ہفتہ ، 23 اپریل ، 2011
ہمارے خون سے کشیدہ بجلی
فضل حسین اعوان
میرے رعنا اور توانا وطن کو سہانا تر بنانے کے بجائے اسے ضعف پہنچانے میں مستقبل ناشناس اور عقل بردوش ذمہ داروں کا کردار اہم ہے۔ ان لوگوں کے حوالے زمامِ اقتدار کبھی عوام نے کی اور کبھی یہ خود بزور تھام کر بیٹھ گئے۔ قائداعظم کی رحلت کے بعد اس قبیل کے حکمران تسلسل کے ساتھ قوم کی گردن پر سوار ہوتے چلے آرہے ہیں۔ قوم کا غم نہ ملک کی فکر‘ خودداری کا احساس‘ نہ وقار کا پاس‘ صرف دَھن کی دُھن۔ ہماری سیاست میں دانش و حکمت کی بے سروسامانی کا یہ عالم ہے کہ اندرونی محاذ پر یکسو‘ نہ بیرونی معاملات میں سرخرو۔ مروجہ جمہوریت انتقام‘ الزام دشنام‘ عدم برداشت‘ بے صبری‘ عزت بے عزتی سے عاری اور بلیک میلنگ کا ملغوبہ ہے۔ حکمران بے سمت ہیں‘ تو اپوزیشن بے راہرو۔ ایک دوسرے کی بات سننے کو تیار نہیں‘ نہ سمجھے پر آمادہ۔
مخالفت اور مخاصمت اندرونی سیاست اور آپس کے معاملات میں ہو تو خارجہ امور جن کا تعلق قومی سلامتی اور سالمیت سے ہے‘ ان پر عدمِ مفاہمت کیوں؟ ڈرون حملوں اور مہنگائی کیخلاف اپوزیشن مشتعل اور آپے سے باہر اس وقت ہوئی‘ جب گزشتہ اپوزیشن (ق) لیگ اقتدار کے شجرِ ثمر بار کی طرف لپکی۔ بہرحال وجہ جو بھی ہے‘ (ن) لیگ کا کھل کے ڈرون حملوں اور مہنگائی کےخلاف میدان میں نکلنا خوش آئند ہے‘ لیکن پاکستان بھارت تعلقات کے حوالے سے حکومتی پالیسیاں سراسر قومی مفادات کیخلاف ہیں۔ ان پر اپوزیشن اور حکومت کی حامی و نیم حامی پارٹیوں کی خاموشی قومی جرم سے کم نہیں۔ بھارت کے ساتھ لاحاصل اور فضول مذاکرات عرصہ دراز سے ہوتے چلے آرہے ہیں‘ لیکن اپوزیشن اور حکومت سے باہر کی پارٹیوں نے انکی کبھی مخالفت کی‘ نہ حکومت کو کارآمد پالیسی وضع کرنے کا کوئی مشورہ دیا۔ آج بھارت سے بجلی درآمد کرنے اور تجارت کو فروغ دینے کی منصوبہ بندی ہو رہی ہے‘ اس ایشو پر بھی سیاسی مفادات پر زد پڑنے کے شائبہ پر بھی چِلا اٹھنے والی اپوزیشن خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے۔
کنگلا بھارت‘ جس کے ہاں آدھی سے زیاد آبادی نومولودوں کا تن ڈھانپنے سے بھی لاچار ہے‘پاکستان کو بجلی کی فراہمی کی پیشکش کر رہا ہے‘ اس پیشکش پر بھارت سے پیار کی پینگیں بڑھانے والے سینوں میں دردِ دل اور دیدوں میں حیا سے عاری ذمہ داروں نے سنجیدگی سے غور شروع کر دیا ہے۔ بھارت میں پاکستان کی نسبت بجلی کی زیادہ قلت ہے اور اس کیخلاف مظاہرے بھی پاکستان سے زیادہ ہوتے ہیں پھر بھی بجلی کی فراہمی کی پیشکش‘ یہ ہندو بینئے کا پاکستان کی مشکلات کا احساس نہیں‘ چال ہے۔ ہمارے حصہ کے پانی کی طرح پاکستانی معیشت پر قبضہ و کنٹرول کا جال ہے۔ بنیا جب چاہتا ہے‘ پانی روک کر پاکستان کے لہلہاتے کھیتوں پر خزاں اتار دیتا ہے۔ ہماری صنعت بھارت کی بجلی پر چلے گی تو پاکستان کی معاشی رگ پر بھی اس کا ہاتھ ہو گا جبکہ ہماری
شہ رگ اس نے پہلے ہی دبا رکھی ہے۔ وہ اپنے لوگوں کو بجلی سے محروم رکھ کر پاکستان کو بجلی ”دان“ کرکے ہم پر احسان نہیں کریگا‘ وہ ہماری طرف آنےوالے دریاﺅں پر ڈیم بنا کر اور ہمارے ہی پانی سے بجلی تیار کرکے فراہم کریگا۔ یہ بنیے کی عیاری ہی تو ہے کہ ہمارے ہی خون سے بجلی کشید کرکے ہمیں ہی فروخت کی جائیگی اور ہماری معیشت کا تھوڑا بہت چلتا پہیہ بھی اسکے رحم و کرم پر ہو گا‘ جس طرح ہماری فصلیں اسکے رحم و کرم پر ہیں۔ 26 اور 27 اپریل کو پاکستان بھارت سیکرٹری تجارت اسلام آباد میں مذاکرات کی ایک اور مشق کرینگے۔ تجارت! اس دشمن سے جو لاکھوں کشمیریوں کے خون سے ہاتھ رنگ چکا ہے‘ ہزاروں عزت مآب خواتین کی ردائیں اور آنچل اچک چکا ہے‘ یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے اور ختم ہونے میں نہیں آرہا۔ پھر یکطرفہ تجارت جس میں پاکستان کو 9 ماہ میں 95 کروڑ ڈالر کا خسارہ ہو چکا ہے‘ ہم ہر کشمیری کے سینے سے پار ہونے والی گولی کی قیمت بھی خود ادا کر رہے ہیں۔ اپوزیشن اس طرف بھی توجہ دے۔ ان معاملات کو بھی پارلیمنٹ میں اٹھائے اور حکمرانوں کو صحیح سمت اختیار کرنے پر مجبور کرے۔
No comments:
Post a Comment