس لئے ضروری ہے کہ امداد کی منصفانہ تقسیم کیلئے ایک آزادانہ اور غیرجانبدارانہ کمشن بنایاجائے۔جس کے ممبران پر قوم کو اعتبار ہو۔دوسری صورت میں سیلاب متاثرین زندگی سے دور ہوتے ہوتے خود ایک طوفان بن کر بہت کچھ بہا کر لے جائینگے آج سب سے بڑی ضرورت متاثرین کو طوفان اور شعلہ جوالا بننے سے روکنا ہے۔

No comments:

Post a Comment