جمعرات ، 07 اپریل ، 2011
شکست پر بھی بھنگڑے
فضل حسین اعوان
موہالی کے پنجاب سٹیڈیم میں اترنے والی اپنی ٹیم سے پاکستانیوں کو بڑی توقعات تھیں۔ میدان میں اترنے والوں میں کسی ایک کو زیر تو ہونا ہی ہوتا ہے۔ اس کا ہم سب کو علم تھا لیکن پاکستانی ٹیم کی شکست کا نام کوئی زبان پر نہیں لانا چاہتا تھا۔ عمران خان نے بطور ایکسپرٹ اتنا کہا کہ بھارت کے پاس ورلڈکپ جیتنے کا ایک موقع ہے۔ اس پر ایسا شدید ردعمل سامنے آیا کہ عمران خان کو غیر جانبدارانہ رائے سے دستبردار ہو کر وہی کچھ کہنا پڑا جو پاکستانی سُننا چاہتے تھے۔ میڈیا، نجومی، ماہرین، عوام اور خواص سب پاکستانی ٹیم کی جیت کی بات کر رہے تھے۔ دوسرا رُخ اس لئے دیکھنے کی دانستہ کوشش نہ کی کہ ٹیم کے احساسات کے آبگینوں کو ٹھیس نہ لگ جائے۔ کھلاڑی اپنی پذیرائی دیکھ کر ہَوا میں اُڑنے لگے، میچ شروع ہونے سے دوچار روز قبل ہی خود کو ہیرو سمجھنا شروع کر دیا۔ رحمن ملک نے جواریوں کے حوالے سے کھلاڑیوں کی نگرانی کی بات کی تو کپتان کی طرف سے ایسا جواب آیا جیسے ایک پڑوسن کے کوسنے پر دوسری چُمٹا اور پھوکنی لے کر جواب آں غزل کے لئے جھپٹ پڑتی ہے۔ وزیر داخلہ کے بیان پر میڈیا میں بھی لے دے ہوئی۔ ٹیم کو بادِ نسیم کی ضرورت کے وقت رحمن ملک کے بیان کو بادِ صرصر قرار دیا گیا۔ خوشنود علی خان نے انکشاف کیا ہے کہ انہیں سیمی فائنل سے دو تین روز قبل دبئی میں اس کاروبار سے وابستہ ایک ماہر نے بتایا تھا کہ چار کھلاڑی اڑھائی ارب روپے فی کس میں بُک ہو چکے ہیں۔ یہی اطلاع اگر رحمن ملک کو پہنچی تو اُن کے مذکورہ بیان کا جواز بنتا ہے یا نہیں، فیصلہ قارئین خود کر لیں۔
پاکستانی ٹیم اچھا کھیلی یا بُرا، اس نے ممولے کو شہباز سے لڑایا یا چڑیا باز کے پنجے میں آ گئی۔ نتیجہ ہار کی صورت میں برآمد ہوا۔ میچ دیکھنے والے ٹی وی توڑیں، جلا ¶ گھیرا ¶ کریں، جلوس نکالیں، مظاہرے کریں حتیٰ کہ چار پانچ افراد دلبرداشتہ ہو کر اپنی جان بھی دے دیں پھر بھی حقیقت تبدیل ہو سکتی ہے نہ چِت جِت میں بدل سکتی ہے۔ اس روز کئی لوگوں کو ماتم کرتے اور آنسو بہاتے دیکھا گیا۔ فتح کا جشن منانا میدان میں کامرانی کے پھریرے لہرانے والوں کا حق ہے۔ کیا کبھی ہارنے والوں کو بھی لڈیاں ڈالتے، رقص کرتے ڈھول بجاتے، انعام اٹھاتے سُنا ہے۔ اگر نہیں سُنا تو اپنی ٹیم کو دیکھ لیں۔ موہالی میں ہار سے سرحدوں کی لکیر مٹانے کی تمنا رکھنے والوں کی مرادیں پوری ہوئیں، انہوں نے ناکامی کو کامیابی کی نوید بنا دیا۔ مُردار کے تعفن کو بوئے لالہ و گل ثابت کر دیا۔ ہماری ٹیم حریف ہی نہیں پاکستان کے نمبر ون دشمن کی ٹیم سے ہاری ہے جس پر سوائے مٹھی بھر شردھالیوں کے ہر پاکستانی مایوس اور دل گرفتہ ہے۔ ایسے احساسات و جذبات سے ٹیم کو بھی مغلوب ہونا چاہئے تھا۔ میچ جیتیں یا ہاریں ان کو لاکھوں میں معاوضہ ملتا ہے بورڈ کی طرف سے ماہانہ تنخواہ بھی لاکھوں میں ہے۔ بھارت سے شکست کے بعد تو وقتی طور پر کھلاڑیوں کو گوشہ نشین ہو جانا چاہیے تھا خصوصی طور پر جن کی کارکردگی سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے۔ اکھاڑے میں سرخرو ہونے والا پہلوان انعام کا حق دار ہوتا ہے چت ہونے والا نہیں۔ آج ہمارے کھلاڑی ”ویلیں اچکنے کے لئے شہر شہر پھر رہے ہیں، کبھی وزیراعلیٰ کے گھر اور کبھی وزیراعظم کے در۔ گزشتہ روز وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے قومی ٹیم کے کھلاڑیوں کو درخشندہ ستارے قرار دیتے ہوئے ان پر پانچ پانچ لاکھ روپے نچھاور کئے۔ یہ یقیناً ستارے ہیں۔ وہ ستارے جو اپنی درخشندگی، تابانی اور تابندگی موہالی کی پچ پر چھوڑ آئے ہیں، اسے دوبارہ حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ شکست خوردہ لوگوں کو جو کچھ دیا جاتا ہے انعامات نہیں خیرات اور بخشیش ہے۔ انہیں چاہیے کہ ورلڈ کپ کے دوران ملنے والے انعامات اور شہباز شریف کی طرف سے دی گئی نقدی سیلاب متاثرین کو دے دیں اور ان سے خوبصورت سے جائے نماز مانگ لیں۔ کیونکہ گرا ¶نڈ موہالی میں باجماعت نماز ادا کرنا ان کا ایک کارنامہ تھا جو پاکستانیوں کو اس وقت پسند آیا تھا۔ کوئی معرکہ سر کیا تو قوم ان کو سونے میں تول دے گی۔
No comments:
Post a Comment