About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Sunday, April 24, 2011

سیاست میں حرف آخر!





اتوار ، 24 اپریل ، 2011
سیاست میں حرف آخر!
فضل حسین اعوان
آمریت، مہم جوئی اور طالع آزمائی نے جمہوریت کے پودے کو جڑ پکڑنے دی نہ ثمربار ہونے دیا۔ وقفے وقفے سے جمہوریت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا گیا۔ جمہوریت کے ارتقاءکا بار بار انتزاع ہوتا رہا۔ بلوغ کو پہنچنے سے قبل اسے ذبح کر دیا جاتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک ہمارے ملک میں جمہوریت بالغ ہو سکی نہ سیاست دان پختہ کار اور بالغ نظر۔ شرافت اور اہلیت الگ الگ اوصاف ہیں۔ بھلے مانس اور نیک بخت حکمران تو شاید کافی آئے، اہل اور قابل بھی تھے۔ قائداعظمؒ جیسا ایک بھی لیجنڈ اور جینئس نہیں ملا جن کی ذہانت کارکردگی اور منصوبہ سازی کی بدولت ارتقا بھی اپنا دامن سمیٹ لیتا ہے۔ قائداعظمؒ چند سال مزید زندہ رہ جاتے تو پاکستان یقیناً آج متحد اور مضبوط ہوتا۔ ذوالفقار علی بھٹو بہت سے اوصاف سے متصف تھے۔ ان کی اٹھان اور اڑان قابل رشک تھی لیکن انہیں ان کے اعمال اور جنرل ضیاءکا بطور آرمی چیف انتخاب لے ڈوبا۔
قیام پاکستان کے بعد سے جمہوریت کو چلنے دیا جاتا تو اوسط درجے کی فہم و فراست کی حامل قیادتیں بھی جمہوریت اور اداروں کو تنومند اور توانا بنا سکتی تھیں۔ آج اوسط بلکہ اس سے بھی کمتر ذہانت کے مالک لیڈروں کو اس کے ”پیروکار“ چاپلوس اور حاشیہ بردار قائداعظم ثانی قرار دے ڈالتے ہیں۔ غضب کہ یارانِ سست روِ سیاست ان پر اعتبار بھی کر لیتے ہیں۔ دوچار تو موجودہ دور میں بھی بزعم خویش قائداعظمؒ، قائد ملت اور قائد عوام ثانی پائے جاتے ہیں۔ملک میں طویل عرصہ آمریت بالادست اور جمہوریت زیردست رہی۔ اس کا نقصان یہ ہوا سیاست میں جمہوری روایات پنپ سکیں نہ سیاست دانوں کی اعلیٰ سطح پر کردار سازی ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ پارٹی اور انفرادی سطح پر مفاداتی سیاست کو خودساختہ مقولوں اصولوں اور فارمولوں سے جائز ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ”سیاست میں کوئی بات حرف آخر نہیں ہوتی“ دہرا کر سیاسی اخلاقیات تک کا جنازہ نکال دیا جاتا ہے۔ برطانیہ کی مثال دی جاتی ہے کہ ایک پارٹی نے محض ایک نشست کی برتری سے اپنی آئینی مدت پوری کی تھی۔ ہمارے ہاں مشرف دور کے پہلے وزیراعظم ظفراللہ جمالی کو قومی اسمبلی میں صرف ایک ووٹ کی برتری حاصل ہوئی۔ پھر فرزندانِ سیاست و جمہوریت دَھن اور اقتدار کی شمع پر لپک لپک پڑے۔ ہماری سیاست اور مروجہ جمہوریت میں ہر برائی بے اصولی کی کوکھ سے جنم لیتی ہے جس کو” حرفِ آخر“ کے فارمولے کی سان چڑھا کر کندن بنانے کی سعی لاحاصل کی جاتی ہے۔ لوٹا کریسی ہو یا مفاہمت کا ڈول، ہماری سیاست کے بادیہ نشینوں کا اپنا اپنا فارمولا ہے۔ کل مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے مابین جو مفاہمت تھی وہ آج پی پی اور ق لیگ میں کیوں پروان نہیں چڑھ سکتی؟ کل چھانگا مانگا، سوات اور مری میں گھوڑوں کی آﺅبھگت جرم و گناہ تھی تو آج یونیفکیشن کی مدارات کار ثواب کیوں ؟ کل ق لیگ کو پی پی ن لیگ مفاہمت مفادات کی سیاست نظر آتی تھی۔ آج خود اس پوزیشن پر آئے ہیں تو اس میں بہترین قومی و ملکی مفاد واضح اور نمایاں ہو گیا ہے۔ بہرحال جیسے تیسے بھی ہے جمہوریت کی گاڑی خراماں ہی سہی رواں رہنی چاہئے۔ اس سے جمہوری روایات اور ہمارے سیاست دانوں کا کردار پختہ ہوتا چلا جائے گا، یہی ترقی و خوشحالی کا زینہ ہے۔ اس دوران اگر کوئی قائد سا راہوار اور درِشہوار مل گیا تو صدیوں کی منزل چند سال میں سر ہو جائے گی۔

No comments:

Post a Comment