About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Tuesday, April 12, 2011

ہیرو



 منگل ، 12 اپریل ، 2011
ہیرو
فضل حسین اعوان 
ذوالفقار علی بھٹو کی بریت کا کیس سپریم کورٹ کیلئے کوئی آزمائش ہے نہ امتحان۔ یہ کیس ایسا نہیں جسے کہا جائے کہ معمہ ہے ”سلجھنے کا نہ سلجھانے“ کا۔ آج عدلیہ بہت سے ناموافق حالات کے باوجود غیرجانبداری سے، کسی قسم کے دباﺅ کو درخور اعتناءنہ سمجھتے ہوئے انصاف کے تمام تر تقاضے پورے کرتے ہوئے فیصلے دے رہی ہے۔ بھٹو کیس میں بھی یہی اصول و ضوابط کارفرما رہیں گے۔ عدالت کے باہر بعض حلقوں نے ایک طوفان برپا کررکھا ہے۔ عدالت کے اندر صورتحال بالکل نارمل ہے۔ کوئی ہیجان نہیں کوئی طوفان نہیں۔ کیس کی سماعت کیلئے صرف تین رکنی بنچ تشکیل دیا گیا ہے۔ صدارتی ریفرنس میں بھٹو کو ہیرو قرار دینے کی استدعا نہیں کی گئی۔ صرف بھٹو کی اس کیس سے بریت کی درخواست کی گئی ہے جس میں تین کے مقابلے میں چار ججوں نے بھٹو کو موت کی سزا سنائی۔ بہت سے لوگ بھٹو کی پھانسی کو عدالتی قتل قرار دیتے ہیں۔ بھٹو قتل کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس انوار الحق، جسٹس نسیم حسن شاہ، جسٹس محمد اکرم اور جسٹس کرم الٰہی چوہان نے سزائے موت کا حکم دیا۔ چاروں جج صاحبان کا تعلق پنجاب سے تھا۔ جج اپنے کردار و عمل سے ثابت کردیں کہ انصاف کا ترازو ہاتھ میں ہو تو صوبائیت اور علاقائیت کی حیثیت و اہمیت نہیں ہوتی تو کوئی فیصلوں پر انگلی اٹھانے کی جرا ¿ت نہیں کرسکتا۔ بدقسمتی سے سید نسیم حسن شاہ کے بیان نے فیصلے کو مشکوک بناتے ہوئے ججوں کی ساکھ اور شہرت پر انمٹ دھبہ لگا دیا۔ نسیم حسن شاہ کہتے چلے آرہے ہیں کہ ججوں پر دباﺅ تھا۔ بھٹو کے ساتھ ناانصافی ہوئی ہے۔ بھٹو کو بری کرنیوالے ججوں جسٹس غلام صفدر شاہ کا تعلق صوبہ سرحد، جسٹس دراب پٹیل اور جسٹس حلیم کا سندھ سے تھا۔ یہ حضرات بھی فیصلہ کرتے وقت صوبائی تعصب کا شکار ہوئے؟ اس پر کبھی کوئی تبصرہ سامنے نہیں آیا۔
اس کیس کی ساکھ کا اندازہ فرمائیے کہ کسی دوسرے کیس میں اسکی کبھی مثال نہیں دی گئی۔ ملک میں بھٹو کو دل کی گہرائیوں سے چاہنے والوں کی کمی ہے نہ نفرت کی نظر سے دیکھنے والوں کی۔ حلیف بریت کے خواستگار، حریف بہت سے دیگر جرائم میں مزید سزاﺅں کے مطالبات کے علمبردار ہیں۔ عدالت نے صرف اس کیس کا فیصلہ کرنا ہے جس میں بھٹو کو سزائے موت سنائی گئی۔ بلاشبہ جسٹس (ر) سید نسیم حسن شاہ نے اپنے متنازعہ بیان سے موجودہ حکومت کا یہ کیس مضبوط اور عدلیہ کیلئے نظرثانی کا معاملہ آسان بنا دیا ہے۔ سپریم کورٹ جو بھی فیصلہ دے، بھٹو کو بری کرے یا سٹیٹس کو برقرار رکھے۔ بھٹو کے محبین اور مخالفین کی سوچ پر کوئی فرق اور اثر نہیں پڑیگا۔ انصاف کی فریاد کرنا بھٹو کے جانشینوں (جبری ہی جاں نشیں سہی) کا حق ہے۔ فیصلہ تو عدالت نے کرنا ہے اس پر کسی کو سیخ پا نہیں ہونا چاہئے۔ بھٹو پر دیگر بہت سے الزامات ہیں۔ کئی قتل کے بھی ہیں، انکے مدعی عدالت جائیں، مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں بھی بھٹو صاحب کا نام آتا ہے۔ یہ معاملہ جس سطح پر اٹھائے جانے کا متقاضی ہے، ضرور اٹھایا جانا چاہئے۔ پھر اس میں ایوب خان، یحییٰ خان سمیت کئی بڑوں کے نام آئیں گے۔ معاملہ مزید آگے بڑھا تو آئین کا خون اور جمہوریت کا چہرہ داغدار کرنیوالوں کے محاسبے کی بات بھی ہوگی تو ضیاءالحق، پرویز مشرف اور انکے دست و بازو بننے والے سیاستدان بھی کٹہرے میں ہوں گے۔
بعد از مرگ جزا و سزا کیلئے ہمارے سامنے ترک وزیراعظم عدنان مندریس اور برطانوی کنگ اولیور کرامویل کی مثالیں موجود ہیں۔ کرامویل کو اس کی موت کے دو سال بعد پارلیمنٹ توڑنے سمیت کئی الزامات کے تحت مقدمہ چلا کر سزائے موت سنائی گئی۔ 30 جنوری 1661 کو لاش قبر سے نکالی گئی اور سر قلم کرکے لندن کے قریب گاﺅں ٹائی برن میں ایک پول پر لٹکا دیا گیا۔ اپنے عہد کے لارڈ پروٹیکٹر (خداوند محافظ) کی کھوپڑی 1685ءتک اسی پول پر لٹکی عبرت کا نشان بنی رہی۔ ترک وزیراعظم عدنان میندریس نے اقتدار میں آنے کے بعد انقلابی تبدیلیاں کیں۔ اتاترک کے سیکولر ازم کو پاش پاش کرنے کی کوشش کی۔ اس پاداش میں انہیں فوج نے اقتدار سے الگ کرکے پھانسی چڑھا دیا تاہم 17 ستمبر 1990ءکو عدنان میندریس کو انکی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے قومی ہیرو قرار دیا گیا۔ ترکی میں موجودہ برسراقتدار پارٹی بھی ان کے نقش قدم پر چل رہی ہے بعض بڑے ترکوں کو وزیراعظم کی بیگم کا حجاب پہننا بھی گوارا نہیں۔ لیکن اسکے باوجود گزارہ ہو رہا ہے۔ 
٭٭٭

No comments:

Post a Comment