منگل ، 07 ستمبر ، 2010
پاکستانی کرکٹرز کے ساتھ برطانیہ میں جو کچھ منسوب کیا جا رہا‘ اس سے بڑی کنفیوژن پیدا ہو چکی ہے۔ ہر اطلاع اور خبر غبار آلود ہے۔ کھلاڑیوں پر لگنے والے الزامات جھوٹ ہیں یا سچ‘ غلط ہیں یا صحیح‘ اس کا فیصلہ تو تحقیقات کے بعد ہوگا البتہ ان کھلاڑیوں کے بارے میں جو کچھ کہا جا رہا ہے وہ ہمارے معاشرے‘ ہماری سیاست ہمارے حکمرانوں اور بیورو کریسی کے رویوں کا عین مظہر اور عکاس ہے۔ سیلاب کی صورت میں قوم پر جو آفت اور تباہی نازل ہوئی اس سے بھی کوئی سبق نہیں سیکھا گیا۔ سیلاب کو شہروں کے شہر تاراج کرتے ہوئے آج ایک ماہ دس دن ہو چکے ہیں۔ ایک طرف سے پانی اترنا شروع ہوتا ہے تو دوسری طرف یلغار کر دیتا ہے۔ خیبر پی کے کے سیلاب زدہ علاقوں میں پانی خشک ہو چکا ہے۔ حکومت کی عدم توجہی کی وجہ سے چالیس روز بعد بھی یہاں کے متاثرین کل کے ٹھٹھہ اور دادو کے متاثرین کی طرح بے خانماں اور بے یارومددگار پڑے ہیں صوبے مرکز سے امداد مانگتے ہیں تو مرکز ایسے ہی ادھر ادھر دیکھنا شروع کر دیتا ہے جیسے گاؤں میں ایک مہمان گیا تو میزبان اپنی اہلیہ سے مہمان کے سامنے بار بار یہ کہہ رہا تھا مہمان کیلئے کیا پکائیں۔ کبھی دال پکانے کا مشورہ دیتا کبھی سبزی اور کبھی انڈے‘ مہمان نے میزبان کو تذبذب میں دیکھ کر صحن میں کڑکڑ کرتی پھرتی مرغیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ’’پریشان نہ ہوں آپ میرا گھوڑا ذبح کر لیں میں مرغی پر بیٹھ کر چلا جاؤں گا۔‘‘
وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے متاثرین کی امداد کیلئے اے پی سی بلانے کا اعلان کیا ہے۔ اے پی سی امداد کے حوالے سے کیا کرے گی؟ 14 اگست کو میاں نواز شریف‘ وزیراعظم سے ملے نواز شریف نے متاثرین کی امداد کیلئے فنڈز اکٹھا کرنے اور ان کی متاثرین میں شفاف تقسیم کیلئے کمشن تشکیل دینے کی تجویز پیش کی جسے وزیراعظم گیلانی نے نہ صرف سراہا بلکہ کمشن کے ممبران کے نام بھی تجویز کر دیئے۔ گھر پہنچے تو شاید کہا گیا’’ ایہہ توں کی کردتا‘‘ اس کے بعد وزیراعظم نے چپ سادھ لی جو کام فوری طور پر ہو جانا چاہئے تھا لٹکا دیا گیا، چھ دن بعد نواز شریف کی تجویز مسترد کر کے امداد تقسیم کرنے کیلئے کونسل بنانے کا اعلان کیا اس اعلان کو بھی آج پورے 20 دن ہو گئے اس کونسل کا بھی کوئی نام و نشان نہیں۔ اب اے پی سی کے ذمے متاثرین میں امداد کی تقسیم لگانے کا اعلان ہوا ہے دیکھئے اے پی سی کب ہوتی ہے، ہوتی بھی ہے یا نہیں اگر ہوتی ہے تو بھانت بھانت کی بولیا ں بولنے والے بھلا ایک موقف پر کیسے متفق ہونگے۔ اگر اے پی سی بلانی ہی ہے تو قومی حکومت کے حوالے سے بلانی چاہئے۔
حکومت پاکستان کے پاس کھربوں روپے کی امداد پہنچ چکی ہے۔ صوبے مانگتے ہیں تو لیت و لعل اور ٹال مٹول سے کام لیا جا رہا ہے۔ جس کے باعث ذمہ داروں کی نیت خود بخود مشکوک ہو جاتی ہے۔ نواز شریف نے پنجاب کے لئے 100 ارب مانگے ہیں تو وزیراعظم کہتے ہیں ’’100 ارب پنجاب کو دیئے تو آگے کیا کریں گے‘‘ آگے کیا کرنا ہے صوبوں کو تباہی کے تناسب سے فنڈز دے دیئے جائیں کھربوں کے فنڈز سے پنجاب کو ایک کھرب دیتے ہوئے کلیجہ منہ کو نہیںآنا چاہئے۔ خیبر پی کے، بلوچستان اور سندھ کو بھی ان کی ضرورت کے مطابق رقوم دی جائیں۔ پوری دنیا اور پاکستانیوں کی دی ہوئی امداد پر کسی کو سانپ بن کر نہیں بیٹھنا چاہئے۔ صوبوں کو امداد کے حوالے سے وفاقی حکومت جو کچھ کر رہی ہے اس سے محسوس ہوتا ہے کہ وہ صوبوں کو اس تناسب سے فنڈز دے گی جس تناسب سے ایک بڑے ہوٹل کے مالک نے خرگوش اور گائے کا گوشت مکس کیا تھا ایک گاہک صرف خرگوش کا گوشت کھانے جاتا تھا۔ آرڈر دیا تو ڈش خرگوش کے گوشت کی نہیں تھی۔ بیرے سے پوچھا تو اس نے کہا کہ خرگوش کے گوشت میں گائے کا گوشت مکس کیا گیا ہے، گاہک کا سوال تھا کسی تناسب سے بیرے نے کہا برابر برابر۔ گاہک نے کہا ایسا نظر تو نہیںآتا ہے، بیرے کا جواب تھا جناب ایک گائے اور ایک خرگوش، برابر برابر۔
وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے متاثرین کی امداد کیلئے اے پی سی بلانے کا اعلان کیا ہے۔ اے پی سی امداد کے حوالے سے کیا کرے گی؟ 14 اگست کو میاں نواز شریف‘ وزیراعظم سے ملے نواز شریف نے متاثرین کی امداد کیلئے فنڈز اکٹھا کرنے اور ان کی متاثرین میں شفاف تقسیم کیلئے کمشن تشکیل دینے کی تجویز پیش کی جسے وزیراعظم گیلانی نے نہ صرف سراہا بلکہ کمشن کے ممبران کے نام بھی تجویز کر دیئے۔ گھر پہنچے تو شاید کہا گیا’’ ایہہ توں کی کردتا‘‘ اس کے بعد وزیراعظم نے چپ سادھ لی جو کام فوری طور پر ہو جانا چاہئے تھا لٹکا دیا گیا، چھ دن بعد نواز شریف کی تجویز مسترد کر کے امداد تقسیم کرنے کیلئے کونسل بنانے کا اعلان کیا اس اعلان کو بھی آج پورے 20 دن ہو گئے اس کونسل کا بھی کوئی نام و نشان نہیں۔ اب اے پی سی کے ذمے متاثرین میں امداد کی تقسیم لگانے کا اعلان ہوا ہے دیکھئے اے پی سی کب ہوتی ہے، ہوتی بھی ہے یا نہیں اگر ہوتی ہے تو بھانت بھانت کی بولیا ں بولنے والے بھلا ایک موقف پر کیسے متفق ہونگے۔ اگر اے پی سی بلانی ہی ہے تو قومی حکومت کے حوالے سے بلانی چاہئے۔
حکومت پاکستان کے پاس کھربوں روپے کی امداد پہنچ چکی ہے۔ صوبے مانگتے ہیں تو لیت و لعل اور ٹال مٹول سے کام لیا جا رہا ہے۔ جس کے باعث ذمہ داروں کی نیت خود بخود مشکوک ہو جاتی ہے۔ نواز شریف نے پنجاب کے لئے 100 ارب مانگے ہیں تو وزیراعظم کہتے ہیں ’’100 ارب پنجاب کو دیئے تو آگے کیا کریں گے‘‘ آگے کیا کرنا ہے صوبوں کو تباہی کے تناسب سے فنڈز دے دیئے جائیں کھربوں کے فنڈز سے پنجاب کو ایک کھرب دیتے ہوئے کلیجہ منہ کو نہیںآنا چاہئے۔ خیبر پی کے، بلوچستان اور سندھ کو بھی ان کی ضرورت کے مطابق رقوم دی جائیں۔ پوری دنیا اور پاکستانیوں کی دی ہوئی امداد پر کسی کو سانپ بن کر نہیں بیٹھنا چاہئے۔ صوبوں کو امداد کے حوالے سے وفاقی حکومت جو کچھ کر رہی ہے اس سے محسوس ہوتا ہے کہ وہ صوبوں کو اس تناسب سے فنڈز دے گی جس تناسب سے ایک بڑے ہوٹل کے مالک نے خرگوش اور گائے کا گوشت مکس کیا تھا ایک گاہک صرف خرگوش کا گوشت کھانے جاتا تھا۔ آرڈر دیا تو ڈش خرگوش کے گوشت کی نہیں تھی۔ بیرے سے پوچھا تو اس نے کہا کہ خرگوش کے گوشت میں گائے کا گوشت مکس کیا گیا ہے، گاہک کا سوال تھا کسی تناسب سے بیرے نے کہا برابر برابر۔ گاہک نے کہا ایسا نظر تو نہیںآتا ہے، بیرے کا جواب تھا جناب ایک گائے اور ایک خرگوش، برابر برابر۔
No comments:
Post a Comment