About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Tuesday, April 30, 2013

کمانڈو کے بعد۔۔۔؟


30.4.2013
فضل حسین اعوان

کمانڈو کے بعد۔۔۔؟
اجلی ،دھندلی ملی جلی انتخابی مہم پورے پاکستان میں جاری ہے۔ پنجاب میں ذراتیز ہے۔دہشتگردی کے سائے میں ایسے ہی چل سکتی ہے ۔ دہشت گردی آج کا نہیں، اس وقت سے مسئلہ ہے جب جنرل مشرف نے پاک سرزمین، افغانستان پر حملوں کے لئے امریکہ کے حوالے کر دی۔ اس کے بعد پاکستان میں دہشت اور دہشت گردی کی کارروائیوں میں اضافہ ہی ہوا ہے کمی نہیں ہوئی۔ آج ہمیں انتخابی مہم خون افشاں و خوں چکاں نظر آتی ہے۔ جس میں کہا جاتا ہے کہ کچھ پارٹیاں محفوظ اور کچھ زیر عتاب ہیں۔ زیردست پارٹیوں کا گلہ ہے کہ دہشت گرد انہی پر آسمان کیوں توڑ رہے ہیں؟ تین صوبوں میں انتخابی مہم مدہوش، پنجاب میں پرجوش کیوں؟ خود کو لبرل کہلانے والی پارٹیاں پہلے کی طرح اب بھی کہہ رہی ہیں کہ طالبان مسلم لیگ ن، تحریک انصاف جماعت اسلامی اور جے یو آئی پر حملے کیوں نہیں کرتے؟ اب یہ سوال ذرا شدت سے اٹھ رہا ہے۔ الطاف حسین نے تو طالبان کی کارروائیوں سے محفوظ جماعتوں کو منی طالبان قرار دیا ہے۔ اصولی سوال یہ نہیں کہ فلاں پر غضب کیوں نہیں ٹوٹا۔ سوال یہ ہے کہ فلاں پر عذاب کیوں نازل ہو رہا ہے؟ ایم کیو ایم، اے این پی اور پیپلز پارٹی کو ٹارگٹ کیوں کیا جا رہا ہے؟ ۔۔۔یہ تینوں پانچ سال تک اپنے اپنے صوبوں اور مرکز میں برسر اقتدار رہیں۔ مشرف نے جاتے ہوئے دہشت گردی کی جنگ کو جہاں چھوڑا تھا انہوں سے وہاں سے پکڑ کر مزید آگے بڑھایا۔ دیگر جماعتیں جنہیں رائٹٹس کہا جاتا ہے، ان کو اس جنگ پر اثرانداز ہونے کا موقع نہیں ملا۔ آئندہ ن لیگ یا تحریک انصاف اقتدار میں آتی ہیں تو ان کا دہشت گردی کے خلاف جنگ میں موقف سامنے آنے اور عملی اقدامات کے مطابق طالبان اپنا لائحہ عمل ترتیب دیں گے۔ ویسے پی ٹی آئی کو رائٹسٹوں اور لفٹسٹوں میں سے کسی کے ساتھ بھی ایڈجسٹ ہونے میں پرابلم نہیں ہو گا۔ الطاف بھائی اور صدر زرداری کے مابین اعتدال پسند جماعتوں کے اتحاد کی ضرورت پر اتفاق ہوا ہے۔ متحدہ اس حوالے سے اسفند یار ولی سے بھی رابطہ کرنا چاہتی ہے۔ اچھا ہے، بہت اچھا ہے، ان کو متحد ہونا چاہئے۔ کاش یہ تینوں گذشتہ دور میں ایک دوسرے کا ہاتھ خلوص اور نیک نیتی سے تھامے رکھتیں تو کم از کم کراچی کا امن اور روشنیاں لوٹ سکتی تھیں۔ الطاف اور زرداری کے درمیان انتخابی میدان خالی نہ چھوڑنے پر بھی اتفاق ہوا ہے۔ پیپلز پارٹی اور متحدہ بالترتیب 1985ءاور 1993ءکے انتخابات کا بائیکاٹ کرکے اگلے انتخابات تک پچھتاتی اور بائیکاٹ کے فیصلے پر پیچ و تاب کھاتی رہی تھیں۔ کوئی اورتو بائیکاٹ کا سوچے ،ان کے لئے بائیکاٹ سرے سے آپشن نہیں ہے اور یہ تو ان کی لغت سے ہی کٹ چکا ہے۔
طالبان نے کل پھر برملا اعلان کیا ہے کہ گو ان ن لیگ، تحریک انصاف اور جماعت اسلامی سے بھی خیر کی توقع نہیں لیکن وہ ان کو نشانہ نہیں بنائیں گے۔ اس وقت فیصلہ سابق حکمران جماعتوں تک ہی محدود ہے۔۔۔ جن علاقوں میں آج حملے ہو رہے ہیں پاکستان کے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا حصہ بننے کے بعد یہ علاقے مسلسل دہشت گردی کی لپیٹ میں رہے ہیں۔ پنجاب بھی محفوظ نہیں تھا۔ جی ایچ کیو، سری لنکن ٹیم، کامرہ ائیر بیس، آئی ایس آئی کے دفاتر اور گاڑیوں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ انتخابی مہم میں سیاسی سرگرمیوں کو محدود تو کیا جا سکتا ہے کوئی بھی پارٹی ہاتھ پہ ہاتھ دھرے گھروں میں دبک کر نہیں بیٹھ سکتی۔ طالبان تو پہلے ہی اپنے مخالفوں کی تلاش میں ہیں۔ اب ان کے لئے جلسے جلوسوں اور کارنر میٹنگزپر وار کرنا آسان ہو گیا ہے۔ زیر بار پارٹیوں نے اول تو دہشت گردی کے خاتمے کے لئے گذشتہ پانچ سال میں کوئی قابل ذکر کوشش ہی نہیں۔ یہ تو انسداد دہشت گردی بل کو ہی حتمی شکل نہ دے سکیں۔ اگر گذشتہ پارلیمنٹ اور حکومت نے کاﺅنٹر ٹیررازم اتھارٹی کو فعال کیا ہوتا، ایجنسیوں کے مابین رابطوں کو مضبوط بنایا ہوتا تو بھی نتائج معمولی کمی بیشی کے ساتھ وہی ہوتے جو آج سامنے ہیں۔ ایسی جنگیں سخت اقدامات، مربوط پالیسیوں، مضبوط فوج، اسلحہ و گولہ بارود کی بہتات، امریکی امداد اور ڈرون حملوں سے نہیں،اس کے ساتھ پوری قوم کو بھی ساتھ ملانا ہوگا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ پر قوم واضح طور پر تقسیم ہے۔ طالبان سے ایک طرف جتنی نفرت ہے دوسری طرف اتنی ہی محبت بھی ہے۔ ان کو قاتل، اجڈ، گنوار، ظالم کہنے والے موجود ہیں تو ان کو قرون اولیٰ کے سچے پیروکار، راہ راست پر گامزن اور متقی و پرہیز گار قرار دینے والوں کی کمی نہیں۔ ہماری بطور قوم بقا اسی میں ہے کہ ایک فیصلہ کر لیں، مصمم ارادہ باندھ کر ان کی سوچ کو اپنا لیں یا ان کی ذہنیت کو دفنا دیں۔ اگر ہم یونہی تقسیم رہے تو قیامت تک اس قیامت سے نہیں نکل سکیں گے۔ طالبان کی ہٹ لسٹ پر یہ تین جماعتیں تو ہیں ہی مشرف کو بھی انہوں نے معاف نہیں کیا جو پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے موجدو بانی ہیں۔مشرف نے دہشت گردی کی جنگ میں جھونک کر قوم کو ایک دائمی عذاب میں مبتلا کر دیا۔ مشرف نے اور بھی بہت کچھ کیا اس کا نوٹس لیا جا رہا ہے۔ نواز شریف کا تختہ الٹنے اور پاکستان کو دہشت گردی کی جنگ کے بھنور میں پھنسانے اور ڈرون حملوں کی اجازت جیسے جرائم معاف ہو چکے ہیں البتہ ان کا ہر جرم معاف نہیں کیا جا رہا۔ وہ فوج کے راج دلارا ہونے کے زعم میں پاکستان چلے آئے۔ عدلیہ سے جو بھی ممکن ہو سکا ان سے حساب لے رہی ہے جس کا کسی کو وہم و گمان بھی نہیں تھا۔ معاملات اگرقانون کے مطابق چلتے ہیں، ججوں کا تعصب مقدمات پر اثرانداز نہیں ہوتا تو مشرف کیس ہمارے مستقبل کے لئے تابناک اور آمریت کے دروازے ہمیشہ کے لئے بند کر دے گا۔ آئین شکنی، لال مسجد اپریشن، بینظیر اور بگٹی قتل کیسز میں جرائم کے مطابق سزا سنادینے سے ہی جمہوریت کے سر پر تنی بندوق ہٹ جائے گی اور آمریت کی ممکنہ تاریکی چھٹ جائے گی۔ قانون اور انصاف کا ہاتھ ایک آمر کے گریبان پر اس کے سابق ہونے پر ہی سہی، پہنچا تو ہے۔ اس سے ملک و قوم کے روشن مستقبل کے راستے مزید ہموار ہو گئے ہیں۔ گذشتہ پانچ سال قوم پر دہری دہشت گردی مسلط رہی۔ دوسری اتحادی حکومت کی صورت میں، حکمرانوں کا کرپشن ہی پر دھیان اور یہی ان کی ”عظمت“ کا نشان رہا جس سے ان کی کرپشن کے ہمالہ تلے دبا ہر پاکستانی پریشان اور نیم جان رہا۔ نگران سابق حکومت کا ہی تسلسل ہیں۔ اُس یا اِس حکومت کے اثرات کل کوئی بھی حکومت آ جائے ستمبر 2013ءتک بہرصورت رہیں کیونکہ آصف علی زرداری ایوان صدر میں اپنے صدارتی اختیارات انجوائے کر رہے ہونگے۔ عدلیہ کا یہی عزم برقرار رہا توان کے سابق ہوتے ہی وہ آج کے پرویز مشرف بن جائیں گے۔ ایک زرداری سب پہ بھاری۔ کمانڈر کے بعد کس کی باری؟ یہ سوال اب کوئی سوال نہیں رہا۔

Sunday, April 28, 2013

مناظرہ یا مباہلہ ؟

مناظرہ یا مباہلہ ؟28-4-20013           

کالم نگار  |  فضل حسین اعوان


انتخابی مہم اب عروج اور جوبن پر ہے ۔اس میں دہشت گردی اور خونریزی کا فیکٹر بھی نمایاں ہو رہا ہے لیکن جمہوری قوتیں دہشتگردوں کے ایجنڈے کی تکمیل میں بڑے عزم کے ساتھ مزاحم ہیں۔ اے این پی اور متحدہ قومی موومنٹ کو خصوصی طور پر ٹارگٹ کیا جا رہا ہے۔ گزشتہ روز کراچی میں اے این پی کے جلسے پر حملے میں بارہ افراد جاں بحق ہوگئے ایک روز قبل کراچی میں ہی ایم کیو ایم کو چھ نعشیں اٹھانا پڑی تھیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی بھی عسکریت پسندوں کی ہٹ لسٹ پر ہے لیکن وہ ایک بڑی پارٹی ہونے کے باوجود انتخابی مہم محتاط ہو کر چلا رہی ہے۔ دہشتگردی کے خطرات سے دوچار جماعتیں اپنے اوپر ہونے والے حملوں پر غمزدہ ضرور ہیں، خوفزدہ نہیں۔ ان کو انتخابات سے دور رہنے پر مجبور کیا جا رہا ہے لیکن وہ انتخابی مہم میں ڈٹی ہوئی ہیں۔ وہ دہشت گردوں کے تیروں کے سامنے اپنا جگر آزما رہی ہیں۔ انتخابی مہم میں کوئی کجی اور کمی نہیں آنے دے رہیں۔ پاکستان کے ہر حصے میں، ہر پارٹی اپنے اپنے انداز میں کمپین کر رہی ہے۔ اے این پی اور متحدہ کئی علاقوں میں ان ڈور مہم چلا رہی ہیں وقت کا تقاضا بھی یہی ہے۔
مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کی روایتی مہم عروج پر ہے۔ ان کی قائدین پورے ملک میں بڑے بڑے جلسے کر رہی ہیں جس پر دہشتگردی کا نشانہ بننے والی پارٹیاں کچھ بے چینی سی محسوس کرتی ہیں۔ ان کا یہ شکوہ اور گِلا بجا ہے کہ مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی کے قائدین یعنی نواز شریف اور عمران خان اپنے انتخابی جلسوں میں دہشتگردی کے حالیہ واقعات کی مذمت نہیں کرتے، اصولی طور پر ان کو مذمت کرنی چاہئے۔ مذمت نہ کرنے کا ان کے ترجمانوں کے پاس کوئی ڈھنگ کا جواب نہیں ہے، وہ آئیں بائیں شائیں کر کے سوال کو ٹال جاتے ہیں۔ شاید مذمت کر کے وہ حملہ آوروں کو اپنے گھر کا راستہ نہیں دکھانا چاہتے۔
مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی کے جلسے جلوسوں اور ٹی وی چینلز پر جوش و خروش دیکھ کر کچھ لوگ خوش فہمی اور کچھ غلط فہمی کا شکار ہیں کہ پی پی پی نے انتخابی دوڑ سے باہر ہو کر واک اوور دے دیا ہے۔ یقیناً پیپلز پارٹی اپنی پانچ سالہ کارکردگی کا بویا ہی کاٹے گی لیکن وہ انتخابی دوڑ اور میدان سے باہر نہیں ہے۔ بڑے بڑے جلسے کرنا ہی انتخابی مہم نہیں، کارنر میٹنگز اور ڈور ٹو ڈور کنونسنگ بھی مہم کا حصہ ہے۔ پیپلز پارٹی نے کوئی حلقہ خالی نہیں چھوڑا۔ وہ اپنے اتحادیوں سے مل کر الیکشن لڑ رہی ہے۔ اس کے امیدوار اپنے اپنے حلقوں میں سرگرم ہیں۔ جلسے جلوسوں کی کسر پی پی پی میڈیا میں اشتہاروں سے نکال رہی ہے اشتہاری مہم میں بلاشبہ پیپلز پارٹی دیگر جماعتوں سے کہیں آگے ہے۔ جلسے جلوسوں کے تناظر میں پی ٹی آئی نے کسی حد تک یہ تاثر قائم کر دیا ہے کہ اسکا مقابلہ ن لیگ سے ہوگا، ن لیگ نے پی ٹی آئی کو ضرورت سے زیادہ اہمیت دیکر اس تاثر کو مزید تقویت دی ہے۔ البتہ عمومی رائے یہ ہے کہ تحریک انصاف کا گراف انتخابی مہم کے بعد بتدریج بڑھ رہا ہے۔ اس کا سب سے زیادہ نقصان پی پی پی کو تو ہونا ہی ہے، ن لیگ بھی اس سے محفوظ نہیں رہ پائے گی۔ پیپلز پارٹی اقتدار کے بعد جس طرح بدنام ہونے کے ساتھ بے نام ہو رہی تھی اس کے تمام تر ثمرات ن لیگ نے ہی سمیٹنا تھے، اسے ایک بار پھر 1997ءجیسا ہیوی مینڈیٹ ملتا نظر آ رہا تھا جس کی خماری بھی طاری ہو رہی تھی کہ درمیان میں عمران خان آ گئے چنانچہ اب ن لیگ کی 1997ءوالی جے جے کار تو ہونے سے رہی تاہم آج تک کی صورتحال کے مطابق ن لیگ ہی پہلے نمبر پر دکھائی دیتی ہے۔ انتخابات میں ابھی چند دن باقی ہیں اس دوران ہَوا کوئی بھی رُخ اختیار کر سکتی ہے۔ پی ٹی آئی اور ن لیگ کی آپس میں پوزیشن بدل سکتی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کو بجلی کا بحران لے بیٹھا ہے وہ کم از کم اس کے باعث اگلے دس سال تو اُٹھنے کے قابل نہیں رہی بشرطیکہ آنے والے حکمران خود کو کفن چور کے پُتر ثابت نہ کر دیں۔ پیپلز پارٹی کی قیادت میں تبدیلی آنے سے بھی وہ بھٹوز کی پارٹی بن سکتی ہے۔ سیاست میں موروثیت تو نہیں ہونی چاہئے لیکن پی پی پی میں موروثیت بھی اصولی نہیں ہے بھٹو کے اصل وارثوں کے پاس پیپلز پارٹی چلی گئی تو اس میں جان پڑنے کے امکانات موجود ہیں۔
دہری شہریت اور جعلی ڈگریوں کے معاملے میں جہاں مسلم ن کی طرف سے اصولی مو¿قف سامنے آتا رہا ہے، اس نے خود سے ایسے لوگوں سے استعفے لئے، وہیں اس نے ایک بار پھر اپنے آپ کو ایسی ہی دلدل میں پھنسانے کا اہتمام بھی کر لیا ہے۔ اس کی طرف سے بہت سے پرانے لوگوں کو ٹکٹ دے دئیے گئے جن کی جعلی ڈگریوں سے قیادت لاعلم نہیں ہے۔ ن لیگ کو اس حوالے سے سُبکی کا سامنا کرنا پڑے گا یا پھر 1998ءکی تاریخ دہراتے ہوئے سجاد علی شاہ کی جگہ اپنا اجمل میاں لانا پڑے گا کیونکہ سعیدالزماں صدیقی ڈھونڈنا ان کے لئے کوئی مشکل کام نہیں ہے۔
عمران خان نے میاں نواز شریف کو مناظرے کاچیلنج دیا ہے۔ یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے۔ مہذب جمہوری ممالک میں ایسا ہوتا رہتا ہے۔ گلوبل ویلج میں دنیا بش اور اوباما کے مباحثے سُن چکی ہے لیکن یہ مہذب ممالک میں ہوتا ہے، ہم جیسے ممالک میں نہیں جس میں ن لیگ کے ترجمان کہیں کہ بھگوڑے سے مباحثہ نہیں ہو سکتا۔ اس طریقے سے مناظرے سے گریز درست نہیں ہے۔ ہم شاید ابھی تہذیب کے وہ مراحل طے نہیں کر سکے کہ ہمارے قائدین ایک پلیٹ فارم پر بیٹھ کر صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑ ے اور دوسرے کو مطعون کئے بغیر گفتگوکر سکیں۔ عمران کو مقابلتاً مہذب سمجھا جاتا ہے لیکن ان کے اندر سے بھی پاکستانیوں والے اوصاف پورے طریقے سے نکلے نہیںہیں۔ ڈیڑھ دو ماہ قبل اسلام آباد میں ایک اے پی سی کے دوران عمران خان نے میاں نواز شریف سے ہاتھ ملانا بھی گوارا نہیں کیا جبکہ نواز شریف نے تو مسجد نبوی میں ”مشرف “ سے بھی ملاقات کر لی تھی (وہ مشرف کی نقل کرنے والا اداکار تھا)۔ انتخابی مہم میں سفید کو سیاہ، کوّے کو سفید بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ گِٹے جوڑ کر جھوٹ بولا جاتا ہے۔ ہم میں سے ہر کوئی اپنے لیڈر کو صادق اور امین ماننے اور دوسروں کو فاسق اور فاجر قرار دینے پر مُصر ہے۔ یہ رویہ ہمارے باشعور ہونے تک یونہی برقرار رہے گا۔ہم اسی جمہوریت کے اسیر اور انہیں سیاستدانوں کے رحم و کرم پر رہے توہمارے باشعور ہونے میں شائد کئی صدیاں لگ جائیں۔ ہمارا ہر سیاستدان اور پارٹی قائد باور کراتا ہے کہ وہی صادق و امین، محب وطن، قوم سے مخلص اور عوام کا خیر خواہ ہے۔کیوں یہ لیڈر مناظرے اور مباحثے کے بجائے آپس میں مباہلہ کر لیں۔ جس سے سچ اور جھوٹ کھل کر سامنے آ جائے گا اور قوم کی فریب کاروں سے بھی جان چھوٹ جائے گی ۔ خود کو پارسا ثابت کرنے کے لئے ہر پارٹی کی پہلے، دوسرے اور تیسرے درجے کی قیادتوں کے ساتھ ساتھ کارکنوں کے درمیان بھی مباہلے ہو جائیں تو کیا ہی اچھا ہو۔

Thursday, April 25, 2013

وہ دانائے سبل ختم الرسل


وہ دانائے سبل ختم الرسل

کالم نگار  |  فضل حسین اعوان
03 فروری 2013 0
صحرائے عرب کے سنگلاخ پہاڑوں اور ریگزاروں میں کھلنے والے رحمت و عظمت کے پھول کی خوشبو نے کائنات کو معطر کر دیا۔ شافعِ محشر ﷺ پوری انسانیت کی رہبری و رہنمائی کیلئے تشریف لائے۔ سیدالبشر‘ نبی مکرم ﷺ کا مقام و مرتبہ نور و بشر اور علمِ غیب کی مباحث سے کہیں بلند تر ہے۔ بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر --- کہہ دیا اور مان لیا تو مزید بحث کی کوئی گنجائش نہیں رہ جاتی۔ ہمیں بحث و تمحیص میں اُلجھنے کے بجائے کردار و عمل پیہم کی ضرورت ہے۔ جس میں ہم اپنے آباﺅ اجداد سے بہت پیچھے ہیں۔ حضرت علامہ نے درست موازنہ کیا :
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر
ہم خدا سے شکوہ کناں تو رہتے ہیں لیکن اپنی اطوار اور انداز پر غور کرتے ہیں‘ نہ اپنے اعمال‘ افعال اور کردار کا جائزہ لیتے ہیں‘ یہ بھی نہیں سوچتے کہ ہم غیروں کے رحم و کرم پر کیوں ہیں؟ انکے غیظ و غضب کا نشانہ کیوں بن رہے ہیں‘ اس قدر لاچار، بے بس‘ بدنام اور بے نام کیوں ہیں؟ وجہ بڑی سادہ سی ہے‘ ہمارے آبا جب سر پر کفن باندھ کر دنیا میں اسم محمد سے اُجالا کرنے نکلتے تو پہاڑ انکے راستے کی دیوار بنتے‘ نہ سمندر و دریا رکاوٹ‘ وہ طوفان کی مانند بڑھتے چلے جاتے۔ ہم حیران ہیں کہ بدر کی طرح آج فرشتے ہماری مدد کو کیوں نہیں آتے ہیں؟ فرشتے آج بھی مدد کیلئے کمربستہ ہیں‘ آپ معرکہ بدر تو برپا کریں‘ ہماری خواہش ہے ہم گھروں میں سر بسجود رہیں‘ فرشتے ہمارے دشمنوں پر ابابیل بن کر ٹوٹ پڑیں اور کامرانی کاپرچم ہمیں تھما دیں :
فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو
اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی
فضائے بدر پیدا کرنے کیلئے صاحب لولاک، سرور کشور رسالت کے نقشِ پا سے رہنمائی اور دانائی حاصل کرنا ہو گی۔ خدا تک رسائی کیلئے اسکے محبوب کا دامن تھامنا ہو گا :
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
آج ہماری دنیا میں ذلت و رسوائی‘ پستی و بے توقیری کی ایک ہی وجہ ہے کہ ہم نے اسوہ¿ رسول سے منہ موڑ کر ان سے رشتہ جوڑ لیا جن کے بارے میں قرآن اور صاحبِ قرآن کا ارشاد ہے‘ ”یہ تمہارے دوست نہیں ہو سکتے“ --- جب ہم نے اپنا قبلہ ہی بدل لیا تو صاحبِ کعبہ سے شکوہ و شکایت کیوں؟ ہم شمشیر و سناں سے تائب‘ طاﺅس و رباب کے قائل ہو کر رہ گئے‘ تن آسانی کیلئے اپنا ضمیر بیچا‘ جاہ و جلال بیچا‘ خودی اور خودداری بیچی‘ شجاعت و کمال بیچا، عظمت و وقار بیچا پھر اپنے حال پر نظر دوڑاتے ہیں تو دل کے کسی نہاں خانے میں پڑی چنگاری‘ تابناک ماضی کی یاد دلاتی ہے تو دل سے نکلے ہوئے الفاظ آنسو بن کر بہنے لگتے ہیں :
اے خاصہ خاصان رسل وقت دعا ہے
اُمت پہ تیری آن عجب وقت پڑا ہے
جو دین بڑی شان سے نکلا تھا وطن سے
پردیس میں وہ آج غریب الغربا ہے
اُمت پہ جو عجب وقت پڑا اور دین غریب الغربا ہوا‘ اس میں قصور کس کا؟ جب اُمت مباحات سے کنارہ کرکے خرافات میں کھو جائے‘ خرابات کو اپنا لے‘ آمادہِ فسادات ہو‘ تو ٹھنڈی ہَواﺅں اور منزہ فضاﺅں کی توقع عبث ہے۔ کیا ہم نے دین کو اوجِ ثریا تک پہنچانے میں اپنا کردار ادا کیا؟ وہ کردارکیا ہے :
قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
دہر میں اسم محمد سے اُجالا کر دے
نبیوں کے تاجور‘ محبوب اکبر و عزوجل‘ شہنشاہ خوش خصال‘ پیکر حسن و جمال‘ دافعِ رنج و ملال نے بگڑے ہوئے معاشرے کو چند سال میں راہِ راست پر لا کر دنیا کا رہبر و رہنما بنا دیا۔ صاحب التاجِ والمعراج نے دنیا کو ایک دستور‘ ضابطہ حیات اور آئین دیا اس ہستی اطہر و مطہر کی زندگی کا ایک ایک لمحہ ہمارے لئے منزل عظمت و عزیمت کا نشان ہے :
وہ دانائے سبل ختم الرسل مولائے کُل جس نے
غبار راہ کو بخشا فروغ وادی سینا
ہم گرد و غبار نہیں‘ انسان ہیں‘ اشرفِ مخلوق ہیں‘ اس نورمجسم کے اُمتی جو طواف کریں تو حرم بھی وجد میں آ جائے‘ ہماری ٹھوکر میں دنیا سما سکتی ہے‘ پہاڑ رائی بن سکتے ہیں‘ ضرورت نبی محترم و مکرم کے قدموں کی دھول کو سُرمہ بنا لینا ہے۔ خیرالبشر کے اسوہ کو اپنا لینا ہے۔ ہم پاکستانی سید عرب والعجم کا نام لے کر نکلیںتو اپنا کھویا ہوا مقام‘ عزت و وقار حاصل کر سکتے ہیں۔ اسلام کا پرچم بلند کر سکتے ہیں۔ اس کیلئے سر پر کفن باندھنا ہوگا‘ جان ہتھیلی پر رکھنا ہو گی‘ سربکف ہونا ہو گا‘ اسلام صرف نماز اور روزے میں ہی پوشیدہ نہیں۔ 
یہ شہادت گہِ اُلفت میں ہے قدم رکھنا
لوگ آساں سمجھتے ہیں مسلماں ہونا
ہمارے مصائب، مسائل، پستی، پسماندگی، درماندگی‘ دکھوں‘ دردوں کا ایک درماں ہے‘ دامنِ مصطفیٰ ﷺ تھام لیں‘ درِ خیرالانعام سے وابستہ ہو جائیں‘ ان کی رحمتوں سے پیوستہ ہو جائیں۔
یا صاحب الجمال و یا سیدالبشر
من و جہک المنیر لقد نورالقمر
لایمکن الثناء کما کان حقہ
بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر

مشرف کرگل اور کشمیر


مشرف کرگل اور کشمیر

کالم نگار  |  فضل حسین اعوان
05 فروری 2013 0
یوم یکجہتی کشمیر 1990ءسے پاکستان میں بڑے جوش و ولولے سے منایا جاتا ہے لیکن اصل مسئلہ وہیں ہے جہاں تقسیم کے موقع پر تھا۔ بانی پاکستان کی طرح کوئی حکمران مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے کمٹڈ نظر نہیں آیا۔ قائداعظم تو پاکستان کی شہ رگ کو دشمن کے قبضہ سے جنگ کے ذریعے چھڑانا چاہتے تھے۔ ایسی خواہش جمہوری اور آمر حکمرانوں کے دل میں کبھی چنگاری سے شعلہ نہ بن سکی ۔ بیانات کی حد تک البتہ ہر خود کوحاکم فاتح کشمیر ثابت کرتا ہے۔ کشمیر پر اپنے قبضے کو مضبوط بنانے کے ساتھ ساتھ بھارت نے پاکستان کو دولخت کیا اور سیاچن کے ایک حصے پر بھی تسلط جما لیا۔ ہم کشمیر کیا آزاد کراتے آدھا پاکستان گنوا بیٹھے اور سیاچن کے ایک بڑے رقبے سے بھی محروم ہو گئے۔ 65ءمیں فوج کے کشمیر کی طرف بڑھتے قدم روکے گئے تو 99ءمیں کرگل پر قبضے کو اس وقت کے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کا جرم بنا دیا گیا۔ یہی واقعہ میاں محمد نواز شریف کے اقتدار سے محرومی اور جنرل مشرف کے زمامِ اقتدار سنبھالنے کا سبب بنا۔ کرگل اپریشن کے بارے میں بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ کئی کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جنرل مشرف کی ”ان دی لائن آف فائر“ کو بڑی شہرت ملی اب جنرل شاہد عزیز کی کتاب مارکیٹ میں آئی ہے جو کرگل اپریشن کے دوران آئی ایس آئی میں انلسز ونگ کے سربراہ تھے بعدازاں بڑے عہدوں پر تعینات کئے گئے۔ ان کو آرمی چیف بنائے جانے کی امید تھی ،وہ بر نہ آئی تو مشرف بُرے دکھائی دینے لگے۔ کتاب کے شائع ہونے والے مندرجات اور جنرل شاہد عزیز کے انٹرویوز میں جنرل مشرف کے خلاف زہریلا پراپیگنڈا پایا جاتا ہے۔ فوجیوں میں کتاب کے رجحان کی حوصلہ شکنی تو نہیں کی جانی چاہئے لیکن صاحب کتاب ہونے کے شوق میں رازوں سے پردہ کشائی سے ملک بالخصوص جو فوج کی بے آبروئی ہوتی ہے ،اس پر سخت ایکشن کی ضرورت ہے۔
کرگل پر کچھ بھی لکھا جائے اور جتنا بھی لکھا جائے ،سچائی سامنے نہیں آ سکتی۔ بہت کم لکھنے والے ایسے ہی جو غیر جانبداری کا دامن تھامے رکھتے ہیں۔ میاں نواز شریف کے حامی اپنے تبصروں میں کیا مشرف کے نقطہ نظر کو اجاگر کریں گے؟ مشرف کے حمایتی بھی کرگل اپریشن میں میاں نواز شریف کو گھسیٹنے پر پورا زور لگا دیتے ہیں۔ ایسے میں کرگل اپریشن پر پڑے غبار کا ہٹ جانا ممکن نہیں ہے۔ مشرف کے حامی اسے کامیابی اور مخالف ناکامی سے تعبیر کرتے ہیں۔ سچائی صرف کمشن ہی سامنے لا سکتا ہے۔ سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کسی بھی کمشن کے مخالف ہیں۔ ان کی مخالفت کے پہلو کو بھی یکسر مسترد نہیں کیا جا سکتا۔ وہ کہتے ہیں ” کمشن بنا تو کئی فوجی رازوں سے پردہ اٹھ سکتا ہے“۔ کیوں نہ کرگل کرشمے کو ایک فوجی کمشن دیکھ لے۔ یہ کمیشن حاضر سروس فوجیوں پر مشتمل ہو۔ ریٹائر ہونے والوں کی حب الوطنی پر سوال نہیں شبہ تو نہیں کیاجا سکتا تاہم اکثر اس سیاست کا حصہ بن چکے ہیں جو فوج میں رہتے ہوئے انہیں بدبودار نظر آتی ہے۔ یہ سیاسی وابستگیوں کا شاخسانہ ہے کہ بات کرتے ہوئے سیاسی حریف ان کا نشانہ اور جس کے حامی ہوں اس کی ہر ادا معصومانہ ٹھہرتی ہے۔ جنرل ضیاءالدین آرمی چیف بنے، جنرل مشرف اور ان کا ساتھی جرنیلوں نے ان کی دال نہ گلنے دی۔ جنرل ضیاءالدین کیسے مشرف کو معاف کر سکتے ہیں؟ ۔وہ کمشن کے قیام کے سب سے بڑے حامی ہیں۔جنرل ضیاءالدین نے فوج کو بہت بڑے کلیش سے بچایا۔ان کے اس کردار سے ان کی عزت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ وہ بھی اپنے آرمی چیف بننے کو انا کا مسئلہ بنا لیتے تو فوج تقسیم ہو کے بکھر جاتی۔ آ پس میں لڑ کر ٹوٹ جاتی، انہوں نے مزاحمت نہ کرکے قابل فخر اور قابل رشک کردار ادا کیا، جس کی کبھی تحسین نہیں کی گئی شاید ہمیں اس کا ادراک ہی نہیں ہے۔
جنرل شاہد عزیز ہی کیا بہت سے دوسرے بھی تذکرہ کرتے ہیں کہ کرگل اپریشن کا علم صرف میجر جنرل جاوید حسن، جنرل محمود اور جنرل عزیز تھا۔ اسے جنرل مشرف پر الزام کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ کرگل ایک اپریشن تھا، کھلی جنگ نہیں۔ اس کو جس قدر بھی اخفا میں رکھا جاتا بہتر تھا۔ اگر اس سے آئی ایس آئی کے میجر جنرل شاہد عزیز جیسے لوگ بھی بے خبر تھے تو اس کا کریڈٹ اپریشن کے خالقوں کو جاتا ہے۔
مشرف کہتے ہیں ”میں نے کرگل پر سیزفائر کرانے کے لئے نواز شریف سمیت کسی کی منتیں نہیں کیں، بھارت امریکہ کے ذریعے پاکستان پر دباﺅ ڈال رہاتھا کیونکہ ہم نے بھارت کی گردن پکڑی ہوئی تھی جب کہ کرگل آپریشن پر ایٹمی جنگ کا خطرہ نہیں تھا۔ نواز شریف نے مجھ سے پوچھا ضرور تھا کہ کیا ہمیں کرگل سے واپس آنا چاہیے تو میں نے فوجی اعتبار سے اپنی پوزیشن بتا دی کہ ہم کمانڈنگ پوزیشن میں ہیں، 5 میں سے4چوکیوں پر ہمارا قبضہ ہے اور وہاں پر ایک گولی تک نہیں چلی لیکن ایک جگہ انہوں نے بھاری فورس کی مدد لے کرہمارا قبضہ چھڑوالیا ہے ہم ٹیکنیکل طورپر بہترین پوزیشن میں تھے“۔
 کسی کرنل (ر) اشفاق حسین نے انکشاف کرتے ہوئے کہا ہے” جنرل پرویز مشرف کرگل آپریشن کے ذمہ دار تھے کرگل مشن کے دوران پرویز مشرف نے خود کنٹرول لائن پار کی اور بھارت کے زیر قبضہ علاقے میں ایک رات گزاری 28 مارچ 1999ءکو جنرل پرویز مشرف ایک ہیلی کاپٹر کے ذریعے لائن آف کنٹرول کے اس پار 11 کلومیٹر تک علاقے میں گئے اور ”موستکر“ کے ایک مقام پر کرنل امجد شبیر نے ان کو اسکارٹ کیا“۔
اس کو کیا کہیے ! آرمی چیف اگر دشمن کے مقبوضات میں جاکر اپنے فوجیوں کے ساتھ پوری رات مورچوں میں رہے تو یہ انکی جرات اور شجاعت پر دلیل ہے ،اس سے بھی یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ یہ مقبوضہ علاقہ کس قدر پاک فوج کے مضبوط ہاتھوں میں تھا کہ آرمی چیف کو وہاں جانے میں کوئی جھجک نہیں نہ ہوئی ۔ کرنل موصوف اپنی کتاب ”وٹنس ٹو بلنڈر“ مزید لکھتے ہیں،”پرویز مشرف اس کارروائی کو کیسے شاندار کہتے ہیں جب موسم سرما کے دوران وہاں بھارتی فوجی موجود ہی نہیں تھے“۔what a non sense بھارت نے سیا چن پر قبضہ کیا تو کیا وہاں پاک فوج موجود تھی ؟ بھارت نے پاک فوج کی غفلت سے فائدہ اٹھایا ۔پاک فوج نے بھارت کو کرگل میں اسی طرح غافل پایا تو سیکڑوں میل علاقے پر قبضہ کرلیا۔ایک خفیہ اپریشن کی اس سے بڑی کامیابی کیا ہوسکتی ہے ! بھارت کے سابق آرمی چیف جنرل وی کے سنگھ نے پاک فوج کے سابق سربراہ جنرل پرویز مشرف کے 1999ءمیں کرگل میں بھارتی حدود میں داخل ہونے اور وہاں رات گزارنے پر انکی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ایک فوجی کمانڈر کی جرات مندی کا عکاس ہے۔کرنل صاحب کسی کی محبت اور مشرف سے نفرت میں مسلمہ فوجی اصولوں سے بھی انحراف کررہے ہیں شاید ان کا تعلق فوج کے غیر عسکری شعبے سے ہو۔
 مشرف کرگل اپریشن کوکامیاب قرار دیتے ہیں۔جس کے ذریعے کشمیر کے ایک بڑے رقبے پر پاک فوج نے قبضہ کرلیا تھا۔کرگل پر قبضہ برقرار رہتا تو پاکستان کی آزادیِ کشمیر اور سیاچن سے بھارتی فوج کے انخلا کے معاملات پر پوزیشن مضبوط ہوتی۔ قدرت ایسے مواقع بار بار نہیں دیتی۔ یہ بہترین موقع گنوا دیا گیا۔ ضرورت اس کے تعین کی ہے کہ یہ موقع کس کی نااہلی اور بزدلی سے ضائع ہوا۔ کم از کم یہ تو قوم کے علم میں لایا جائے اس کے لئے جو بھی مخالفت کرے ایک کمشن ضرور تشکیل دیا جانا چاہئے جس کا مینڈیٹ صرف اس معاملے تک محدود ہو۔

صدر‘ گورنرز استعفیٰ کیوں دیں؟


صدر‘ گورنرز استعفیٰ کیوں دیں؟

کالم نگار  |  فضل حسین اعوان
07 فروری 2013 0
وہ انتخابات جن کے انعقاد پرہنوز غیر یقینی کا غبار چھایا ہوا ہے‘ ان میں کون سی پارٹی اپنی کارکردگی کے باعث پستی کی بستی میںگُم ہو جائے گی یہ سِکسٹی ملین ڈالر کا سوال نہیں رہا۔اُ س پارٹی کی یہ تمنائے ناتمام ہے کہ الیکشن کا انعقاد ممکن نہ رہے ۔اول تو آئین میں دی گئی گنجائش کے مطابق اسمبلی کی مدت ایک سال بڑھا دی جائے۔ اس دوران مزید پانچ سال کے لئے اگست میں موجودہ صدر کو اسی اسمبلی اور پارلیمنٹ سے منتخب کرا لیا جائے۔ جس طرح جنرل مشرف صاحب کو ق لیگ کی حکومت نے کیا تھا۔ کیا وہ پانچ سال پورے کر پائے؟ بہرحال خواہش تو خواہش ہوتی جس کو ہر کوئی اپنے خوابوں کی تعبیر سمجھ کر اسے عمل کے سانچے میں ڈھالنے کی پوری کوشش کرتا ہے۔ مرکز والوں کی حسرت ہے کہ وہ نہ ہوں تو کوئی بھی کیوں ہو۔ تین سال کے نگران آئیں یا بھاری بوٹوں والے‘ جو بھی ہو انتخابات کے جھنجھٹ کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اپنی باری لے لی‘ جیبیں بھر لیں۔ جائیدادیں بنا لیں جو سات پشتوں کے لئے کافی ہیں۔ دوسری طرف ن لیگ کو اپنی کارکردگی پر تو مان نہیں ،اس کا اپنے حریفوں کی غلطیوں پر دھیان ہے۔ پانچ سال تک جمہوریت ایسے ہاتھوں میں رہی کہ عوام کا جمہوریت پر سے اعتماد متزلزل ہو گیا حالانکہ جمہوریت کا اس میں کیا قصور بقول وزیراعلیٰ شہباز شریف ”مسائل کی ذمہ دار جمہوریت نہیں‘ اسے چلانے والا کرپٹ ٹولہ ہے“۔ اس ٹولے میں ن لیگ کی ٹولی بھی شامل ہے ،جس نے جمہوریت کو اس طرح استعمال کرنے والوں کا ہاتھ نہیں روکا، خود بھی اتنے پارسا نہیں،یونیفکیشن کے گھوڑے کچے دھاگے سے نہیں نوٹوں کی پائل سے بندھے ہیں ۔ ن لیگ ہی نہیں دیگر کئی پارٹیوں اور حلقوں کو بھی یقین ہے کہ الیکشن ہوئے تو ن لیگ ہی کے سر پر ہی ہما بیٹھے گا۔ اس لئے انتخابات کے انعقاد کا جس تیزی سے موقع قریب آرہا ہے اس سے زیادہ تیزی کے ساتھ لاوارث پارٹیاں ن لیگ کے گرد بھنبھنانے لگی ہیں۔ ان میں ق لیگ کا ہم خیال گروپ اور جماعت اسلامی کچھ زیادہ ہی سرگرداں ہیں جو بغیر اتحاد کے الیکشن لڑ کر پورے ملک سے ایک بھی سیٹ نہیں جیت سکتیں۔ ن لیگ کاسہ گدائی میں تھوک بھی دے تو چار چار، پانچ پانچ سیٹیں خیرات میں مل جائیں گی ، ایک آدھ سینیٹری بھی ۔ جب ایک آزاد پارٹی بنائی ہے تو کسی کے ساتھ اتحاد کی ضرورت کیوں؟ پورے ملک میں انقلاب لانے کی تاب نہیں تو کسی دوسری پارٹی میں ضم ہو جائیں۔ الیکشن کمشن کے پاس رجسٹرڈ سیاسی پارٹیوں کی تعداد ڈیڑھ سو سے تجاوز کر چکی ہے۔ انتخابات سے قبل چھوٹی موٹی پارٹیاں‘ بڑی پارٹیوں کی آغوش میں بیٹھ جانے کے لئے بے تاب ہوتی ہیں۔ چند سیٹیں مل جائیں تو اس مقام پر پہنچانے والی پارٹی کو اگلی مدت تک بلیک میل کرتی رہتی ہیں۔ اب ایک بار پھر اتحادوں کی وبا پھیلنے والی ہے۔ اس مرض سے ایک ہی صورت نجات پائی جا سکتی ہے کہ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرنے والی پارٹیوں کو الیکشن کمشن ایک یہ نشان الاٹ کر دے۔ پھر اسمبلی میں جاکر بلیک میل کرنے والوں سے اٹھارویں ترمیم خود نمٹ لے گی۔
عوامی وعمومی رائے یہ ہے کہ مشرف کے دور سے لال مسجد آپریشن اور پاکستان کو امریکہ کے پاس گروی رکھنے کے اقدامات کو نکال دیا جائے تو وہ معیشت کو مضبوطی کے حوالے سے بہترین دور تھا۔ مشرف آئے تو ڈالر 62 اور گئے تو بھی 62 روپے کا تھا۔ پٹرول کی قیمت 54 اور 28 روپے نمبر کے درمیان اوپر نیچے ہوتی رہی۔ پرویز الٰہی کے اقوال سے مشرف کو وردی سمیت دس بار منتخب کرانے کی تکرار نکال دی جائے تو ان کی وزارت اعلیٰ کا دور بھی مثالی تھا۔ پیپلز پارٹی کے کرتا دھرتاﺅں کی روح تک اتری کرپشن کا عنصر نکال دیا جائے تو دوبارہ کھوئی ہوئی مقبولیت اور احترام حاصل کر سکتی ہے۔ ن لیگ کی قیادت کے دماغ سے تکبر اور گردن سے اکڑنکل جائے تو اسے مقبولیت کے لئے جعلی سروے کرانے کی ضرورت نہ پڑے ۔
کرپشن میں نام پیدا کرنے کے باعث پانچ سال تک اتحادی رہنے والے پیپلز پارٹی کی کشتی سے چھلانگیں لگا رہے ہیں اور تکبر کا شکوہ کرنے والے بھی ٹکٹ کے حصول کے لئے عمرہ جاتی کو اپنی درگاہ سمجھ کر وہاں کچے دھاگے سے بندھے ننگے پا¶ں حاضری دینے کو سعادت باور کراتے ہیں۔ یہ وہی ہیں جو میاں نواز شریف کے جدہ کی فلائٹ میں بیٹھتے ہی مشرف کے جہاز میں سوار ہو گئے تھے ۔اب وہ میاں محمد نواز شریف اور شہباز شریف کے جانثار بنے ہوئے ہیں۔ اگر یہ واقعی جانباز ہیں تو ان کو ٹکٹ نہ دے کر آزمائیں اور ٹکٹ پارٹی کے خدمت گزاروں کو دیں۔ جعلی ڈگریوں والے آج نہیں تو کل پکڑے جائیں گے۔ اُس وقت کی بدنامی سے بہتر ہے کہ جعلی ڈگری ہولڈرز کی فلٹرنگ کر دی جائے۔
ڈاکٹر طاہر القادری کے دھرنے کو دشنام دینے والوں نے خود اسلام آباد میں چودھری نثار کی سربراہی میں دھرنی دی‘ دھرنی کیا ڈوب کے مرنی تھی جس میں 13جماعتوں نے حصہ لیا جن کے درسے اقتدار کی خیرات ملتی ہے، ان کے ہاں 13 کا ہندسہ منحوس ہے۔ چلئے پیپلز پارٹی کے مخالفین 36 سال بعد 9 (پی این اے) سے تیرہ ہو گئے جو ن لیگ کو مشکل میں دیکھ کر نو دوگیارہ ہونے میں دیر نہیں کریں گے۔ طاہر القادری کے پاس اپنی بات کرنے، اس کو دھماکہ خیز بنانے اور طوفان اٹھانے کا کوئی پلیٹ فارم نہیں تھا تو انہوں نے لانگ مارچ اور دھرنے کا آپشن اختیار کیا۔ دھرنی والوں کے پاس قومی اسمبلی اور سینٹ ہے ان کو احتجاج، دھرنے اور مارچ کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اور جو مطالبات کئے گئے وہ کون پورے کرے گا؟ ہم نے جمہوریت جن سے سیکھی وہاں الیکشن کرانے کے لئے نگران حکومتیں نہیں بنتیں پاکستان میں تو نگران آکر الیکشن کرائیں گے۔ ہمارے ہاں نگرانوں کا انتخاب جمہوریت کے لئے نزاع کا عالم بن گیا ہے۔ عجب قسم کے مطالبات اور بیانات سامنے آرہے ہیں۔ سونامی خان کے لئے زرداری صاحب کی ایوان صدر میں موجودگی ناقابل برداشت ہے۔ زرداری صاحب کی ایوان صدر میں اپنی آئینی مدت کے اختتام تک موجودگی کی وکالت میاں محمد نواز شریف فرما رہے ہیں، جنہوں نے باقاعدہ گو زرداری گو کی مہم چلائی اور جس دھرنی سے چودھری نثار علی خان کھسک گئے اس میں بھی شرکاءگو زرداری گو کے نعرے لگاتے رہے۔
 اب ن لیگ کو زرداری صاحب کے انتخابات کے دوران صدر رہنے پر تو اعتراض نہیں البتہ اس کو زرداری صاحب کے اور ان سے بھی قبل کے نامزد کردہ گورنروں کی موجودگی پر تحفظات ضرور ہیں۔ مرکز کے تعینات کردہ افسروں کی دیانت پر شبہ ہے۔ یہی کام سب سے بڑے صوبے میں خود بھی کیا ہے۔ جن لوگوں کو صدر کی موجودگی میں الیکشن پسند نہیں۔ جن کے گورنروں اور افسروں کے تقرر پر تحفظات ہیں وہ سڑکوں پر آکر چھتوں پر چڑھ کر دہائی نہ دیں آئین میں ترمیم کرنے کی کوشش کریں۔ جمہوریت اگر ڈی ریل ہوئی‘ انتخابات کی منزل کھو ٹی ہوئی تو اس میں ڈاکٹر طاہر القادری اور اپنی باری لے کر جمہوریت کے ثمرات سے سیر ہونے والوں کی طرح وہ بھی اتنے ہی ذمہ دار ہوں گے جو یہ کہتے پھرتے ہیں الیکشن سے قبل فلاں بھی جائے، فلاں بھی جائے۔ اب بتائیے صدر گورنروں کو گھر کیوں بھجوائیں گے صدر کو آخر کون استعفیٰ دینے کو کہے گا اگر صدر کو کوئی استعفیٰ دینے پر مجبور کرے گا تو الیکشن اس کی مجبوری نہیں ہوں گے۔ اس لئے یہ استعفیٰ دے وہ استعفیٰ دے کی ڈفلی بجانے والے اپنی راگنی کسی اور وقت کے بچا کے رکھ لیں، الیکشن ہونے دیں۔ جمہوریت جیسی بھی ہے اسے چلنے دیں۔ زرداری صاحب اور ان کے گورنر اسی جمہوریت کی عنایت اور عطا ہیں جس سے ن لیگ، عمران لیگ اور دیگر کو والہانہ عقیدت ہے۔ اگر مشرف صاحب بااختیار صدر اور مرضی کی نگران حکومت بنوانے کے باوجود اپنی پروردہ ق لیگ کو جتوانے سے قاصر رہے تو کوئی اور کس باغ کی مولی ہے جو انتخابات پر اثرانداز ہو کر کسی پارٹی کی جھولی میں جیت کی نعمت ڈال سکے۔ باقی کسی بھی افسر کے ممنون ہونے اور بے ضمیر ہونے میں بڑا فرق ہے کوئی بھی ملازم زرخرید نہیں ہوتا۔ ایسا ہوتا تو ضیاءالحق اپنے محسن کا تخت الٹا کر ان کو تختے پر اور پرویز مشرف اپنے مربی میاں محمد نواز شریف کو وزیراعظم ہا¶س سے ہتھکڑیاں لگا کر جیل اور بعدازاں جدہ نہ بھجواتے۔ استعفوں کا مطالبہ کرنے والے سسٹم پر اعتماد ووٹر پر اعتبار کریں اور الیکشن کے دن خود جاگیں اور کارکنوں کو بھی آنکھیں کھلی رکھنے کی تلقین کریں۔ 

جنگلا بس ادھورا منصوبہ‘ پورا افتتاح


جنگلا بس ادھورا منصوبہ‘ پورا افتتاح

کالم نگار  |  فضل حسین اعوان
12 فروری 2013 0
لاہور میں اپنی مثال آپ ایک اچھوتے منصوبے میٹرو بس سروس کے ادھورے منصوبے کا مکمل افتتاح دو روز قبل 10فروری 2013ءکو بڑی دھوم دھام ، شان و شوکت، متوالوں کے پُرجوش بھنگڑوں ، دھمالوں میں ہوا ۔ اس موقع پر لاہور کو بینرز ہورڈنگز او ر پھول کلیوں سے دلہن کی طرح سجانے کی کوشش کی گئی تھی۔ اس منصوبے کے آغاز سے ہی اسکی ہجو اور رجز کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ جو ہنوز جاری اور بدستور چلتا رہے گا۔ موٹروے‘ پیلی ٹیکسی اور سستی روٹی کے منصوبوں پر آج بھی تنقید ہو رہی ہے اور تحسین بھی۔ مسلم لیگ ن والے جس منصوبے کو ایک کارنامہ اور ملکی ترقی کا راز قرار دے رہے ہیں۔ سیاسی حریف اسے جنگلا بس سروس کا نام دے کر بھڑاس نکال رہے۔ جنگلا بس سروس کا نام میاں محمد شہباز شریف کے پیشرو چودھری پرویز الٰہی نے دیا۔ اس منصوبے کو لاہور کی تقسیم کی سکیم بھی کہا جاتا ہے۔ چودھری پرویز الٰہی کا اصرار ہے کہ ان کا انڈر گراونڈ ریلوے منصوبہ بہترین تھا جسے اس لئے دفن کر دیا گیا کہ اسکی شروعات کا کریڈٹ ان کو جانا تھا۔ میٹرو بس منصوبے کے خالق انڈر گراونڈ ریلوے کو اخراجات کے حوالے سے سفید ہاتھی قرار دیتے ہیں۔ انڈر گراونڈ ریلوے 240 ارب روپے سے مکمل ہونا تھا جبکہ میٹرو بس اس کے مقابلے میں بقول شہباز شریف انتہائی کم 30 ارب روپے سے مکمل ہوا۔غیر جانبداری اور ایمانداری سے جائزہ لیا جائے تو انڈر گراونڈ ریلوے کا کوئی مقابلہ ،موازنہ اورمتبادل نہیں ہے۔ محض اخراجات کی وجہ سے اسے مسترد کرنا افسوسناک ہے۔ انڈر گراونڈ ریلوے تکمیل کے بعد سفر کا سستا ترین ذریعہ ہوتا۔ اسکی افادیت تو مسلمہ تھی۔ میٹرو بس سروس جہاں جہاں چل رہی ہے۔ اسکے نیچے کی زمین کا کوئی مصرف نہیں ہے۔ انڈر گراونڈ ریلوے منصوبہ بن جاتا تو اس کے اوپر ضرورت کے مطابق میٹرو بس کا منصوبہ کبھی بھی بن سکتا تھا۔ جہاں تک اخراجات کی بات ہے تو یہ وقتی مشکل ہوتی ہے۔ لوگوں نے موٹروے کی اسکے اخراجات کے باعث ہی بھرپور مخالفت کی تھی۔ اگر موٹروے کے مخالفین کے اعتراضات پر میاں نواز شریف سرنڈر کر جاتے تو پاکستان ایک بہترین منصوبے سے محروم رہ جاتا اور وہ رقم جو موٹروے پر صرف ہوئی وہ انہی جیبوں اور توندوں اور بنک اکاونٹس میں اتر جاتی جن میں رینٹل منصوبوں کے اربوں روپے ہضم ہو گئے۔ وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف اس منصوبے کو عظیم ترین قرار دیتے ہوئے دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ مختصر ترین مدت اور انتہائی کم لاگت سے مکمل ہوا۔ جس کو کم لاگت کہا جا رہا ہے، سابق وزیراعلیٰ چودھری پرویز الٰہی ا سے سرمائے کا ضیاع سمجھتے ہیں ۔وہ کہتے ہیں کہ اس پر 30 نہیں 70 ارب روپے لاگت آئی۔جنگلا بس نے پنجاب کو کنگلا کردیا۔ سیاست میں ایک دوسرے کی تمبی اسی طرح اتارنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ الزاماتی سیاست سے عام آدمی کنفیوژ رہتا ہے۔ وہ حقیقت کی تہہ تک نہیں پہنچ پاتا۔ البتہ جہاں تک مختصر ترین مدت میں تکمیل کے دعوے کا تعلق ہے تو اس کی حقیقت پر کوئی گردوغبا ر نہیں ہے۔ صرف بس چلا دینے سے منصوبہ مکمل نہیں ہو جاتا۔ کیا بس چلنے کے بعد لاہور پہلے والی شکل میں آگیا ہے؟ چلتی میٹرو بڑی دلکش اور سہانی لگتی ہے۔ نیچے اور اردگرد سے گزرنے والے اب بھی مشکلات میں گھرے ہوئے ہیں۔ میٹرو روٹ جنت نشاں ہے تو ارد گرد کے راستے جہنم فشاں بنے ہوئے ہیں۔گیارہ ماہ میں منصوبے کی تکمیل کی کیا منت مان رکھی تھی۔ میٹرو منصوبہ‘ انڈر گراونڈ ریلوے کے مسترد ہوتے ہی شروع ہو جاتا تو وہ افراتفری نہ ہوتی جس کے باعث لاہور 11 ماہ عذاب میں پھنسا رہا اور اب بھی یہ عذاب ٹلا نہیں۔ پورے چار سال کیا اسی انتظار میں رہے کہ آخری 11 ماہ میں بلے بلے کرائیں گے؟ میٹرو بس کے روٹ کے اردگرد اب بھی کام جاری ہے۔ بجلی کی سیڑھیاں کہاں چل رہی ہیں؟۔جگہ جگہ ٹریفک روک کرجنگلوں کی آرائش جاری ہے اگر یہ کام ہنگامی بنیادوں پر الیکشن سے قبل مکمل نہ کرائے گئے تو ادھڑے اور کٹے پھٹے لاہور کی رفوگری میں آنے والی حکومت شاید دلچسپی نہ لے۔بہرحال پرویز الٰہی کے انڈر گراونڈ ریلوے منصوبے سے بڑے کیڑے نکالے گئے۔ میٹرو بس منصوبے سے بھی مکوڑے نکالے جا رہے ہیں۔ انڈر گراونڈ ریلوے منصوبہ دفن ہوا۔ میٹرو بس عملی شکل اختیار کرکے سامنے ہے۔ اس میں کوئی جھول ہے‘ بدنظمی یا کرپشن ہوئی ہے تو عدالتیں موجود ہیں‘ نئی حکومت اگر کسی دوسری پارٹی کی بنی تو وہ بھی ایکشن لے سکتی ہے۔ اب سب مل کر اسے سلسلے کو کامیاب بنائیں۔ پرویز الٰہی کے 1122 اور وارڈن سسٹم کی طرح۔۔۔ میاں شہباز شریف کہتے ہیں کہ موقع ملا تو کراچی اور دوسرے شہروں میں بھی ریپڈ بس سروس کا اجرا کریں گے۔ یہ اچھی خواہش ہے۔ دوسرے شہروں میں بھی سفر کی ممکنہ حد تک بہترین سہولتیں میسر ہونی چاہئے لیکن اس کیلئے باقاعدہ پلاننگ کی جائے‘ افراتفری‘ ہلے گلے اور پھڑ لﺅ پھڑ لﺅ کی نوبت نہ آنے دی جایا کرے۔ اب پرویز الٰہی صاحب بھی غصہ تھوک دیں۔ میٹرو بس سے جتنے لوگوں کو اچھے سفر کی سہولت مل رہی ہے وہی غنیمت ہے‘ انکی حکومت آئیگی تو وہ اپنی مرضی کے منصوبے بنا لیں۔ انڈر گراونڈ ریلوے بنانے کا شوق ہے تو لاہور کے اردگرد سرکولر ریلوے بنا دیں۔ میٹرو منصوبے کو اسی طرح چلنے دیں اس کا وہ حشر نہیں ہونا چاہئے۔ جو میاں صاحب نے وزیر آباد کارڈیالوجی ہسپتال کا کیا۔ پرویز الٰہی کے دور میں تعمیر ہونیوالا ہسپتال بھائیں بھائیں کر رہا ہے۔ چلو انڈر گراونڈ ریلوے نہ سہی شہباز شریف نے میٹرو بس چلا دی ورنہ یہ 30 یا بقول پرویز الٰہی 70 ارب چند بڑے لوگوں نے ہضم کرلیے تھے۔شہباز شریف نے ادھورے منصوبے کا مکمل افتتاح کردایا ، خوش گمانی رکھیںیہ کبھی مکمل بھی ہو جائے گا۔

انتخابات کا انعقاد یقینی


انتخابات کا انعقاد یقینی

کالم نگار  |  فضل حسین اعوان
14 فروری 2013 0
حکومت کی آئینی مدت ختم ہونے میں چار ہفتے رہ گئے۔ ہنوز انتخابات کا شیڈول دیا گیا نہ نگران سیٹ اپ کے حوالے سے حکومت اپوزیشن اتفاق رائے سامنے آیا۔ انتخابات ہوں گے، نہیں ہوں گے، ہوئے تو کون جیتے گا؟ ایسے ابہام سے معمور سوالات زبان زدعام ہیں۔ جمہوریت کی کلی کومسلنے میں آمر حکمران اور جمہوری سیاستدان برابر کے شریک رہے ہیں۔ آج کی جمہوریت کو اگر پھول قرار دیا جائے تو اس کو چلانے والوں کو بھنورا قرار دئیے بنا کوئی چارہ نہیں، جو پھول کا رس چوس لیتا ہے ۔ جمہوریت میں بذاتِ خود کوئی خامی نہیں مگر جن کے یہ بس پڑی ہے انہوں نے اسکی شکل بگاڑ دی۔ ماضی میں ایسے معاملات ہوتے تو عام اور خواص فوج کی طرف دیکھا کرتے تھے۔ اب بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو جمہوریت کا حلیہ بگاڑنے والوں سے تنگ آ کر آمریت کو آوازیں دے رہے ہیں لیکن فوج اس طرف آنے پر تیار نہیں۔ ایک رائے یہ ہے کہ جنرل کیانی نے اپنے کام سے کام رکھا، فوج کا جو اصل کردار ہے اسکی طرف توجہ مرکوز کرنے کی کوشش کی، خود کو سیاست میں الجھایا نہیں۔ میمو گیٹ جیسی سُبکی بھی طوہاً و کرہاً پی گئے۔ میمو سکینڈل کے مرکزی کردار حسین حقانی پاکستان سے واپسی کا وعدہ کر کے گئے تھے اب صریح انکاری ہیں، کہتے ہیں ان کی جان کو خطرہ ہے۔ ان کو پہلے ایوان صدر، پھر وزیراعظم ہاﺅس نے پناہ دی۔ جنرل شجاع پاشا کیلئے ان کو کہیں سے بھی اُٹھوا لینا مشکل نہیں تھا لیکن ایسا نہیں ہُوا، اب تو وہ بھی ریٹائر ہو گئے۔ حقانی صاحب کیلئے ایوان صدر اور وزیراعظم ہاﺅس کے دروازے کبھی بند نہیں ہوئے پھر ان کو خطرہ کس سے ہے؟ ان کی ٹال مٹول سے میمو سکینڈل کی حقیقت کوئی راز نہیں رہ جاتی۔ جنرل کیانی اس سب کو دل میں تورکھا، دل پر نہیں لیا۔
دوسری رائے یہ ہے کہ ملک تاریکیوں کی پستی میں گر گیا۔ مہنگائی، بے روزگاری، اداروں کی بربادی، اقربا پروری، رشوت، لاقانونیت، بجلی و گیس کی قلت، نیز کونسا بحران ہے جس میں ملک و قوم مبتلا نہیں۔ ان تمام بحرانوں کی بنیاد محض کرپشن ہے، اوپر سے نیچے تک کرپشن، لاکھوں، کروڑوں، اربوں، کھربوں کی لوٹ مار، بدعنوانی اور بے ایمانی، جو جمہوریت کے نام پر ہو رہی ہے۔ ایسے میں فوج کی خاموشی معنی خیز ہے۔ دوسری رائے کے حامل افراد جنرل کیانی پر طعنہ زنی کرتے ہیں۔ پہلی رائے کے حامل ان کو پیشہ ور فوجی اور عسکریت میں ماہر، جغرافیائی سرحدوں کا محافظ اور مجاہدِ اعظم قرار دیتے ہیں دوسری رائے والے طعنہ زن رہتے ہیں، مذاق اڑاتے اور بُرے ناموں سے پکار کر دل کا اُبال نکالتے ہیں۔ کئی نے جنرل باجی کا نام دے رکھا ہے۔ ایک جرنیل نے محض نیشنل سکیورٹی کونسل کی بات کی تو وزیراعظم محمد نواز شریف اس پر دھاڑے، آنکھیں دکھائیں اور استعفیٰ طلب کر لیا، وہ خاموشی سے گھر چلے گئے تو ان کو جنرل زنانی کہا گیا۔ نواز شریف نے جب یہی کلیہ اپنے آخری آرمی چیف پر آزماتے ہوئے مونچھوں کو ان کے بغیر ہی تاﺅ دیا تو وہ جنرل طوفانی بن کر ان پر چڑھ دوڑے۔ ناموں سے یاد آیا ایک صوبائی وزیر کو استانی شاہ کہا جاتا تھا انہوں نے شاید اپنے حلقے کی ہرکُڑی کو استانی لگوا دیا تھا۔ ویسے ذوالفقار علی بھٹو اپنے آرمی چیف کو جنرل منکی کہا کرتے تھے۔ ایک بار اس فرمانبردار جرنیل نے بھٹو صاحب کا اچانک سامنا ہونے پر جلتا سگریٹ پتلون کی جیب میں ڈال لیا۔ بھٹو صاحب نے ان کی مونچھوں کی چلمن سے جھانکتی ہوئی دھویں کی لکیر دیکھی یا جیب سے، برملا فرمایا :
General you are burning whole army
اور پھر، اور پھر ---- موقع ملتے ہی اس جرنیل نے اُس جمہوریت کا پودا اکھاڑ دیا جسے کچھ لوگ شجر سایہ دار اور کچھ کھجور کے درخت سے تشبیہ دیا کرتے تھے جس کا بھوک میں پھل اور تپتی دھوپ میں سایہ دور ہوتا ہے۔ اس جرنیل کو کوڑے کھانے اور جیلوں کی صعوبتیں سہنے والے جیالے ان کی آنکھوں کے عدم توازن کے باعث اپنے دل کا غبار نکالنے کیلئے” کانا “ بھی کہا کرتے تھے۔ ان دنوں ایک لطیفہ مشہور ہوا ،جنرل صاحب نے کسی دوست سے پوچھا کہ کیا واقعی میری آنکھیں ہیما مالنی سے ملتی ہیں تو خوشامد سے دور دوست نے جواب دیا، جناب! یہ تو آپس میں بھی نہیں ملتیں۔ آمدم برسر مطلب، آج کی فوجی قیادت نے بھی شاید ایوب، ضیا اور مشرف جیسی اقتدار میں آنے کی خواہش کو پال رکھا ہو ۔اس آتش آرزو پرپانی چیف جسٹس افتخار محمد چودھری یہ کہ کر پھیر دیتے ہیں کہ کوئی غیر آئینی اقدام برداشت نہیں کیا جائے گا اور پھر 3 نومبر کا وہ فیصلہ بھی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہے ،جو جسٹس افتحار محمد چودھری کی سربراہی میں پانچ ججوں نے حالتِ محصوری میں دیا جس میں جنرل مشرف کی ایمرجنسی کے اقدام کو غیر قانونی قرار دیا گیا تھا۔اس فیصلے پر وقت کا پانسا پلٹتے ہی عمل بھی ہوا تھا۔
میرا جن احباب سے واسطہ پڑتا ہے ان میں سے کوئی بھی انتخابات کے انعقاد کو یقینی قرار نہیں دیتا۔ اینکر، تجزیہ نگار اور عام لوگ بھی انتخابات کے انعقاد سے مایوس نظر آتے ہیں لیکن مجھے انتخابات کا بروقت انعقاد دو اور دو چار کی طرح کلیئرکٹ نظر آتا ہے۔ کوئی حالات کی ناسازگاری کا جواز تلاش کرے یا پہلے احتساب، اصلاحات اور پھر انتخابات کا راگ الاپے، کسی کی دال نہیں گلنے والی۔ اس کا سب سے بڑا سبب چیف جسٹس کی تمام تر معاملات آئین اور قانون کے مطابق جاری رکھنے کی کمٹمنٹ ہے۔ ان کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے طاہرالقادری کی الیکشن کمشن کے خلاف رٹ بغیر سنے بد نیتی پر مبنی قرار دے کر خارج کردی کہ اس کا مقصد انتخابات کو موخر کرانا ہے۔ چیف الیکشن کمشنر فخرالدین جی ابراہیم بھی انتخابات کا بروقت انعقاد چاہتے اور اسکی تیاریوں کیلئے سرگرم ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ دونوں حضرات مصلحت نام کی کسی چڑیا سے واقف نہیں ہیں۔ دونوں ہی نہ کسی بڑے سے بڑے ادارے اور بھاری بھرکم شخصیات سے خائف ہیں نہ ان کے” کانے“ یعنی ممنونِ احسان ہیں۔ ایک محترم جرنیل کو جنرل باجی کہنے والے ان کی مجبوری کو سمجھیں، ان کو اکسا کر وہ کیوں ان پر آرٹیکل6 لاگو کرانا چاہتے ہیں؟

میٹرو بس، شٹل ٹرین ۔۔۔ مزید کی ضرورت


میٹرو بس، شٹل ٹرین ۔۔۔ مزید کی ضرورت

کالم نگار  |  فضل حسین اعوان
19 فروری 2013 0
مہم جوئی کا کوئی خاص شوق نہیں۔ ہفتے کے روز سارا دن بارش ہوتی رہی اس لئے روٹین کی صبح اور پھر شام کو واک کا موقع نہ ملا۔ اتوار کو ہفتہ وار چھٹی کے روز واک سے بھی ناغہہوتا ہے ۔ چونکہ ہفتے کا دن خالی گیا تھا اس لئے سوچا میٹرو بس پر سفر کیوں نہ کر لیا جائے۔ نزدیکی سٹیشن ایک گھنٹے کی پیدل مسافت پر ہے۔ یہ چونکہ مفت بَری کا آخری دن تھا اس لئے جائزہ لینے کی کوشش کی کہ مالِ مفت کے ساتھ ہم پاکستانی کیسے نمٹتے ہیں۔ گھر آیا سولہ سترہ سالہ بھانجا بھی ساتھ چل پڑا۔ فیصل ٹاﺅن سے ماڈل ٹاﺅن، منہاج القرآن کے سامنے سے ہوتے ہوئے ماڈل ٹاﺅن پارک اور پھر ماڈل ٹاﺅن موڑ سٹیشن تک ایک گھنٹے میں پہنچ گئے۔ ماڈل ٹاﺅن پارک سے گزرتے ہوئے 10، 10 روپے کا ٹکٹ لینا پڑا جو 4 جنوری تک پانچ روپے تھا۔ پنجاب حکومت نے تمام تاریخی مقامات، پارکوںاور سیرگاہوںپر لگائے گئے ٹکٹ ختم اور پارکنگ فیس ختم کر دی ہے۔ ہسپتالوں میں بھی پارکنگ فری ہے۔ ماڈل ٹاﺅن سوسائٹی کی سیرگاہ پر 10 روپے ٹکٹ اور 20 روپے پارکنگ فیس لی جاتی ہے۔ اس رقم سے شاید ذمہ دار ایک اور سوسائٹی بنانا چاہتے ہوں۔
ماڈل ٹاﺅن موڑ سٹیشن پر شاہدرہ کی طرف جانے والوں کا رش زیادہ دوسری طرف کم تھا۔ پورے راﺅنڈ کا پروگرام تھا یہاں سے گجومتہ پھر شاہدرہ اور واپس کلمہ چوک۔۔۔ سٹیشن پر پہنچتے ہی جو بس آئی اس میں اڑھائی سو کے قریب انسان پیک تھے۔ ایک دو کو سٹیشن پر موجود گارڈ نے اتارا اور اتنے ہی گھس اورگھسڑ گئے۔ اس کے بعد دوسری بس 20 منٹ کے وقفے سے آئی۔ دو منٹ رُکی، مزید سواری کی گنجائش نہیں تھی ہارن دیا اور چل دی۔ دوسری طرف ہر دو تین منٹ بعد بس آتی اور جاتی رہی۔ البتہ 20 منٹ کے بعد بس ہر منٹ پر آ نے لگی، چوتھی بس میں گھسنے کا موقع مل گیا۔ جیم پیک، رش، گھڑمس، سانس لینا بھی دشوار، مہم جوئی میں ایسا ہوتا ہی ہے۔ گجومتہ آخری سٹیشن تک دو اترے تو چار سوار ہو گئے۔ ایک بس سے مسافر اترے تو چند ایک کے سوا مفت سفر کے مزے لینے والے دوسری کی طرف لپکے۔ دوسرے پلیٹ فارم پر جانا آسان نہیں تھا۔ پلیٹ فارم پر جانے کیلئے واک تھرو گیٹ سے ایک ایک کو گزرنا ہوتا ہے۔ دو منٹ بعد اڑھائی تین سو بندے آئیں گے تو ہزار بارہ سو کی لائن تو مستقل لگی رہے گی۔ ایسا ہی یہاں تھا۔ سوچا پچھلے سٹیشن پر چلے جائیں۔ دُلو خورد پر بھی لائن لگی تھی لیکن مختصر سی، پچاس ساٹھ لوگ ہوں گے۔ انتظامیہ بڑی مستعدی سے وقفے وقفے سے لائن حاضر، مفت بَروں کو پلیٹ فارم میں ایک ایک کو جدید واک تھرو گیٹ سے گزار رہی تھی۔ چونکہ دوسرا ہی سٹیشن تھا اس لئے رش نہ ہونے کے برابر تھا۔ گجومتہ سے سیٹ بائی سیٹ مسافروں کو بٹھا کر بس روانہ کی جاتی تھی اس کے بعد آنے والے دو تین سٹیشنوں سے پھر رش، گھڑمس اور جیم پیک۔ شاہدرہ جانے کا ارادہ ترک کر کے قینچی پر اترنے کا فیصلہ کیا۔ اترنے کیلئے منیر نیازی کے بقول دو نہیں تین دریاﺅں کا سامنا تھا۔ گیٹ پر پہنچنا، بس سے نکلنا اور پلیٹ فارم تک پہنچنے تک تین دریا آتے تھے۔ اس سٹیشن پر سواریوں کو اتارنے اور چڑھانے والا مددگار موجود نہیں تھا۔ چڑھنے والے قوتِ بازو اور پیٹ سے بس میں جگہ بنانے کیلئے کوشاں، اُترنے والا کیسے اُترے؟ پلیٹ فارم کی طرف کھلنے والے گیٹ بھی نازک اندام جو مسافروں کے ساتھ زیادہ زور آزمائی نہیں کرتے، تھوڑا سا کھسک کر راستہ دے دیتے ہیں ،جڑوں سے البتہ نہیں اکھڑتے۔ مفت سفر کا تجربہ تلخ، دلچسپ اور یادگار رہا۔ چار گھنٹے بعد گھر پہنچے تو جسم کے انگ انگ کی وہی حالت تھی جو مفت سفر کرنے والوں نے کچھ بسوں اور ان سے منسلک تنصیبات کی کر دی ہے۔
میٹرو سسٹم کو بہترین قرار دیا جا سکتا ہے، بس سٹیشن پر پہنچنے اور روانہ ہونے سے قبل ٹرین کی طرح ہارن دیتی ہے۔ اس کی آمد اور روانگی سے قبل نسوانی آواز میں لاﺅڈ سپیکر پر ریلوے سٹیشن اور ائر پورٹوں کی طرح اعلان ہوتا ہے۔ بس کے اندر بھی آنے والے سٹیشن کا اعلان کیا جاتاہے۔ اندر دو جگہ پر ٹی وی سکرین پر بس کی پوزیشن دکھائی جاتی ہے۔ سٹیشنوں پر صفائی کیلئے خاکروب تو ہیں ہی وردی پوش خواتین بھی جنگلوں اور شیشوں کی صفائی پر مامور ہیں۔ ٹکٹنگ کے بجائے ٹوکن سسٹم اچھوتا تجربہ ہے ۔ ہمارءدفتر کے ساتھی جناب کرم علی نے مفت سہولت ختم ہونے کے بعد سفر کیا ،ان کے مطابق اب پہلے جیسا رش نہیں ،ٹوکن لے کر سوار ہوتے ہیں ۔یہ ٹوکن اترتے وقت جمع کرانا ہوتا ہے ۔پلیٹ فارم پر ٹوکن ہولڈر ہی داخل ہو سکتا ہے۔ پلیٹ فارم پر مسافروں کی لائن بنانے اور ان کو بس میں اُس کی باری پر بٹھانے والاپولیس مین موجود ہے، بس کے اندر بھی ڈسپلن کے لئے گارڈ تعینات ہے۔ وزیر اعلیٰ شہباز شریف کا ایک ماہ کیلئے مفت سفر کافیصلہ بہتر تھا۔ اس پر محض ایک ہفتہ عمل ہوا۔ رعایت اپنی” آئینی مدت “کے تین ہفتے قبل ختم کر کے 20 روپے ”فلیٹ ریٹ“ کرایہ مقرر کردیا گیا۔ یہ حکومت پنجاب کا بروقت اور بہترین فیصلہ ہے ۔اس کے بعد سے لوگ سکون سے سفر کر رہے ہیں۔
کراچی، لاہور، راولپنڈی جیسے شہروں میں ٹریفک کے مسائل واقعی بہت گھمبیر ہیں۔ بنکاک کبھی اس سے بھی سنگین مسائل سے دوچار تھا، آٹھ گھنٹے گاڑیاں پھنسی رہتیں۔ کراچی ، لاہور فیصل آباد جیسے شہروں میں حکومتی کاوش سے ٹریفک کے مسائل کم ضرور ہوئے ہیں ختم نہیں۔ لاہور میں پاکستان ریلویز کو شاہدرہ سے کوٹ لکھپت تک شٹل ٹرین چلانے کی ہدایت کی گئی ہے یہ پیپلز پارٹی کی حکومت کا انتخابی و سیاسی فیصلہ ہی سہی اس سے لوگوں کو ریلیف ضرور ملے گا۔ مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی چلو پوائنٹ سکورنگ کیلئے ہی سہی عوام کو کوئی سہولت تو دے رہی ہیں۔ شٹل ٹرین کی چند دنوں میں رواں دواں ہونے کی نوید سنائی گئی ہے۔ میٹرو بس اور شٹل ٹرین سے بھی ٹریفک کے مسائل ختم نہیں ہوں گے۔ وقتی طور پر کم ضرور ہو جائیں گے ان سے بیس 25سال کیلئے نجات پانے کیلئے بنکاک کو رول ماڈل بنانا ہو گا۔ آج وہاں کہیں سے بھی چند منٹ میں ایک کونے سے دوسرے کونے تک بلا رکاوٹ رسائی ہو جاتی ہے۔ قبل ازیں رش کے باعث لوگوں کی فلائٹیں چھوٹ جاتیں اور ملازم دفاتر تک چھٹی کے وقت پہنچا کرتے تھے۔ تھائی حکومت نے ایلی ویٹر روڈ بنا دئیے۔ سڑک کے اوپر سڑک یعنی دو منزلہ سڑک اور اس کے اوپر ٹرین چلا دی۔ ایسا ہی ہمارے ہاں کراچی، لاہور جیسے شہروں میں ہو تو لوگ سکھ کا سانس لیں گے۔ یہ مشکل ضرور ہے ناممکن نہیں اور اس کے سوا اب کوئی چارہ بھی نہیں ۔ اگر ہمیں وقت کا احساس اور اس کی قدر ہے تو ایسا کرنا پڑے گا۔

زرداری بدستور صدر، شہباز وزیراعظم


زرداری بدستور صدر، شہباز وزیراعظم

کالم نگار  |  فضل حسین اعوان
21 فروری 2013 2
کچھ حلقوں کی خواہش اور کوشش کے باوجود انتخابات کا التوا کا مشکل نظر آتا ہے۔ موجودہ اسمبلیوں کی مدت میں اضافے کا امکان ہے نہ دو تین سال کے عبوری سیٹ اپ کا اندیشہ۔ فوج کے اقتدار میں آنے کا تو پہلے بھی خدشہ نہیں تھا نہ جنرل کیانی کے آرمی چیف ہوتے ہوئے آئندہ کوئی خطرہ ہے۔ وہ اسی سال گھر کو سدھار جائیں گے۔ اگلی جمہوریت جنرل راشد محمود کے رحم و کرم اور ٹمپرامنٹ پر ہو گی۔ جنرل کیانی نے بہت سے دل دہلا اور دل دکھا دینے والے معاملات پر بھی” ٹھنڈ “رکھی۔ میمو سکینڈل سے زیادہ فوج کی کیا سبکی ہو سکتی ہے۔ ملک کرپشن کی دلدل میں ایسا دھنسا کہ ملکی معیشت بھنور میں پھنس گئی اس سے بحرانوں کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوا جس نے ملک و عوام کو اپنے شکنجے میں جکڑ لیا۔ قومی وقار اور خود مختاری مشرف دور کی طرح ”گروی“ رکھی جاتی رہی۔ لائن آف کنٹرول پر بھارتی فوج کی جارحیت سے گذشتہ چند ہفتوں میں 4 فوجیوں کو شہید کر دیا گیا۔ راستہ بھٹکے ایک جوان کو شناخت کرکے قتل کیا گیا۔ بھارت کے اس غیر انسانی رویے کے باوجود بھارت کو پسندیدہ ترین ملک کا درجہ دینے کے ہمارے حکمرانوں کے عزم میں کمی نہیں آئی۔ حفیظ شیخ کی جگہ لینے والے سلیم مانڈوی والا اس معاملے میں کچھ زیادہ ہی پھرتی دکھا رہے ہیں۔ حکومتی گورو کئی بار کہہ چکے ہیں کہ بھارت کو پسندیدہ ترین قوم کا درجہ دینے پر فوج کو اعتراض نہیں۔ فوج کی جانب سے ایسے بیانات کی کبھی وضاحت نہیں کی گئی۔ جب آپ ایک ملک کو پسندیدہ ترین قرار دیتے ہیں تو اس کے ساتھ پھر کیسا تنازع اور کیسی کشیدگی !۔ اگر فوج بھی دشمن کو پسندیدہ ترین سمجھنے پر تیار ہے تو پھر خطے میں آپ کا کوئی اتنا بڑا دشمن نہیں ہے جس کے لئے اتنی بڑی فوج کی ضرورت ہو۔ بری، بحری اور فضائی افواج کی تطہیر کرتے ہوئے صرف حکمرانوں کی خدمت گزاری کے لئے عملہ رکھ لیا جائے۔ موجودہ بھاری بھر کم دفاعی بجٹ پسماندگی، خواندگی دور کرنے کے کام آئے گا۔
خدا خدا کرکے حکمران پارٹیوں نے اپنے اقتدار کی مدت پوری کر لی۔ اگر ایک سال کے لئے ایسے حالات کا جواز پیش کر کے آئین میں دی گئی رعایت کو بروئے کار لاتے ہوئے اسمبلیوں کی مدت ایک سال بڑھا دی جاتی ہے تو کچھ پارٹیاں اس کی تحسین کریں گی جو تحسین نہیں کرتیں اعتراض ان کو بھی نہیں ہو گا۔ ایک پارٹی تو لگتا ہے بڑی منصوبہ بندی سے اسمبلیوں کی مدت بڑھانے کا جواز پیدا کرنے کے لئے حالات کی سازگاری کی کارسازی کر رہی ہے۔ کراچی اور کوئٹہ میں قیامت برپا ہے ایسے میں وزیر داخلہ بیرونی دوروں میں مصروف ہیں لیکن الیکشن کے التوا کی کسی کی امید برآنے کی توقع نہیں ہے۔ انتخابات کے التوا کی راہ میں چیفس رکاوٹ ہیں۔ چیف الیکشن کمشنر، چیف جسٹس اور چیف آف آرمی سٹاف ہر صورت بروقت انتخابات کے لئے کمٹڈ ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ انتخابات ہوں گے، ضرور ہوں گے اور بروقت ہوں گے۔ ایران میں تو جنگ کے دوران بھی الیکشن ہو گئے تھے۔ الیکشن کے التوا کے حامی جس کو حالتِ جنگ کہتے ہیں اس کا پورے ملک پر اطلاق نہیں ہو سکتا۔ ویسے بھی ملک دہشت گردی کی لپیٹ میں تو ہے حالت جنگ میں نہیں۔ جن لوگوں نے حالت جنگ دیکھی ہے ان سے پوچھا جا سکتا ہے، بہرحال انتخابات ہوں گے۔ آج تک کی صورتحال کے مطابق انیس بیس کے فرق کے ساتھ وہی پارٹیاں اقتدار میں آئیں گی جو آج ہیں۔ آصف علی زرداری اگلے پانچ سال کے لئے بھی صدر ہوں گے۔ جی ہاں! ایسا ہی ہو گا۔ ان کو امریکہ صدر بنوائے گا نہ فوج۔ ان کو مفاہمتی پالیسی اسی عہدے پر متمکن رکھے گی جس کے خالق وہ خود ہیں۔ مسلم لیگ ق کا پتہ کٹے گا تو نہیں البتہ پہلے والی سج دھج قائم نہیں رہ سکے گی۔ یہ گذشتہ انتخابات کے مقابلے میں ایک چوتھائی نشستیں بھی لے جائے تو بڑی بات ہو گی۔ اس خلا کو تحریک انصاف پورا کرے گی۔ تحریک عمران کو تحریک قادری کی حمایت حاصل ہو جائے اور ق لیگ بھی ان سے اکٹھ کر لے تو بھی یہ اتحاد زیادہ سے زیادہ اتنی ہی سیٹیں حاصل کر سکے گا جتنی ق لیگ نے 2008ءکے انتخابات میں حاصل کی تھیں۔ مرکز کی مایوس کن کارکردگی کے باعث انتخابی نتائج میں ن لیگ کو معمولی برتری حاصل ہو سکتی ہے۔ ہیوی مینڈیٹ کی امید نہیں، مرکز میں حکومت سازی کیلئے ن لیگ کو پیپلز پارٹی کے تعاون کی محتاجی ہوگی۔ یہ تعاون زرداری صاحب اپنی مفاہمتی حکمت عملی کے تحت فراہم کریں گے۔ ن لیگ پیپلز پارٹی کو نظر انداز کرکے دیگر پارٹیوں کی مدد سے حکومت بناتی ہے تو پی پی حالات کو نوے کی دہائی کی سطح پر لانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑے گی، اُن حالات میں ن لیگ اور پی پی کو دو دو بار اقتدار ملا اور چاروں ان کی مدت ادھوری رہی۔ الیکشن کے بعد پی پی ن لیگ اتحاد یا دونوںکا مخلوط حکومت بنانا اچنبھے کی بات نہیں،2008 کے بعد بھی تو مرکز اور پنجاب میں دونوں اقتدار میں شراکت دار تھیں۔شہباز شریف ہفتے میں تین بار زر بابا اور چالیس چوروں کے ورد کی تسبیح پڑھتے ہیں اس سے لگتا ہے کہ وہ کرپشن کے بادشاہوں سے ہاتھ نہیں ملائیں گے۔ یہ سب سیاسی شعبدہ بازی اور بازی گری ہے۔میاں شہبازشریف سے کوئی پوچھے کہ جب ن لیگ نے زرداری سے مفاہمت کی،مرکز میں وزارتیں لیں اور پنجاب میں دیں تو اس وقت کیا زرداری صاحب کی شہرت ولی اللہ کی تھی؟ زرداری صاحب کی یہی شہرت اُس وقت بھی تھی ۔جو اُس وقت تھی وہی شہرت آج بھی ہے۔ اگر اُس وقت اتحاد ہوگیا تو اب بھی ہوجائے گا اور یہ اتحاد شاید مروجہ جمہوریت کے مفاد میںہی ہوگا عوام کے مفاد میں ہو نہ ہو۔ مسلم لیگ ن حکومت میں آتی ہے تو وزیراعظم نواز شریف ہوں گے یا شہباز شریف،اس حوالے سے ابھی سے چہ میگوئیاں ہورہی ہیں۔ میاں نواز شریف کی ان باتوں سے لوگوں میں مایوسی پھیل رہی ہے کہ نوے دن میں مسائل حل نہیں ہوسکتے۔ اس میں بھی شک نہیں کہ مسلم لیگ ن کا ووٹ بینک میاں نواز شریف کے دم قدم سے ہی اپنی جگہ قائم ہے۔ ووٹر ووٹ نوازشریف کو دیناچاہتا ہے لیکن حکمرانی شہباز شریف کی پسند کرتا ہے۔پیپلز پارٹی کے بگاڑے ہوئے معاملات اور اجاڑے ہوئے حالات سدھارنے کیلئے جنگی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہوگی۔ ہر کام کی شروعات بنیادوں سے ہوتی ہے شہباز شریف اوپر سے کام شروع کرکے مزید اوپر لے جاتے ہیں۔ یہ کام بے بنیاد ہوںیا کمزور بنیادوں والے البتہ آپ کے سامنے منصوبے مکمل صورت میں موجود ہوتے ہیں۔ بجلی اور گیس کے بحرانوں پر قابو پانے،ریلوے پی آئی اے،سٹیل مل اور دیگر اجڑے ہوئے اداروں کو آباد کرنے کیلئے شہباز شریف جیسا شخص ہی کار آمد ہو سکتا ہے۔میاں نواز شریف دل چھوٹا نہ کریں پارٹی سربراہ کی حیثیت سے تمام معاملات پر آج کی طرح ان کا ہی کنٹرول ہوگا۔ اگر پارٹی حیرت انگیز کامیابی حاصل کرتی ہے تو بڑے میاں صاحب صدر بھی تو بن سکتے ہیں۔

مفاہمانہ مخاصمت


مفاہمانہ مخاصمت

کالم نگار  |  فضل حسین اعوان
24 فروری 2013 0
 انتخابات ہوںگے، نہیں ہوںگے، اس بحث کا موسم لَد چکا۔اب انتخابات کے انعقاد میںکوئی ابہام نہیں رہا۔تمام سیاسی جماعتوں نے بھی اس حقیقت کو تسلیم کرلیا اور اس کے مطابق اپنی اپنی صفیں درست کر رہی ہیں۔ ہماری سیاست معجزات یعنی انہونیوں کی سیاست ہے جس میں کچھ بھی حرفِ آخر نہیں ہوتا۔اس حرفِ آخر کو کہہ مکرنیاں بھی کہا جاسکتا ہے۔انہونی کے امکانات اور خدشات تو ہروقت موجود رہتے ہیں۔الیکشن کمشن،عدلیہ اور فوج نے انتخابات کیلئے اپنی کمٹمنٹ ظاہر کرکے ان لوگوں کی توقعات پر پانی پھیر دیا جو اسمبلیوں کی مدت ایک سال بڑھانے کے حالات پیدا اور جواز تلاش کر رہے تھے یا تین سالہ عبوری سیٹ اپ کے سپنے دیکھ او ر دکھا رہے تھے۔فوج نے بھی بروقت الیکشن کرانے کی حمایت کی ہے۔ جہاں یہ سوال تو بنتا ہے کہ جنرل محمد ضیاءالحق نے صبح ایک ہاتھ سینے اور دوسرا کتاب مقدس پر رکھ کر ذوالفقار علی بھٹو کو حمایت کی یقین دہانی کرائی اور رات کو وزیراعظم ہاﺅس پر شب خون مارا جس سے ملک پر 11سال تک آمریت کی شبِ تاریک طاری رہی لیکن جنرل ضیا کی بھٹو کی حمایت اور کیانی کی جمہوریت کی حمایت میں بڑا فرق ہے اوردونوں حمایتوں کا نتیجہ بھی ایک جیسا ہونے کا خطرہ نہیں ہے۔
 تمام سیاسی جماعتوں اور ان کے قائدین نے اپنا اپنا کام شروع کردیا ۔ اتحاد،اتفاق، انضمام، گٹھ جوڑ،اکھاڑ پچھاڑ اور جوڑ توڑ کا آغاز ہوچکا ہے۔انتخابی شیڈول کا اعلان ہوتے ہی یہ معاملات عروج پر ہوں گے۔طاہر القادری نے اپنے ایجنڈے کی ابتدا ہی انتہا سے کی تھی۔ان کا پہلا اعلان ہی عبوری سیٹ اپ کا سامان کرنے کا تھا۔وہ اب تک اپنے ایجنڈے کی ابتدا اور انتہا کے درمیان محو سفر منزل کی تلاش میں ہیں۔ کچھ لوگ ان کے ایجنڈے کو سازش قرار دے کر سازش کے پیچھے سازش تلاش کر رہے ہیں۔کچھ کہتے ہیں کہ یہ مال کی وجہ سے وقتی و جذباتی ابال ہے ۔مال مُکا تو ابال بھی زوال پذیر ہوجائے گا۔ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں جو ڈاکٹرصاحب کے ایجنڈے اور خود ان کی ذات شریف کو جمہوریت کیلئے وبال سمجھتے ہیں۔بہرحال جو انہوں نے اب تک کیا، کمال کیا۔بقول ان کے انہوں نے پارلیمنٹ،قیادت،سیاست اور عدالت سب سے چہرے بے نقاب کردئیے۔وہ الیکشن کمشن کی تشکیل کے خلاف سپریم کورٹ گئے جہاں ان کو لینے کے دینے پڑ گئے۔ تین دن کی سماعت کے بعد ان کی عدالت بد ری ہوئی، اس دوران کی درخواست سرے سے زیر بحث ہی نہیں آئی۔ اکثریتی رائے نے عدلیہ کے فیصلے کی تحسین کی، کچھ لوگ جن میں میرے دوست ٹی وی اینکر امیر عباس بھی شامل ہیں، طاہر القادری کے ساتھ سلوک کو جوڈیشل مرڈر قرار دیتے ہیں۔طاہر القادری کی بات سنی بھی جاتی تو الیکشن کمشن کی تشکیل نو محض نو دن میں ہوجاتی جس سے علامہ کو چیف کی تصویر اٹھانے،عدالتی سسٹم کی دھول اڑانے اور اپنی مظلومیت کا ڈھول بجانے کا موقع نہ ملتا۔ بہر حال حضرت صاحب بھی پورے پاکستانی بن کے دکھائیں۔ کینیڈا کی شہریت کو لات ماریں اور ایک بار پھر سیاست اورعدالت میں قسمت آزمائی کریں۔وہ جس انقلاب کی بات کرتے ہیں وہ انتخابی سیاست کے ذریعے لائیں۔
 انتخابات کے سر پر آنے سے مسلم لیگ ن دیگر جماعتوں کو ساتھ ملا رہی ہے تو پی پی پی مفاہمت کے مزید جوہر دکھا رہی ہے۔عین انتخابات کی دہلیز پر متحدہ نے پی پی سے اپنی راہیں جدا کرلیں گویا مفاہمت ترک کرکے مخاصمت کا راستہ اپنا لیا۔مخاصمت میں بھی ایک مفاہمت ہے۔پی پی پی نے اس مفاہمانہ مخاصمت کے ذریعے ن لیگ کے سندھ میں قوم پرستوں کے ساتھ اتحاد کے نہلے پر مفاہمانہ مخاصمت کا دہلا مارا ہے۔ پی پی اور متحدہ تو اس مفاہمت کا اعتراف کرنے سے رہیں۔ شواہد اور مناظر یہی ہیں۔سندھ میں پی پی کی مقبولیت کی گرتی دیوار لوکل باڈی آرڈیننس کی واپسی کے بعد پھر سنبھل گئی۔ فنکشنل لیگ،این پی پی، اے این پی کے تحفظات دور ہوگئے۔پی پی پی کا جو ووٹ بنک کھسک رہا تھا وہ تھم گیا۔ دوسری متحدہ کو اپنے حلقوں میں خود کو مظلوم ثابت کرنے کا بھی موقع مل گیا۔اس کے ووٹ بنک میں کبھی کمی نہیں ہوئی اس مفاہمانہ مخاصمت سے مزید مضبوط ہورہا ہے،۔ اس کا اپوزیشن لیڈر بھی سامنے آچکاہے۔نگران حکومت پی پی اور متحدہ مل بیٹھ کر تشکیل دیں گی۔ کچھ حلقوں کو تشویش تھی کہ گورنر عشرت العباد نئے لوکل باڈی آرڈی ننس پر دستخط نہیں کریں گے۔وہ لندن گئے تو قائم مقام گورنر کے ذریعے ہاتھ کی صفائی سامنے آگئی پھربھی کوئی زرداری کی مفاہمت کا قائل نہ ہوتو اسے اٹوٹ ہٹ دھرمی ہی کہاجاسکتا ہے۔
 اسے قوم کی خوش بختی یا مروجہ سیاست و جمہوریت کو فروغ دینے والوں کی بد بختی کہیے کہ الیکشن کمشن جاگ رہا ہے۔فخر الدین جی ابراہیم نئی پارلیمنٹ کے دروازے پرچھلنی لئے کھڑے ہیں وہ ٹیکس نادہندگان،کرپشن میں ملوث،دہری شہریت اور جعلی ڈگری والوں و دیگر چھوٹی موٹی برائیوں کے عادی لوگوں پر پارلیمنٹ کے دروازے بند کرنے کیلئے عزم ہیں۔اس پر با اثر پارلیمنٹرین کا گویا تپتے توے پر پیر آگیا ہے۔چودھری نثار علی خان قومی اسمبلی میں دھاڑے، ان کا ساتھ فاروق ایچ نے ساتھ دیا۔ الیکشن کمشن پر حزب اقتدار اور حزب اختلاف نے مل کر چڑھائی کی۔میڈیا پر بھی برسے کہ پارلیمنٹرینز کو دھوکے باز‘ ٹیکس چور‘ جعلی ڈگری ہولڈر کہا جا رہا ہے۔ الیکشن کمشن اپنے آپ میں رہنے کا درس دیا گیا۔چودھری نثار نے کہا میں ایم اے پاس ہوں،الیکشن کمشن نے جو کرنا ہے کرلے میں ڈگری نہیں دکھاﺅںگا۔ فاروق ایچ نائیک الیکشن کمشن کے اقدامات کو اوچھے ہتھکنڈے قرار دے رہے ہیں۔آخر یہ جذباتیت کیوں؟الیکشن کمشن پر گرج برس کراسے بلیک میل کرکے حکومت اور اپوزیشن آخر کیاچاہتی ہے؟ڈر خوف،ٹیکس چوروں، دہری شہریت اور جعلی ڈگری والوں کو ہوناچاہئے۔اگر آج کے تمام پارلیمنٹرین کا کردار صاف اور شفاف ہے تو الیکشن کمشن کواپنی تسلی کرلینے دیں۔ تنکے کا سن کر اپنی داڑھی پر ہاتھ نہ ماریں۔ انتخابات تو ضرور ہوںگے اور اپنے وقت پر ہوں گے۔اگر فخر الدین جی ابراہیم کی خواہش کے مطابق ہوئے تو اگلی پارلیمنٹ واقعی ویسی ہی ہوگی جو ایک اسلامی جمہوری اور فلاحی ریاست کی ہوتی ہے ۔صاف شفاف اور ستھرے کردار کے لوگ ہی پارلیمنٹ میں پہنچ پائیںگے۔موجودہ پارلیمنٹیرین میں سے شاید دس فیصد ہی نئی پارلیمنٹ کا حصہ بن پائیں گے۔

قائد کے سپاہی


قائد کے سپاہی

کالم نگار  |  فضل حسین اعوان
25 فروری 2013 0
فانی انسان کی یادوں کو اس کا کردار اور عمل لافانی بنا دیتا ہے۔ اقبال اور قائد کی یادیں، ان کی باتیں اور فکر و فلسفہ آج ہمارے لئے اثاثہ اور سرمایہ ہے۔ قائد اعظم نے برصغیر کے مسلمانوں کو یہاں انگریز کی غلامی سے آزادی دلائی اور ہندو کی غلامی میں جانے سے بچایا وہیں نوجوان صحافی حمید نظامی سے نوائے وقت کی بنیاد رکھوائی۔ 23مارچ1940ءکو پندرہ روزہ نوائے وقت کا پہلا شمارہ شائع ہوا۔ 1942ءکو یہ ہفت روزہ اور قائد اعظم کے فرمان پر 22جولائی1944ءکو روزنامہ بن گیا۔ گویا قائد محترم کی ہدایت پر حمید نظامی کے ہاتھوں یوم پاکستان کے روز لگایا گیا پودا قیام پاکستان سے قبل بہت سی منزلیں طے کر چکا تھا۔ یہ تحریک آزادی کا ترجمان بنا۔ مسلمانوں کی زبان دو قومی نظریہ کا اعلان اور وطن کے مجاہدوں کا عہدوپیمان بنا۔ حمید نظامی تحریک آزادی کے گرم جوش طالب علم رہنما قائد کے وفادار ساتھی، غلامی کی زنجیریں توڑنے کے لئے ہمہ وقت تیار، آزادی کے لئے ہمہ تن برسرپیکار، خون جگر دینے پر مائل، استعمار کی بیخ کنی کرنے کے قائل تھے۔ پاکستان بنا تو نوائے وقت کو عام آدمی کی صدا نوا دوا، دعا اور ندا بنا دیا۔ مجید نظامی عمر میں حمید نظامی سے 13سال چھوٹے ہیں انہوں نے باپ بن کر پالا تو مجید نظامی صاحب نے بھی بیٹا ہونے کا حق ادا کر دیا۔ کوئی بھی تقریب فنکشن یا جلسہ ہو پہلے حمید نظامی کا نام آتا ہے۔ مجید نظامی صاحب بھی تحریک آزادی کے مجاہد ہیں۔ لیاقت علی خان نے ان کو مجاہدانہ خدمات پر سند کے ساتھ تلوار عنایت کی۔
قیام پاکستان کے بعد حمید نظامی نے حق گوئی و بیباکی، بیداری، وطن سے وفا کی علمبرداری کا پرچم اٹھائے اور لہرائے رکھا۔ جس سے انگریز کے کتے نہلانے کے انعام میں جا گیریں اور اقتدار حاصل کرنے والے دیوانوں، مستانوں، دولتانوں اور ٹوانوں کی جھوٹی انا مجروح ہوئی جو نوائے وقت انگریز کی حکمرانی میں بھی مسلسل بلا تعطل شائع ہوتا رہا وہ 1950ءکی دہائی میں کچھ عرصہ کے لئے بند کر دیا گیا۔ 1940ء کے عشرہ میں مجید نظامی تعلیم کے ساتھ ساتھ اخباری معاملات میں اپنے بھائی جان کی معاونت بھی کیا کرتے تھے۔ حکمرانوں کی درشتی، دھونس اور جبر دونوں بھائیوں کے عزم اور پائے استقلال میں ہلکی سی لرزش اور جنبش بھی نہ لا سکا۔ قائد اعظم کے پاکستان میں 1958ء میں مارشل لاء لگا تو حمید نظامی روح تک لرز گئے۔ کیا لاکھوں جانوں اور آبروﺅں کی قربانی یہ دن دیکھنے کے لئے دی گئی تھی؟ مارشل لاء کے باعث حمید نظامی کی صحت گرنے لگی، باقی کسر اخبار کے ساتھیوں نے بے وفائی کرکے پوری کر دی جس کے باعث حمید نظامی صاحب فروری1962ءکو جاں سے گزر گئے۔
اسی روز مجید نظامی کو لندن سے بلوایا گیا۔ نظامی صاحب کے کہنے پر آغا شورش نے انہیں فون کیا۔اس کے بعد اخباری معاملات مجید نظامی کے پاس آئے تو انہوں نے وہیں سے ان کو آگے بڑھایا جہاں سے حمید نظامی صاحب چھوڑ کر جان جانِ آفرین کے سپرد کر گئے تھے۔ اس کے بعد مجید نظامی صاحب نے چار مارشل لاﺅں کو جس طرح حق ہوتا ہے اسی طرح بھگتا۔ نوائے وقت شجر سایہ دار تو حمید نظامی کی حیات میں ہی بن گیا تھا۔ اس شجر سایہ دار کو ثمر بار مجید نظامی نے بنایا۔ نوائے وقت اشاعت کے پہلے روز سے کرائے کی عمارت سے نکلتا رہا۔ آج لاہور، کراچی، ملتان، پنڈی میں اس کے اپنے دفاتر ہیں۔ ساتھ ہفت روزہ ندائے ملت، فیملی میگزین، ماہانہ پھول، ڈیلی دی نیشن بھی نوائے وقت کی آگنائزیشنز ہیں۔ تین چار سال سے وقت نیوز چینل بھی اپنی بلڈنگ میں نشریات جاری رکھے ہوئے ہے۔
میری نظر میں مجید نظامی کا کامیاب ایڈیٹر کے ساتھ ساتھ بہترین منظم ہونا بھی ان کی شخصیت کا نمایاں پہلو ہے۔بہت سے لوگوں کی محبت نوائے وقت ہے لیکن نوائے وقت والوں کی پہلی محبت اسلام پاکستان اور نظریہ پاکستان ہے۔ مجید نظامی صاحب نوائے وقت پبلیکیشنز کی طرف بڑی توجہ دیتے ہیں لیکن اس سے بھی زیادہ توجہ نظریہ پاکستان ٹرسٹ پر مرکوز ہے۔ دفتر آنے سے قبل نظریہ پاکستان جاتے ہیں۔ تن، من دھن سے اس کی خدمت پر تین بائی پاس ہونے کے باوجود کمربستہ ہیں۔ نوائے وقت ملک کا ایک بڑا اشاعتی اور نشریاتی گروپ ہے لیکن اس کے مالک درویشانہ زندگی گزارتے ہیں۔ مجید نظامی صاحب نے دو کنال جگہ کھیتوں میںخریدی اور اپنا گھر بنا لیا اسی قدیم وضح کے گھر میں قیام پذیر ہیں۔ وضعدار ایسے کہ ہر ملنے والا سمجھتا ہے کہ اس سے زیادہ کسی پر مہربان نہیں۔ کوئی اپنا ہو یا پرایا اسے تکلیف میں دیکھ کر تڑپ اٹھتے اور ہر ممکن مدد کرتے ہیں۔ سچی بات ہے کہ حمید نظامی نے قائد اعظم کے سپاہی اور مجید نظامی نے حمید نظامی کے بھائی اور قائد کے فدائی ہونے کا حق ادا کر دیا۔