پیر ، 29 نومبر ، 2010
فضل حسین اعوان ? 18 گھنٹے 58 منٹ پہلے شائع کی گئی
عرصے سے چرچا تھا کہ امریکہ اس کے اتحادی اور کرزئی انتظامیہ طالبان سے مذاکرات کر رہے۔ کبھی یہ کراچی میں ہونے کی نوید سنائی جاتی‘ کبھی مالدیپ‘ کبھی کابل اور قندھار میں‘ جنگ سے تنگ امریکی اور نیٹو افواج کو مذاکرات کی بازگشت سے حوصلہ ملتا رہا کہ ان کی کامیابی سے وہ تابوت میں اپنے ممالک واپس جانے کی بجائے خود چل کر جہاز پر سوار ہوں گے اور اپنے انتظار میں آنکھیں بچھائے پیاروں سے جا ملیں گے۔ ان کو اوباما کے 2011ئ میں انخلا کے اعلان سے بھی حوصلہ ملا تھا۔ لیکن اب لزبن کانفرنس میں معاملہ 2014ئ تک طویل کر دیا گیا ہے۔ اس وقت تک نہ جانے کتنے تابوت اٹھ جائیں گے۔ کتنوں کے اعضا کٹ جائیں گے اور معیشت ڈوبنے سے امریکہ اور یورپ کتنے ٹکڑوں میں بٹ جائیں گے۔
افغانستان میں امریکہ بری طرح سے ہار رہا ہے۔ وہ یہاں سے نکلنا چاہتا ہے۔ وہ ذلت آمیز شکست سے دوچار ہے لیکن اپنے ماتھے پر ویتنام جیسی شکست کا داغ نہیں سجانا چاہتا۔ وہ شکست کسی اور کے گلے میں ڈال کر سرخرو ہونا چاہتا ہے اسی لئے جنگ کا دائرہ پاکستان تک پھیلا دیا ہے۔ قبائلی علاقوں میں ڈرونز سے تباہی مچا رہا ہے۔ الزام لگا کر اور بہانے بنا کر کوئٹہ کراچی بہاولپور اور مریدکے تک ڈرونز کا دائرہ کار بڑھانا چاہتا ہے۔ معاملات کمشن مافیا کے ہاتھ میں ہوتے تو کب کا پورا پاکستان ڈرونز کی زد میں آچکا ہوتا۔ معاملات پر جن کا پس پردہ رہ کر کنٹرول ہے وہی امریکہ کی اجارہ داری پاکستان میں اجارہ داری اور بہت زیادہ عمل دخل کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ یہی قوت امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے ناپاک منصوبوں کو ناکام بنا رہی ہے اسی سے امریکہ کو خار ہے۔ وہ حکومت پاکستان سے اس قوت کی بیخ کنی کا مطالبہ کرتا ہے اور اسے بدنام کرنے کی ہر ممکن کوشش بھی۔ امریکہ کو پاک فوج سے اس لئے پرخاش ہے کہ وہ آناً فاناً شمالی وزیرستان میں آپریشن پر تیار نہیں اور آئی ایس آئی پر طالبان کی حمایت کا الزام افغانستان میں اپنی شکست پر پردہ ڈالنے کیلئے لگاتا ہے۔
افغانستان میں ملا عمر کے نائب ملا اختر محمد منصور ہیں۔ اس سے قندھار میں افغان انتظامیہ نے مذاکرات کئے۔ ایک مرتبہ اس کی کابل کے صدارتی محل میں حامد کرزئی کی ملاقات ہوئی۔ کابل میں ہی نیٹو اور امریکی حکام بھی اس سے ملے۔ اسے پاکستان سے جہاز میں لے جایا اور واپس بھجوایا جاتا رہا افغان کے اندر ہیلی کاپٹر کی سہولت فراہم کی جاتی تھی۔ امریکی گولی اور پیسے کی طاقت پر یقین رکھتے ہیں۔ اسے ڈالروں سے لاد دیا گیا۔ طالبان کے ساتھ مذاکرات کی کامیابی کے اعلان ہوتے رہے پھر اچانک پتہ چلا کہ یہ اصل طالبان لیڈر نہیں تھا۔ امریکی میڈیا نے پاکستان سے تعلق رکھنے والے دکاندار کو ملا اختر منصور بنا دینے کا کارنامہ آئی ایس آئی کے کھاتے میں ڈال دیا۔ اب دو نمبر ملا اختر منصور غائب ہے۔ ابھی امریکی میڈیا جعلی ملا اختر منصور کو آئی ایس آئی کی تخلیق قرار دے دیا تھا کہ برطانوی جریدے ٹائمز نے تصدیق کر دی کہ برطانوی انٹیلی جنس ایجنسی ایم 6 نے اسے لاکھوں ڈالر دیکر کرزئی سے مذاکرات کرائے۔ یہ شخص جو بھی تھا وہ لاکھوں ڈالر اڑا لینے کے ساتھ ساتھ امریکہ برطانیہ نیٹو اور کرزئی انتظامیہ کو بیوقوف بنا گیا۔ اب اپنی خفت مٹانے کیلئے اسے بہروپیا قرار دے رہے ہیں۔ اس بہروپیے نے آدھی دنیا پر مشتمل اتحادیوں‘ دنیا کی واحد سپر پاور کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی نااہلی کو بے نقاب کرکے رکھ دیا ہے۔ ان ایجنسیوں کی اطلاعات پر بڑے بڑے آپریشن ہوتے ہیں‘ حملے ہوتے ہیں ڈیزی کٹر استعمال ہوتے ہیں اور ہنستے بستے گھروں کو تورا بورا بنا دیا جاتا ہے۔ بہروپیے کے ایک واقعہ نے اظہر من الشمس کر دیا کہ امریکہ اور اتحادیوں کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی انفارمیشن انٹیلی جنس پر نہیں محض اندازوں اور افواہوں پر بنی ہے۔ اس امریکہ کو ایک عام شخص بیوقوف بنا گیا جس کا دعویٰ ہے کہ وہ ہارپ سسٹم کی مدد سے انسانی ذہن کو بدل سکتا ہے۔ دنیا میں جہاں چاہے طوفان برپا کر سکتا ہے۔ سمندر میں ہلچل مچا سکتا ہے گلشیئر پگھلا سکتا ہے۔ سورج کی مدت میں کمی بیشی کر سکتا ہے۔ ستاروں پر کمنڈ ڈال سکتا ہے دریاو ¿ں اور جھیلوں کو ابال سکتا ہے زمین میں شغاف ڈال سکتا ہے۔ بہروپیے نے ثابت کر دیا کہ امریکہ کے پاس ایسی کوئی ٹیکنالوجی نہیں جس کا امریکہ دعویدار ہے۔ جو ایک شخص کو نہ پہچان سکا وہ خاک انسانی ذہن کو بدل سکتا ہے۔ اس کے کائنات کے تسخیر کے دعوو ¿ں کی حیثیت محض مسخرہ پن ہے۔