منگل ، 19 اپریل ، 2011
جمالی صاحب اپنی منزل کا تعین کریں
فضل حسین اعوان
میر ظفراللہ خان جمالی سینئر اور بزرگ سیاستدان ہیں۔ انسان کسی بھی شعبے میں ہو ڈھلتی اور گزرتی عمر کے ساتھ سینئر اور بزرگ ہو ہی جاتا ہے۔ ظفراللہ جمالی 1970ءسے سیاست میں ہیں سینئر تو ہو گئے۔ 1944ءمیں پیدا ہوئے 67 سال عمر میں بزرگی لازم ہے۔ ان کی شخصیت میں وہ تمام خصائص اور خصائل پائے جاتے ہیں جو موجودہ دور میں کسی بھی روایتی سیاستدان میں ہونے چاہئیں اور یہی کامیابی کی کنجی بھی ہے۔ پرویز مشرف، آصف زرداری، شوکت عزیز، نوازشریف اور الطاف حسین کی طرح قوم و ملک کے لئے دردِ دل رکھتے ہیں۔ گزشتہ روز بلوچستان میں ایک جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا ”وفاقی حکومت ناراض بلوچوں سے مذاکرات کے لئے کمیٹی بنائے تو میں اس مسئلے میں ثالثی کا کردار ادا کرنے کے لئے تیار ہوں۔ اس وقت ملک ایسے حال سے دوچار ہے جِسے دو پارٹی نظام کی ضرورت ہے“۔ بلوچستان کے خوبصورت شخص نے بڑی خوبصورت بات کی۔ باالکل اپنی درخشندہ و تابندہ سیاست کی طرح۔ چلتے چلتے جمالی صاحب کی سیاست اور شخصیت پر اچٹتی سی نظر ڈالئے۔ قائداعظم کے ساتھی اور تحریک آزادی کے رہنما میر جعفر خان جمالی کے بھتیجے اور شاہنواز جمالی کے صاحبزادے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو 1970ءمیں انتخابی مہم کے سلسلے میں روجھان جمالی گئے۔ شاہنواز جمالی سے کہا کہ ایک فرد ہمارے نام کریں۔ شاہنواز جمالی نے ظفراللہ جمالی کا ہاتھ بھٹو صاحب کو تھما دیا۔ پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر پہلا الیکشن لڑا جو ہار گئے۔ 77ءمیں جیتے۔ بلوچستان میں وزیر بنے پھر ضیاءالحق کا ساتھ دیا۔ جونیجو حکومت بنی تو کابینہ میں شامل ہو گئے۔ ضیاءالحق نے اسمبلی توڑی بلوچستان کا نگران وزیراعلیٰ بنا دیا۔ اسی حیثیت سے الیکشن لڑا جیتے اور وزیراعلیٰ نامزد ہوئے۔ جمہوریت پر اس قدر یقین رکھتے ہیں کہ اعتماد کا ووٹ ملتا نہ دیکھ کر بلوچستان اسمبلی تحلیل کر دی۔ میں نہیں تو یہ بھی کیوں۔ جِسے ہائیکورٹ نے بحال کر دیا تھا۔ 90ءکی دہائی میں مسلم لیگ ن میں شامل رہے۔ مشرف نے شب خون مارا۔ اپنے طرز کی جمہوریت لائے تو جمالی صاحب وزیراعظم بنا دئیے گئے۔ مشرف کو وزارت عظمٰی سے فراغت کے بعد بھی باس کہتے تھے.... گزشتہ سال پیر پگارا کے ایما پر مسلم لیگوں کے اتحاد کا علم لے کر نکلے۔ نوازشریف سے ملے چودھری شجاعت سے ملاقات کی۔ پھر مایوس ہو کر گھر بیٹھ گئے۔ مسلم لیگوں کا اتحاد ایسی بیل نہیں ہے جو منڈھے نہ چڑھ سکے۔ جہد مسلسل کی ضرورت ہے۔ دو ملاقاتوں کے بعد مایوسی کیوں؟ پیر پگارا تو مایوس نہیں ہوئے۔ مجید نظامی صاحب کے مسلم لیگوں کے اتحاد کے مشن کے لئے بڑھائے ہوئے قدم پیچھے نہیں ہٹے۔ جمالی صاحب نہ جانے کس منزل کے متلاشی ہیں جو ان کو 70ءکے بعد ہر قابلِ ذکر پارٹی میں شامل ہونے کے بعد بھی نہیں ملی۔
گھر کو آگ لگی تو کیا انتظار کیا جاتا ہے کہ کوئی آ کر اسے بجھائے یا پانی کی بالٹی پکڑائے؟ انسان آگ بجھانے کی پوری کوشش کرتا ہے اس میں ہاتھ جھلسیں لباس جلے، یا خود جلے۔ جمالی صاحب بلوچوں کو منانے کے ثالثی کی پیشکش کر رہے ہیں۔ پاکستان میں وزیراعظم سے بڑھ کر کیا عہدہ ہو سکتا ہے! اُس وقت وہ تیر کیوں نہیں مارا جِسے اب نیم کش لئے پھرتے ہیں۔ اب حکومت سے اپنے سر پر کونسا تاج رکھوانا چاہتے ہیں جو ثالثی کے لئے ناگزیر ہے۔ خود جمالی بلوچ ہیں بزرگ جمالیوں کا پاکستان بنانے میں رول ہے۔ صدر بھی بلوچ ہے معاملہ بلوچوں کا ہے۔ جس پائے کے سیاستدان اور جن مناصب پر رہے ان کو تو یہ معاملہ اس نہج پر پہنچنے ہی نہیں دینا چاہئے تھا۔ اب بھی حکومت کی طرف نہ دیکھیں اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔ اسی کو اپنی منزل قرار دیتے ہوئے حصول کیلئے دن رات ایک کر دیں۔ پاکستان ووٹ سے بنا تھا اور بلوچستان کے سرداروں نے بھی پاکستان قائم کرنے کے حق میں ووٹ دیا تھا۔
جمالی صاحب اپنی منزل کا تعین کریں
فضل حسین اعوان
میر ظفراللہ خان جمالی سینئر اور بزرگ سیاستدان ہیں۔ انسان کسی بھی شعبے میں ہو ڈھلتی اور گزرتی عمر کے ساتھ سینئر اور بزرگ ہو ہی جاتا ہے۔ ظفراللہ جمالی 1970ءسے سیاست میں ہیں سینئر تو ہو گئے۔ 1944ءمیں پیدا ہوئے 67 سال عمر میں بزرگی لازم ہے۔ ان کی شخصیت میں وہ تمام خصائص اور خصائل پائے جاتے ہیں جو موجودہ دور میں کسی بھی روایتی سیاستدان میں ہونے چاہئیں اور یہی کامیابی کی کنجی بھی ہے۔ پرویز مشرف، آصف زرداری، شوکت عزیز، نوازشریف اور الطاف حسین کی طرح قوم و ملک کے لئے دردِ دل رکھتے ہیں۔ گزشتہ روز بلوچستان میں ایک جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا ”وفاقی حکومت ناراض بلوچوں سے مذاکرات کے لئے کمیٹی بنائے تو میں اس مسئلے میں ثالثی کا کردار ادا کرنے کے لئے تیار ہوں۔ اس وقت ملک ایسے حال سے دوچار ہے جِسے دو پارٹی نظام کی ضرورت ہے“۔ بلوچستان کے خوبصورت شخص نے بڑی خوبصورت بات کی۔ باالکل اپنی درخشندہ و تابندہ سیاست کی طرح۔ چلتے چلتے جمالی صاحب کی سیاست اور شخصیت پر اچٹتی سی نظر ڈالئے۔ قائداعظم کے ساتھی اور تحریک آزادی کے رہنما میر جعفر خان جمالی کے بھتیجے اور شاہنواز جمالی کے صاحبزادے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو 1970ءمیں انتخابی مہم کے سلسلے میں روجھان جمالی گئے۔ شاہنواز جمالی سے کہا کہ ایک فرد ہمارے نام کریں۔ شاہنواز جمالی نے ظفراللہ جمالی کا ہاتھ بھٹو صاحب کو تھما دیا۔ پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر پہلا الیکشن لڑا جو ہار گئے۔ 77ءمیں جیتے۔ بلوچستان میں وزیر بنے پھر ضیاءالحق کا ساتھ دیا۔ جونیجو حکومت بنی تو کابینہ میں شامل ہو گئے۔ ضیاءالحق نے اسمبلی توڑی بلوچستان کا نگران وزیراعلیٰ بنا دیا۔ اسی حیثیت سے الیکشن لڑا جیتے اور وزیراعلیٰ نامزد ہوئے۔ جمہوریت پر اس قدر یقین رکھتے ہیں کہ اعتماد کا ووٹ ملتا نہ دیکھ کر بلوچستان اسمبلی تحلیل کر دی۔ میں نہیں تو یہ بھی کیوں۔ جِسے ہائیکورٹ نے بحال کر دیا تھا۔ 90ءکی دہائی میں مسلم لیگ ن میں شامل رہے۔ مشرف نے شب خون مارا۔ اپنے طرز کی جمہوریت لائے تو جمالی صاحب وزیراعظم بنا دئیے گئے۔ مشرف کو وزارت عظمٰی سے فراغت کے بعد بھی باس کہتے تھے.... گزشتہ سال پیر پگارا کے ایما پر مسلم لیگوں کے اتحاد کا علم لے کر نکلے۔ نوازشریف سے ملے چودھری شجاعت سے ملاقات کی۔ پھر مایوس ہو کر گھر بیٹھ گئے۔ مسلم لیگوں کا اتحاد ایسی بیل نہیں ہے جو منڈھے نہ چڑھ سکے۔ جہد مسلسل کی ضرورت ہے۔ دو ملاقاتوں کے بعد مایوسی کیوں؟ پیر پگارا تو مایوس نہیں ہوئے۔ مجید نظامی صاحب کے مسلم لیگوں کے اتحاد کے مشن کے لئے بڑھائے ہوئے قدم پیچھے نہیں ہٹے۔ جمالی صاحب نہ جانے کس منزل کے متلاشی ہیں جو ان کو 70ءکے بعد ہر قابلِ ذکر پارٹی میں شامل ہونے کے بعد بھی نہیں ملی۔
گھر کو آگ لگی تو کیا انتظار کیا جاتا ہے کہ کوئی آ کر اسے بجھائے یا پانی کی بالٹی پکڑائے؟ انسان آگ بجھانے کی پوری کوشش کرتا ہے اس میں ہاتھ جھلسیں لباس جلے، یا خود جلے۔ جمالی صاحب بلوچوں کو منانے کے ثالثی کی پیشکش کر رہے ہیں۔ پاکستان میں وزیراعظم سے بڑھ کر کیا عہدہ ہو سکتا ہے! اُس وقت وہ تیر کیوں نہیں مارا جِسے اب نیم کش لئے پھرتے ہیں۔ اب حکومت سے اپنے سر پر کونسا تاج رکھوانا چاہتے ہیں جو ثالثی کے لئے ناگزیر ہے۔ خود جمالی بلوچ ہیں بزرگ جمالیوں کا پاکستان بنانے میں رول ہے۔ صدر بھی بلوچ ہے معاملہ بلوچوں کا ہے۔ جس پائے کے سیاستدان اور جن مناصب پر رہے ان کو تو یہ معاملہ اس نہج پر پہنچنے ہی نہیں دینا چاہئے تھا۔ اب بھی حکومت کی طرف نہ دیکھیں اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔ اسی کو اپنی منزل قرار دیتے ہوئے حصول کیلئے دن رات ایک کر دیں۔ پاکستان ووٹ سے بنا تھا اور بلوچستان کے سرداروں نے بھی پاکستان قائم کرنے کے حق میں ووٹ دیا تھا۔
No comments:
Post a Comment