بدھ ، 27 اپریل ، 2011
ساداتِ ملتان پر گردشِ ایام
فضل حسین اعوان
سیاست ملتان کے سادات پر ہمیشہ مہربان رہی ہے۔ لیکن آج تین سادات کاظمی، قریشی اور ہاشمی کو گرد و پیش ایام کا سامنا ہے۔ یوسف رضا گیلانی فی الوقت محفوظ ہیں۔ حامد سعید کاظمی پر الزام ہے کہ انہوں نے حاجیوں کو لوٹا۔ آج وہ جیل میں ”بُلے لٹ“ رہے ہیں۔ شاہ محمود قریشی کو اصولوں کا دورہ پڑا۔ وزارت خارجہ کا قلمدان دوبارہ نہ دیا گیا تو میڈیا میں ان کی فریاد آج بھی ریکارڈ کا حصہ ہے ”مجھے میرا قصور بتایا جائے“۔ آج فرما رہے ہیں۔ اقتدار کی کرسی کو ٹھوکر مار کر عوام کے پاس آیا ہوں۔ ساتھ ہی پیپلز پارٹی کی تقسیم کا دعویٰ بھی کر رہے ہیں اس میں ایک حصہ اقتدار کے نشے میں دھت دوسرے کی دادرسی نہیں ہو رہی۔ یہ نہیں بتایا کہ خود کا کس حصے سے تعلق ہے۔ کیا پارٹی ان کو کابینہ سے فراغت کے بعد تقسیم ہوئی یا پہلے ہی دو حصوں میں بٹ چکی تھی۔ جب تک خود اقتدار میں رہے کیا نشے میں دھت تھے؟ قریشی وضعدار سیاستدان ہیں۔ ن لیگ سے پیپلز پارٹی کی طرف رخت سفر باندھا تو میاں نوازشریف سے باقاعدہ ملاقات کی۔ اپنی مستقبل کی پلاننگ سے آگاہ کیا اور پیپلز پارٹی میں چلے آئے۔ اب شاید پیپلز پارٹی کا شجر بے برگ و بار ہو چکا ہے دیکھئے وضعدار مخدوم صدر آصف علی زرداری سے کب الوداعی ملاقات کے لئے جاتا ہے۔ مخدوم جاوید ہاشمی نے قومی اسمبلی میں جنرل ضیاءالحق سے وزارت کا حلف لینے پر قوم سے معافی مانگی۔ نوازشریف کو بھی مشورہ دیا کہ وہ مشرف دور میں لمبی جیل یاترا یا بھٹو کی طرح پھانسی کے پھندے کو چومنے کی بجائے اللہ کے گھر میں جلاوطنی اختیار کرنے پر قوم سے معافی مانگیں۔ ساتھ یہ بھی کہہ گئے اگر رائیونڈ شاہرا پر دس ارب روپے خرچ ہونگے تو صوبے کی ترقی کے لئے کیا بچے گا۔ یہ وہ جاوید ہاشمی نہیں بولے جن کو نوازشریف جدہ جاتے ہوئے ن لیگ کی سربراہی سونپ گئے تھے۔ یہ جاوید ہاشمی کے اندر کا کرب اور ان کے ساتھ روا رکھا گیا جبر بولا ہے۔ شریف برادران کی عدم موجودگی میں انہوں نے مسلم لیگ ن کے قائد ہونے کا حق ادا کر دیا۔ پانچ سال ان کی محبت میں جیل میں گزار دئیے۔ شریف فیملی وطن واپس آئی، الیکشن ہوئے۔ مخدوم پر اعتماد کا بھرپور اظہار کرتے ہوئے چار سیٹوں پر ٹکٹ نام کیا گیا۔ تین پر کامیاب ٹھہرے۔ پھر مخدوم کو نظرانداز کر دیا گیا۔ چودھری نثار کو پہلے گیلانی حکومت میں سینئر وزیر بنایا گیا۔ مسلم لیگ ن پیپلز پارٹی کی مخلوط حکومت سے الگ ہوئی تو چودھری پرویز الٰہی نے اپوزیشن لیڈر کی کرسی ن لیگ کے لئے خالی کر دی جس پر چودھری نثار علی کو اپوزیشن لیڈر لگا دیا گیا۔ کچھ لوگوں کے نزدیک یہ مخدوم سے زیادتی تھی جو شاید ان کی صحت پر بجلی بن کر گری جس سے وہ ہنوز سنبھل نہیں سکے۔ نظرانداز کئے جانے پر مخدوم کے دل میں اپنی پارٹی قیادت کے بارے میں دراڑ پڑ گئی۔ یہ دراز اِس طرف ہی نہیں اُس طرف بھی پڑی تھی۔ بلکہ اس دراڑ کی وجہ بھی وہی تھی۔ میاں نوازشریف نے مخدوم سے کہا تھا کہ وہ حلقہ این اے 55 کی سیٹ برقرار رکھیں تاکہ کم از کم اگلے پانچ سال شیخ رشید کی سیاست دفن رہے۔ نوازشریف کے پیغامات کے باوجود مخدوم نے حلقہ 55 کی سیٹ خالی کر دی۔ جس پر شیخ رشید کو مسلم لیگ ن کو للکارنے کا موقع ملا۔ انہوں نے اس حلقے سے الیکشن کو معرکہ حق و باطل بنا دیا۔ الیکشن کے نتائج آنے تک ن لیگ کے حلقے مضطرب رہے۔ جاوید ہاشمی کا پارٹی قائد کی بات نہ ماننا پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی، مخدوم کی ہٹ دھرمی یا خود اعتمادی اسے جو کچھ بھی کہہ لیں یقیناً اس سے میاں نواز شریف کے دل میں دراڑ پڑی۔ اب عمران خان مخدوم کی تحریک انصاف میں شمولیت کے لئے چشمِِ براہ ہیں۔ ہاشمی نے خود بھٹوز کو زبردست خراج عقیدت پیش کر کے ن لیگ کو شاید کوئی پیغام پہنچانے کی کوشش کی ہے۔ مذکورہ معافی کے بیان سے مخدوم، شریفین کے مابین بظاہر نظر نہ آنیوالی دوریوں میں اضافہ ہوا ہے۔ شاہ محمود قریشی اور جاوید ہاشمی کے لئے بہت سی پارٹیاں اپنا دامن وا کئے ہوئے ہیں۔ لیکن ان کا جو مقام آج کی اپنی اپنی پارٹی میں ہے کسی اور میں نہیں ہو سکتا۔
موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں
پارٹی کے بڑوں کو بھی سوچنا چاہئے۔ وہ اس پر اکتفا نہ کریں کہ ”ان کی مرضی“ ان کو پارٹی قائدین کے ساتھ ایک ٹیبل پر لا بٹھائیں گلے شکوے دور کرانے کی کوشش کریں۔ ایسے لوگوں کو ضائع نہ کریں۔ ملتان کے مخدوم بھی اپنے کردار‘ افکار اور اعمال سے اپنے لئے کربلائیں پیدا کرنے سے گریز کریں۔
No comments:
Post a Comment