About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Saturday, April 30, 2011

30-4-11 ”افغان پائلٹ احمد گُل“




30-4-11
”افغان پائلٹ احمد گُل“
فضل حسین اعوان
ٹوٹے پتوار، پھٹے بادباں۔ تھکے کشتی ران اوپر سے بحر میں طوفان ان حالات میں گھری کشتی کی کیا سمت اور کیا منزل ہو گی؟ جلد یا بدیر ڈوبنا اس کا مقدر ہے۔ افغانستان میں صلیبی جنگ کے جارح آج ایسی ہی ناﺅ کے سوار ہیں۔ اس جنگ کا انجام واضح ہے۔ اختتام کو انسانیت کے قاتل لٹکا رہے ہیں۔ اپنی لاشوں کی قیمت پر۔ دیکھئے کب تک۔ امریکہ دنیا کی واحد سپر پاور، بڑا طاقتور ہے، لیکن خدا سے بڑھ کر نہیں۔ اپنی طاقت کے نشے میں چور، پرغرور اسلامی دنیا کی تسخیر کے لئے نکلا ہے۔ اسلامی ممالک منتشر، اتفاق نہ اتحاد، ایک دوسرے کی فکر نہ احساس۔ امریکہ دنیا میں کسی کو اپنا مدِمقابل سمجھتا ہے نہ کوئی اس کے سامنے آنے اور ٹھہرنے پر تیار ہے۔ لیکن قدرت کاملہ کسی کو ذلت کی پستی میں گرانے کے لئے اسباب کی محتاج نہیں۔ ابرہہ کے لشکر کے مقابل کوئی فوج لا کر اسے تاراج نہیں کیا تھا۔ افغانستان میں امریکہ کے سامنے کونسا دشمن ہے؟ بچے خواتین اور نہتے افغان۔ پھر بھی جگہ جگہ فولاد و بارود کی برسات کی جاتی ہے۔ ظالم اور جابر کے مقابل کوئی نہ ہو تو قدرت خود سامنے آ جاتی ہے۔ ستم گر کے اسباب کو ہی بربادی کا سامان بنا دیتی ہے۔ ایسے تجربات سے امریکہ بار بار گزرا اس کا سرِ غرور کئی بار جھکا۔ لیکن اس کے اسلامی دنیا کی بربادی کے ناپاک عزائم میں فرق نہیں آیا۔ اس کے تربیت یافتہ مجاہدین نے آج طالبان اور القاعدہ کے نام سے امریکہ کے ناک میں دم کر رکھا ہے۔ گزشتہ روز کابل میں 45 سالہ پائلٹ احمد گل نے اندھا دھند فائرنگ کر کے 8 امریکی فوجیوں اور ایک امریکی ٹھیکیدار کو ان کے محفوظ ترین ٹھکانے میں قتل کر دیا۔ 5 نومبر 2009ءکو ایک مسلمان فوجی ڈاکٹر میجر ندال نے فورٹ ہڈ کے اڈے میں فائر کھول کر اپنے ساتھی 13 فوجیوں کو مار ڈالا تھا۔ اس سے دو روز قبل افغانستان کی ایک چیک پوسٹ پر ایک افغان سپاہی نے 5 برطانوی فوجی اڑا دئیے تھے۔ جنگ میں جبری دھکیلے گئے اتحادی فوجیوں کی بڑی تعداد خودکشیاں کر رہی ہے۔ ہزاروں پاگل بھی ہو چکے ہیں۔ یہ قدرت کی طرف سے صلیبیوں کی بربادی کا اہتمام ہے۔ جس کے لئے قدرت کو کسی فوج، بارود اور اسباب کی ضرورت نہیں۔
امریکہ کا افغانستان سے انخلا کا پروگرام نہیں۔ صلیبی جنگ میں 40 ممالک اس کے ساتھ ہیں اپنی سپاہ کی جان بچانے کے لئے افغان فوج کو تربیت دے کر اپنے ہم وطنوں اور ہم مذہبوں کے مقابل لانے کی تیاری ہے۔ دو روز قبل صلیبی فوج نے افغان فوجیوں کو آگے رکھ کر انگور اڈا کے قریب پاکستانی چوکی پر چڑھائی کر دی جوابی کارروائی میں 3 افغان فوجی ڈھیر ہو گئے۔ جان کسی مقصد اور کاز کے لئے دی جاتی ہے۔ افغان فوجیوں کے سامنے کیا مقصد تھا؟ امریکہ کی غلامی! احمد گل کی طرح امریکہ کے تربیت یافتہ کئی افغان فوجی اگلی صفوں میں اپنے ہم وطنوں اور اخوت کے رشتے میں جڑے مسلمانوں کی گولیوں کا نشانہ بننے کے بجائے انہیں یہاں تک لانے والوں سے انتقام لیں گے۔ امریکی تربیت یافتہ چند سو بھی مجسمہ انتقام بن گئے تو صلیبی افغانستان میں کہاں محفوظ ہوں گے! ضمیر اور غیرت جاگنے دینی احساس بیدار ہونے پر کسی افغان کے احمد گل کی طرح طالبان بننے میں دیر ہی کتنی لگتی ہے۔

Friday, April 29, 2011

معافیوں کے مشورے




29
اپریل2011
 معافیوں کے مشورے
فضل حسین اعوان
بعض صحیح و بروقت فیصلے اور اقدامات انسان کو عظمت کی معراج اور کبھی محض ایک غلطی پستی کی اتھاہ گہرائی تک لے جاتی ہے۔ میاں نوازشریف سے بھی مشرف کو آرمی چیف بنانے کی ایسی ہی غلطی ہوئی جس کا خمیازہ نہ صرف نوازشریف اور ان کی بقیتہ العزیز و اعجاز پارٹی کو بھگتنا پڑا بلکہ اس کے زخم قوم آج تک امریکی جنگ اور ڈرون حملوں کی صورت میں سہہ رہی ہے۔ نوازشریف سے ان کی زندگی کی بڑی غلطی کے بارے میں پوچھا جائے تو ان کا اس کے سوا کوئی جواب نہیں ہو سکتا ”مشرف کی تقرری“۔ یہ غلطی کس نے کرائی؟ وہ آج بھی ان کے ساتھ ایسی ہی غلطیاں کرانے کی پوزیشن میں ہیں۔ مشرف سے پاکستان کی سیاست کے حوالے سے پوچھا جائے تو گھما پھرا کر وہ نوازشریف کا نفرین لہجے میں ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ نوازشریف نالائق اور نااہل تھے۔ مشرف کو آرمی چیف بنانے سے ثابت بھی یہی ہوتا ہے۔ نوازشریف تو مشرف کے زخم خوردہ ہیں ان کے لہجے میں تلخی کا جواز بنتا ہے۔ مشرف پر نوازشریف کا بڑا احسان میرٹ سے ہٹ کر ان کے ظرف سے بڑھ کر عہدے سے نواز دینا تھا اگلے عہدے پر مشرف شب خون مار کر خود جا بیٹھے۔ غلط یا صحیح، جائز یا ناجائز جیسے بھی، مشرف کو اعلیٰ مقام نوازشریف کی شخصیت کی بدولت ہی ملا لیکن ان کے نوازشریف کے بارے میں زہر آلود لہجے، قہر آلود رویے کو احسان فراموشی اور کم ظرفی کے کس درجے میں رکھا جائے؟ وہ ہمہ وقت بہتان بازی اور دشنام طرازی پر آمادہ و مائل رہتے ہیں۔ تازہ ترین واردات میں نوازشریف سے کہا ہے کہ وہ امریکی خاتون صحافی کو ملکی راز فراہم کرنے پر قوم سے معافی مانگیں۔ نوازشریف نے ”قومی راز“ کیا افشا کیا ہے! بقول سابق جرنیل کے نوازشریف نے کم بارکر کو پاکستان میں اجمل قصاب کا ٹھکانہ ڈھونڈنے میں مدد کی تھی۔ 
مشرف کی طرف سے معافی کے مطالبے پر ن لیگ کے خوابیدہ ترجمان دو تین دن بعد گڑبڑا کر اور ہڑبڑا کر بڑبڑاتے ہوئے اٹھے۔ شاید پانڈیوں نے اطلاع دیر سے پہنچائی ہو۔ بڑے لوگوں نے اپنی تن آسانی کے لئے نوکر رکھے ہوئے ہیں۔ بڑے لوگوں کے نوکر بھی تو دوسرے لوگوں کے لئے بڑے ہوتے ہیں وہ اپنی خدمت کے لئے چاکر بھرتی کر لیتے ہیں آگے پھر چاکر اپنے لئے چوکر اور چوکر پانڈی رکھ لیتے ہیں۔ پانڈی کی درجہ بدرجہ اوپر تک خبر پہنچنے اور اس کی وضاحت میں دو تین دن لگ جائیں تو کوئی مضائقہ نہیں۔ بہرحال وضاحت یوں کی گئی۔ ”مسلم لیگ (ن) کے ترجمان سینیٹر پرویز رشید نے امریکی صحافی کم بارکر کی کتاب کے ان مندرجات کو مسترد کر دیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ممبئی حملوں کے مرکزی ملزم اجمل قصاب کے گھر کا پتہ امریکی صحافی کم بارکر کو نوازشریف نے بتایا تھا۔ سینیٹر پرویز رشید نے کہا کہ کم بارکر کی کتاب اتنی غیر معتبر ہے کہ خود امریکی میڈیا نے اس کا کوئی خاص نوٹس نہیں لیا۔ لگتا ہے کہ کم بارکر کچھ نہ کچھ نیا لکھنا چاہتی تھیں اور اسی دھن میں انہوں نے حقائق کو مسخ کرنے کی کوشش کی ہے۔ صرف پرویز مشرف نے اس کتاب کی بات کی ہے اور اس کا مقصد بھی صرف نوازشریف کو بے جا تنقید کا نشانہ بنانا ہے۔ 
نوازشریف نے کم بارکر کو جو کچھ بتایا وہ قومی راز ہے تو کیا اس کی معافی بنتی ہے؟ لیکن پرویز مشرف کا ہلکا سا ٹریک ریکارڈ ملاحظہ فرمائیے۔ پورا ملک امریکہ کی جنگ میں جھونک دیا۔ تین ہزار فوجی اس جنگ کا ایندھن بنے۔ دیگر ہلاکتیں تیس ہزار سے زائد ہیں۔ جامعہ حفصہ لال مسجد میں معصوم بچیوں کو بارود سے تحلیل کر دیا گیا۔ پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر شکوک کے سائے مسلط کئے گئے۔ ڈاکٹر قدیر خان کو بدنام اور ایٹمی معلومات امریکہ کو دی گئیں۔ کارگل ایڈونچر میں فوج کی وسیع پیمانے پر شہادتیں نتیجہ ہزیمت و پسپائی۔ پونے 9 سالہ اقتدار میں تین مرتبہ آئین شکنی۔ اکبر بگٹی قتل جس کی ایف آئی آر بھی درج ہو چکی ہے، بینظیر قتل کیس میں طلبی.... اور مشرف کسی ایک پر بھی شرمندہ ہیں نہ معافی مانگنے پر تیار۔ 
آج کل معافی کی بحث چل رہی ہے۔ کوئی خود معافی مانگتا اور دوسروں کو بھی مانگنے کی تلقین کرتا ہے کوئی اپنے جرائم کے پنڈورہ بکس پر بیٹھ کر دیگر کے گناہوں کی نشاندہی کرتا ہے۔ معافی کوئی جرم اور گناہ سرزد ہونے پر مانگی جاتی ہے ضروری نہیں کہ ہر گناہ اور جرم قابلِ معافی بھی ہو۔ مشرف تو ویسے بھی معافی مانگنے پر تیار نہیں۔ جرا ¿ت کا مظاہرہ کریں کمانڈو کہلاتے ہیں بن کر بھی دکھائیں۔ پاکستان آ کر الزامات کا سامنا کریں۔ دیگر گنہگارانِ سیاست قوم سے معافیاں نہ مانگیں۔ اپنے کئے پر عدلیہ یا خصوصی کمشن اور ٹربیونل بنوا کر ان کے سامنے خود کو انصاف کے لئے پیش کریں۔



Thursday, April 28, 2011

سپانسرڈ سیاست


 جمعرات ، 28 اپریل ، 2011
سپانسرڈ سیاست
فضل حسین اعوان
جہاں ہمارے سیاستدان ایجنسیوں کے پَروَردہ‘ پرداختہ اور پَروَرِندہ ہیں وہیں ان کے زخم خوردہ بھی ہیں۔ ایک گروپ پر ”خفیہ سرکار “کی نوازش‘ دوسرے کیلئے آزمائش بنتی رہی ہے۔ ایجنسیاں حکومتیں بنانے‘ چلانے‘ گرانے پر قادر رہی ہیں۔ ان کے پاس اکثر سیاستدانوں کی قیمت ہے۔ کوئی اپنے جرائم کی معافی پہ بکتا ہے کسی کو عہدے سے خریدا جاتا ہے اور کوئی نوٹوں کی صورت میں اپنی قیمت وصول کرتا ہے۔ سنا تھا جنرل کیانی نے ایجنسیوں کا سیاست سے عمل دخل ختم کر دیا ہے لیکن قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر چودھری نثار علی خان کے الزامات کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ ان کو پیپلز پارٹی اور ق لیگ کے ممکنہ شراکت اقتدار کے پیچھے ایجنسیاں نظر آرہی ہیں۔ وزیراعظم گیلانی کہتے ہیں ثبوت لاو۔ اگر چودھری نثار ثبوت لے آئے تو گیلانی برملا کہہ دیں گے ”عدالت جاو“ ایجنسیاں بڑی طاقتور ہیں۔ بلکہ آرمی چیف بوتل کا ڈھکن کھول دیں تو سب سے بڑی طاقت ہی یہ ہیں۔ اگر واقعتاً ان کا سیاست میں عمل دخل شروع ہو گیا ہوتا تو اب تک کئی چودھری نثار اپنا قبلہ تبدیل کر چکے ہوتے۔ یونیفکیشن بلاک سجدہ سہو کر چکا ہوتا۔ چودھری نثار علی کو تو عمران خان کا پشاور میں دھرنا بھی ایجنسیوں کا سپانسرڈ نظر آتا ہے۔ فرماتے ہیں ”کونسلر کی نشست پر کامیاب نہ ہونے والے دھرنے دے رہے ہیں“.... آج پاکستان اور پاکستانیوں کےلئے ڈرون حملے ڈراونا خواب اور جہنم مثل عذاب ہیں۔ یہ حملے رکوانے کےلئے ہماری حکومت بظاہر بے بسی و بے چارگی کی تصویر بنی ہوئی ہے۔ دراصل یہ حملے حکمرانوں کی بے حسی، سنگدلی‘ منافقت اور مفادات کا شاخسانہ ہیں۔ عزت، غیرت ،وقار‘ خودداری اور خودمختاری جیسے الفاظ اپنی وقعت اور توقیر کھو گئے ہیں۔ ان حالات میں ڈرون حملے رکوانے کیلئے قوم کو اٹھنا ہی ہے۔ تین اپریل کو مسلم لیگ ن کے صدر اور وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا تھا کہ ڈرون حملے رکوانے کےلئے لانگ مارچ بھی کرنا پڑا تو کریں گے۔ 20 اپریل کو قومی اسمبلی کے اس اجلاس میں جس میں ن لیگ نے ”پھٹے چک“ دئیے تھے چودھری نثار نے جوش و ولولے سے معمور اپنے ”دھوڑ پٹ“ خطاب میں کہا تھا ڈرون حملوں کے خلاف پارلیمنٹیرنز کو فاٹا جا کر دھرنا دینا چاہئے۔ نثار چودھری باتیں کرتے اور نعرے لگاتے رہ گئے۔ عمران خان کارواں لے کر پشاور پہنچ گئے۔ عمران کے دھرنے کے باعث دو دن تک نیٹو سپلائی معطل رہی ہے۔ اگرچہ ن لیگ نے 20 اپریل کو قومی اسمبلی میں شدید احتجاج پی پی ق لیگ کے ممکنہ ملن کے خلاف طیش میں آکر کیا۔ پورے تین سال یہ پی پی حکومت کی فرینڈلی اپوزیشن بنی رہی۔ مہنگائی کے خلاف پکار نہ ڈرون حملوں کے خلاف للکار۔ اب جس وجہ سے بھی مہنگائی اور ڈرون حملوں کے خلاف آواز اٹھائی ایک مثبت ملک اور عوام دوست اقدام ہے۔ .... عمران نے پشاور جا کر دھرنا دیا قطع نظر اس کے کہ اس میں 10 ہزار لوگ تھے یا ہزار پانچ سو۔ عمران خان اکیلا بھی ہوتا تو اس کے بھی یہی اثرات ہوتے اور دنیا کو وہی پیغام جاتا جو اب گیا اگر یہ سپانسرڈ بھی تھا تو بھی اس سے کوئی حرج اور فرق نہیں پڑتا۔ عمران نے پہلا پتھر تو پھینک دیا ایک کونسلر بھی منتخب ہونے کی صلاحیت نہ رکھنے والے نے وہ کام کر دکھایا جو دو اڑھائی سو پارلیمنٹیرنز کو سر پر اٹھانے والی لیڈر شپ نہ کر سکی۔ دھرنے کو سپانسرڈ ثابت کرنے والے بتائیں۔ ڈرون حملوں کے خلاف لانگ مارچ اور فاٹا میں دھرنے کے اعلانات پر عمل کیوں نہیں کیا؟کیا اس سے یہ سمجھا جائے کہ امریکہ کا خوف تھا؟





Wednesday, April 27, 2011

ساداتِ ملتان پر گردشِ ایام









 بدھ ، 27 اپریل ، 2011
ساداتِ ملتان پر گردشِ ایام
فضل حسین اعوان
سیاست ملتان کے سادات پر ہمیشہ مہربان رہی ہے۔ لیکن آج تین سادات کاظمی، قریشی اور ہاشمی کو گرد و پیش ایام کا سامنا ہے۔ یوسف رضا گیلانی فی الوقت محفوظ ہیں۔ حامد سعید کاظمی پر الزام ہے کہ انہوں نے حاجیوں کو لوٹا۔ آج وہ جیل میں ”بُلے لٹ“ رہے ہیں۔ شاہ محمود قریشی کو اصولوں کا دورہ پڑا۔ وزارت خارجہ کا قلمدان دوبارہ نہ دیا گیا تو میڈیا میں ان کی فریاد آج بھی ریکارڈ کا حصہ ہے ”مجھے میرا قصور بتایا جائے“۔ آج فرما رہے ہیں۔ اقتدار کی کرسی کو ٹھوکر مار کر عوام کے پاس آیا ہوں۔ ساتھ ہی پیپلز پارٹی کی تقسیم کا دعویٰ بھی کر رہے ہیں اس میں ایک حصہ اقتدار کے نشے میں دھت دوسرے کی دادرسی نہیں ہو رہی۔ یہ نہیں بتایا کہ خود کا کس حصے سے تعلق ہے۔ کیا پارٹی ان کو کابینہ سے فراغت کے بعد تقسیم ہوئی یا پہلے ہی دو حصوں میں بٹ چکی تھی۔ جب تک خود اقتدار میں رہے کیا نشے میں دھت تھے؟ قریشی وضعدار سیاستدان ہیں۔ ن لیگ سے پیپلز پارٹی کی طرف رخت سفر باندھا تو میاں نوازشریف سے باقاعدہ ملاقات کی۔ اپنی مستقبل کی پلاننگ سے آگاہ کیا اور پیپلز پارٹی میں چلے آئے۔ اب شاید پیپلز پارٹی کا شجر بے برگ و بار ہو چکا ہے دیکھئے وضعدار مخدوم صدر آصف علی زرداری سے کب الوداعی ملاقات کے لئے جاتا ہے۔ مخدوم جاوید ہاشمی نے قومی اسمبلی میں جنرل ضیاءالحق سے وزارت کا حلف لینے پر قوم سے معافی مانگی۔ نوازشریف کو بھی مشورہ دیا کہ وہ مشرف دور میں لمبی جیل یاترا یا بھٹو کی طرح پھانسی کے پھندے کو چومنے کی بجائے اللہ کے گھر میں جلاوطنی اختیار کرنے پر قوم سے معافی مانگیں۔ ساتھ یہ بھی کہہ گئے اگر رائیونڈ شاہرا پر دس ارب روپے خرچ ہونگے تو صوبے کی ترقی کے لئے کیا بچے گا۔ یہ وہ جاوید ہاشمی نہیں بولے جن کو نوازشریف جدہ جاتے ہوئے ن لیگ کی سربراہی سونپ گئے تھے۔ یہ جاوید ہاشمی کے اندر کا کرب اور ان کے ساتھ روا رکھا گیا جبر بولا ہے۔ شریف برادران کی عدم موجودگی میں انہوں نے مسلم لیگ ن کے قائد ہونے کا حق ادا کر دیا۔ پانچ سال ان کی محبت میں جیل میں گزار دئیے۔ شریف فیملی وطن واپس آئی، الیکشن ہوئے۔ مخدوم پر اعتماد کا بھرپور اظہار کرتے ہوئے چار سیٹوں پر ٹکٹ نام کیا گیا۔ تین پر کامیاب ٹھہرے۔ پھر مخدوم کو نظرانداز کر دیا گیا۔ چودھری نثار کو پہلے گیلانی حکومت میں سینئر وزیر بنایا گیا۔ مسلم لیگ ن پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت سے الگ ہوئی تو چودھری پرویز الٰہی نے اپوزیشن لیڈر کی کرسی ن لیگ کے لئے خالی کر دی جس پر چودھری نثار علی کو اپوزیشن لیڈر لگا دیا گیا۔ کچھ لوگوں کے نزدیک یہ مخدوم سے زیادتی تھی جو شاید ان کی صحت پر بجلی بن کر گری جس سے وہ ہنوز سنبھل نہیں سکے۔ نظرانداز کئے جانے پر مخدوم کے دل میں اپنی پارٹی قیادت کے بارے میں دراڑ پڑ گئی۔ یہ دراز اِس طرف ہی نہیں اُس طرف بھی پڑی تھی۔ بلکہ اس دراڑ کی وجہ بھی وہی تھی۔ میاں نوازشریف نے مخدوم سے کہا تھا کہ وہ حلقہ این اے 55 کی سیٹ برقرار رکھیں تاکہ کم از کم اگلے پانچ سال شیخ رشید کی سیاست دفن رہے۔ نوازشریف کے پیغامات کے باوجود مخدوم نے حلقہ 55 کی سیٹ خالی کر دی۔ جس پر شیخ رشید کو مسلم لیگ ن کو للکارنے کا موقع ملا۔ انہوں نے اس حلقے سے الیکشن کو معرکہ حق و باطل بنا دیا۔ الیکشن کے نتائج آنے تک ن لیگ کے حلقے مضطرب رہے۔ جاوید ہاشمی کا پارٹی قائد کی بات نہ ماننا پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی، مخدوم کی ہٹ دھرمی یا خود اعتمادی اسے جو کچھ بھی کہہ لیں یقیناً اس سے میاں نواز شریف کے دل میں دراڑ پڑی۔ اب عمران خان مخدوم کی تحریک انصاف میں شمولیت کے لئے چشمِِ براہ ہیں۔ ہاشمی نے خود بھٹوز کو زبردست خراج عقیدت پیش کر کے ن لیگ کو شاید کوئی پیغام پہنچانے کی کوشش کی ہے۔ مذکورہ معافی کے بیان سے مخدوم، شریفین کے مابین بظاہر نظر نہ آنیوالی دوریوں میں اضافہ ہوا ہے۔ شاہ محمود قریشی اور جاوید ہاشمی کے لئے بہت سی پارٹیاں اپنا دامن وا کئے ہوئے ہیں۔ لیکن ان کا جو مقام آج کی اپنی اپنی پارٹی میں ہے کسی اور میں نہیں ہو سکتا۔ 
موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں
پارٹی کے بڑوں کو بھی سوچنا چاہئے۔ وہ اس پر اکتفا نہ کریں کہ ”ان کی مرضی“ ان کو پارٹی قائدین کے ساتھ ایک ٹیبل پر لا بٹھائیں گلے شکوے دور کرانے کی کوشش کریں۔ ایسے لوگوں کو ضائع نہ کریں۔ ملتان کے مخدوم بھی اپنے کردار‘ افکار اور اعمال سے اپنے لئے کربلائیں پیدا کرنے سے گریز کریں۔

 

Tuesday, April 26, 2011

زندگی ایک پل


























زندگی ایک پل
(شفق .... فضل حسین اعوان)
زندگی سفر، انسان مسافر ہے۔ زندگی کی حقیقت پانی کے بلبلے سے زیادہ نہیں۔ کچھ مقدر کے سکندر زندگی کے لمحہ لمحہ سے رفعتیں، نعمتیں اور الفتیں کشید کرتے ہیں۔ کچھ کی زندگی عبرت کا ساماں اور محرومیوں کا نشاں بنی رہتی ہے۔ کچھ کیلئے رات شبِ جشن و طرب اور کچھ کیلئے شبِ حسرت و کرب ہوتی ہے۔ کچھ اسے سو کے کچھ رو کے گزار دیتے ہیں۔ جو دنیا میں آیا اسے ایک دن جانا ہی ہے۔ میاں محمد نے کیا خوب کہا ہے....ع
سدا نہ چھوپے پا محمد رل مل بہناں سنگاں
سدا ہتھیاں مہندی لگدی سدا نہ چھنکن ونگاں
دکھ میں گزرے یا سکھ میں، سو سوا سو سال بھی جئے تو بھی موت کی دہلیز پر پیچھے مڑ کر دیکھے تو انسان کو یہ مدت ایک پل سجھائی دیتی ہے۔ انسان دنیا میں آئے تو کان میں اذان دی جاتی ہے۔ دنیا سے جائے تو اسکی نماز جنازہ ادا کی جاتی ہے۔ اذان کے بعد اتنا طویل وقفہ کسی اور نماز کیلئے نہیں ہے۔ قدرت کے ہاں ہوسکتا ہے کہ یہ مدت ایک ثانیہ سے بھی کم ہو.... کہیں پڑھا ہے کہ ایک انسان قبرستان سے گزر رہا تھا۔ ایک پھٹی ہوئی قبر دیکھی اس میں جھانکا، ایک سفید ریش بزرگ تلاوت کررہا تھا۔ اس نے جست لگائی اور ان بزرگ کے ساتھ جا بیٹھا۔ بابا جی سے کچھ باتیں کرنا چاہتا تھا۔ بزرگ نے کہا جاﺅ چلے جاﺅ۔ تمہیں نہیں معلوم تمہارے ساتھ کیا ہورہا ہے۔ اسکے ساتھ ہی بابا جی نے اسے باہر دھکیل دیا۔ صرف پل دو پل اسکے قبر کے اندر گزرے تھے۔ اپنی بستی کی طرف رخ کیا، راہگیر عجب راستے اجنبی، بستی کی جگہ بلند و بالا محلات و عمارات کا شہر آباد تھا، یہ شخص اس شہر میں ایک عجوبہ تھا۔ پل بھر میں کیا انقلاب آگیا؟ کچھ لوگوں کو اپنا ماجرا سنایا۔ اپنے بارے میں بتایا، اپنے خاندان کا پوچھا تو پتہ چلا کہ وہ اڑھائی سو سال قبل کی باتیں کررہا ہے۔ ذرا سوچئے آج اڑھائی سو سال پہلے کا انسان آپکے گاﺅں، شہر یا محلے میں چلا آئے۔ آپ اسے کیسا پائیں گے اور وہ کیا گمان کریگا۔

وہ پل جس میں پوری زندگی سموئی ہوتی ہے، ہجر کی کلفتیں، وصل کی قربتیں، حسن و عشق باہم محبتیں، نفرتیں، الجھنیں، سلجھنیں، حسرتیں، عظمتیں، رفعتیں، مفلسی، بے بسی، شاہی، گدائی، روشنی کی سحر، اندھیرے میں ڈوبتی شام، شوخیاں، بانکپن، انجمنیں، تنہائی کا عالم، جدائی کا غم، نماز، روزہ، حج، گناہ، توبہ، جام، ساقی اور بادہ خواروں کا ہجوم، جام و سنداں کا کھیل، رقص و سرور کی محفلیں، یاروں بھری انجمنیں سب اسی ایک پل میں ہوتا ہے۔ اسی ایک پل میں انسانیت کے قتل کے معاہدے، غیرتوں کے سودے، آسماں سے تارے توڑ کے لانے کے نعرے، خالی دامن بھر دینے کے وعدے کئے جاتے ہیں۔ یہ پل ختم ہوتا ہے، تو شاہ ہو یا گدا، دو گز کی اندھیری قبر مقدر ہے، جس کی تاریکی میں کھربوں کی جائیداد، محلات، کاروبار، کچھ بھی کاگر نہ ہوگا۔ بلکہ انسانیت کو تڑپانے، انسانوں کو ڈرون حملوں میں مروانے، رعایا کا گوشت چبانے کی پاداش میں یہ تاریکی مزید گہری ہوجائیگی۔ ایک پل کو روشن اور خوبصورت بنانے کیلئے محنت کی جائے تو عظمت ہے۔ رعایا کی بے بسی، بے چارگی، حسرتوں اور تمناﺅں پر محلات کھڑے کرنا لعنت ہے۔ زندگی کے سفر میں اپنے اعلیٰ کردار سے اندھیری کوٹھڑی کو روشنیوں کا گہوارہ بنایا جاسکتا ہے۔ فیصلہ اہل عقد و اقتدار، اپنوں کی گردن پر سوار، غیروں کے یار اور وفادار کرلیں۔ انتخاب کرلیں کہ ڈالروں کی جھنکار سے ایک پل کو تاباں و درخشاں بنانا ہے یا تاریک کوٹھڑی میں اجالا پھیلانا اور اسے رنگ و نور کا گہوارہ اور بقعہ نور بنانا ہے جہاں ہمیشہ ہمیشہ رہنا ہے۔
٭٭٭











Sunday, April 24, 2011

سیاست میں حرف آخر!





اتوار ، 24 اپریل ، 2011
سیاست میں حرف آخر!
فضل حسین اعوان
آمریت، مہم جوئی اور طالع آزمائی نے جمہوریت کے پودے کو جڑ پکڑنے دی نہ ثمربار ہونے دیا۔ وقفے وقفے سے جمہوریت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا گیا۔ جمہوریت کے ارتقاءکا بار بار انتزاع ہوتا رہا۔ بلوغ کو پہنچنے سے قبل اسے ذبح کر دیا جاتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک ہمارے ملک میں جمہوریت بالغ ہو سکی نہ سیاست دان پختہ کار اور بالغ نظر۔ شرافت اور اہلیت الگ الگ اوصاف ہیں۔ بھلے مانس اور نیک بخت حکمران تو شاید کافی آئے، اہل اور قابل بھی تھے۔ قائداعظمؒ جیسا ایک بھی لیجنڈ اور جینئس نہیں ملا جن کی ذہانت کارکردگی اور منصوبہ سازی کی بدولت ارتقا بھی اپنا دامن سمیٹ لیتا ہے۔ قائداعظمؒ چند سال مزید زندہ رہ جاتے تو پاکستان یقیناً آج متحد اور مضبوط ہوتا۔ ذوالفقار علی بھٹو بہت سے اوصاف سے متصف تھے۔ ان کی اٹھان اور اڑان قابل رشک تھی لیکن انہیں ان کے اعمال اور جنرل ضیاءکا بطور آرمی چیف انتخاب لے ڈوبا۔
قیام پاکستان کے بعد سے جمہوریت کو چلنے دیا جاتا تو اوسط درجے کی فہم و فراست کی حامل قیادتیں بھی جمہوریت اور اداروں کو تنومند اور توانا بنا سکتی تھیں۔ آج اوسط بلکہ اس سے بھی کمتر ذہانت کے مالک لیڈروں کو اس کے ”پیروکار“ چاپلوس اور حاشیہ بردار قائداعظم ثانی قرار دے ڈالتے ہیں۔ غضب کہ یارانِ سست روِ سیاست ان پر اعتبار بھی کر لیتے ہیں۔ دوچار تو موجودہ دور میں بھی بزعم خویش قائداعظمؒ، قائد ملت اور قائد عوام ثانی پائے جاتے ہیں۔ملک میں طویل عرصہ آمریت بالادست اور جمہوریت زیردست رہی۔ اس کا نقصان یہ ہوا سیاست میں جمہوری روایات پنپ سکیں نہ سیاست دانوں کی اعلیٰ سطح پر کردار سازی ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ پارٹی اور انفرادی سطح پر مفاداتی سیاست کو خودساختہ مقولوں اصولوں اور فارمولوں سے جائز ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ”سیاست میں کوئی بات حرف آخر نہیں ہوتی“ دہرا کر سیاسی اخلاقیات تک کا جنازہ نکال دیا جاتا ہے۔ برطانیہ کی مثال دی جاتی ہے کہ ایک پارٹی نے محض ایک نشست کی برتری سے اپنی آئینی مدت پوری کی تھی۔ ہمارے ہاں مشرف دور کے پہلے وزیراعظم ظفراللہ جمالی کو قومی اسمبلی میں صرف ایک ووٹ کی برتری حاصل ہوئی۔ پھر فرزندانِ سیاست و جمہوریت دَھن اور اقتدار کی شمع پر لپک لپک پڑے۔ ہماری سیاست اور مروجہ جمہوریت میں ہر برائی بے اصولی کی کوکھ سے جنم لیتی ہے جس کو” حرفِ آخر“ کے فارمولے کی سان چڑھا کر کندن بنانے کی سعی لاحاصل کی جاتی ہے۔ لوٹا کریسی ہو یا مفاہمت کا ڈول، ہماری سیاست کے بادیہ نشینوں کا اپنا اپنا فارمولا ہے۔ کل مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے مابین جو مفاہمت تھی وہ آج پی پی اور ق لیگ میں کیوں پروان نہیں چڑھ سکتی؟ کل چھانگا مانگا، سوات اور مری میں گھوڑوں کی آﺅبھگت جرم و گناہ تھی تو آج یونیفکیشن کی مدارات کار ثواب کیوں ؟ کل ق لیگ کو پی پی ن لیگ مفاہمت مفادات کی سیاست نظر آتی تھی۔ آج خود اس پوزیشن پر آئے ہیں تو اس میں بہترین قومی و ملکی مفاد واضح اور نمایاں ہو گیا ہے۔ بہرحال جیسے تیسے بھی ہے جمہوریت کی گاڑی خراماں ہی سہی رواں رہنی چاہئے۔ اس سے جمہوری روایات اور ہمارے سیاست دانوں کا کردار پختہ ہوتا چلا جائے گا، یہی ترقی و خوشحالی کا زینہ ہے۔ اس دوران اگر کوئی قائد سا راہوار اور درِشہوار مل گیا تو صدیوں کی منزل چند سال میں سر ہو جائے گی۔

Saturday, April 23, 2011

ہمارے خون سے کشیدہ بجلی








ہفتہ ، 23 اپریل ، 2011

ہمارے خون سے کشیدہ بجلی
فضل حسین اعوان
میرے رعنا اور توانا وطن کو سہانا تر بنانے کے بجائے اسے ضعف پہنچانے میں مستقبل ناشناس اور عقل بردوش ذمہ داروں کا کردار اہم ہے۔ ان لوگوں کے حوالے زمامِ اقتدار کبھی عوام نے کی اور کبھی یہ خود بزور تھام کر بیٹھ گئے۔ قائداعظم کی رحلت کے بعد اس قبیل کے حکمران تسلسل کے ساتھ قوم کی گردن پر سوار ہوتے چلے آرہے ہیں۔ قوم کا غم نہ ملک کی فکر‘ خودداری کا احساس‘ نہ وقار کا پاس‘ صرف دَھن کی دُھن۔ ہماری سیاست میں دانش و حکمت کی بے سروسامانی کا یہ عالم ہے کہ اندرونی محاذ پر یکسو‘ نہ بیرونی معاملات میں سرخرو۔ مروجہ جمہوریت انتقام‘ الزام دشنام‘ عدم برداشت‘ بے صبری‘ عزت بے عزتی سے عاری اور بلیک میلنگ کا ملغوبہ ہے۔ حکمران بے سمت ہیں‘ تو اپوزیشن بے راہرو۔ ایک دوسرے کی بات سننے کو تیار نہیں‘ نہ سمجھے پر آمادہ۔ 
مخالفت اور مخاصمت اندرونی سیاست اور آپس کے معاملات میں ہو تو خارجہ امور جن کا تعلق قومی سلامتی اور سالمیت سے ہے‘ ان پر عدمِ مفاہمت کیوں؟ ڈرون حملوں اور مہنگائی کیخلاف اپوزیشن مشتعل اور آپے سے باہر اس وقت ہوئی‘ جب گزشتہ اپوزیشن (ق) لیگ اقتدار کے شجرِ ثمر بار کی طرف لپکی۔ بہرحال وجہ جو بھی ہے‘ (ن) لیگ کا کھل کے ڈرون حملوں اور مہنگائی کےخلاف میدان میں نکلنا خوش آئند ہے‘ لیکن پاکستان بھارت تعلقات کے حوالے سے حکومتی پالیسیاں سراسر قومی مفادات کیخلاف ہیں۔ ان پر اپوزیشن اور حکومت کی حامی و نیم حامی پارٹیوں کی خاموشی قومی جرم سے کم نہیں۔ بھارت کے ساتھ لاحاصل اور فضول مذاکرات عرصہ دراز سے ہوتے چلے آرہے ہیں‘ لیکن اپوزیشن اور حکومت سے باہر کی پارٹیوں نے انکی کبھی مخالفت کی‘ نہ حکومت کو کارآمد پالیسی وضع کرنے کا کوئی مشورہ دیا۔ آج بھارت سے بجلی درآمد کرنے اور تجارت کو فروغ دینے کی منصوبہ بندی ہو رہی ہے‘ اس ایشو پر بھی سیاسی مفادات پر زد پڑنے کے شائبہ پر بھی چِلا اٹھنے والی اپوزیشن خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے۔ 
کنگلا بھارت‘ جس کے ہاں آدھی سے زیاد آبادی نومولودوں کا تن ڈھانپنے سے بھی لاچار ہے‘پاکستان کو بجلی کی فراہمی کی پیشکش کر رہا ہے‘ اس پیشکش پر بھارت سے پیار کی پینگیں بڑھانے والے سینوں میں دردِ دل اور دیدوں میں حیا سے عاری ذمہ داروں نے سنجیدگی سے غور شروع کر دیا ہے۔ بھارت میں پاکستان کی نسبت بجلی کی زیادہ قلت ہے اور اس کیخلاف مظاہرے بھی پاکستان سے زیادہ ہوتے ہیں پھر بھی بجلی کی فراہمی کی پیشکش‘ یہ ہندو بینئے کا پاکستان کی مشکلات کا احساس نہیں‘ چال ہے۔ ہمارے حصہ کے پانی کی طرح پاکستانی معیشت پر قبضہ و کنٹرول کا جال ہے۔ بنیا جب چاہتا ہے‘ پانی روک کر پاکستان کے لہلہاتے کھیتوں پر خزاں اتار دیتا ہے۔ ہماری صنعت بھارت کی بجلی پر چلے گی تو پاکستان کی معاشی رگ پر بھی اس کا ہاتھ ہو گا جبکہ ہماری 
شہ رگ اس نے پہلے ہی دبا رکھی ہے۔ وہ اپنے لوگوں کو بجلی سے محروم رکھ کر پاکستان کو بجلی ”دان“ کرکے ہم پر احسان نہیں کریگا‘ وہ ہماری طرف آنےوالے دریاﺅں پر ڈیم بنا کر اور ہمارے ہی پانی سے بجلی تیار کرکے فراہم کریگا۔ یہ بنیے کی عیاری ہی تو ہے کہ ہمارے ہی خون سے بجلی کشید کرکے ہمیں ہی فروخت کی جائیگی اور ہماری معیشت کا تھوڑا بہت چلتا پہیہ بھی اسکے رحم و کرم پر ہو گا‘ جس طرح ہماری فصلیں اسکے رحم و کرم پر ہیں۔ 26 اور 27 اپریل کو پاکستان بھارت سیکرٹری تجارت اسلام آباد میں مذاکرات کی ایک اور مشق کرینگے۔ تجارت! اس دشمن سے جو لاکھوں کشمیریوں کے خون سے ہاتھ رنگ چکا ہے‘ ہزاروں عزت مآب خواتین کی ردائیں اور آنچل اچک چکا ہے‘ یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے اور ختم ہونے میں نہیں آرہا۔ پھر یکطرفہ تجارت جس میں پاکستان کو 9 ماہ میں 95 کروڑ ڈالر کا خسارہ ہو چکا ہے‘ ہم ہر کشمیری کے سینے سے پار ہونے والی گولی کی قیمت بھی خود ادا کر رہے ہیں۔ اپوزیشن اس طرف بھی توجہ دے۔ ان معاملات کو بھی پارلیمنٹ میں اٹھائے اور حکمرانوں کو صحیح سمت اختیار کرنے پر مجبور کرے۔

Friday, April 22, 2011

تھنک ٹینک




جمعۃالمبارک ، 22 اپریل ، 2011

تھنک ٹینک
فضل حسین اعوان 
جمہوریت میں اپوزیشن حکومتی پارٹی کا متبادل ہوتی ہے۔ وہ اقتدار میں آنے کا تحمل سے انتظار اور اسکی تیاری کرتی ہے۔ ہمارے ہاں مروجہ جمہوریت میں برداشت نام کی کوئی چیز نہیں۔ اپوزیشن ہمہ وقت اقتدار میں آنے کے لئے مضطرب اور بے چین رہتی ہے۔ وہ بھی بغیر کسی تیاری کے۔ الیکشن ہارنے کے پہلے روز سے اپوزیشن حکومت گرانے کی منصوبہ بندی شروع کر دیتی ہے۔ دو اڑھائی سال میں مد جزر اور جزر مد میں بدل جاتا ہے۔ 1988 سے 1999 تک گیارہ سال میں سیاسی پہلوانوں نے ایک دوسرے کی دو دو حکومتیں الٹا دیں۔ گیم اصولوں کے مطابق ہوتی تو چوتھی حکومت کی مدت 2008ءمیں مکمل ہونا تھی۔ آپس کی چپقلش بے صبری اور عدم برداشت نے فوجی مہم جوئی کی راہ ہموار کی۔ پھر دونوں پارٹیوں کے ہاتھ کچھ نہ آیا۔ ان کی بقیہ نو سالہ مدت آمریت کی نذر ہو گئی۔ اس دوران دونوں پارٹیوں کی قیادتوں کو عذاب کا سامنا رہا۔ جیلیں کاٹیں جلاوطنی بھگتی۔ امید تھی قیادتیں پختہ کار ہو گئی ہوں گی۔ ماضی سے سبق سیکھ لیا ہو گا۔ برداشت اور تحمل کے پودے نے جڑ پکڑ لی ہو گی۔ جس کو مفاہمت کہا جا رہا ہے اُس کا مطلب بھی مفاہمت ہی ہو گا۔ لیکن سب سراب اور فریب ثابت ہوا۔ یوں لگتا ہے ہماری سیاست آج پھر 80 اور نوے کے نفرت آگیں دور کی طرف لوٹ گئی ہے۔ عوامی مسائل حل کرنے کے بجائے بڑی پارٹیاں ایک دوسرے کی حکومت گرانے کے لئے سرگرداں ہےں۔ جرنیلوں کو رام کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں کوئی ان کو دن کے اجالے میں ملتا ہے کوئی رات کے اندھیرے میں۔ کوئی کہتا ہے جرنیل ہمارے ساتھ ہیں کوئی آواز لگاتا ہے جرنیلو کچھ کرو۔ اصول بے اصولیوں پر بھاری پڑ گئے۔ بے اصول معتبر بن رہے ہیں۔ جیسی بھی ہے حکومت کو سوا تین سال بھگت لیا مزید پونے دو سال گوارا نہیں۔ کہیں سے مڈٹرم کا نعرہ لگتا ہے کہیں سے ٹیکنو کریٹس کو لانے کو غلغلہ اٹھتا ہے۔ الیکشن کے ذریعے یا چور دروازے سے آنے والوں نے کیا تیاری کر رکھی ہے؟ خاک! سوچ ہے، اقتدار ملے گا تو دیکھا جائے گا۔ بدیس میں جمہوریت کیوں کامیاب ہے؟ اس لئے کہ جو پارٹی حکومت میں ہوتی ہے عوام کی خدمت پر حقیقت میں یقین رکھتی اور اپوزیشن حکومت میں آ کر جو کرنا ہے اس کی پلاننگ کرتی ہے۔ شیڈو کیبنٹ اور تھنک ٹینک بنائے جاتے ہیں۔ شیڈو کیبنٹ حکومت کی کارکردگی مانیٹر کرتی اور اسے راہ راست پر رکھتی ہے۔ تھنک ٹینکس ریسرچ اور پلاننگ کرتے ہیں۔ معاشرتی، معاشی، سیاسی، سائنسی، صنعتی، کاروباری اور عسکری پالیسیاں ترتیب دینے کے لئے ماہرین کی کمیٹیاں بنا دی جاتی ہیں۔ اقتدار میں آتے ہیں پالیسیاں تیار ہوتی ہیں ان پر عملدرآمد شروع ہو جاتا ہے۔ ہمارے ہاں اندازہ کیجئے حکومت سے باہر بیٹھی پارٹیوں کے پاس اگر کوئی تھنک ٹینکس اور برین باکس ہیں تو ان کے ذمے حکومت گرانے کی منصوبہ بندی ہے۔ بیان بازی پر زور ہے۔ اُدھر حکومت کی یہ حالت ہے کہ وزیر خارجہ کی گو پولیو زدہ کارکردگی تھی وزارت تو چل رہی تھی۔ اس کے بعد سرے سے وزیر خارجہ ہی نہیں ہے۔ بابر اعوان بھٹو بریت ریفرنس میں کودے تو وزیر قانون ایسی ہستی کو لگا دیا گیا جو شاید عدالت میں گواہ کے طور پر تو پیش ہوئے ہوں وکیل کے طور پر نہیں اور بیان دیا جا رہا کہ باقی وزیر کون سے اپنے شعبوں کے ماہر ہیں۔ کنڈکٹروں ڈرائیوروں کے سپرد ریلوے اور پی آئی اے ہونگے تو جو حشر ہونا ہے وہ سامنے ہے۔ پہلے پانی و بجلی کی وزارت سوئی رہتی تھی اب اس کے وزیر سوئے رہتے ہیں۔ ضروری نہیں کامیابی سے گدی چلانے اور لنگر برتانے والا ملک بھی اتنی کامیابی سے چلا لے۔


Thursday, April 21, 2011

اقبال اور قائد کیا ایسا ہی پاکستان چاہتے تھے




جمعرات ، 21 اپریل ، 2011

اقبال اور قائد  کیا ایسا ہی پاکستان چاہتے تھے
فضل حسین اعوان
حکیم الامت علامہ ڈاکٹر محمد اقبال نے مسلمانانِ ہند کیلئے الگ وطن کی تصویر کشی کی جس قائداعظم محمد علی جناح نے رنگ بھرا۔ کیا یہ ویسا ہی پاکستان ہے جیسا مفکر پاکستان اور معمار پاکستان چاہتے تھے؟ نہیںہرگز ایسا نہیں ہے۔قائداعظم نے تمام اداروں کو اپنے دائرہ اختیار میں رہ کر فرائض ادا کرنے کی تلقین کی تھی۔بالخصوص قائداعظم نے فوج کو اس کی ذمہ داریاں یاد دلائیں تھیں۔ اس پرچند سر پھرے جرنیلوں نے کس طرح عمل کیا وہ ہمارے سامنے ہے۔ پاکستان کو معرضِ وجود میں آئے ہوئے 64سال ابھی مکمل نہیںہوئے۔اس دوران قوم کو 33سال جو آدھے سے زیادہ عرصہ ہے فوجی حکمرانوں کو بھگتنا پڑا۔ملاحظہ فرمائیے قائداعظم نے کیا کہا اور جرنیلوں نے کیا کیا۔ 14جون 1948 کو قائداعظم فوجی قیادت کی دعوت پر زیرتربیت افسران سے خطاب کرنے اسٹاف کالج کوئٹہ تشریف لے گئے۔نہ جانے قائداعظم کس بات پر دل گرفتہ تھے۔انہوں نے 6سات منٹ تقریر کی۔ جس میںیہ بھی فرمایا: ”....مجھے یہ بات کہنے کی تحریک اس لئے ہوئی ہے کہ ایک دو نہایت اعلیٰ افسروں کے ساتھ گفتگو کے دوران مجھے یہ معلوم ہوا کہ افواج پاکستان نے جو حلف اٹھایا ہے،انہیں اس حلف کے تقاضوں کا علم نہیں ہے۔بلا شبہ حلف تو الفاظ کی ایک ظاہر ی شکل و صورت ہوتی ہے، جو چیز زیادہ اہم ہے وہ ہے صحیح جذبہ اور اس کی روح۔ لیکن آپ کے معاملے میں ظاہر ی شکل و صورت بھی بہت اہمیت رکھتی ہے۔ میں اس موقع پر آپ کے حافظے کو تازہ کرنے کیلئے مقررہ حلف کے الفاظ پڑھتا ہوں“۔ اس کے بعد قائداعظم نے فوج کا حلف لفظ بہ لفطہ پڑھا.... ” جیسا کہ میں نے ابھی کہا کہ اصل بات جذبہ ہے۔ میں آپ کو بتاناچاہتا ہوں کہ جب آپ یہ الفاظ کہتے ہیں کہ ” میں مملکت کے آئین کا وفادار ہوں گا تو آپ اس آئین کا مطالعہ بھی کریں جو پاکستان میں نافذ العمل ہے اور اس آئین کے حقیقی قانونی تقاضوں کوبھی سمجھیں“۔ علامہ اقبال نے موقع بموقع خود داری اور غیرت کا درس دیا۔یہ دونوں آج حکمرانوںکی حد تک سرے سے ناپید ہیں۔ ماضی بعید کو کریدنے کی ضرورت نہیں۔ ماضی قریب کو دیکھئے۔ موجودہ حکمران امریکی جنگ میں مشرف کی مکمل جاں نشینی کا کردارادا کر رہے ہیں۔ بعض معاملات میں تو مشرف سے بھی بڑھ کر۔امریکہ جو کہتا ہے اس پر سر تسلیمِ خم کرلینے کو فرض سمجھا جاتا ہے۔ بلا شبہ دنیا گلوبل ویلج بن چکی ہے۔اس میں کوئی ملک الگ تھلگ رہ کر ترقی و خوشحالی کی منزلیں سر نہیں کرسکتا لیکن اپنے وقار، حمیت غیرت خود داری اور خود مختاری کی قیمت پر تو ہرگز ایسا نہیں ہوناچاہئے۔جو ہمارے ہاں ہورہا ہے۔امریکی جاسوس پاکستان میں دندناتے پھرتے ہیں۔ ان پر قابو پانا تو کجا، ہماری حکومت کو ان کے کام اور مقام قیام کا ہی علم نہیں۔ اوپر سے امریکی کہتے ہیں بتائیں گے بھی نہیں۔ حکومت امریکہ ڈرونز کی راہ میں کوئی رکاوٹ کھڑی کرنے سے قاصر ہے۔ صدر وزیراعظم آرمی چیف سب نے اپنے اپنے طورپر درخواست کرکے اور سخت موقف اپنا کر دیکھ لیالیکن امریکی ہٹ دھرمی یونہی برقرار ہے۔پہلے اسے حملوں کیلئے پاکستانی انٹیلی جنس کی مدد درکار تھی اب امریکی جریدے نیو یارک ٹائمز کے مطابق سی آئی اے نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے پاکستان میں ایسا نٹ ورک قائم کرلیا ہے کہ اب اسے نشاندہی کیلئے کسی پاکستانی ایجنسی کی مدد کی ضرورت نہیں رہی۔ پارلیمنٹ کی قراردادیں موجود ہیں۔ پاک فضائیہ ڈرونز سے نمٹنے کی مکمل صلاحیت رکھتی ہے۔ جسے بروئے کار تو حکومت کی اجازت سے لایاجاسکتا ہے لیکن حکومت گریز کر رہی ہے۔ کیا ہم امریکی ریاست ہیں یا امریکہ کے باجگزار؟ خود داری اور خود مختاری کیا اسی کا نام ہے۔یہ صلیبی اور صہیونی ایجنڈا ہے۔ پاکستانی حکمران یہود و نصاریٰ کے ایجنڈے کو بخوبی سمجھتے ہیں۔لیکن مفاداتی سیاست اور ڈالروں کے لالچ میں قومی وقار اور خود مختاری کو نظر انداز کئے ہوئے ہیں۔ ڈالر وصول کرنے والوں کے گھروں میں کہکشائیں اتر رہی ہیں ان کی اولادوں تک کے چہرے ڈالروں کی چمک سے دمک رہے ہیں لیکن عام پاکستانی عذاب میں مبتلا ہے۔ یہ سبق اور درس اقبال اور قائد نے تو نہیں دیا تھا۔ نجانے حکمرانوں کا کون قائد ہے کون رہبر ورہنما اور کون آئیڈیل ہے جس کی تعلیمات پر عمل کر رہے ہیں۔ کیا ان کا رہبر رہنما لیڈر اور آئیڈیل صرف دھن دولت ہے؟ لیکن یہ آپ کی مستقل ساتھی نہیں۔ کاغذ کی بیساکھی ہے جو دوگام بھی ساتھ نہیں دے سکتی۔ٹیپو سلطان کا نام اس لئے روزِ روشن کی طرح چمکتا اور دمکتا آرہا ہے کہ انہوں نے اصول کی خاطر جان دے دی تھی ۔ثابت کردیا شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سوسالہ زندگی سے بہتر ہے۔ ہمارے حکمرانوں کو جان دینے کی نہیں اپنی بے جا حسرتوں، آرزوﺅں اور تمناﺅں پر قابو پانے اور ذرا سی زبان ہلانے کی ضرورت ہے۔” امریکیو اپنی جنگ یہاں سے کہیں اور لے جاﺅ“۔ یہی خودی اور غیرت کا تقاضا ہے جس کا حضرت علامہ اقبال نے بار بار درس دیا ہے....
خودی کیا ہے رازدرونِ حیات
خودی کیا ہے بیداریِ کائنات
غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ و دو میں 
پہناتی ہے درویش کو تاجِ سردارا

Wednesday, April 20, 2011

عالم اسلام میں مزید انتشار



 بدھ ، 20 اپریل ، 2011
عالم اسلام میں مزید انتشار
فضل حسین اعوان 
صلیبی اور صہیونی تیونس اور مصر جیسا انقلاب لیبیا میں بھی برپا ہوتا دیکھنے کے آرزو مند تھے۔ ان کے مہرے مطلوبہ نتائج سامنے نہ لاسکے تو لیبیا پر یلغار کردی۔ آج عیسائیت اور یہودیت ملکر لیبیا کو تاراج کررہی ہے۔ صلیبی جنگیں اسلام اور عیسائیت کے درمیان ہوا کرتی تھیں۔ اب عیسائیت کے ساتھ نہ صرف یہودیت شامل ہے بلکہ بہت سے اسلامی ممالک کے حکمران بھی اس میں امریکہ کے پپٹ اور پوڈل بنے ہوئے ہیں۔ قذافی آخر کب تک انکے مقابلے پر ٹھہرےگا؟ پھر اسکے بعد کس کی باری؟ ان ممالک کی جن میں مصر، تیونس اور لیبیا جیسی بغاوتیں سر اٹھا رہی ہیں۔ یہ اندر سے اٹھا ہوا طوفان نہیں، مغرب کا انگیختہ ہیجان ہے۔ امریکی مہرے، پتلیاں اور پالتو اپنے آقا کی ہدایت پر جو کررہے ہیں، اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے اسے عرب دنیا میں جمہوریت نواز سیاسی بیداری کے موسمِ بہار کی لہر قرار دیتے ہوئے خوشی و اطمینان کا اظہار کیا ہے تاہم نیتن خوفزدہ ہے کہ موسمِ بہار کی یہ لہر ایران کی مداخلت سے خزاں رسیدہ ہوسکتی ہے۔جب باری کی بات کی جاتی ہے تو ایران کی باری عراق اور افغانستان سے بھی پہلے آجاتی لیکن اسکا امریکہ کی دکھتی رگ اسرائیل پر ہاتھ ہے۔ اسکے پاس جو بھی دفاعی صلاحیت ہے، ٹینک، توپ، میزائل، راکٹ سب کا رخ اسرائیل کی طرف ہے۔ دو چار نشانے بھی ٹارگٹ پر پڑ گئے تو اسرائیل اپنے ہی روایتی اور غیرروایتی اسلحہ میں جل کر نابود ہوجائیگا۔ عالم اسلام میں صرف ایران ہی امریکہ اور اسکے پروردہ اسرائیل کے سامنے خم ٹھونک کر کھڑا ہے۔ ایسے میں اُمہ کو ایران کے شانہ بشانہ ہونا چاہئے۔ اگر چھوٹے موٹے اختلافات ہیں تو بڑے مقصد کیلئے انکو نظرانداز کردیا جائے۔ افسوس کہ ایران کو مزید تنہا کرکے امریکہ کے آگے پھینکا جا رہا ہے۔ گزشتہ روز خلیج تعاون کونسل کے رکن ممالک نے سلامتی کونسل اور عالمی برادری سے ایران کی خلیجی ممالک میں مداخلت کیخلاف ضروری کارروائی کا مطالبہ کیا۔ اقوام متحدہ تو امریکہ کی باندی ہے۔ وہی کچھ کرتی ہے جو امریکہ چاہتا ہے۔ ایران کے بارے میں صلیبیوں اور صہیونیوں کا خبث اظہر من الشمس ہے۔ خلیج تعاون کونسل کے مطالبے سے انکا کام آسان ہوجائیگا۔ عرب لیگ اور او آئی سی کے ہوتے ہوئے سلامتی کونسل سے اپیل کرنے کی کیا ضرورت؟ بلاشبہ ایران جرا ¿ت کے ساتھ عام مسلمان کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے امریکہ کے سامنے جھکنے کو تیار نہیں۔ تاہم اسے بھی مسلم ممالک کو قریب لانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ تہران میں سعودی عرب کے سفارتخانے پر احتجاج سے دونوں ممالک کے تعلقات متاثر ہو سکتے ہیں۔ پاک فوج کی بحرین فوج کو تربیت پر شدید اعتراض کرتے ہوئے تہران میں پاکستانی ناظم الامور کی طلبی ایسے اقدامات سے فائدہ کس کو ہوگا؟ اُمہ کو یا صلیبیوں کو؟ آج طاغوتی، سازشی، استعماری اور سامراجی طاقتوں کیخلاف جس قدر مسلم اُمہ کے اتحاد کی ضرورت ہے، یہ اسی قدر انتشار کا شکار ہے۔ آج ہر مسلم ملک کو اپنے اپنے کردار کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ وہ کہاں کھڑا ہے اور اسے کہاں ہونا چاہئے۔ شاید انکو کوئی مرکز اور محور نظر نہیں آرہا ہے۔ پاکستان عالم اسلام کی فی الوقت واحد ایٹمی قوت ہے۔ زود یا بدیر اسے ہی مرکز و محور بننا ہوگا۔ جو حکمران یہ کر گزریگا وہی موجودہ دور کا صلاح الدین ایوبی قرار پائیگا۔
٭٭٭

Tuesday, April 19, 2011

جمالی صاحب اپنی منزل کا تعین کریں






 منگل ، 19 اپریل ، 2011

جمالی صاحب اپنی منزل کا تعین کریں
فضل حسین اعوان
میر ظفراللہ خان جمالی سینئر اور بزرگ سیاستدان ہیں۔ انسان کسی بھی شعبے میں ہو ڈھلتی اور گزرتی عمر کے ساتھ سینئر اور بزرگ ہو ہی جاتا ہے۔ ظفراللہ جمالی 1970ءسے سیاست میں ہیں سینئر تو ہو گئے۔ 1944ءمیں پیدا ہوئے 67 سال عمر میں بزرگی لازم ہے۔ ان کی شخصیت میں وہ تمام خصائص اور خصائل پائے جاتے ہیں جو موجودہ دور میں کسی بھی روایتی سیاستدان میں ہونے چاہئیں اور یہی کامیابی کی کنجی بھی ہے۔ پرویز مشرف، آصف زرداری، شوکت عزیز، نوازشریف اور الطاف حسین کی طرح قوم و ملک کے لئے دردِ دل رکھتے ہیں۔ گزشتہ روز بلوچستان میں ایک جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا ”وفاقی حکومت ناراض بلوچوں سے مذاکرات کے لئے کمیٹی بنائے تو میں اس مسئلے میں ثالثی کا کردار ادا کرنے کے لئے تیار ہوں۔ اس وقت ملک ایسے حال سے دوچار ہے جِسے دو پارٹی نظام کی ضرورت ہے“۔ بلوچستان کے خوبصورت شخص نے بڑی خوبصورت بات کی۔ باالکل اپنی درخشندہ و تابندہ سیاست کی طرح۔ چلتے چلتے جمالی صاحب کی سیاست اور شخصیت پر اچٹتی سی نظر ڈالئے۔ قائداعظم کے ساتھی اور تحریک آزادی کے رہنما میر جعفر خان جمالی کے بھتیجے اور شاہنواز جمالی کے صاحبزادے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو 1970ءمیں انتخابی مہم کے سلسلے میں روجھان جمالی گئے۔ شاہنواز جمالی سے کہا کہ ایک فرد ہمارے نام کریں۔ شاہنواز جمالی نے ظفراللہ جمالی کا ہاتھ بھٹو صاحب کو تھما دیا۔ پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر پہلا الیکشن لڑا جو ہار گئے۔ 77ءمیں جیتے۔ بلوچستان میں وزیر بنے پھر ضیاءالحق کا ساتھ دیا۔ جونیجو حکومت بنی تو کابینہ میں شامل ہو گئے۔ ضیاءالحق نے اسمبلی توڑی بلوچستان کا نگران وزیراعلیٰ بنا دیا۔ اسی حیثیت سے الیکشن لڑا جیتے اور وزیراعلیٰ نامزد ہوئے۔ جمہوریت پر اس قدر یقین رکھتے ہیں کہ اعتماد کا ووٹ ملتا نہ دیکھ کر بلوچستان اسمبلی تحلیل کر دی۔ میں نہیں تو یہ بھی کیوں۔ جِسے ہائیکورٹ نے بحال کر دیا تھا۔ 90ءکی دہائی میں مسلم لیگ ن میں شامل رہے۔ مشرف نے شب خون مارا۔ اپنے طرز کی جمہوریت لائے تو جمالی صاحب وزیراعظم بنا دئیے گئے۔ مشرف کو وزارت عظمٰی سے فراغت کے بعد بھی باس کہتے تھے.... گزشتہ سال پیر پگارا کے ایما پر مسلم لیگوں کے اتحاد کا علم لے کر نکلے۔ نوازشریف سے ملے چودھری شجاعت سے ملاقات کی۔ پھر مایوس ہو کر گھر بیٹھ گئے۔ مسلم لیگوں کا اتحاد ایسی بیل نہیں ہے جو منڈھے نہ چڑھ سکے۔ جہد مسلسل کی ضرورت ہے۔ دو ملاقاتوں کے بعد مایوسی کیوں؟ پیر پگارا تو مایوس نہیں ہوئے۔ مجید نظامی صاحب کے مسلم لیگوں کے اتحاد کے مشن کے لئے بڑھائے ہوئے قدم پیچھے نہیں ہٹے۔ جمالی صاحب نہ جانے کس منزل کے متلاشی ہیں جو ان کو 70ءکے بعد ہر قابلِ ذکر پارٹی میں شامل ہونے کے بعد بھی نہیں ملی۔
گھر کو آگ لگی تو کیا انتظار کیا جاتا ہے کہ کوئی آ کر اسے بجھائے یا پانی کی بالٹی پکڑائے؟ انسان آگ بجھانے کی پوری کوشش کرتا ہے اس میں ہاتھ جھلسیں لباس جلے، یا خود جلے۔ جمالی صاحب بلوچوں کو منانے کے ثالثی کی پیشکش کر رہے ہیں۔ پاکستان میں وزیراعظم سے بڑھ کر کیا عہدہ ہو سکتا ہے! اُس وقت وہ تیر کیوں نہیں مارا جِسے اب نیم کش لئے پھرتے ہیں۔ اب حکومت سے اپنے سر پر کونسا تاج رکھوانا چاہتے ہیں جو ثالثی کے لئے ناگزیر ہے۔ خود جمالی بلوچ ہیں بزرگ جمالیوں کا پاکستان بنانے میں رول ہے۔ صدر بھی بلوچ ہے معاملہ بلوچوں کا ہے۔ جس پائے کے سیاستدان اور جن مناصب پر رہے ان کو تو یہ معاملہ اس نہج پر پہنچنے ہی نہیں دینا چاہئے تھا۔ اب بھی حکومت کی طرف نہ دیکھیں اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔ اسی کو اپنی منزل قرار دیتے ہوئے حصول کیلئے دن رات ایک کر دیں۔ پاکستان ووٹ سے بنا تھا اور بلوچستان کے سرداروں نے بھی پاکستان قائم کرنے کے حق میں ووٹ دیا تھا۔

Sunday, April 17, 2011

نئے صوبے؟




 اتوار ، 17 اپریل ، 2011

نئے صوبے؟
فضل حسین اعوان
آخری امیر ریاست بہاولپور صادق محمد خان خامس کے پاکستان پر بڑے احسانات ہیں۔نواب صاحب نے تحریکِ پاکستان کا ساتھ دیا۔ آزادی کے بعد برضاو رغبت ریاست بہاولپور کا الحاق پاکستا ن سے کردیا۔قیام پاکستان کے بعد انڈیا کی طرف سے پاکستان کے حصے میں آنے والے اثاثے پاکستان کو دینے میں ٹال مٹول سے پاکستان شدید مسائل کا شکار تھا۔بھارت مسائل میں مزید اضافہ کرکے نوزائیدہ ریاست کو اپنا طفیلی بننے پر مجبور کرناچاہتا تھا۔ اس کی قیادت اُمید لگائے بیٹھی تھی کہ انتظام و انصرام نہ سنبھالے جانے کے باعث بھارت کا حصہ بننے کے سوا پاکستان کے پاس کوئی چارا نہیں ہوگا۔اس موقع پر آخری والی ¿ِ ریاست بہاول پور نے اپنا بہترین کردارادا کیا۔ ریاست کی مالی حالت مضبوط تھی۔نواب صادق محمد نے جس حد تک ممکن تھا پاکستان کی معیشت کو سنبھالا دینے کیلئے مالی امداد دی۔1955 میں ون یونٹ کے قیام کا فیصلہ ہوا تو نواب صاحب نے کوئی مزاحمت نہیں کی۔ نواب صادق محمد خان خامس کا 24مئی 1966 کو انتقال ہوا۔ یحییٰ خان نے 1970 میں ون یونٹ کا خاتمہ کیا۔ 
آج کچھ لوگ بہاولپور کے بطور صوبہ بحالی کی بات کرتے ہیں اور تحریک بھی چلا رہے ہیں۔ کسی دور میں مشرف کے دایاںبازو رہنے والے محمد علی درانی اس کے روحِ رواں ہیں۔یہ لوگ اپنی سیاست میں نواب صلاح الدین عباسی کو بھی گھسیٹ لائے ہیں۔ دوروز قبل نواب صاحب نے صادق پیلس میں ایک بڑے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا” بہاولپور صوبہ کی بحالی ہمارا تاریخی قانونی اور آئینی حق ہے۔جسے ہم لیکر رہیں گے۔عوام تیاری کریں جلد سڑکوں پر نکلنے کی کال دیں گے“ ساتھ ہی نواب صاحب نے صوبہ کی بحالی کیلئے ” بہاولپور عوامی پارٹی“ کے قیام کا اعلان کیا۔
ون یونٹ1970میں ٹوٹا۔ نواب صادق محمد خان کے جاں نشین اتنے ہی زور سے بہاولپور صوبہ کی بحالی کا مطالبہ کرتے جتنے زور سے اب نواب صلاح الدین نے کیاہے تو شاید اس مطالبے کو پذیرائی مل جاتی۔ وہ 41سال تک خاموش رہے۔شاید یہی ملکی مفاد کا تقاضا تھا۔ محمد علی درانی اینڈ کمپنی کو بھی صوبہ بہاولپور کی بحالی کا خیال اس وقت آیا جب ان کی حیثیت سیاسی یتیم کی سی ہوگئی ہے۔مشرف دور میں یہ لوگ اتنے پاور فل اور با اختیار تھے کہ نہ صرف صوبہ کی حیثیت بحال کراسکتے تھے بلکہ چاہتے تو آزاد ریاست ڈکلیئر کرالیتے.... اب حالات بدل چکے ہیں پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہے۔ صوبہ سرحد کا نام خیبر پی کے رکھا گیا تو ہزارہ والے نئے صوبے کے قیام کا نعرہ لیکر سڑکوں پر آگئے۔بہاول پور کو صوبہ کی حیثیت دی گئی تو سرائیکی صوبے کی بات کرنے والے سڑکوں بازاروں اور گلیوں میں ایک طوفان اٹھادینگے۔ جناح پور والے کب خاموش رہیں گے۔ ہزارہ والے مزید شدت سے مطالبہ دہرائیںگے۔ بلوچستان کے پختون ایسے ہی کسی جواز کی تلاش میں ہیں۔پوٹھو ہار کو صوبہ بنانے کی باتیں بھی ہورہی ہیں۔ جناح پور کا نام لینے والے کیا کیا نہ کر گزریں گے۔کسی بھی صوبے کے قیام سے ایساپنڈورا بکس کھلے گا جسے سمیٹنا ممکن نہیں رہے گا۔ 
موجودہ حالات میں جب معیشت انحطاط پذیر ہے۔مزید انتظامی یونٹ تخلیق کرنے کا تو سوچا بھی نہیں جاسکتا۔ جو نئے صوبوں کے قیام اور بحالی کی رٹ عوامی جذبات کو برانگیختہ کرکے انتخابات میں کامیابی، اپنے اور اپنی اولادوں کے مستقبل کی تابناکی کی خاطر لگائی جارہی ہے۔آپ عوام کے مسائل حل کرنے کی طرف توجہ دیں ان کو فساد پر مائل نہ کریں۔ جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے سیاستدان ہمیشہ سے اقتدار کے اعلیٰ ایوانوں میں موجود رہے ہیں۔ یہ اپنے گریبان میں جھانکیں اور ان کے کہنے پر سڑکوں پر آنیوالے ان کا گریبان پکڑیں کہ اپنے ادوار میں انہوں نے وہ کچھ کیوں نہیں کیا جس کی محرومی کا اب رونا رویا جارہا ہے نواب صلاح الدین عباسی کا قوم کے دل میں بڑا احترام ہے۔وہ اپنی ذات کو کسی کیلئے استعمال نہ ہونے دیں۔


Saturday, April 16, 2011

جنگ کا خوف!



 ہفتہ ، 16 اپریل ، 2011

جنگ کا خوف!
فضل حسین اعوان
جب میرِ قافلہ و کارواں ہی بھٹک جائے تو منزل بھاری اور دراز ہی نہیں بے نشان بھی ہوجاتی ہے۔ سالار کے انتخاب میں کج فہمی و کوتاہ اندیشی سے منزل کا حصول خواب اور عذاب بن جاتا ہے۔ خدا بہتر جانتا ہے کہ ہمارے میرِ کارواں بھٹکے ہوئے ہیں یا ہم اہل قافلہ سے انکے چناﺅ میں کوئی کوتاہی ہوگئی؟ علامہ اقبالؒ نے میرِ کارواں میں جن خوبیوں کا ذکر کیا وہ ہمارے منتخب شدگان میں کہیں ہیں کہ نہیں ہیں۔ اگر ہیں تو انہیں شاید ڈھونڈنا پڑتا ہے چراغِ رخِ زیبا لےکر
نگہِ بلند، سخن دلنواز جاں پرسوز
یہی ہے رختِ سفر میرِ کارواں کے لئے
ہمارے وزیراعظم میچ دیکھنے بھارت گئے۔ میچ تو دے آئے، ساتھ شاید انا اور آتما بھی وہیں چھوڑ آئے۔ سونیا کی زلفوں میں الجھے یا منموہن کی میزبانی کے ممنونِ بے پایاں ہوئے، جب سے واپس آئے ہیں سحر زدہ سے لگتے ہیں۔ ایسی باتیں کرتے ہیں شک ہوتا ہے کہ ہندو کا کیا ہوا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ اگر جادو کا اثر نہیں تو کہنے دیجئے، ہندو نے کچھ سونگھا نہ دیا ہو شباب میں۔ اپنے بھارتی ہم منصب کی قصیدگی میں لگے ہیں، جو محض کانگریس کا مہرہ ہے جسے سنا جاتا ہے نہ گنا جاتا ہے۔ گیلانی صاحب خوش فہمی میں مبتلا ہیں، کہتے ہیں ”منموہن کشمیر، سیاچن اور سرکریک سمیت تمام تنازعات حل کرنا چاہتے ہیں۔ وہ باہمی تعلقات کی بحالی میں مخلص ہیں“ گیلانی صاحب اپنے دل سے پوچھیں (گو وہ پتھر ہوچکا ہے اسی لئے تو امریکی ڈرونز کے بچھائے ہوئے لاشوں پر بھی نہیں پسیجتا) کہ منموہن اور انکی انتظامیہ اٹوٹ انگ اور اکھنڈ بھارت کے پکھنڈ سے دستبردار ہوگئی ہے....؟ اگر ہوگئی ہے تو مسئلہ کشمیر کا حل دنوں کی بات ہے۔ نہیں ہوئی تو کہاں کا خلوص اور تنازعات حل کرنے کی نیک نیتی....! وزیراعظم گیلانی نے یہ بھی فرمایا ”پاکستان اور بھارت مزید جنگ کے متحمل نہیں ہوسکتے“ اپنی طرف سے وزیراعظم جنگ کے متحمل ہونے یا نہ ہونے کی بات تو کرسکتے ہیں۔ بھارت کی طرف سے جنگ کے متحمل نہ ہونے کی بات کس زعم اور ضمن میں کر دی۔ بھارت تو اس وقت دنیا بھر میں اسلحہ کا سب بڑا خریدار بنا ہوا ہے۔ کس لئے؟ گیلانی صاحب قبلہ ہی فرمائیں؟ جنگ کوئی شوق ہے نہ ایڈونچر، اس سے تہذیبیں مٹ جاتی ہیں، انسانیت بکھر جاتی ہے تاہم پانی سر سے اونچا ہوجائے تب جنگ ناگزیر ہوجاتی ہے۔ مقصدِ اولیٰ ہو تو جنگ کی کوکھ سے انسانیت معراج کو بھی پہنچ جاتی ہے۔ وسائل کو دیکھتے ہوئے گریز کیا جائے تو غیرتِ ایمانی کا جنازہ نکل جاتا ہے، وقار خاک میں مل جاتا ہے، انسان دنیا میں کھانے پینے، عیش کرنے اور موج اڑانے کیلئے نہیں آیا۔ کسی مقصد کیلئے تخلیقِ کائنات ہوتی ہے، سر اٹھا کے چلنے کیلئے، اپنے آباءکا نام روشن کرنے کیلئے، وسائل کو دیکھتے، متحمل ہونے کا سوچتے تو معرکہ بدر برپا نہ ہوتا۔ میدانِ بدر ہی اسلام کی کامیابی کی ابتدا اور انتہا ہے۔ دشمن تعداد اور اسلحہ کی مقدار میں کئی گنا زیادہ، فضائے بدر پیدا ہوئی تو فرشتے نصرت کیلئے قطار اندر قطار اتر آئے۔ یہ معرکہ سجدوں اور دعاﺅں سے نہیں سر بردوش ہو کر سر کیا گیا۔ اگر بدر کا میدان نہ سجتا تو آج گیلانی، قریشی‘ ہاشمی‘ علوی عرب کے دشت و صحرا اور ریگزار میں بکریاں چرا رہے ہوتے، ریت پھانکتے اور اونٹ پر سواری کرتے دیگر منزل اقتدار و سیاست کے مسافر یہاں رام رام کرتے یا ریچھ نچا رہے ہوتے۔ ہاتھ پراڈو‘ پجیرو کے اسیٹرنگ کے بجائے گدھے کی باگ پر ہوتا۔ مسلم ممالک و حکمرانوں کی عظمتیں، رفعتیں ان پر نوازشیں اور ملنے والی نعمتیں غلامی ¿ رسول کے صدقے سے ہیں۔ گیلانی صاحب جنگ کے متحمل نہ ہونے کی بات کرتے ہیں۔ جب مکار دشمن جنگ کے حالات و اسباب پیدا کر دے تو کیا اسکی تلوار کے سامنے سرنگوں کر دیا جائے۔ ایک بار پھر حالات تو اس نے پیدا کر دئیے ہیں۔ کشمیر میں قبضہ مضبوط بنالیا ہے۔ اس کے ایک ایک دریا‘ نہر اور نالے پر آبی ذخائر تعمیر کر لئے ہیں۔ وہ اپنے مقصد میں کامیاب، ہم اسکی تعریفوں کے پل باندھ کر، بہتر تعلقات کا راگ الاپ کر اور امن کی خواہش کے دیپ جلا کر کس کے مقصد کی آبیاری کررہے ہیں۔ ہم کسی جنگ کے متحمل کیوں نہیں؟ پاکستان کے پاس اپنے وطن پر کٹ مرنے کا جذبہ رکھنے والی دنیا کی بہترین فوج ہے۔ مقدار میں کم سہی بقول جناب مجید نظامی معیار کے حوالے سے ہمارا اسلحہ بھارت کے کھوتوں کے مقابلے میں گھوڑوں کی حیثیت رکھتا ہے۔ جنگیں فوج کی تعداد اور اسلحہ کی مقدار و انبار سے ہی نہیں، قوتِ ایمانی سے لڑی جاتی ہیں۔ جو قوم شہادت کو زندگی پر توجیح دے اسے شکست دینا ممکن نہیں۔ اگر اسکی قیادت اقتدار، مال و دولت اور دنیا کی حریص نہ ہو تو....!

Friday, April 15, 2011

ڈرون… طمانچہ




جمعۃالمبارک ، 15 اپریل ، 2011
ڈرون… طمانچہ
فضل حسین اعوان 
غیرت کی رمق اور ضمیر نام کی چیز موجود ہو تو اندر کا انسان کسی بھی وقت انگڑائی لے کر طوفانوں اور چٹانوں سے ٹکرانے پر آمادہ ہو سکتا ہے۔ مرتضٰی حسن المعروف مستانہ کس درجے کا اداکار تھا۔ فنکار اور فن شناس بہتر جانتے ہوں گے۔ تاہم چار سال قبل سٹیج شو کے دوران پولیس اہلکار کے تھپڑ نے اس کی زندگی کا دھارا بدل دیا۔ اس کے اندر کے انسان کو جگا کر اسے غیرت کی علامت بنا دیا۔ شوبز گلیمر کی دنیا ہے۔ اس کی رنگینیوں سے فنکار کو موت اور فن شناس کو خالی دامن ہی نکال سکتا ہے۔ مستانہ نے تھپڑ کا اتنا اثر لیا کہ اس دن کے بعد کبھی تھیٹر نہیں گئے۔ شوبز کو چھوڑا۔ ساتھیوں کو چھوڑا حتٰی کہ لاہور بھی چھوڑ دیا۔ چکا چوند سے دور بہت دور بہاولپور میں جا بسے۔ روٹی روزی کے لئے دکان بنائی اور خدا سے لو لگا لی۔ بیماری نے آ گھیرا، جاں بلب ہوئے موت کی وادی میں اتر گئے۔ کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلایا۔ غیرت اور خودداری کے حوالے سے کیا ہمارا معاشرتی اور قومی سطح پر رویہ ایسا ہی نہیں ہونا چاہئے جیسا اس اداکار کا تھا؟ْ 17 مارچ کو ریمنڈ کی رہائی کے دوسرے روز امریکی ڈرونز نے یلغار کر دی ایک دتہ خیل میں امن جرگے پر ہوا جس میں 41 عمائدین مارے گئے۔ دیگر 11 حملوں میں مزید 43 کا خون کر دیا گیا۔ عسکری قیادت نے شدید ردّعمل ظاہر کیا۔ جنرل کیانی نے ناقابلِ برداشت قرار دیا۔ صدر اور وزیراعظم نے آرمی چیف کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے مذمت کی۔ امریکی سفیر کو طلب کر کے سخت سُست کہا گیا۔ قوم کی ڈھارس بندھی کہ عسکری و سیاسی قیادت کے اندر کے انسان نے انگڑائی لے لی ہے۔ قومی غیرت جاگ گئی ہے۔ ڈرون حملے اب اُسی طرح بند ہو جائیں گے جس طرح نیٹو سپلائی روکنے سے نیٹو کے ہیلی کاپٹروں کا پاکستان کی طرف سے رخ مڑ گیا تھا۔ اسے امریکہ کی جنگ اُس کو لوٹانے کا پہلا مرحلہ سمجھا جانے لگا۔ ان خیالات کو صدر زرداری نے ترکی کے دورے کے دوران 11 اپریل کو ایک انٹرویو کے دوران یہ کہہ مزید پختہ کر دیا کہ ہم امریکہ کے اتحادی ہیں اس کی طفیلی ریاست نہیں ڈرون حملے پاکستان کی خودمختاری کے خلاف ہیں۔ اتفاق سے جس دن زرداری ترکی میں بیٹھ کر گرجے اُسی روز ڈی جی، آئی ایس آئی جنرل شجاع پاشا امریکہ میں سی آئی اے کے سربراہ لیون پنیٹا پر برسے ’’ڈرون حملے قابلِ قبول نہیں‘‘۔ پھر کیا ہوا؟ جب قومی قیادت شدتِ جذبات سے مغلوب ڈرون حملوں کو تنقید کا نشانہ بنا رہی تھی قوم لیڈرشپ کے اقدامات کو سراہ رہی تھی۔ قومی موقف اپنانے پر صدقے واری جا رہی تھی۔ صدر زرداری مجسمہ مردِ حُر، کیانی اور پاشا، خالدؓ، طارقؒ اور ٹیپوؒ کی شجاعت کا نشان نظر آ رہے تھے۔ قوم کو یقین تھا کہ ڈرون پاکستان کی حدود سے اڑیں گے نہ حملہ کریں گے۔ ایسا ہوا تو عسکری اور سیاسی قیادت مار گرانے کا عزم کئے ہوئے ہے۔ لیکن گزشتہ روز ڈرون اڑے جنوبی وزیرستان میں حملہ آور ہوئے 8 انسانوں کے اعضا بکھیرے اور بحفاظت اپنے مستقر پر جا اترے۔ کوئی ایکشن نہ کارروائی۔ جو کہا تھا نقشِ بر آب اور کھوکھلے نعرے تھے۔ غیرت مند قوم کے وزیراعظم گیلانی کہتے ہیں ’’ڈرون حملوں پر سفارتی سطح پر دنیا کو قائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ دنیا کو احساس ہو گیا کہ ڈرون حملے ختم کرنا ہوں گے‘‘۔ یہ ہے رویہ ایٹمی پاکستان کی لیڈرشپ کا۔ ڈرون حملوں میں اڑھائی ہزار پاکستانی مارے جا چکے ہیں پھر بھی غیرت پژمردہ ضمیر خوابیدہ۔ خدا کی مرضی غیرت اور ضمیر ایک طمانچہ پر جاگ جائے۔ نہ جاگے تو کان پھاڑ دینے والے دھماکوں اور دل دہلا دینے والے اڑھائی ہزار انسانوں کے جسموں کے بکھرے ہوئے ٹکڑے اور تڑپتے لاشے دیکھ کر بھی نہ جاگے۔ ارشادِ نبویؐ ہے۔ مسلمانوں کے پاس سب سے بڑا زیور اُن کی زندگی کا سب سے بڑا سرمایہ اُن کی غیرت ایمانی ہے… جب تیرے اندر سے شرم و حیا کا جنازہ نکل گیا تو اب جو دل میں آئے کر اب تجھے کھلی چھٹی ہے، اب تجھ سے ایک ہی دن سوال ہو گا، ایک ہی دن حساب و کتاب ہو گا، دنیا میں اب تجھے جو کرنا ہے کر گزر۔


Thursday, April 14, 2011

تارڑ صاحب کو انصاف کی تلاش


 جمعرات ، 14 اپریل ، 2011
تارڑ صاحب کو انصاف کی تلاش
فضل حسین اعوان
12 اکتوبر 1999ءکا ڈوبتا سورج شریف خاندان کیلئے بھاری تھا۔ شریفوں کےلئے شام غم‘ شب ستم میں ڈھلی تو شب دیجور نے سحر ہونے تک کئی برس لے لئے۔ اس دوران ہر فرد کا ایک ایک لمحہ اذیت اور کرب میں گزرا۔ قیامت ٹوٹتے دیکھی تو جاں نثاری کے دعویدار دامن چھڑا گئے۔ آمریت کو بے پھندہ و ڈنڈہ دیکھا تو کئی کے اندر ”جذبہ جہاد“ جوش مارنے لگا۔ تیرہ اکتوبر کو ایک بھی لیڈر اور کارکن پورے ملک میں نواز شریف کی گرفتاری پر ماتم کناں تھا نہ احتجاج کیلئے گھر سے باہر آیا۔ کچھ نے چپکے چپکے آنسو ضرور بہائے ہوں گے۔ کئی بڑے‘ صیاد سے فریاد کرکے خلوت نشیں ہو گئے۔ مشرفی مارشل لاءمیں کوڑا اٹھایا گیا نہ کسی کو پھانسی لگایا گیا تو مہینوں بعد کئی شیر بن کر گرفتاریاں دینے لگے۔ خدا نہ کرے‘ اب پھر ایسا وقت آیا تو نواز شریف اور شہباز شریف کے ساتھ ان کا اپنا خاندان ہی ہو گا‘ صرف اپنا خاندان‘ ترجمان اور تابع فرمان نئی منزل کے راہی بن جائیں گے۔
12 اکتوبر کی شب ظلمت مشرف اور ان کے ساتھیوں کیلئے شب افروز تو تھی ہی۔ ایوان صدر میں بھی چراغ جلتے رہے۔ اس وقت ایوان صدر میں نواز شریف کے ہاتھوں سے تراشا ہوا پیکر مہرو وفا مقیم تھا۔ نواز شریف کے شب و روز تنگ و تاریک کوٹھڑیوں میں گزرے۔ ہتھکڑیاں لگیں‘ جیل گئے‘ تذلیل ہوئی۔ احسانات اور اخلاقیات کا تقاضا تھا کہ رفیق تارڑ 13 اکتوبر کے طلوع آفتاب سے قبل ایوان صدر سے غروب ہو کر گھر چلے جاتے لیکن وہ ایوان صدر سے”آبرو“ کے ساتھ نکالے جانے تک محو تماشا رہے۔ خدا بہتر جانتا ہے وہ اندر سے کس کے ساتھ تھے۔ تاہم حافظ حسین احمد کو کوئی سن گن شاید پڑ گئی تھی تو کہا تھا ”میں رفیق ہوں کسی اور کا مجھے تاڑتا کوئی اور ہے۔“ تارڑ صاحب کی مدت صدارت یکم جنوری 1998ءتا 31 دسمبر 2002ءتھی۔ مشرف نے انہیں 20 جون 2001ءکو گھر بھجوا دیا۔ نواز شریف اور بےنظیر کی دو دو مرتبہ حکومتیں توڑ دی گئیں۔ ان کو آئینی مدت پوری نہ ہونے کا افسوس تھا۔ تارڑ صاحب کو اپنی مدت صدارت پوری نہ ہونے کا ان سے زیادہ قلق ہے۔ وہ طویل عرصہ تک خود کو آئینی صدر قرار دیتے رہے۔ اب وہ یہ درخواست لے کر عدالت گئے ہیں کہ ان کو آصف زرداری کی صدارت کے آغاز تک آئینی صدر قرار دیتے ہوئے تمام بقایا جات واجبات ادا کئے جائیں اور مشرف کا نام سرکاری دستاویزات و مقامات سے حذف کیا جائے یعنی پرویز مشرف پاکستان کے کبھی صدر رہے ہی نہیں ہیں۔ تارڑ صاحب کو جو رقم ملے گی وہ اسے خیرات کرنا چاہتے ہیں۔ 31 دسمبر 2002ءتک وہ آئینی صدر تھے۔ مراعات اور واجبات 8 ستمبر 2008ءتک کلیم کر رہے ہیں۔ ان کی درخواست کو پذیرائی ملی تو مشرف بے نام ہوں گے۔ جس نے حلف اٹھواتے ہوئے نکاح پر نکاح پڑھا دیا۔ کیا ان کا عقدثانی بھی ہو گا؟
آج عدلیہ آزاد بے باک اور بااختیار بھی ہے۔ برطانوی بادشاہ یا ملکہ کی طرح‘ جس کے پاس نیلی آنکھوں والے بچوں کو قتل کرنے کا اختیار ہے۔ ہماری عدلیہ کوئی بھی فیصلہ دے سکتی ہے۔ حمید ڈوگر کا نام چیف جسٹس صاحبان کی فہرست سے خارج فرما دیا۔ اس سے قبل نیول چیف منصور الحق کے بارے میں ایسا ہی فیصلہ آچکا ہے۔ موجودہ عدلیہ مشرف کی زخم خوردہ بھی ہے۔ غیر جانبداری سے کئے گئے فیصلے پر بھی انگلیاں اٹھیں گی۔ بالفرض حمید ڈوگر کی طرز پر فیصلہ دیا جاتا ہے۔ مشرف کا نام صدور کی لسٹ سے خارج کر دیا جاتا ہے آئندہ نسلوں کو کیا بتایا جائے گا کہ اس دوران پاکستان کا صدر کون رہا۔ چیف جسٹس کون اور نیول چیف کون تھا۔ عدالت اس پر بھی کوئی حکم صادر فرما دے۔ نئی نسل خود خانہ پری سے تو رہی ساتھ ہی ایوب یحییٰ اور ضیاءکے ایسے ہی اقدامات کو بھی تارڑ صاحب کی درخواست کے ساتھ نمٹا دے تو قوم پر احسان ہو گا۔


Wednesday, April 13, 2011

بدنصیبی




 بدھ ، 13 اپریل ، 2011

بدنصیبی
فضل حسین اعوان
بدقسمتی و بدنصیبی کا ہمارے تعاقب میں رہنا کیا کوئی معمہ ہے سمجھنے کا اور نہ سمجھانے کا؟کیا ہم بطورِ قوم بدعائے ہوئے ہیں، نظر بد کا شکار ہیں یا کسی آسیب اور طلِسم و سحر کے زیر اثر۔ ہم سے بعد میں آزاد ہونے والے بہت سے ممالک ترقی کی معراج تک جا پہنچے۔ ہم جہاں تھے وہیں بھٹک رہے ہیں۔ گردشِ لیل و نہار کا شکار ہیں۔ گردشِِ دوراں کے بھنور میں غوطہ زن ہیں ایک لمحے دو گام آگے چلتے ہیں تو اگلے ثانیہ چار قدم پیچھے آ جاتے ہیں۔ ہمارے پاس کیا کچھ نہیں ہے۔ ہمارے تو دشت و صحرا بھی چمن زار ہیں۔ ارضِ پاک پر کبھی خزاں نہیں آئی۔ اس کے اشجار ثمر بار اور پر بہار ہیں۔ زرخیز زمینیں، لامحدود آبی وسائل، ایشیا کا سب سے بڑا نہری نظام، چاروں موسم قدرت کا عظیم تحفہ، جنت نظیر سیاحتی مقامات فطرت کا حسین عطیہ، زمین کی کوکھ تیل گیس اور کوئلہ کے سینکڑوں سال کی ضروریات پوری کرنے کے ذخائر سے بھرپور، سمندر مہنگی ترین اور وافر مچھلی، ہیروں اور جواہرات سے معمور۔ ہزاروں مربع میل پر پہاڑ اپنے دامن میں کھربوں ڈالر کا سونا چاندی، تانبا، سنگِ سبز و مَرمَر یاقوت و لعلِ پیکانی اور لعل رُمانی لئے ہوئے۔ سرسبز کھیتیوں میں راہگزریں اور پگڈنڈیاںمثلِ کہکشاں۔ بل کھاتی شریر ندیاں۔ آنکھوں کو خیرہ کرنے والے چشمے۔ ہنرمند لیبر، کوہ شکن مزدور، دھرتی کا سینہ چیر کر فصلیں اگانے کا فن جاننے والے کسان۔ ذہین انجینئر، ایٹمی سائنسدان‘ ماہر ڈاکٹر، عظمتوں کا نشان افواج، نڈر بے باک نہ جھکنے اور نہ بکنے والے صحافی۔ یہ سب جس ملک کے پاس ہو اس کی قسمت کا ستارہ گردش و گرداب میں کیوں رہے۔ ہم ستاروں پر کمند ڈالنے کے بجائے پستیوں کے مسافر کیوں بن جائیں؟ بغور جائزہ لیا جائے تو معمہ سمجھ میں آجاتا ہے اور اس کی گُتھیاں سلجھ بھی سکتی ہیں۔ صرف ایک مردِ کامل، مردِ پارسا و مردِ باصفا قائداعظم ثانی کی ضرورت ہے۔ قائداعظم کے بعد ضرورت مند بہت ملے ان جیسا لیڈر ایک بھی نہیں۔ دو سو ممالک میں پاکستان ساتویں ایٹمی طاقت ہے کم از کم ایک سو 93 ممالک پر تو برتری حاصل ہے ہی۔ وسائل بروئے کار لائے جاتے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم ترقی و خوشحالی میں بھی ساتویں اور آٹھویں نمبر پر نہ ہوتے۔ جن ہاتھوں میں زمامِ اقتدار آتی رہی۔ ان میں عزم و حوصلے کی کمی تھی۔ حکمت و دانش کا فقدان تھا۔ محنت کے بجائے شارٹ کٹ کو نصب العین بنایا۔ آمریتوں میں اقتدار کو طویل بنانے کی منصوبہ بندی کی گئی تو جمہوریتوں میں ڈنگ ٹپانے کی۔ خودانحصاری کی طرف کسی نے توجہ نہ دی۔ لانگ ٹرم پالیسیوں کے بجائے اپنی مدت پوری کرنے کو مطمعِ نظر بنایا۔ اکثر نے وسائل کو بروئے کار لا کر عوام کی تقدیر بدلنے کے بجائے اپنے اور اقربا کے حالات بدلنے پر وسائل جھونک دئیے۔ نتیجہ غربت، مہنگائی بدنظمی و بدعملی کی صورت میں سامنے ہے۔ غیروں پر تکیہ اور قرض کی عِلّت نے غلامی کی ذلت میں مبتلا کر دیا۔ قرض لو، کھاﺅ پیو موج اڑاﺅ اتارنے کے لئے نئے آ جائیں گے۔ نئے آنے والے بھی اپنے پیشروﺅں کے نقشِ قدم پر چلتے ہیں۔ یوں قرض در قرض کا نہ ختم ہونیوالا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ آج قوم کا بال بال قرض میں جکڑا ہوا ہے ہر پیدا ہونے والا بچہ 65 ہزار روپے قرض سر لے کر پاک دھرتی پر آنکھ کھولتا ہے۔
وزیر خزانہ حفیظ شیخ کی سربراہی میں وزارت خزانہ کا وفد آئی ایم ایف سے مزید قرض لینے امریکہ گیا ہے۔ انہی وزیر خزانہ نے کہا تھا کہ وہ بڑے لوگوں پر ہاتھ ڈالنے میں بے بس ہیں.... چلو بے بسوں پر ٹیکس لگانے اور نکلوانے میں تو شیر ہیں۔ واپس آئیں گے تو ڈالروں کے بریف کیس دیکھ کر بہت سوں کی رالیں ٹپک پڑیں گی۔ اس کے بعد شاید ہر پاکستانی 70 ہزار کا مقروض ہو جائے۔ جن ہاتھوں میں قوم کی تقدیر ہے وہی قوم کے لئے عفریت و آسیب ہیں وہی بدقسمتی و بدنصیبی کی ابتدا و انتہا ہیں۔ خوشحالی و خود انحصاری کی منزل پانے اور ان سے بچنے کیلئے قوم کوئی تدبیر کرے‘ تدبیر۔


Tuesday, April 12, 2011

ہیرو



 منگل ، 12 اپریل ، 2011
ہیرو
فضل حسین اعوان 
ذوالفقار علی بھٹو کی بریت کا کیس سپریم کورٹ کیلئے کوئی آزمائش ہے نہ امتحان۔ یہ کیس ایسا نہیں جسے کہا جائے کہ معمہ ہے ”سلجھنے کا نہ سلجھانے“ کا۔ آج عدلیہ بہت سے ناموافق حالات کے باوجود غیرجانبداری سے، کسی قسم کے دباﺅ کو درخور اعتناءنہ سمجھتے ہوئے انصاف کے تمام تر تقاضے پورے کرتے ہوئے فیصلے دے رہی ہے۔ بھٹو کیس میں بھی یہی اصول و ضوابط کارفرما رہیں گے۔ عدالت کے باہر بعض حلقوں نے ایک طوفان برپا کررکھا ہے۔ عدالت کے اندر صورتحال بالکل نارمل ہے۔ کوئی ہیجان نہیں کوئی طوفان نہیں۔ کیس کی سماعت کیلئے صرف تین رکنی بنچ تشکیل دیا گیا ہے۔ صدارتی ریفرنس میں بھٹو کو ہیرو قرار دینے کی استدعا نہیں کی گئی۔ صرف بھٹو کی اس کیس سے بریت کی درخواست کی گئی ہے جس میں تین کے مقابلے میں چار ججوں نے بھٹو کو موت کی سزا سنائی۔ بہت سے لوگ بھٹو کی پھانسی کو عدالتی قتل قرار دیتے ہیں۔ بھٹو قتل کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس انوار الحق، جسٹس نسیم حسن شاہ، جسٹس محمد اکرم اور جسٹس کرم الٰہی چوہان نے سزائے موت کا حکم دیا۔ چاروں جج صاحبان کا تعلق پنجاب سے تھا۔ جج اپنے کردار و عمل سے ثابت کردیں کہ انصاف کا ترازو ہاتھ میں ہو تو صوبائیت اور علاقائیت کی حیثیت و اہمیت نہیں ہوتی تو کوئی فیصلوں پر انگلی اٹھانے کی جرا ¿ت نہیں کرسکتا۔ بدقسمتی سے سید نسیم حسن شاہ کے بیان نے فیصلے کو مشکوک بناتے ہوئے ججوں کی ساکھ اور شہرت پر انمٹ دھبہ لگا دیا۔ نسیم حسن شاہ کہتے چلے آرہے ہیں کہ ججوں پر دباﺅ تھا۔ بھٹو کے ساتھ ناانصافی ہوئی ہے۔ بھٹو کو بری کرنیوالے ججوں جسٹس غلام صفدر شاہ کا تعلق صوبہ سرحد، جسٹس دراب پٹیل اور جسٹس حلیم کا سندھ سے تھا۔ یہ حضرات بھی فیصلہ کرتے وقت صوبائی تعصب کا شکار ہوئے؟ اس پر کبھی کوئی تبصرہ سامنے نہیں آیا۔
اس کیس کی ساکھ کا اندازہ فرمائیے کہ کسی دوسرے کیس میں اسکی کبھی مثال نہیں دی گئی۔ ملک میں بھٹو کو دل کی گہرائیوں سے چاہنے والوں کی کمی ہے نہ نفرت کی نظر سے دیکھنے والوں کی۔ حلیف بریت کے خواستگار، حریف بہت سے دیگر جرائم میں مزید سزاﺅں کے مطالبات کے علمبردار ہیں۔ عدالت نے صرف اس کیس کا فیصلہ کرنا ہے جس میں بھٹو کو سزائے موت سنائی گئی۔ بلاشبہ جسٹس (ر) سید نسیم حسن شاہ نے اپنے متنازعہ بیان سے موجودہ حکومت کا یہ کیس مضبوط اور عدلیہ کیلئے نظرثانی کا معاملہ آسان بنا دیا ہے۔ سپریم کورٹ جو بھی فیصلہ دے، بھٹو کو بری کرے یا سٹیٹس کو برقرار رکھے۔ بھٹو کے محبین اور مخالفین کی سوچ پر کوئی فرق اور اثر نہیں پڑیگا۔ انصاف کی فریاد کرنا بھٹو کے جانشینوں (جبری ہی جاں نشیں سہی) کا حق ہے۔ فیصلہ تو عدالت نے کرنا ہے اس پر کسی کو سیخ پا نہیں ہونا چاہئے۔ بھٹو پر دیگر بہت سے الزامات ہیں۔ کئی قتل کے بھی ہیں، انکے مدعی عدالت جائیں، مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں بھی بھٹو صاحب کا نام آتا ہے۔ یہ معاملہ جس سطح پر اٹھائے جانے کا متقاضی ہے، ضرور اٹھایا جانا چاہئے۔ پھر اس میں ایوب خان، یحییٰ خان سمیت کئی بڑوں کے نام آئیں گے۔ معاملہ مزید آگے بڑھا تو آئین کا خون اور جمہوریت کا چہرہ داغدار کرنیوالوں کے محاسبے کی بات بھی ہوگی تو ضیاءالحق، پرویز مشرف اور انکے دست و بازو بننے والے سیاستدان بھی کٹہرے میں ہوں گے۔
بعد از مرگ جزا و سزا کیلئے ہمارے سامنے ترک وزیراعظم عدنان مندریس اور برطانوی کنگ اولیور کرامویل کی مثالیں موجود ہیں۔ کرامویل کو اس کی موت کے دو سال بعد پارلیمنٹ توڑنے سمیت کئی الزامات کے تحت مقدمہ چلا کر سزائے موت سنائی گئی۔ 30 جنوری 1661 کو لاش قبر سے نکالی گئی اور سر قلم کرکے لندن کے قریب گاﺅں ٹائی برن میں ایک پول پر لٹکا دیا گیا۔ اپنے عہد کے لارڈ پروٹیکٹر (خداوند محافظ) کی کھوپڑی 1685ءتک اسی پول پر لٹکی عبرت کا نشان بنی رہی۔ ترک وزیراعظم عدنان میندریس نے اقتدار میں آنے کے بعد انقلابی تبدیلیاں کیں۔ اتاترک کے سیکولر ازم کو پاش پاش کرنے کی کوشش کی۔ اس پاداش میں انہیں فوج نے اقتدار سے الگ کرکے پھانسی چڑھا دیا تاہم 17 ستمبر 1990ءکو عدنان میندریس کو انکی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے قومی ہیرو قرار دیا گیا۔ ترکی میں موجودہ برسراقتدار پارٹی بھی ان کے نقش قدم پر چل رہی ہے بعض بڑے ترکوں کو وزیراعظم کی بیگم کا حجاب پہننا بھی گوارا نہیں۔ لیکن اسکے باوجود گزارہ ہو رہا ہے۔ 
٭٭٭

جسٹس ڈوگر غلطی تسلیم کر کے گھر بیٹھیں


| ـ 29 اکتوبر ، 2009
خلیفہ نے حضرت امام ابوحنیفہ کو قاضی القضاء کا منصب پیش کیا۔ حضرت امام نے کہا میں اس منصب کا اہل نہیں ہوں۔ خلیفہ نے غصے سے کہا ’’آپ جھوٹ بولتے ہیں‘‘ امام کا جواب تھا ’’جھوٹا شخص قاضی کیسے بن سکتا ہے‘‘ اس پر مشتعل ہو کر خلیفہ منصور نے ان کو قید کر دیا۔ یہ کسی بھی چیف جسٹس کی آمر حکمران کے سامنے پہلی ناں تھی۔ تھوڑے فرق کے ساتھ اُن کو قاضی کے منصب پر بٹھایا جا رہا تھا۔ جسٹس افتخار سے منصب چھڑایا جا رہا تھا۔ ابوحنیفہؒ پر قاضی القضا کا منصب قبول کرنے کے لئے دبائو ڈالا جاتا رہا لیکن وہ ظالمانہ دور میں منصف کے جلیل القدر منصب کی تذلیل برداشت نہیں کر سکتے تھے۔ امام نے جان جانِ آفرین کے سپرد کر دی۔ لیکن آمریت کے سامنے جھکنے سے انکار کرتے رہے۔ آج جسٹس افتخار محمد چودھری نے بہت سے مصائب برداشت کر کے پاکستان کی عدلیہ کو واقعی افتخار بخشا ہے۔ لیکن عدلیہ کو سب سے زیادہ نقصان خود عدلیہ نے ہی پہنچایا ہے۔ حکمرانوں سے بھی زیادہ لالچ اور دبائو میں ایسے ایسے فیصلے کر دئیے گئے جو ہماری تاریخ کے سیاہ فیصلے تو بنے ہی۔ صادر فرمانے والوں کی نسلوں کو بھی شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ تین فیصلوں نے تو ملک کی تاریخ اور جغرافیہ تک بھی بدلنے کی بنیاد رکھ دی۔ 
(1) 1954ء میں گورنر جنرل غلام محمد نے پہلی دستور ساز اسمبلی برطرف کر دی تو اسمبلی کے سپیکر مولوی تمیزالدین نے سندھ چیف کورٹ میں رٹ دائر کر دی۔ فیصلہ ان کے حق میں ہوا تو حکومت سپریم کورٹ چلی گئی جسٹس منیر کی سربراہی میں سپریم کورٹ نے گورنر جنرل کے اقدام کو آئینی قرار دیدیا۔ نظریہ ضرورت کی یہیں سے ابتدا ہوئی۔ جسٹس منیر ذرا جرأت دکھاتے دبائو میں نہ آتے تو بعد ازاں سکندر مرزا کو مارشل لاء کی جرأت ہوتی نہ ایوب خان اقتدار پر شب خون مارتے۔ جمہوری ادارے ترقی کرتے رہتے تو یقیناً پاکستان کا ایک بازو کٹ کر الگ نہ ہوتا۔ جسٹس منیر کے فیصلے کے بعد طالع آزمائوں کے لئے مہم جوئی کے راستے کھل گئے۔ 
(2) ظفر علی شاہ کیس میں جنرل مشرف کے 12 اکتوبر 1992ء کے اقدام کو چیلنج کیا گیا تھا۔ جسٹس ارشاد حسن خان کی سربراہی میں 12 رکنی بنچ نے ایسا فیصلہ دیا جسے قانون دان غلط اور شرمناک قرار دیتے ہیں۔ 12 مئی 2000ء کو سنائے گئے فیصلے میں کہا گیا ’’مشرف کا عہدہ آئینی ہے‘ انہیں ہٹایا جانا غیر آئینی تھا۔ نواز دور میں ون مین رول تھا۔ وزراء اور ارکانِ اسمبلی کرپشن میں ملوث تھے۔ عدلیہ کی تضحیک کی گئی۔ فوجی اقدام جائز ہے جنرل مشرف 3 سال میں ایجنڈا مکمل کریں۔ چیف ایگزیکٹو آئین میں ترمیم کرنے کے مجاز ہیں۔ فوج نے ماورائے آئین اقدام کرتے ہوئے نظریہ ضرورت کے تحت کارروائی کی۔ پی سی او کے تحت حلف اٹھانے کا مقصد ملک کو مارشل لاء سے بچانا تھا‘‘ بنچ کے دیگر جج‘ جسٹس بشیر جہانگیری‘ اعجاز نثار‘ عبدالرحمن خان‘ شیخ ریاض احمد‘ چودھری عارف‘ منیر اے شیخ‘ عزیز خان‘ ناظم حسین صدیقی‘ افتخار محمد چودھری (موجودہ چیف جسٹس) قاضی فاروق اور جسٹس بھگوان داس تھے۔ جس تقریب میں جنرل مشرف کی کھال اتارنے کی بات کی گئی اس میں جسٹس ارشاد حسن خان کے بارے میں بھی جارحانہ ریمارکس دئیے گئے۔ جن پر مشرف کے پٹھو تلملا اٹھے تھے اور آج اس تلملانے پر شرمندہ ہیں۔ مشرف کے وکلا نے مشرف کے اقدامات کو آئینی قرار دینے کی استدعا تو کی تھی آئین میں ترمیم کا اختیار نہیں مانگا جو سپریم کورٹ نے خود سے تفویض فرما دیا جس کے انعام میں جسٹس ارشاد کو ریٹائرمنٹ پر چیف الیکشن کمشنر کے عہدے سے سرفراز کر دیا گیا۔ 
(3) 3 نومبر کو مشرف نے ایمرجنسی نافذ کی تو جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں اسی شام اسے غیر قانونی قرار دیدیا گیا اور ججوں کو پی سی او کے تحت حلف اٹھانے سے منع کر دیا۔ اس کے باوجود جسٹس ڈوگر نے بطور چیف جسٹس اور کئی دیگر ججوں نے حلف اٹھا لیا۔ 60 ججوں نے انکار کر دیا۔ عدلیہ دوبارہ بحال ہوئی تو پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والوں کو توہین عدالت کے نوٹس جاری کئے گئے۔ جسٹس ڈوگر کے سوا تمام ججوں نے غیر مشروط معافی مانگ لی۔ جسٹس ڈوگر نے عدالتی کارروائی کا سامنا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ چیف جسٹس کے عہدے تک پہنچنے کے لئے کافی عرصہ درکار اور جج صاحب سے اعلیٰ اور ’’فول پروف‘‘ کردار کی توقع ہوتی ہے۔ جسٹس ڈوگر نے پریس کانفرنس میں کہا کہ انہیں جسٹس افتخار کی سربراہی میں 7 رکنی بنچ کے فیصلے کی خبر 4 نومبر کو اخبارات پڑھ کر ہوئی۔ کیا عجب استدلال ہے! 3 اور 4 نومبر کی درمیانی رات پوری قوم نے بے چینی اضطراب اور کرب میں گزاری ڈوگر صاحب حلف اٹھا کر سو گئے!ڈوگر صاحب کے حلف اٹھانے سے عدلیہ کا وقار خاک میں مل گیا۔ دنیا کی تاریخ میں پہلی مرتبہ 60 کے قریب ججوں کو گھروں میں قید کر دیا گیا۔ آمریت نے جس طرح چاہا فیصلے سنائے گئے۔ ایمرجنسی کو حلال قرار دیا‘ ان کو وردی سمیت الیکشن لڑنے کی اجازت دی۔ 
ضیاء الحق کے مارشل لا کو بھی نظریہ ضرورت کے تحت عدلیہ نے ہی تحفظ فراہم کیا تھا۔ لیکن جس قدر نقصان جسٹس منیر‘ جسٹس ارشاد حسن خان اور جسٹس ڈوگر نے عدلیہ کو پہنچایا اس کی تلافی ناممکن ہے۔ ان میں سے عدلیہ کا سب سے زیادہ بیڑہ کس نے غرق کیا اس کا تعین عدلیہ کرے یا مورخ کو کرنا ہو گا۔ تاہم جسٹس منیر کا ایک کارنامہ پاکستان اور پاکستانیوں پر احسان ہے۔ ریڈکلف‘ ایوارڈ کے ہندو ممبر جسٹس مہر چند مہاجن اور سکھ ممبر جسٹس تیجا سنگھ کی رپورٹوں سے متاثر ہو کر لاہور شہر بھارت کے حوالے کرنا چاہتا تھا خوش قسمتی سے ریڈکلف سے مسلمان ممبر جسٹس منیر نے جو لاہوری تھے ملاقات کی اور ریڈکلف ایوارڈ کے ہندو اور سکھ ممبر کا ریڈکلف کے ذہن میں بھرا ہوا زہر اپنے دلائل سے نکالنے میں کامیاب ہو گئے۔ ریڈکلف کا ذہن صاف ہوا تو اس نے لاہور شہر بھارت کے حوالے کرنے کا فیصلہ بدل دیا۔ 
جسٹس ارشاد حسن خان اور جسٹس عبدالحمید ڈوگر کے کریڈٹ میں ایسا کوئی کارنامہ نہیں جس پر ان کی اولاد ہی فخر کر سکے۔ جسٹس ڈوگر کی اگر کچھ عزت اور احترام ہے تو عدلیہ کو تماشا بنائے رکھنے والے انہیں اس سے محروم کر دینا چاہتے ہیں۔ ماہر آئین و قانون جسٹس (ر) فخرالدین جی ابراہیم نے بہترین مشورہ دیا ہے ’’بہانہ بازی اور الزام تراشی کے بجائے جسٹس ڈوگر اپنی غلطی تسلیم کر کے گھر بیٹھیں‘‘۔
جسٹس ڈوگر غلطی تسلیم کر کے گھر بیٹھیں

| ـ 29 اکتوبر ، 2009
خلیفہ نے حضرت امام ابوحنیفہ کو قاضی القضاء کا منصب پیش کیا۔ حضرت امام نے کہا میں اس منصب کا اہل نہیں ہوں۔ خلیفہ نے غصے سے کہا ’’آپ جھوٹ بولتے ہیں‘‘ امام کا جواب تھا ’’جھوٹا شخص قاضی کیسے بن سکتا ہے‘‘ اس پر مشتعل ہو کر خلیفہ منصور نے ان کو قید کر دیا۔ یہ کسی بھی چیف جسٹس کی آمر حکمران کے سامنے پہلی ناں تھی۔ تھوڑے فرق کے ساتھ اُن کو قاضی کے منصب پر بٹھایا جا رہا تھا۔ جسٹس افتخار سے منصب چھڑایا جا رہا تھا۔ ابوحنیفہؒ پر قاضی القضا کا منصب قبول کرنے کے لئے دبائو ڈالا جاتا رہا لیکن وہ ظالمانہ دور میں منصف کے جلیل القدر منصب کی تذلیل برداشت نہیں کر سکتے تھے۔ امام نے جان جانِ آفرین کے سپرد کر دی۔ لیکن آمریت کے سامنے جھکنے سے انکار کرتے رہے۔ آج جسٹس افتخار محمد چودھری نے بہت سے مصائب برداشت کر کے پاکستان کی عدلیہ کو واقعی افتخار بخشا ہے۔ لیکن عدلیہ کو سب سے زیادہ نقصان خود عدلیہ نے ہی پہنچایا ہے۔ حکمرانوں سے بھی زیادہ لالچ اور دبائو میں ایسے ایسے فیصلے کر دئیے گئے جو ہماری تاریخ کے سیاہ فیصلے تو بنے ہی۔ صادر فرمانے والوں کی نسلوں کو بھی شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ تین فیصلوں نے تو ملک کی تاریخ اور جغرافیہ تک بھی بدلنے کی بنیاد رکھ دی۔
(1) 1954ء میں گورنر جنرل غلام محمد نے پہلی دستور ساز اسمبلی برطرف کر دی تو اسمبلی کے سپیکر مولوی تمیزالدین نے سندھ چیف کورٹ میں رٹ دائر کر دی۔ فیصلہ ان کے حق میں ہوا تو حکومت سپریم کورٹ چلی گئی جسٹس منیر کی سربراہی میں سپریم کورٹ نے گورنر جنرل کے اقدام کو آئینی قرار دیدیا۔ نظریہ ضرورت کی یہیں سے ابتدا ہوئی۔ جسٹس منیر ذرا جرأت دکھاتے دبائو میں نہ آتے تو بعد ازاں سکندر مرزا کو مارشل لاء کی جرأت ہوتی نہ ایوب خان اقتدار پر شب خون مارتے۔ جمہوری ادارے ترقی کرتے رہتے تو یقیناً پاکستان کا ایک بازو کٹ کر الگ نہ ہوتا۔ جسٹس منیر کے فیصلے کے بعد طالع آزمائوں کے لئے مہم جوئی کے راستے کھل گئے۔
(2) ظفر علی شاہ کیس میں جنرل مشرف کے 12 اکتوبر 1992ء کے اقدام کو چیلنج کیا گیا تھا۔ جسٹس ارشاد حسن خان کی سربراہی میں 12 رکنی بنچ نے ایسا فیصلہ دیا جسے قانون دان غلط اور شرمناک قرار دیتے ہیں۔ 12 مئی 2000ء کو سنائے گئے فیصلے میں کہا گیا ’’مشرف کا عہدہ آئینی ہے‘ انہیں ہٹایا جانا غیر آئینی تھا۔ نواز دور میں ون مین رول تھا۔ وزراء اور ارکانِ اسمبلی کرپشن میں ملوث تھے۔ عدلیہ کی تضحیک کی گئی۔ فوجی اقدام جائز ہے جنرل مشرف 3 سال میں ایجنڈا مکمل کریں۔ چیف ایگزیکٹو آئین میں ترمیم کرنے کے مجاز ہیں۔ فوج نے ماورائے آئین اقدام کرتے ہوئے نظریہ ضرورت کے تحت کارروائی کی۔ پی سی او کے تحت حلف اٹھانے کا مقصد ملک کو مارشل لاء سے بچانا تھا‘‘ بنچ کے دیگر جج‘ جسٹس بشیر جہانگیری‘ اعجاز نثار‘ عبدالرحمن خان‘ شیخ ریاض احمد‘ چودھری عارف‘ منیر اے شیخ‘ عزیز خان‘ ناظم حسین صدیقی‘ افتخار محمد چودھری (موجودہ چیف جسٹس) قاضی فاروق اور جسٹس بھگوان داس تھے۔ جس تقریب میں جنرل مشرف کی کھال اتارنے کی بات کی گئی اس میں جسٹس ارشاد حسن خان کے بارے میں بھی جارحانہ ریمارکس دئیے گئے۔ جن پر مشرف کے پٹھو تلملا اٹھے تھے اور آج اس تلملانے پر شرمندہ ہیں۔ مشرف کے وکلا نے مشرف کے اقدامات کو آئینی قرار دینے کی استدعا تو کی تھی آئین میں ترمیم کا اختیار نہیں مانگا جو سپریم کورٹ نے خود سے تفویض فرما دیا جس کے انعام میں جسٹس ارشاد کو ریٹائرمنٹ پر چیف الیکشن کمشنر کے عہدے سے سرفراز کر دیا گیا۔
(3) 3 نومبر کو مشرف نے ایمرجنسی نافذ کی تو جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں اسی شام اسے غیر قانونی قرار دیدیا گیا اور ججوں کو پی سی او کے تحت حلف اٹھانے سے منع کر دیا۔ اس کے باوجود جسٹس ڈوگر نے بطور چیف جسٹس اور کئی دیگر ججوں نے حلف اٹھا لیا۔ 60 ججوں نے انکار کر دیا۔ عدلیہ دوبارہ بحال ہوئی تو پی سی او کے تحت حلف اٹھانے والوں کو توہین عدالت کے نوٹس جاری کئے گئے۔ جسٹس ڈوگر کے سوا تمام ججوں نے غیر مشروط معافی مانگ لی۔ جسٹس ڈوگر نے عدالتی کارروائی کا سامنا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ چیف جسٹس کے عہدے تک پہنچنے کے لئے کافی عرصہ درکار اور جج صاحب سے اعلیٰ اور ’’فول پروف‘‘ کردار کی توقع ہوتی ہے۔ جسٹس ڈوگر نے پریس کانفرنس میں کہا کہ انہیں جسٹس افتخار کی سربراہی میں 7 رکنی بنچ کے فیصلے کی خبر 4 نومبر کو اخبارات پڑھ کر ہوئی۔ کیا عجب استدلال ہے! 3 اور 4 نومبر کی درمیانی رات پوری قوم نے بے چینی اضطراب اور کرب میں گزاری ڈوگر صاحب حلف اٹھا کر سو گئے!ڈوگر صاحب کے حلف اٹھانے سے عدلیہ کا وقار خاک میں مل گیا۔ دنیا کی تاریخ میں پہلی مرتبہ 60 کے قریب ججوں کو گھروں میں قید کر دیا گیا۔ آمریت نے جس طرح چاہا فیصلے سنائے گئے۔ ایمرجنسی کو حلال قرار دیا‘ ان کو وردی سمیت الیکشن لڑنے کی اجازت دی۔
ضیاء الحق کے مارشل لا کو بھی نظریہ ضرورت کے تحت عدلیہ نے ہی تحفظ فراہم کیا تھا۔ لیکن جس قدر نقصان جسٹس منیر‘ جسٹس ارشاد حسن خان اور جسٹس ڈوگر نے عدلیہ کو پہنچایا اس کی تلافی ناممکن ہے۔ ان میں سے عدلیہ کا سب سے زیادہ بیڑہ کس نے غرق کیا اس کا تعین عدلیہ کرے یا مورخ کو کرنا ہو گا۔ تاہم جسٹس منیر کا ایک کارنامہ پاکستان اور پاکستانیوں پر احسان ہے۔ ریڈکلف‘ ایوارڈ کے ہندو ممبر جسٹس مہر چند مہاجن اور سکھ ممبر جسٹس تیجا سنگھ کی رپورٹوں سے متاثر ہو کر لاہور شہر بھارت کے حوالے کرنا چاہتا تھا خوش قسمتی سے ریڈکلف سے مسلمان ممبر جسٹس منیر نے جو لاہوری تھے ملاقات کی اور ریڈکلف ایوارڈ کے ہندو اور سکھ ممبر کا ریڈکلف کے ذہن میں بھرا ہوا زہر اپنے دلائل سے نکالنے میں کامیاب ہو گئے۔ ریڈکلف کا ذہن صاف ہوا تو اس نے لاہور شہر بھارت کے حوالے کرنے کا فیصلہ بدل دیا۔
جسٹس ارشاد حسن خان اور جسٹس عبدالحمید ڈوگر کے کریڈٹ میں ایسا کوئی کارنامہ نہیں جس پر ان کی اولاد ہی فخر کر سکے۔ جسٹس ڈوگر کی اگر کچھ عزت اور احترام ہے تو عدلیہ کو تماشا بنائے رکھنے والے انہیں اس سے محروم کر دینا چاہتے ہیں۔ ماہر آئین و قانون جسٹس (ر) فخرالدین جی ابراہیم نے بہترین مشورہ دیا ہے ’’بہانہ بازی اور الزام تراشی کے بجائے جسٹس ڈوگر اپنی غلطی تسلیم کر کے گھر بیٹھیں‘‘۔

Sunday, April 10, 2011

مشرف کی واپسی ناممکن۔ تاہم




اتوار ، 10 اپریل ، 2011
فضل حسین اعوان
بلاول بھٹو زرداری نے دو سال قبل کہا تھا کہ جس بندوق سے ان کی والدہ کو قتل کیا گیا وہ جنرل پرویز مشرف نے لوڈ کی تھی۔ ان کے پِتا حضور آصف علی زرداری کا اپنی اہلیہ محترمہ کے اس قول پر یقین محکم رہا ہے کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے۔ پرویز مشرف کو بے وردی تو بے نظیر بھٹو نے کیا۔ زرداری نے ایوان صدر سے نکالنے کیلئے نواز شریف کو ساتھ ملایا‘ بے وطن مشرف خود ہوئے۔ بعدازاں حالات ایسے پیدا ہوئے یا کر دئیے گئے کہ مشرف نے واپسی سے تائب ہونے میں ہی عافیت سمجھی۔ صدر آصف علی زرداری محترمہ کے قتل کے حوالے سے مشرف کی طرف انگلیاں اٹھنے پر اب تک ”جمہوریت بہترین انتقام ہے“ چار لفظی مقولہ دہراتے چلے آرہے تھے۔ گویا مشرف کو صدارت سے ہٹا کر دربدر کر دیا۔ جس سے محترمہ کے قتل کا بدلہ لے لیا لیکن اب صدر اور ان کی پارٹی کی توپوں کا رخ محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کے حوالے سے مشرف کی طرف ہے۔ خصوصی عدالت نے سابق صدر پرویز مشرف کو طلب کر رکھا ہے۔ دو روز قبل ایک پارٹی اجلاس سے خطاب کے دوران صدر آصف علی زرداری نے کہا کہ بے نظیر بھٹو کے قتل میں ق لیگ نہیں‘ مشرف ملوث ہیں۔ محترمہ کے قتل پر زرداری صاحب نے ق لیگ کو قاتل لیگ کہا تھا۔ سیاست میں چونکہ کچھ بھی حرف آخر نہیں ہوتا اس لئے کوئی بھی بیان واپس لیا جا سکتا ہے۔ خطاکار کو پارسا قرار دینے اور پارسائی کو رسوائی میں ڈھال دینے کے درہمہ وقت کھلے رہتے ہیں۔ مرکز میں لرزیدہ اقتدار کو مضبوط بنانے اور پنجاب میں مضبوط اقتدار کو لرزانے کیلئے ق لیگ کی چوکھٹ پر سجدہ سہو ناگزیر تھا۔ ایک ہی سانس میں ق لیگ کی بریت اور مشرف کے خلاف مدعیت‘ ایک تیر سے شاید کئی شکار کرنے کی کوشش ہے۔ ق لیگ کے ساتھ دوستی سے حکومت کو جے یو آئی ف کی ضرورت رہے گی نہ ایم کیو ایم کی۔ پنجاب میں ن لیگ حکومت کو ٹف ٹائم بھی دیا جا سکے گا۔
محترمہ کے قتل کیس میں دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کو طلب کر رکھا ہے۔ حکومت پاکستان نے نہیں۔ برطانوی وزیراعظم سے مشرف کی حوالگی کا سوال حکومت نے نہیں میڈیا نے کیا تھا۔ مشرف کو برطانیہ میں وزیراعظم ٹونی بلیئر نے قیام کی خصوصی اجازت دی تھی۔ ان کے پاس امارات میں قیام کیلئے لامحدود مدت کا ویزہ ہے۔ پاکستان کا برطانیہ اور امارات کے ساتھ مجرموں کی حوالگی کا کوئی معاہدہ نہیں۔ برطانیہ میں مشرف کو سکیورٹی سکاٹ لینڈ یارڈ فراہم کرتی ہے۔ اس کے اخراجات سی آئی اے کے ذمے ہیں۔ امریکی انتظامیہ مطلب براری کے بعد اپنے مہروں کو استعمال شدہ ٹشو کی طرح اٹھا پھینکتی ہے۔ لیکن سی آئی اے اپنے لئے کام کرنے والوں کا آخری حد تک تحفظ کرتی ہے۔ ابوظہبی اور دبئی میں مشرف حکمرانوں کی آنکھ کا تارا ہیں۔ وہ آج بھی اپنی اداس شاموں کو رنگین بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کی اکثر شامیں حکمرانوں کے ساتھ گزرتی ہیں۔ بات کرنے کا مقصد یہ ہے کہ مشرف کی پاکستان حوالگی موجودہ حالات میں ناممکن نظر آتی ہے۔ حکومت نے کہا کہ برطانیہ کے ساتھ مجرموں کی حوالگی کے معاہدے کا مسودہ تیار کر لیا ہے۔ اس پر بات ہو گی مذاکرات ہوں گے۔ یہ فیکٹر بھی اہم ہو گا کہ ہماری حکومت مشرف کی واپسی اور معاہدے کےلئے کتنی سنجیدہ ہے۔ سنجیدہ ہوئی بھی تو معاہدے کی تکمیل میں شاید اتنی مدت لگ جائے کہ ان کی اپنی مدت تمام ہو چکی ہو۔ محترمہ کا قتل بہت بڑا المیہ ہے۔ اس سے بھی بڑا المیہ جرنیلوں کا جمہوریت پر شب خون مار کر ملک کی جڑیں کھوکھلی کرنا ہے۔ محترمہ کے قاتل عبرت ناک انجام سے ضرور ہمکنار ہونے چاہئیں۔ ان میں بقول صدر پاکستان آصف زرداری کے‘ مشرف بھی شامل ہیں۔ یہ تو طے ہے کہ مشرف کم از کم مقدمہ بھگتنے تو پاکستان نہیں آئیں گے۔ ان کی غیر موجودگی میں شاید عدالت سزا سنا دے۔ اس سے کیا حاصل ہو گا؟ البتہ حاصل اس سے ہو گا کہ ان پر آئین توڑنے اور جمہوریت پر شب خون مارنے کا مقدمہ چلایا جائے۔ ان کی غیر موجودگی میں ان کو سزا سنا دی جائے۔ وہ آج بھی وطن سے دور زیادہ خوش نہیں ہیں۔ غدار قرار دیا جائے گا تو ایک ایک لمحہ موت سے بدتر ہو گا سب سے بڑھ کر یہ طالع آزمائی‘ شب خون مارنے اور جمہوریت الٹانے کے راستے ہمیشہ کیلئے بند ہو جائیں گے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ آخر پاکستان انہیں واپس کیوں نہیں لا سکتا؟ اتنا ہی بے بس اور لاچار ملک ہے؟ حاکم ہوں گے ملک نہیں۔ ایٹمی پاکستان!