ہفتہ ، 02 اپریل ، 2011
فضل حسین اعوان
غلام احمد بلور باچا خان کے بچوں کے غلام، روز اول سے اے این پی کے ہمگام، آج کل قائداعظم کے پاکستان کی وزارت ریلوے کے مدارالمہام ہیں۔ باچا خان کی چوکھٹ سے سر اٹھانے والا اے این پی میں نہیں رہتا۔ ان کے نظریات پر کاربند رہنا لازم ہے۔ انہوں نے پاکستان کی کھل کر مخالفت کی۔ ان کی پارٹی نے نام بدلے کام نہیں۔ آج اے این پی ان کے نظریات کا بدستور پرچم لہرا رہی ہے۔ بلور صاحب یا اے این پی کے ترجمان جواب دیں کہ پاکستان اور بانیان پاکستان کے بارے میں ان کی اور باچا خان کی سوچ میں کوئی فرق آیا ہے؟
کالاباغ ڈیم کی افادیت سے کسی کو انکار نہیں۔ اے این پی اور سندھ کے قوم پرستوں کو بھی نہیں۔ قوم پرستوں کے اپنے تحفظات اور اے این پی کے اپنے خدشات ہیں۔ بھارت 10 ارب روپے سالانہ کالاباغ ڈیم کی تعمیر کے خلاف اپنے مہروں کو سرگرم رکھنے کے لئے خرچ کرتا ہے۔ تحفظات اور خدشات حقائق پر مبنی ہیں یا بھارتی نوازشات کا شاخسانہ، اس کی کبھی کسی حکومت نے تحقیقات کرائی نہ محب وطن اداروں نے۔ اگر کرائی ہے تو یہ کبھی قوم کے سامنے نہیں آئی۔
غلام احمد بلور جب سے وزیر بنے بے شمار ٹرینیں بند اور ریلوے خسارے میں جا رہی ہے۔ ریلوے کی تعمیر سے زیادہ زور کالا باغ ڈیم کی تخریب پر لگا رہے ہیں۔ فرماتے ہیں ”کالا باغ ڈیم بننے سے خیبر پختونخواہ کے پانچ اضلاع ڈوب جائیں گے۔ ان اضلاع میں زیادہ روزگار ہے۔ ڈیم سے تین صوبوں کو نقصان ہو گا۔ اگر یہ ڈیم بنانا ہے تو ہماری قبروں پر محل بنا لیں۔“ کسی منصوبے کےلئے تین اضلاع تو کیا ایک بھی گا ¶ں اور شخص کیوں ڈوبے۔ بلور صاحب اور ان کی پارٹی کے خدشات تو خود بہت بڑے انجینئر اور واپڈا کے سابق چیئرمین شمس الملک نے دور کر دئیے ہیں۔ ان کا اپنا گھر نوشہرہ میں ہے۔ جس کے کالاباغ ڈیم کی تعمیر کی صورت میں ڈوبنے کے بے بنیاد خدشات کی بھرمار کی جا رہی ہے۔ ویسے ہمارا یقین ہے کہ ذات باری تعالیٰ جسے بچانا چاہے تو منجدھار میں پھنسی کشتی کو بھی کنارے لگا دیتی ہے اور ڈبونا چاہے تو بارش کے پانی میں چند اضلاع کیا پورا صوبہ اور آدھا ملک ڈبو دے۔ تقدیر کے سامنے تدبیر بے بس اس کے باوجود بھی نیک نیتی سے تدبیر کرنا فرض ہے۔ تدبیر سے تقدیر بدل بھی سکتی ہے۔ بھارت ہمارے حصے کا پانی روک کر جب چاہتا ہے ہماری فصلوں کا بھٹہ بٹھا دیتا ہے۔ پانی وافر مقدار میں ہو تو چھوڑ کر سیلاب اٹھا دیتا ہے۔ ملک کو خشک اور سیلاب سے بچانے کے لئے کالا باغ ڈیم ناگزیر ہے۔ اس کی تعمیر سے 4 ہزار میگاواٹ بجلی بھی ایک روپیہ فی یونٹ سے کم لاگت میں دستیاب ہو گی۔ نئے ڈیم تعمیر نہ ہوئے تو ماہرین کے مطابق اگلے دس سال میں پانی کی شدید قلت ہوجائے گی۔کتنی بد قسمتی کی بات ہے کہ ہم صرف13فیصد پانی ہی ذخیرہ کرسکتے ہیں۔باقی سیلاب کی صورت میں تباہی پھیلاتا ہے یا بلا استعمال سمندر میں جاگرتا ہے۔کالا باغ ڈیم بنے تو وہ پانی کی کمی اور بہتات دونوں صورتوں میں سود مند ہے۔آنکھوں سے صوبائیت اور علاقائیت کی عینک اتار کر غور کیا جائے تو اس منصوبے کی اہمیت واضح اور تحفظات و خدشات دم توڑ جاتے ہیں۔
انسان کے لئے مال و دولت، جائیداد و محلات سے بھی اہم تر اپنی جان ہے۔ نسلوں کی بقا کی بات ہوتی ہے تو چشم تصور نہیں حقیقت میں عشق کو آتشِ نمرود میں کودتے دیکھا گیا ہے۔ 65ءکی جنگ میں دشمن کے ٹینکوں کے آگے بم باندھ کر کود جانے والوں کے پیش نظر کیا منفعت تھی؟ اپنا حال اپنی نسلوں کے روشن مستقبل کے لئے قربان کر دیا۔ اگر پانچ اضلاع کے ڈوبنے کا حقیقی خطرہ ہے اس آبادی کو پورے ملک میں بسایا جا سکتا ہے۔ اگر پاکستان کا عظیم الشان محل بلور صاحب اور دیگر خود ساختہ خدشات کے حامل محبانِ وطن کی قبروں پر تعمیر ہو سکتا ہے تو اس سے بھی گریز نہیں کرنا چاہئے۔ یہ ان کی طرف سے اپنی نسلوں کےلئے عظیم تر تحفہ ہو گا۔ جس سے ہمیشہ کیلئے شادمانی و شادکامی کے چشمے پھوٹتے رہیں گے۔ آخر یہ ان کا بھی تو پاکستان ہے۔
No comments:
Post a Comment