About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Saturday, April 16, 2011

جنگ کا خوف!



 ہفتہ ، 16 اپریل ، 2011

جنگ کا خوف!
فضل حسین اعوان
جب میرِ قافلہ و کارواں ہی بھٹک جائے تو منزل بھاری اور دراز ہی نہیں بے نشان بھی ہوجاتی ہے۔ سالار کے انتخاب میں کج فہمی و کوتاہ اندیشی سے منزل کا حصول خواب اور عذاب بن جاتا ہے۔ خدا بہتر جانتا ہے کہ ہمارے میرِ کارواں بھٹکے ہوئے ہیں یا ہم اہل قافلہ سے انکے چناﺅ میں کوئی کوتاہی ہوگئی؟ علامہ اقبالؒ نے میرِ کارواں میں جن خوبیوں کا ذکر کیا وہ ہمارے منتخب شدگان میں کہیں ہیں کہ نہیں ہیں۔ اگر ہیں تو انہیں شاید ڈھونڈنا پڑتا ہے چراغِ رخِ زیبا لےکر
نگہِ بلند، سخن دلنواز جاں پرسوز
یہی ہے رختِ سفر میرِ کارواں کے لئے
ہمارے وزیراعظم میچ دیکھنے بھارت گئے۔ میچ تو دے آئے، ساتھ شاید انا اور آتما بھی وہیں چھوڑ آئے۔ سونیا کی زلفوں میں الجھے یا منموہن کی میزبانی کے ممنونِ بے پایاں ہوئے، جب سے واپس آئے ہیں سحر زدہ سے لگتے ہیں۔ ایسی باتیں کرتے ہیں شک ہوتا ہے کہ ہندو کا کیا ہوا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ اگر جادو کا اثر نہیں تو کہنے دیجئے، ہندو نے کچھ سونگھا نہ دیا ہو شباب میں۔ اپنے بھارتی ہم منصب کی قصیدگی میں لگے ہیں، جو محض کانگریس کا مہرہ ہے جسے سنا جاتا ہے نہ گنا جاتا ہے۔ گیلانی صاحب خوش فہمی میں مبتلا ہیں، کہتے ہیں ”منموہن کشمیر، سیاچن اور سرکریک سمیت تمام تنازعات حل کرنا چاہتے ہیں۔ وہ باہمی تعلقات کی بحالی میں مخلص ہیں“ گیلانی صاحب اپنے دل سے پوچھیں (گو وہ پتھر ہوچکا ہے اسی لئے تو امریکی ڈرونز کے بچھائے ہوئے لاشوں پر بھی نہیں پسیجتا) کہ منموہن اور انکی انتظامیہ اٹوٹ انگ اور اکھنڈ بھارت کے پکھنڈ سے دستبردار ہوگئی ہے....؟ اگر ہوگئی ہے تو مسئلہ کشمیر کا حل دنوں کی بات ہے۔ نہیں ہوئی تو کہاں کا خلوص اور تنازعات حل کرنے کی نیک نیتی....! وزیراعظم گیلانی نے یہ بھی فرمایا ”پاکستان اور بھارت مزید جنگ کے متحمل نہیں ہوسکتے“ اپنی طرف سے وزیراعظم جنگ کے متحمل ہونے یا نہ ہونے کی بات تو کرسکتے ہیں۔ بھارت کی طرف سے جنگ کے متحمل نہ ہونے کی بات کس زعم اور ضمن میں کر دی۔ بھارت تو اس وقت دنیا بھر میں اسلحہ کا سب بڑا خریدار بنا ہوا ہے۔ کس لئے؟ گیلانی صاحب قبلہ ہی فرمائیں؟ جنگ کوئی شوق ہے نہ ایڈونچر، اس سے تہذیبیں مٹ جاتی ہیں، انسانیت بکھر جاتی ہے تاہم پانی سر سے اونچا ہوجائے تب جنگ ناگزیر ہوجاتی ہے۔ مقصدِ اولیٰ ہو تو جنگ کی کوکھ سے انسانیت معراج کو بھی پہنچ جاتی ہے۔ وسائل کو دیکھتے ہوئے گریز کیا جائے تو غیرتِ ایمانی کا جنازہ نکل جاتا ہے، وقار خاک میں مل جاتا ہے، انسان دنیا میں کھانے پینے، عیش کرنے اور موج اڑانے کیلئے نہیں آیا۔ کسی مقصد کیلئے تخلیقِ کائنات ہوتی ہے، سر اٹھا کے چلنے کیلئے، اپنے آباءکا نام روشن کرنے کیلئے، وسائل کو دیکھتے، متحمل ہونے کا سوچتے تو معرکہ بدر برپا نہ ہوتا۔ میدانِ بدر ہی اسلام کی کامیابی کی ابتدا اور انتہا ہے۔ دشمن تعداد اور اسلحہ کی مقدار میں کئی گنا زیادہ، فضائے بدر پیدا ہوئی تو فرشتے نصرت کیلئے قطار اندر قطار اتر آئے۔ یہ معرکہ سجدوں اور دعاﺅں سے نہیں سر بردوش ہو کر سر کیا گیا۔ اگر بدر کا میدان نہ سجتا تو آج گیلانی، قریشی‘ ہاشمی‘ علوی عرب کے دشت و صحرا اور ریگزار میں بکریاں چرا رہے ہوتے، ریت پھانکتے اور اونٹ پر سواری کرتے دیگر منزل اقتدار و سیاست کے مسافر یہاں رام رام کرتے یا ریچھ نچا رہے ہوتے۔ ہاتھ پراڈو‘ پجیرو کے اسیٹرنگ کے بجائے گدھے کی باگ پر ہوتا۔ مسلم ممالک و حکمرانوں کی عظمتیں، رفعتیں ان پر نوازشیں اور ملنے والی نعمتیں غلامی ¿ رسول کے صدقے سے ہیں۔ گیلانی صاحب جنگ کے متحمل نہ ہونے کی بات کرتے ہیں۔ جب مکار دشمن جنگ کے حالات و اسباب پیدا کر دے تو کیا اسکی تلوار کے سامنے سرنگوں کر دیا جائے۔ ایک بار پھر حالات تو اس نے پیدا کر دئیے ہیں۔ کشمیر میں قبضہ مضبوط بنالیا ہے۔ اس کے ایک ایک دریا‘ نہر اور نالے پر آبی ذخائر تعمیر کر لئے ہیں۔ وہ اپنے مقصد میں کامیاب، ہم اسکی تعریفوں کے پل باندھ کر، بہتر تعلقات کا راگ الاپ کر اور امن کی خواہش کے دیپ جلا کر کس کے مقصد کی آبیاری کررہے ہیں۔ ہم کسی جنگ کے متحمل کیوں نہیں؟ پاکستان کے پاس اپنے وطن پر کٹ مرنے کا جذبہ رکھنے والی دنیا کی بہترین فوج ہے۔ مقدار میں کم سہی بقول جناب مجید نظامی معیار کے حوالے سے ہمارا اسلحہ بھارت کے کھوتوں کے مقابلے میں گھوڑوں کی حیثیت رکھتا ہے۔ جنگیں فوج کی تعداد اور اسلحہ کی مقدار و انبار سے ہی نہیں، قوتِ ایمانی سے لڑی جاتی ہیں۔ جو قوم شہادت کو زندگی پر توجیح دے اسے شکست دینا ممکن نہیں۔ اگر اسکی قیادت اقتدار، مال و دولت اور دنیا کی حریص نہ ہو تو....!

No comments:

Post a Comment