About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Thursday, April 14, 2011

تارڑ صاحب کو انصاف کی تلاش


 جمعرات ، 14 اپریل ، 2011
تارڑ صاحب کو انصاف کی تلاش
فضل حسین اعوان
12 اکتوبر 1999ءکا ڈوبتا سورج شریف خاندان کیلئے بھاری تھا۔ شریفوں کےلئے شام غم‘ شب ستم میں ڈھلی تو شب دیجور نے سحر ہونے تک کئی برس لے لئے۔ اس دوران ہر فرد کا ایک ایک لمحہ اذیت اور کرب میں گزرا۔ قیامت ٹوٹتے دیکھی تو جاں نثاری کے دعویدار دامن چھڑا گئے۔ آمریت کو بے پھندہ و ڈنڈہ دیکھا تو کئی کے اندر ”جذبہ جہاد“ جوش مارنے لگا۔ تیرہ اکتوبر کو ایک بھی لیڈر اور کارکن پورے ملک میں نواز شریف کی گرفتاری پر ماتم کناں تھا نہ احتجاج کیلئے گھر سے باہر آیا۔ کچھ نے چپکے چپکے آنسو ضرور بہائے ہوں گے۔ کئی بڑے‘ صیاد سے فریاد کرکے خلوت نشیں ہو گئے۔ مشرفی مارشل لاءمیں کوڑا اٹھایا گیا نہ کسی کو پھانسی لگایا گیا تو مہینوں بعد کئی شیر بن کر گرفتاریاں دینے لگے۔ خدا نہ کرے‘ اب پھر ایسا وقت آیا تو نواز شریف اور شہباز شریف کے ساتھ ان کا اپنا خاندان ہی ہو گا‘ صرف اپنا خاندان‘ ترجمان اور تابع فرمان نئی منزل کے راہی بن جائیں گے۔
12 اکتوبر کی شب ظلمت مشرف اور ان کے ساتھیوں کیلئے شب افروز تو تھی ہی۔ ایوان صدر میں بھی چراغ جلتے رہے۔ اس وقت ایوان صدر میں نواز شریف کے ہاتھوں سے تراشا ہوا پیکر مہرو وفا مقیم تھا۔ نواز شریف کے شب و روز تنگ و تاریک کوٹھڑیوں میں گزرے۔ ہتھکڑیاں لگیں‘ جیل گئے‘ تذلیل ہوئی۔ احسانات اور اخلاقیات کا تقاضا تھا کہ رفیق تارڑ 13 اکتوبر کے طلوع آفتاب سے قبل ایوان صدر سے غروب ہو کر گھر چلے جاتے لیکن وہ ایوان صدر سے”آبرو“ کے ساتھ نکالے جانے تک محو تماشا رہے۔ خدا بہتر جانتا ہے وہ اندر سے کس کے ساتھ تھے۔ تاہم حافظ حسین احمد کو کوئی سن گن شاید پڑ گئی تھی تو کہا تھا ”میں رفیق ہوں کسی اور کا مجھے تاڑتا کوئی اور ہے۔“ تارڑ صاحب کی مدت صدارت یکم جنوری 1998ءتا 31 دسمبر 2002ءتھی۔ مشرف نے انہیں 20 جون 2001ءکو گھر بھجوا دیا۔ نواز شریف اور بےنظیر کی دو دو مرتبہ حکومتیں توڑ دی گئیں۔ ان کو آئینی مدت پوری نہ ہونے کا افسوس تھا۔ تارڑ صاحب کو اپنی مدت صدارت پوری نہ ہونے کا ان سے زیادہ قلق ہے۔ وہ طویل عرصہ تک خود کو آئینی صدر قرار دیتے رہے۔ اب وہ یہ درخواست لے کر عدالت گئے ہیں کہ ان کو آصف زرداری کی صدارت کے آغاز تک آئینی صدر قرار دیتے ہوئے تمام بقایا جات واجبات ادا کئے جائیں اور مشرف کا نام سرکاری دستاویزات و مقامات سے حذف کیا جائے یعنی پرویز مشرف پاکستان کے کبھی صدر رہے ہی نہیں ہیں۔ تارڑ صاحب کو جو رقم ملے گی وہ اسے خیرات کرنا چاہتے ہیں۔ 31 دسمبر 2002ءتک وہ آئینی صدر تھے۔ مراعات اور واجبات 8 ستمبر 2008ءتک کلیم کر رہے ہیں۔ ان کی درخواست کو پذیرائی ملی تو مشرف بے نام ہوں گے۔ جس نے حلف اٹھواتے ہوئے نکاح پر نکاح پڑھا دیا۔ کیا ان کا عقدثانی بھی ہو گا؟
آج عدلیہ آزاد بے باک اور بااختیار بھی ہے۔ برطانوی بادشاہ یا ملکہ کی طرح‘ جس کے پاس نیلی آنکھوں والے بچوں کو قتل کرنے کا اختیار ہے۔ ہماری عدلیہ کوئی بھی فیصلہ دے سکتی ہے۔ حمید ڈوگر کا نام چیف جسٹس صاحبان کی فہرست سے خارج فرما دیا۔ اس سے قبل نیول چیف منصور الحق کے بارے میں ایسا ہی فیصلہ آچکا ہے۔ موجودہ عدلیہ مشرف کی زخم خوردہ بھی ہے۔ غیر جانبداری سے کئے گئے فیصلے پر بھی انگلیاں اٹھیں گی۔ بالفرض حمید ڈوگر کی طرز پر فیصلہ دیا جاتا ہے۔ مشرف کا نام صدور کی لسٹ سے خارج کر دیا جاتا ہے آئندہ نسلوں کو کیا بتایا جائے گا کہ اس دوران پاکستان کا صدر کون رہا۔ چیف جسٹس کون اور نیول چیف کون تھا۔ عدالت اس پر بھی کوئی حکم صادر فرما دے۔ نئی نسل خود خانہ پری سے تو رہی ساتھ ہی ایوب یحییٰ اور ضیاءکے ایسے ہی اقدامات کو بھی تارڑ صاحب کی درخواست کے ساتھ نمٹا دے تو قوم پر احسان ہو گا۔


No comments:

Post a Comment