About Me

My photo
Fazal Hussain Awan colomnist Daily NAWAI WAQT awan368@yahoo.com 03334215368

Thursday, April 21, 2011

اقبال اور قائد کیا ایسا ہی پاکستان چاہتے تھے




جمعرات ، 21 اپریل ، 2011

اقبال اور قائد  کیا ایسا ہی پاکستان چاہتے تھے
فضل حسین اعوان
حکیم الامت علامہ ڈاکٹر محمد اقبال نے مسلمانانِ ہند کیلئے الگ وطن کی تصویر کشی کی جس قائداعظم محمد علی جناح نے رنگ بھرا۔ کیا یہ ویسا ہی پاکستان ہے جیسا مفکر پاکستان اور معمار پاکستان چاہتے تھے؟ نہیںہرگز ایسا نہیں ہے۔قائداعظم نے تمام اداروں کو اپنے دائرہ اختیار میں رہ کر فرائض ادا کرنے کی تلقین کی تھی۔بالخصوص قائداعظم نے فوج کو اس کی ذمہ داریاں یاد دلائیں تھیں۔ اس پرچند سر پھرے جرنیلوں نے کس طرح عمل کیا وہ ہمارے سامنے ہے۔ پاکستان کو معرضِ وجود میں آئے ہوئے 64سال ابھی مکمل نہیںہوئے۔اس دوران قوم کو 33سال جو آدھے سے زیادہ عرصہ ہے فوجی حکمرانوں کو بھگتنا پڑا۔ملاحظہ فرمائیے قائداعظم نے کیا کہا اور جرنیلوں نے کیا کیا۔ 14جون 1948 کو قائداعظم فوجی قیادت کی دعوت پر زیرتربیت افسران سے خطاب کرنے اسٹاف کالج کوئٹہ تشریف لے گئے۔نہ جانے قائداعظم کس بات پر دل گرفتہ تھے۔انہوں نے 6سات منٹ تقریر کی۔ جس میںیہ بھی فرمایا: ”....مجھے یہ بات کہنے کی تحریک اس لئے ہوئی ہے کہ ایک دو نہایت اعلیٰ افسروں کے ساتھ گفتگو کے دوران مجھے یہ معلوم ہوا کہ افواج پاکستان نے جو حلف اٹھایا ہے،انہیں اس حلف کے تقاضوں کا علم نہیں ہے۔بلا شبہ حلف تو الفاظ کی ایک ظاہر ی شکل و صورت ہوتی ہے، جو چیز زیادہ اہم ہے وہ ہے صحیح جذبہ اور اس کی روح۔ لیکن آپ کے معاملے میں ظاہر ی شکل و صورت بھی بہت اہمیت رکھتی ہے۔ میں اس موقع پر آپ کے حافظے کو تازہ کرنے کیلئے مقررہ حلف کے الفاظ پڑھتا ہوں“۔ اس کے بعد قائداعظم نے فوج کا حلف لفظ بہ لفطہ پڑھا.... ” جیسا کہ میں نے ابھی کہا کہ اصل بات جذبہ ہے۔ میں آپ کو بتاناچاہتا ہوں کہ جب آپ یہ الفاظ کہتے ہیں کہ ” میں مملکت کے آئین کا وفادار ہوں گا تو آپ اس آئین کا مطالعہ بھی کریں جو پاکستان میں نافذ العمل ہے اور اس آئین کے حقیقی قانونی تقاضوں کوبھی سمجھیں“۔ علامہ اقبال نے موقع بموقع خود داری اور غیرت کا درس دیا۔یہ دونوں آج حکمرانوںکی حد تک سرے سے ناپید ہیں۔ ماضی بعید کو کریدنے کی ضرورت نہیں۔ ماضی قریب کو دیکھئے۔ موجودہ حکمران امریکی جنگ میں مشرف کی مکمل جاں نشینی کا کردارادا کر رہے ہیں۔ بعض معاملات میں تو مشرف سے بھی بڑھ کر۔امریکہ جو کہتا ہے اس پر سر تسلیمِ خم کرلینے کو فرض سمجھا جاتا ہے۔ بلا شبہ دنیا گلوبل ویلج بن چکی ہے۔اس میں کوئی ملک الگ تھلگ رہ کر ترقی و خوشحالی کی منزلیں سر نہیں کرسکتا لیکن اپنے وقار، حمیت غیرت خود داری اور خود مختاری کی قیمت پر تو ہرگز ایسا نہیں ہوناچاہئے۔جو ہمارے ہاں ہورہا ہے۔امریکی جاسوس پاکستان میں دندناتے پھرتے ہیں۔ ان پر قابو پانا تو کجا، ہماری حکومت کو ان کے کام اور مقام قیام کا ہی علم نہیں۔ اوپر سے امریکی کہتے ہیں بتائیں گے بھی نہیں۔ حکومت امریکہ ڈرونز کی راہ میں کوئی رکاوٹ کھڑی کرنے سے قاصر ہے۔ صدر وزیراعظم آرمی چیف سب نے اپنے اپنے طورپر درخواست کرکے اور سخت موقف اپنا کر دیکھ لیالیکن امریکی ہٹ دھرمی یونہی برقرار ہے۔پہلے اسے حملوں کیلئے پاکستانی انٹیلی جنس کی مدد درکار تھی اب امریکی جریدے نیو یارک ٹائمز کے مطابق سی آئی اے نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے پاکستان میں ایسا نٹ ورک قائم کرلیا ہے کہ اب اسے نشاندہی کیلئے کسی پاکستانی ایجنسی کی مدد کی ضرورت نہیں رہی۔ پارلیمنٹ کی قراردادیں موجود ہیں۔ پاک فضائیہ ڈرونز سے نمٹنے کی مکمل صلاحیت رکھتی ہے۔ جسے بروئے کار تو حکومت کی اجازت سے لایاجاسکتا ہے لیکن حکومت گریز کر رہی ہے۔ کیا ہم امریکی ریاست ہیں یا امریکہ کے باجگزار؟ خود داری اور خود مختاری کیا اسی کا نام ہے۔یہ صلیبی اور صہیونی ایجنڈا ہے۔ پاکستانی حکمران یہود و نصاریٰ کے ایجنڈے کو بخوبی سمجھتے ہیں۔لیکن مفاداتی سیاست اور ڈالروں کے لالچ میں قومی وقار اور خود مختاری کو نظر انداز کئے ہوئے ہیں۔ ڈالر وصول کرنے والوں کے گھروں میں کہکشائیں اتر رہی ہیں ان کی اولادوں تک کے چہرے ڈالروں کی چمک سے دمک رہے ہیں لیکن عام پاکستانی عذاب میں مبتلا ہے۔ یہ سبق اور درس اقبال اور قائد نے تو نہیں دیا تھا۔ نجانے حکمرانوں کا کون قائد ہے کون رہبر ورہنما اور کون آئیڈیل ہے جس کی تعلیمات پر عمل کر رہے ہیں۔ کیا ان کا رہبر رہنما لیڈر اور آئیڈیل صرف دھن دولت ہے؟ لیکن یہ آپ کی مستقل ساتھی نہیں۔ کاغذ کی بیساکھی ہے جو دوگام بھی ساتھ نہیں دے سکتی۔ٹیپو سلطان کا نام اس لئے روزِ روشن کی طرح چمکتا اور دمکتا آرہا ہے کہ انہوں نے اصول کی خاطر جان دے دی تھی ۔ثابت کردیا شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سوسالہ زندگی سے بہتر ہے۔ ہمارے حکمرانوں کو جان دینے کی نہیں اپنی بے جا حسرتوں، آرزوﺅں اور تمناﺅں پر قابو پانے اور ذرا سی زبان ہلانے کی ضرورت ہے۔” امریکیو اپنی جنگ یہاں سے کہیں اور لے جاﺅ“۔ یہی خودی اور غیرت کا تقاضا ہے جس کا حضرت علامہ اقبال نے بار بار درس دیا ہے....
خودی کیا ہے رازدرونِ حیات
خودی کیا ہے بیداریِ کائنات
غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ و دو میں 
پہناتی ہے درویش کو تاجِ سردارا

No comments:

Post a Comment